طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۲)

(۲) و ینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أولا إلی ما یطہر الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۰، ۲۶۱)؛ و قال أصحابنا الثلاثۃ : ھو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء کان من السبیلین:…بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر…
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:  (۱) سوال میں مذکورہ افعال اگر امام خود نہیں کرتا؛ بلکہ وہ نوکر کرتا ہے جس کو اس کام کے لیے رکھا ہے اور امام کو اس کی اطلاع بھی ہوئی تو ایسی صورت میں اس غیر شرعی شکل میںامام کی شرکت بلا واسطہ نہیں ہوئی لہٰذا ان کی امامت میں نماز صحیح ہے۔(۱)
(۲) مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ہوجاتی ہے۔(۲)
(۳) مسجد سے متصل کمرے میں مذکورہ جملہ امور جائز اور صحیح ہیں؛ کیوں کہ یہ امور مساجد کی تعمیر کے مقاصد میں سے ہیں اور مقصد میں تعلیم وتعلم بھی ہے۔(۳)
(۴) اگر بغیر پگڑی کے نہیں مان رہا تھا تو پگڑی دے کر مکان لینے کی امام کے لیے گنجائش تھی اس لیے اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود ان من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)
(۲) أیضاً:
(۳) قال المصنف في البحر لعلامۃ: لأن المسجد ملکا لأحد وعزاہ إلی النہایۃ ثم قال: ومن ہنا یعلم جہل بعض مدرسي زماننا من منعہم من یدرس في مسجد تقرر في تدریسہ أوکراہتہم…لذلک زاعمین الاختصاص بہ دون غیرہم وہذا جہل عظیم۔۔۔ لأن المسجد مابني إلا لہا من صلوۃ أو اعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم أو تعلمہ وقرأۃ قرآن، (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الثالث من الأشباہ، القول في احکام المسجد‘‘: ج۴، ص: ۶۳)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود إن من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  جو لوگ مذکورہ فی السوال قبائح و ناجائز امور کے مرتکب ہوں ان کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، وأما الفاسق عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص203

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوبارہ سوال نامہ بھی کسی ایک فریق کا معلوم ہوتا ہے، اگر یہ واقعہ صحیح ہے، تو دونوں فریق کے بیانات درج ہونے چاہئیں۔
دوسری بات: حکم اور فیصل طے کرنے سے پہلے آپسی رضامندی سے کسی کو حکم بنانا چاہیے تھا، پھر حکم کی بات کوقبول کرنی چاہئے، اگر ایسا نہیں ہوگا، تو کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا، تیسری بات یہ کہ اب بھی واقعہ کی صداقت کی کوئی عملی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے نفس واقعہ پر ہم کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے ہیں، تاہم جو سوالات کیے گئے ہیں ان کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں۔
(۱) توبہ کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا اور اطاعت پر جمنا ہے۔ توبہ کی حقیقت میں چار چیزیں داخل ہیں: (۱) گناہ پر دل میں ندامت ہو (۲) فوری طور پر گناہ کو ترک کرے (۳) اور پختہ ارادہ کرے کہ دو بارہ یہ گناہ نہیں کرے گا، چناںچہ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں ’’ہي الندم بالقلب وترک المعصیۃ في الحال والعزم علی أن لا یعود إلی مثلہا وأن یکون ذلک حیاء من اللّٰہ‘‘(۱) (۴) اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے یا حقوق اللہ سے اس کی تلافی کرنا۔ مثلاً اگر نماز چھوڑی ہیں، تو توبہ کے ساتھ ان نمازوں کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔(۲) اگر روزہ چھوڑا ہے، تو توبہ کے بعد روزے کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو، تو اس کی تلافی ہر حال میں کرے، مثلاً کسی کا مال لیا ہے، تو وہ مال واپس کرے، کسی کی غیبت کی ہے، تو محض توبہ سے غیبت کے گناہ معاف نہیں ہوں گے؛ بلکہ جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی مانگے، غرض کہ حقوق کی مکمل تلافی کرے اور جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرے۔
(۲) جو امام خائن یا فاسق ہو، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے،(۳) لیکن اگر اس نے نماز پڑھائی، تو نماز ہو گئی ان نمازوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کے لیے امامت کرنا مکروہ ہے لیکن نماز ادا ہوجاتی ہے۔ نماز نیک اور فاسق ہر ایک کے پیچھے درست ہو جاتی ہے حدیث ’’صلو کل بر وفاجر‘‘(۴)
(۴) زکوٰۃ کے سلسلے میں جواب دے دیا گیا تھا اگر وصول کرنے والے نے زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں استعمال نہیں کیا، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور وصول کرنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا۔(۵)
(۵) فتوی حکم شرعی کا نام ہے یعنی مفتی سوال کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حکم بتاتا ہے اس پر عمل کرنا اس کی دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔

(۱) تفسیر قرطبي: ج ۵، ص: ۹۱۔

(۲) عن أنس بن مالک -رضی اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک، قال قتادۃٰ: وأقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۶۸۴)

ما یقضی بین الناس یوم القیامۃ في الدماء وظواہر الحدیث دالۃ علی أن الذي یقع أولاً المحاسبۃ علی حقوق اللّٰہ تعالیٰ قبل حقوق العباد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ‘‘: ج ۲، ص: ۷)
(۳) ویکرہ تقدیم الفاسق أیضاً لتساہلہ في الأمور الدینیۃ فلا یؤمن من تقصیرہ في الإتیان بالشرائط۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۷، دار الکتاب)
(۴) ملا علي قاري، عمدۃ القاري شرح البخاري: ج ۱۱، ص: ۴۸۔
(۵) {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیمٌہ۶۰} (سورۃ التوبہ: ۶۰)

توخذ من أغنیائہم فترد علی فقرائہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۴، رقم: ۱۷۷۲)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص292-293-294

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کے کھانسنے سے نماز میں یا نماز کے کسی رکن میں خلل ہوتا ہے، تو ایسے شخص کو چاہیے کہ صف کے کنارہ پر آخر میں کھڑا ہو جائے، تاکہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو اور دوسروں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو اور لوگ اپنی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کر سکیں۔(۳) اگرمرض زیادہ ہو تو گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ البتہ جماعت سے نماز پڑھنا اس کے لیے بھی ضروری ہے(۱) احتیاط یہ ہے کہ مذکورہ صورت اختیار کر لے۔
(۱) والصلاۃ بالجماعۃ سنۃ في الأصح مؤکدۃ شبیہۃ بالواجب في القوۃ للرجال للمواظبۃ ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ أحدکم وحدہ بخمسۃ وعشرین جزء اً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ص: ۲۹۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:پہلے وقتیہ نماز ادا کریں اس کے بعد فائتہ نماز پڑھیں، جیسا کہ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
’’فلایلزم الترتیب إذا ضاق الوقت المستحب حقیقۃ إذ لیس من الحکمۃ تفویت الوقتیۃ لتدارک الفائتۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: مطلب: في تعریف الإعادۃ، ج ۲، ص: ۵۲۴-۵۲۵، (مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وفي الفتح: ویعتبر الضیق عند الشروع حتی لو شرع في الوقتیۃ مع تذکر الفائتۃ وأطال حتی ضاق لا یجوز إلا أن یقطعہا ثم یشرع فیہا، ولو شرع ناسیاً والمسألۃ بحالہا فتذکر عند ضیقہ جازت۔(أیضًا: ج ۲، ص: ۵۲۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویسقط الترتیب عند ضیق الوقت …… ولو قدم الفائتۃ جاز وأتم … ثم تفسیر ضیق الوقت أن یکون الباقي منہ ما لا یسع فیہ الوقتیۃ والفائتۃ جمیعاً حتی لو کان علیہ قضاء العشاء  مثلا، وعلم أنہ لو اشتغل بقضائہ ثم صلی الفجر تطلع الشمس قبل أن یقعد قدر التشہد، صلی الفجر في الوقت وقضیٰ العشاء بعد ارتفاع الشمس، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفـوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وبائی امراض کے موقع پر اذان دینا حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ البتہ حضرات فقہاء نے غم اور مصیبت کے وقت غم کو ہلکا کرنے کے لیے اذان دینے کی بات لکھی ہے(۲) حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر اذان دینے کو جائز لکھا ہے؛(۳) اس لیے سنت اور ضروری نہ سمجھتے ہوئے انفرادی طور پر اذان دینے کی گنجائش ہے  لیکن موجودہ حالات میں اجتماعیت سے ساتھ اور التزام کے طورپر اذان دینے کا کوئی جواز نہیں ہے اس لیے کہ یہ عمل بدعت کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور حضرات صحابہ ؓسے طاعون وغیر ہ وبا کے وقت اذان دینا ثابت نہیں ہے۔

(۲) خرج بہا الأذان الذي یسن لغیر الصلاۃ کالأذان في أذن المولود الیمنی والإقامۃ في الیسری ویسن أیضاً عن الہم وسوء الخلق لخبر الدیلمی عن علي: رأني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزینا فقال: یا ابن أبي طالب أني أراک حزیناً فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک فإنہ درء الہم قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
(۳) مفتي کفایت اللّٰہ دہلويؒ،کفایت المفتي: ج ۳، ص: ۵۲، دار الاشاعت کراچی۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص184

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھانا مختلف روایات سے ثابت ہے۔
’’عن مالک بن الحویرث رضي اللّٰہ عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ حتی یحاذي بہما أذنیہ وفي روایۃ حتی یحاذي بہما فروع أذنیہ‘‘(۱)
’’عن وائل بن حجر أنہ أبصر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین قام إلی الصلاۃ رفع یدیہ حتی کانتا بحیال منکبیہ وحاذي إبہامیہ أذنیہ ثم کبر‘‘(۲)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، استحباب رفع الیدین حذو المنکبین‘‘: ج۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۳۹۱۔
(۲) أخرجہ أبو داؤد في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب رفع الیدین‘‘: ج۱، ص: ۱۰۵، رقم: ۷۲۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص313

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ومنہا: ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل، إن کانت الکلمۃ التی قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ، نحو إن قرأ مکان ’’العلیم‘‘ الحکیم‘‘ وإن لم تکن تلک الکلمۃ في القرآن لکن یقرب معناہا، عن أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ: لا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ: الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
فنقول وباللّٰہ التوفیق إن الخطاء في القرآن إما أن یکون في الإعراب أي الحرکات والسکون ویدخل فیہ تخفیف المشدد وقصر لممدود وعکسہما أو في الحروف بوضع حرف مکان آخر أو زیادتہ أو نقصہ أو تقدیمہ أو تأخیرہ أو في الکلمات أو في الجمل کذلک أو في الوقف ومقابلہ والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام حلبي: ص: ۴۱۰، وکذا إن لم یکن في القرآن وتغیر المعنی أما إن لم یکن في القرآن فلا یتغیر المعنی بأن قرأ من ثمرہ إذا أثمر واستحصد أو قرأ فیہما فاکہۃ ونخل وتفاح ورمان لا تفسد صلاتہ لأنہ لیس فیہ تغیر المعنی بل ہو زیادۃ تشبہ القرآن وما یشبہ القرآن لا یفسد الصلاۃ۔ (إبراھیم الحلبی، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۲۵، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص250

تجارت و ملازمت

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق:۔ مذکورہ  کمپنی میں یا اس جیسی دوسری بہت ساری  الگ الگ نام کی کمپنیاں  ہیں ان میں منافع کا مدار ممبر سازی پر ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ ممبر بناتے ہیں  ان کو گریڈ ملتا ہے اور اس کے تحت جیسے جیسے ممبر بڑھتے جاتے ہیں ان کی آمدنی بھی اسی طرح بڑھتی جاتی ہے۔حتی کہ نیچے  جاکرجن  ممبروں کے  بننے میں آدمی کا کوئی دخل نہیں ہوتا ان سے بھی بلامحنت  اس کو  فائدہ حاصل ہوتا ہے، جو جائز نہیں ہے۔نیزحدیث شریف میں ایک معاملہ کو دوسرے سے جوڑنے سے منع کیا گیا گیا۔ نھی  رسول اللہ ﷺ عن بیعتین فی بیعۃ۔  لہذا مذکورہ کمپنی یا اس جیسی دوسری کمپنیوں؛  جہاں ایک معاملہ کو دوسرے کی شرط قرار دیا جائے ، کا   ممبر بننا بھی درست نہیں ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند