Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب:تصور شیخ بوقت مراقبہ کسی مقدس و بزرگ خاص طور پر اپنے پیر و مرشد کا خیال کرنے کو کہتے ہیں تاکہ ان کے نیک اعمال اور زہد و تقویٰ کو دعاؤں کی قبولیت اور جائز مقاصد میں کامیابی کے لئے وسیلہ بنایا جائے، تصور شیخ میں بقول حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ کی صورت کا خیال امر فضول ہے جیسے کسی کے تذکرہ کے وقت کسی کا خیال آتا ہے ایسا ہی تصور شیخ ہے؟ (فیوض قاسمیہ) مشائخ چشتیہ نے اس طریقہ کو علاج نفس و تزکیۂ باطن کے لئے اختیار فرمایا ہے۔ سید الطائفہ حضرت الحاج امداد اللہ قدس سرہ نے اپنے خلیفہ خاص حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو مراقبہ تصور شیخ کے اختیار کرنے کی اجازت و ترغیب دی، حضرت حاجی صاحبؒ اپنے ایک مکتوب بنام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’و اگر فراغ باشد بعد نماز صبح و یا مغرب یا عشاء علیحدہ در حجرہ وغیرہ بہ نشینند و دل را از جمیع خیالات خالی کردہ متوجہ بایں جانب شوند و تصور کنند کہ گویا پیش شیخ خود نشستہ ام و فیضان الٰہی از سینۂ او بسینۂ ام می آید‘‘ (رقومات امدادیہ) حضرت مولاناشاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے جواز کو اختیار فرمایا وہ فرماتے ہیں: ’’والرکن الأعظم ربط القلب بالشیخ علی وصف المحبۃ والتعظیم الخ وہذا السر نزل الشرع باستقبال القبلۃ الخ فیکون کالمراقبۃ‘‘ (القول الجمیل) لیکن مراقبۂ تصورِ شیخ میں شرط ہے کہ جب شیخ سے دور ہو تو تصور و خیال تو یہ رہے کہ گویا میں شیخ کے سامنے ہوں اور اعتقاد پختگی کے ساتھ یہ رہے کہ شیخ اپنے وطن میں ہے ۔(۱)
(۱) وہذہ النسبۃلا تکاد تحصل إلا بصحبۃ المشایخ الکمل الذین استنارت قلوبہم بنور ہذہ النسبۃ العظمیٰ وہي التي لم تزل تنتقل من قلب إلی قلب: ومبدأہا مشکاۃ النبوۃ ومعدن الرسالۃ قلب سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأما ما سوی ذلک من المجاہدات والأعمال والأخلاق فیمکن تحصیلہا بصرف الہمۃ من غیر احتیاج إلی صحبۃ المشایخ وإن کان حصولہا بصحبتہم مع صرف الہمۃ متیسراً بسہولۃ وبدون صحبتہم متعسراً في کلفۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب: باب الذکر والدعاء‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص402
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر اتفاقاً لیکوریا کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار درہم سے زیادہ ہو، تو اس حالت میں نماز ادا نہیں ہوگی، لیکن اگر کسی عورت کو یہ بیماری اتنی بڑھ گئی ہو، کہ معذور کے درجہ میںآجائے، تو اس کے حق میں لیکوریا ناپاک نہیں سمجھا جائے گا اور وہ انہیں کپڑوں میں نماز ادا کر سکتی ہے۔
و إن کانت أکثر من قدر الدرھم منعت جواز الصلاۃ۔(۲)و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریماً، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیھاً، فیسنّ و فوقہ مبطل فیفرض۔ (۳)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ، و کلما بسط شیئا، تنجس من ساعتہ صلّی علی حالہ، و کذا لولم یتنجس إلا أنہ یلحقہ مشقۃ بتحریکہ۔(۱)
۲) عالم بن علاء الدین الحنفي، تاتارخانیہ ، کتاب الطہارۃ، الفصل السابع، في النجاسات و أحکامھا، النوع الثاني في مقدار النجاسۃ التي یمنع جواز الصلوٰۃ، ج۱، ص:۴۴۰
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۲۰
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، متصل: باب سجود التلاوۃ، ج۲، ص:۵۷۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو اور نماز دونوں فاسد ہو جاتی ہیں۔(۲)
(۲)قولہ ﷺ :الا من ضحک منکم قھقھۃ فلیعد الوضوء والصلٰوۃ جمیعاً۔ (أحمد بن محمد، قدوری، ’’کتاب الطہارۃ، حاشیہ۸‘‘، ص۱۷، مکتبہ بلال دیوبند)، والمذھب أن الکلام مفسد للصلاۃ کما صرح بہ في النوازل بأنہ المختار، فحینئذ تکون القھقھۃ من النائم مفسدۃ للصلاۃ لا الوضوء۔(ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۷۸)؛ و یترک القیاس والأثر و رد في صلٰوۃ مطلقۃ فیقتصر علیھا، والقھقھۃ: ما یکون مسموعا لہ ولجیرانہ، والضحک: ما یکون مسموعا لہ دون جیرانہ الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ أول، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص۲۷)؛ و إنما وجب الوضوء بھا عقوبۃ و زجراً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص:۲۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص215
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر بیڑی سگریٹ پینے کے فوراً بعد نماز پڑھاتے ہیں تو نماز میں کراہت آئے گی۔(۱)
(۱) عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل من ہذہ، قال: أول مرۃ الثوم، ثم قال: الثوم والبصل والکراث فلا یقربنا في مساجدنا۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باب ماجاء في کراہۃ أکل الثوم والبصلۃ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج۲، ص: ۳، رقم: ۱۸۰۴)
ویکرہ لمن أراد حضور الجماعۃ ویلحق بہ کل مالہ رائحۃ کریہۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الأطعمۃ‘‘: ج۸، ص: ۱۰۷، رقم: ۴۱۹۶)
قال العلماء: ویلحق بالثوم کل مالہ رائحۃ کریہۃ من المأکولات وغیرہا۔ (الطیبي، شرح الطیبي، ’’کتاب الصلوۃ: باب المساجد‘‘: ج۲، ص: ۲۳۳، رقم: ۷۰۷)
تفسیر السراج المنیر ج۱، ص: ۴۱۔
وأما الفاسق في الشرع فہو الخارج عن أمر اللّٰہ بارتکاب کبیرۃ أو إصرار علی صغیرۃ ولم تغلب طاعاتہ علی معاصیہ ولایخرجہ ذلک عن الإیمان، إلا إذا اعتقد حل المعصیۃ سواء أکانت کبیرۃ أم صغیرۃ۔(مفردات القرآن للراغب، ج۱، ص: ۶۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص73
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: شک اور شبہ پر کوئی حکم نہیں لگ سکتا اور شک و شبہ جائز ہی نہیں اور حلال و حرام میں تو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ زنا یا تو اقرار سے ثابت ہوتا ہے یا گواہوں سے اور اس کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ ایک آدمی کتنا معتبر ثقہ و دیانت دار ہو اس کا قول معتبر نہیں اگر صرف ایک ہی شخص کہتا ہے یا دو ہی ہوں چوں کہ نصاب شہادت مکمل نہیں اس لیے ان دونوں کے بارے میں شرعی ضابطہ اور حکم یہ ہے کہ ان کو تہمت لگانے والا قرار دیا جائے گا۔(۱) اور شرعی سزا بحکم قاضی (اسلام) اسی کوڑے مارے جائیں(۲) لیکن چوںکہ یہ سزا دار الاسلام میں ہی دی جاسکتی ہے؛ اس لیے اس آدمی کے لیے حکم یہ ہے کہ توبہ واستغفار کرے اور زبان بند رکھے اور جو الزام لگا رہا ہے اس سے معافی طلب کرے، اور چوں کہ شرعی ضابطہ اور اصول کی رو سے امام کا جرم ثابت نہیں ہے اس لیے امامت اس کی بلا کراہت جائز ہے، شک و شبہ کرنے والے اور الزام لگانے والے سخت گنہگار ہیں۔
(۱) {وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۵)
{لَوْلَا جَآئُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَج فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَہ۱۳} (سورۃ النور: ۱۳)
(۲) {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً} (سورۃ النور: ۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص199
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدارس اور مساجد کے ذمہ داروں پر ضروری ہے کہ امام ومدرسین کی سہولیات کے پیش نظر ان کے لیے تعطیلات اتفاقی وبیماری ضرور مقرر فرمائیں اور جو حقوق ان کے ذمہ ہیں (بیوی کے حقوق بچوں کے اور والدین کے حقوق) ان کو ادا کرنے کا موقعہ فراہم کریں تاکہ ان تعطیل کے ایام میں وہ ان کے حقوق ادا کرسکیں۔(۱)
(۱) وینبغي إلحاقہ ببطالۃ القاضي، واختلفوا فیہا والأصح أنہ یأخذ؛ لأنہا للاستراحۃ، وفي الشامي بحثاً: فحیث کانت البطالۃ معروفۃ في یوم الثلاثاء والجمعۃ وفي رمضان والعیدین یحل الأخذ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۶۸، ۵۶۷، زکریا)
ومنہا البطالۃ في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشہر رمضان في درس الفقہ لم أرہا صریحۃ في کلامہم، والمسئلۃ علی وجہین: فإن کانت مشروطۃ لم یسقط من المعلوم شیء۔ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالۃ القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب لہ … في یوم بطالۃ فقال في المحیط: إنہ یأخذ في یوم البطالۃ۔ (ابن نجیم، شرح الأشباہ والنظائر، ’’الفن الأول في القواعد، القاعدۃ السادسۃ‘‘: ص: ۲۷۲؛ وکذا في الدر المختار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۶۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص287
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر صفوں کے درمیان فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔(۱)
’’والمانع في الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ‘‘(۲)
(۱) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل مفتاح السعادۃ أو (طریق تجری فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور (أو نہر تجری فیہ السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد کبیر جدا کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقا، کأن قام في الطریق ثلاثۃ، وکذا إثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنہ لکراہۃ صلاتہ صار وجودہ کعدمہ في حق من خلفہ۔ (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، ۳۳۱)
(۲) حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ، وترتیب الصفوف: ص: ۱۱۲۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص405
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان و اقامت اور جماعت کے اوقات مقرر کرکے نماز ادا کرنی چاہئے؛ لیکن اگر نماز بغیر اذان واقامت کے ادا کرلی گئی تو اس صورت میں بھی ادا ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ۔(۱)
(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
قال في الدر : وکرہ ترکہما معًا … بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ: لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ: ج ۲، ص: ۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص177
اسلامی عقائد
Ref. No. 2806/45-4388
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذاق اور غصہ میں بھی اپنے آپ کو کافر کہنا جائز نہیں ہے، ایسا آدمی مرتد کا حکم رکھتاہے، اس لئے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی لازم ہوگا۔ البتہ اگرسخت مجبوری ہو اور جان یا عضو کے تلف کا خوف ہو تو ایسی صورت میں دل میں ایمان پر اطمینان کے ساتھ محض زبان سے کلمہ کفر کہنے سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوگا، تاہم ایسی مجبوری میں بھی کلمہ کفر کے تکلم سے احتراز ہی اولی ہے۔
من ہزل بلفظ کفر ارتدً إلی آخر ما فی ردالمختار (درمختار مع الشامی: ۶/۳۵۶، ط:زکریا، کتاب الجہاد ، باب المرتد)
"مسلم قال: أنا ملحد يكفر، ولو قال: ما علمت أنه كفر لا يعذر بهذا." (الھندیۃ، (کتاب السیر ،باب احکام المرتدین،ج:2،ص:279،ط:رشیدیہ)
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(106)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا جائز ہے اس میں کوئی کراہت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر ظہر کی نماز سے قبل چار سنت نہیں پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے؛ لہٰذا ایسی صورت میں امام کو چاہئے کہ فرض کے بعد دو سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں ادا کرے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاھن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب آخر‘‘: ج۱، ص ۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368