اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناجائز ہے، کوئی گنجائش نہیں، اس رسم کو بھی بند کرانے والے عنداللہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔(۱)

(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر الجہیني، رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۷)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم والخیر قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الباس: الفصل الأول‘‘: ج ۵، ص: ۹۶، رقم: ۴۳۴۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص457

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:اس قسم کی رسوم اور پابندیاں جن کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے ثابت اور نہ ہی ائمہ دین سے اس کا ثبوت ہے؛ اس لئے مذکورہ کام باعث گناہ اور بدعت ہے۔(۱) ایسے ہی حلال چیز کو حرام سمجھنا بھی باعث گناہ ہے اور ان مذکورہ کاموں کو چھوڑ دینا ضروری اور لازمی ہے اور جو کام اب تک کیا اسی وقت توبہ کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا پکانا اور غرباء کو کھلانا باعث ثواب ہے۔ اس میں کسی تاریخ یا دن کو ثواب سمجھ کر ہمیشہ کے لیے مقرر کرلینا محض اپنے خیال میں (جس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو) باعث گناہ اور بدعت ہے اس کو ترک کر دینا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ائمہ دین سے جو طریقہ ثابت ہے اسی پر عمل کرنا چاہئے کہ اس میں نجات ہے، حدیث میں ہے۔ ’’کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔(۲) عید کا دن خوشی اور اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے۔ اس دن میں میٹھی چیز پکانا یا کھانا سلف صالحین کی سنت ہے؛ لیکن خوشی اور انعام کے دن میں حلال شئ مثلاً گوشت ہی کو اپنے اوپر حرام کرلینا کس قدر بدنصیبی اور بدبختی کی بات ہے، اور صورت مسئول عنہا میں جس سخت رسم کا ذکر ہے وہ تو ناجائز کیا؛ بلکہ حرام کے درجہ میں ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے اور اس جاہلانہ اور گندی رسم کو بالکل بند کردینا ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۲) أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
۱) من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَہلا  ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ، ج ۳، ص: ۱۱۵، رقم: ۲۹۸۸)
{ٰٓیاَیُّھَا النَّبِيُّ  لِمَ  تُحَرِّمُ  مَآ  أَحَلَّ اللّٰہُ  لَکَ ج تَبْتَغِيْ} (سوۃ التحریم: ۱)


فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج1ص505

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) قرآن کریم کی تلاوت بڑا عمل ہے اور جماعت والوں کا اعتراض کرنا غلط ہے آپ اپنے معمولات اور جماعت والے اپنے معمولات جاری رکھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اگر آپ ایسی ترتیب بنالیں کہ ان کے ساتھ تعلیم میں شرکت کرنے کے بعد اپنے معمولات میں لگیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا ضروری ہے کسی معاملہ کو سنگین بنادینا کسی بھی صورت میں ہرگز جائز نہیں ہے۔(۱)

۱) عن محمد بن کعب القرطبي قال: سمعت عبد اللّٰہ ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قرأ حرفاً من کتاب اللّٰہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرۃ أمثالہا، أما أني لا أقول: {الم} (البقرۃ: ۱) حرفٌ، ولکن ألفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیمٌ حرفٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب من قرأ حرفاً من القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۹۱۰)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ، ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)
عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۷۵۲، رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۵۰۲۸)
عن عثمان بن عفان رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، قال أبو عبد الرحمن: فذاک للذي أقعدني مقعدي ہذا، وعلم القرآن في زمن عثمان حتی بلغ الحجاج بن یوسف۔ ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء في تعلیم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۲۹۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص303

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیعت کرلینا درست ہے۔(۱)

(۱) {إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْج فَمَنْ نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖج وَمَنْ أَوْفٰی بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ أَجْرًا عَظِیْمًاہع ۱۰} (سورۃ الفتح: ۱۰)
{لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِھِمْ فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَأَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاہلا۱۸ } (سورۃ الفتح: ۱۸)
عن عبادۃ بن الصامت رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: وحولہ عصابۃ من أصحابہ بایعوني علی أن لا تشرکوا باللّٰہ شیئاً ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادکم ولا تأتو ببہتان تفترونہ بین أیدیکم وأرجلکم ولا تعصوا في معروف فمن وفی منکم فأجرہ علی اللّٰہ ومن أصاب من ذلک شیئاً فعوقب بہ في الدنیا فہو کفارۃ لہ ومن أصاب ذلک شیئاً ثم سترہ اللّٰہ علیہ في الدنیا فہو إلی اللّٰہ إن شاء عفا عنہ وإن شاء عاقبہ فبایعناہ من ذلک۔ متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۳، رقم: ۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص399

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب اور خون نجس و ناپاک ہیں، ان کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ جو نمازیں اس حالت میں پڑھی گئیں، وہ واجب الاعادہ ہیں۔(۱)

(۱) رجل صلی وما في کمہ قارورۃ فیھا بول، لا تجوز الصلاۃ، سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن۔ لأن ھذا لیس في مظانہ و معدنہ، بخلاف البیضۃ المذرۃ، لأنہ في معدنہ و مظانہ و علیہ الفتوی (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث: في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني، في طہارۃ ما یستر بہ العورۃ وغیرہ، ج۱، ص:۱۲۰)؛  و نجاسۃ باطنۃ في معدنھا فلا یظھر حکمھا کنجاسۃ باطن المصلي کما لو صلی حاملا بیضۃ مذرۃ صار محھا دما جاز لأنہ في معدنہ والشيء مادام في معدنہ لا یعطی لہ حکم النجاسۃ بخلاف مالو حمل قارورۃ مضمومۃ فیھا بول فلا تجوز صلاتہ لأنہ في غیر معدنہ کما في البحر المحیط۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص:۷۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص451

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زخم کے دبنے یا دبانے سے جو رطوبت نکلتی ہے، اگر وہ زخم کے منہ سے باہر بہہ جائے، تو ناقض وضو ہے اور باہر نہ بہے؛ بلکہ زخم کے اندر ہی اندر رہے، تو ناقض وضو نہیں ہے۔(۲)

(۲) إن قشرت نفطۃ و سال منھا ماء أو صدیدا وغیرہ إن سال عن رأس الجرح نقض و إن لم یسل لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، في نواقض الوضوء،الفصل الخامس‘‘ ج۱،ص:۶۲)، قولہ علیہ السلام: الوضوء من کل دم سائل۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، فصل في نواقض الوضوء، ج۱،ص:۲۶۲)؛ ولأن خروج النجاسۃ مؤثر في زوال الطہارۃ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۳، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص213

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کا احترام لازم ہے جس نے ان کی شان میں گستاخی کی ہے وہ معافی مانگیں اور اللہ سے استغفار کریں، بہر صورت اس کی نماز امام کی اقتداء میں درست ہے۔(۲)

(۲) ولذا قال في العقائد النسفیۃ: والمسلمون لا بد لہم من إمام یقوم بتنفیذ أحکامہم وإقامۃ حدود ہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبری‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)
وبیان ذلک أن الإمام لا یصیر إماماً إلا إذا ربط المقتدي صلاتہ بصلاتہ فنفس ہذا الارتباط ہو حیقیقۃ الإمامۃ‘‘ (أیضًا: ص: ۲۸۴)   ٔن مبني الإمامۃ علی الفضیلۃ ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ۔ (بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یصلح الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: لا یکون المؤمن لعاناً وفي روایۃ لا ینبغي للمؤمن أن یکون لعاناً۔ (أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب البر والصلۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في اللعن وامطعن‘‘: ج ۲، ص: ۲۲، رقم: ۲۰۱۹)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص285

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: باہر کے دروں کا حکم محراب ہی کا حکم ہے، اس میں امام صاحب کا اس طرح کھڑا ہونا کہ باہر قدم نہ ہوں مکروہ ہے، اگرچہ نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) قلت: أي لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکاناً آخر، فأورث الکراہۃ، ولایخفی حسن ہذا الکلام، فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقاً، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذي یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ، تأمل۔ (ابن عابدین رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۹)
الأصح ما روی عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ بخلاف عمل الأمۃ۔ اہـ۔ وفیہ أیضا: السنۃ أن یقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا تری أن المحاریب ما نصبت إلا وسط المساجد وہي قد عینت لمقام الإمام۔
(أیضًا:’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ و بدعۃ کان ترک السنۃ أولی‘‘: ج۲، ص: ۴۱۴
)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص402

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نائٹی یا اس طرح کا لباس جو آدمی بازار یا معزز محفلوں میں پہن کر نہیں جاتا ہے؛ بلکہ عام جگہوں پر اس کے پہن کر جانے کو معیوب سمجھاجاتا ہے ایسے لباس میں نماز پڑھنا خلاف ادب اور مکروہ تنزیہی ہے۔(۱)
’’وتکرہ الصلاۃ في ثیاب البذلۃ، کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یصلي في ثلاثۃ أثواب: إزار وقمیص وعمامۃ، والمرأۃ في قمیص وخمار ومقنعۃ، کذا في ’’المجتبی‘‘۔(۳)

(۱) والمستحب: أن یصلي الرجل في ثلاثۃ أثواب: قمیص، وإزار، وعمامۃ … وأما المرأۃ، فالمستحب لہا: أن تصلي في ثلاثۃ أثواب أیضاً‘ قمیص، وإزار، ومقنعہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، زکریا)
وأما اللبس المکروہ: فہو أن یصلي في إزار واحد، أو سراویل واحد، لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی أن یصلي الرجل في ثوب واحد لیس علی عاتقہ منہ شيء ولأن ستر العورۃ إن حصل فلم تحصل الزینۃ۔ وقد قال اللّٰہ تعالیٰ: {یَابَنِيْٓ أٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} وروي أن رجلاً سأل ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن الصلاۃ في ثوب وقال: أریت لو أرسلتک في حاجۃ أکنت منطلقاً في ثوب واحد؟ فقال: لا۔ فقال اللّٰہ أحق أن تتزین لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان اللباس في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۵، زکریا)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، الفصل الثاني، فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل، دیوبند)
(۳) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷، نعیمیہ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص138

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب شریعت نے کوئی قید نہیں لگائی تو کسی اور کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی قید یا حکم لگائے؛ لہٰذا سنتیں کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں مذکورہ قید درست نہیں۔ تاہم امام کے لیے مستحب ہے کہ جگہ تبدیل کرکے سنت ادا کرے۔(۲)

(۲) وفي الجوہرہ: ویکرہ للإمام التنفل في مکانہ لا للمؤتم وقیل یستحب کسر الصفوف وفي الخانیۃ یستحب للإمام التحول یمین القبلۃ یعني یسار المصلی لتنفل أو ورد وخیّرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأماماً وخلفاً وذہابہ لبیتہ واستقبالہ الناس بوجہہ ولو دون عشرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، قبیل باب الإمامۃ‘‘:ج ۱، ص: ۵۳۱، سعید کراچی)
وإن کانت صلاۃ بعدہا سنۃ یکرہ لہ المکث قاعداً، وکراہۃ القعود مرویۃ عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ روي عن أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما أنہما کانا اذا فرغا من الصلاۃ قاما کأنہما علی الرضف؛ و لأن المکث یوجب اشتباہ الأمر علی الداخل فلا یمکث ولکن یقوم ویتنحی عن ذلک المکان، ثم یتنفل لما روي عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم أنہ قال: أیعجز أحدکم إذا فرغ من صلاتہ أن یتقدم أو یتأخر۔ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ و لأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثارا من شہودہ علی ماروي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامیۃ۔ وأما المأمومون فبعض مشایخنا قالوا: لاحرج علیہم في ترک الانتقال لانعدام الاشتباہ علی الداخل۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان ما یستحب للإمام‘‘ج۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص365