طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1682/43-1299

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انقلاب ماہیت اور چیز ہے اور اختلاط (تجزیہ و تبدیل) اور چیز ہے، اور دونوں کے حکم میں فرق ہے۔  انقلاب ماہیت یعنی جس میں تمام حرام اجزاء مکمل طور پر تبدیل ہوگئے ہوں، یا صرف بنیادی جزء کی تبدیلی  ہوئی ہو تو احناف کے نزدیک وہ پاک ہے۔   مثلا شراب میں نشہ کا ہونا بنیادی وصف ہے، اس کی تبدیلی ہوجائے تو باقی اوصاف کا پایا جانا مضر نہیں ہے، بلکہ وہ چیز حلال ہوجائے گی۔  صابن میں ناپاک تیل اورناپاک چربی کی ماہیت تبدیل ہوتی ہے یا نہیں ، اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، بعض نے عموم بلوی کی وجہ سے اس کے جواز کا فتوی دیا  ہے اور بعض نے انقلاب ماہیت کی وجہ سے جواز کا فتوی دیا ہے۔ اس لئے صابن کا استعمال جائز قراردیاگیاہے۔ اور اگر کسی چیز میں انقلاب ماہیت نہ ہو بلکہ بنیادی عمل تجزیہ و اختلاط کا ہو تو ایسی صورت میں پہلا حکم باقی رہے گا، کیونکہ اس ترکیبی عمل میں صرف اس  حرام شیء کا نام، بو اور ذائقہ بدلا ہے نہ کہ اس کی حقیقت۔ اس لئے اگر وہ  پہلے حرام تھی تو اب بھی حرام رہے گی۔  (تفصیل کے لئے دیکھئے : فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند 2/454)

لأنَّ الشَّرْعَ رَتَّبَ وَصْفَ النِّجَاسَةِ عَلٰی تِلْکَ الْحَقِیْقَةِ وَتَنْتَفِی الْحَقِیْقَةُ باِنْتِفَاءِ بَعْضِ أجْزَاءِ مَفْہُوْمِہَا، فَکَیْفَ بِالْکُلِّ فَانَّ الْمِلْحَ غَیْرُ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ، فاذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُکْمُ الْمِلحِ“․ (ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ) انَّہ یُفْتیٰ بہ لِلْبَلْویٰ“ (ردالمحتار: ۱/۱۹، البحرالرائق:۱/۴۹۴) (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۱۱۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) (کفایت المفتی: ۲/۳۳۴، چوتھا باب) (فتاویٰ مظاہرعلوم:۱/۲۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1975/44-1916

The correct pronunciation in English is Zinneerah (Zaa with Kasra, Noon with Tashdeed and Kasra, Yaa sakin, then Raa with Fat’ha and finally there is a haa). This was the name of a Sahabia. So the name is correct but I could not find its meaning in the dictionary. Moreover, the name zunaira is not correct. It can also be written ‘Zinnira’. (usudul Ghabah 7/124 No. 6948

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2057/44-2162

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

 و باللہ التوفیق: طائف سے مکہ آتے ہوئے میقات آتی ہے اور احناف کے یہاں میقات سے بلا احرام کے گزرنا جائز نہیں ہے گنہگار ہوگا اور اس کو میقات جا کر احرام باندھنااور حج یا عمرہ کرنا لازم ہوگااس لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہوتاہے لیکن اگر کوئی واپس میقات جاکر احرام باندھ کر حج یا عمرہ کرلے تو دم ساقط ہوجاتاہے ۔آپ نے کہاں یہ مسئلہ دیکھا نہیں معلوم ۔

ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکة بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلہا فعلیہ حجة أو عمرة کذا فی محیط السرخسی(الفتاوی الہندیة:۱/۲۲۱)

وفی الدرالمختار: (وَ) یَجِبُ (عَلَی مَنْ دَخَلَ مَکَّةَ بِلَا إحْرَامٍ) لِکُلِّ مَرَّةٍ (حَجَّةٌ أَوْ عُمْرَةٌ) فَلَوْ عَادَ فَأَحْرَمَ بِنُسُکٍ أَجْزَأَہُ عَنْ آخِرِ دُخُولِہِ، وَتَمَامُہُ فِی الْفَتْحِ (وَصَحَّ مِنْہُ) أَیْ أَجْزَأَہُ عَمَّا لَزِمَہُ بِالدُّخُولِ (لَوْ أَحْرَمَ عَمَّا عَلَیْہِ) مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ أَوْ نَذْرٍ أَوْ عُمْرَةٍ مَنْذُورَةٍ لَکِنْ (فِی عَامِہِ ذَلِکَ) لِتَدَارُکِہِ الْمَتْرُوکَ فِی وَقْتِہِ (لَا بَعْدَہُ) لِصَیْرُورَتِہِ دَیْنًا بِتَحْوِیلِ السَّنَةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار:۳/۲۶۶ط:زکریا دیوبند)

(جَاوَزَ الْمِیقَاتَ) بِلَا إحْرَامٍ (فَأَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ أَفْسَدَہَا مَضَی وَقَضَی وَلَا دَمَ عَلَیْہِ) لِتَرْکِ الْوَقْتِ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ(الدرالمختار)وفی ردالمحتار: (قَوْلُہُ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ) عِلَّةٌ لِقَوْلِہِ وَلَا دَمَ عَلَیْہِ إلَخْ وَضَمِیرُ مِنْہُ لِلْوَقْتِ أَشَارَ بِہِ إلَی أَنَّہُ لَا بُدَّ فِی سُقُوطِ الدَّمِ مِنْ إحْرَامِہِ فِی الْقَضَاءِ مِنْ الْمِیقَاتِ کَمَا صُرِّحَ بِہِ فِی الْبَحْرِ، فَلَوْ أَحْرَمَ مِنْ الْمِیقَاتِ الْمَکِّیِّ لَمْ یَسْقُطْ الدَّمُ وَہُوَ مُسْتَفَادٌ أَیْضًا مِمَّا قَدَّمْنَاہُ عَنْ الشُّرُنْبُلَالِیَّةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار :۳/۶۲۷ط:زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2142/44-2207

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کمپنی میں پیسے جمع کرنے پر فکس نفع ملتاہو، اس میں پیسے لگاکر نفع کمانا  اور اس سے جڑنا شرعا  جائز نہیں ہے۔ اس لئے آپ ایسی کمپنی میں پیسے لگائیں جو شرعی ضابطوں کے مطابق کاروبار کرتی ہو او رمنافع   شیئرز کے حساب سے فیصدی میں  تقسیم کرتی ہو ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عیدگاہ تک جاتے ہوئے راستہ میں تکبیر تشریق (عید الفطر میں آہستہ آہستہ اور عید الاضحی میں بلند آواز کے ساتھ) پڑھنا مسنون و مستحب ہے(۱) اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے پس مذکورہ صورت میں اس کے برعکس جھنڈے لے کر جلوس بناکر نظمیں اور اشعار پڑھتے ہوئے جانا یقینا طریقہ مسنونہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے بدعت ہے جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔(۲)

(۱) (اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد) ہو المأثور عن الخلیل۔ والمختار أن الذبیح إسماعیل۔ فقال: تکبیر التشریق سنۃ ماضیۃ نقلہا أہل العلم وأجمعوا علی العمل بہا۔ قال العینی: صفتہ  (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)
(۲) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۲، ص: ۲۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص504

متفرقات

Ref. No. 2490/45-3826

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شکار مباح ہوتاہے، اور اس کا مالک وہی شخص ہوتاہے جو اس کا شکار کرے، کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہوتاہے۔ اس لئے شخص مذکور نے اگر زمین کو اس کام کے لئے تیار نہیں کیا ہے تو محض اس کے کھیت میں شکار کے آجانے سے اس کی شراکت داری  قائم نہیں ہوگی، اور  یہ عقد درست نہیں  ہوگا۔ البتہ اگر کھیت والا  اس کھیت میں  شکار کے لئےدانے ڈالتاہےیا اسی طرح کوئی ایسا کام کرتاہے جس سے شکار کرنے میں مدد ملے تو پھر ایک مناسب اجرت لینا جائز ہوگا۔

اذا فرخ طیر فی ارض طیر فھو لمن اخذہ واذا باض فیھا وکذا اذا تکنس فیھا ظبی لانہ مباح سبقت یدہ الیہ (ھدایہ 3/104)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام کی صحیح ترجمانی اور اس کی اشاعت کی ذمہ داری انبیاء علیہم السلام کے رخصت ہوجانے کے بعد علماء پر عائد ہوتی ہے، اس ذمہ داری کو انبیاء نے بدرجۂ اتم پورا فرمایا: علم کے ذریعہ بھی، عمل کے ذریعہ بھی، اقوال سے بھی، افعال سے بھی، پوری حکمت ودانشمندی کے ساتھ اس فرض کو پورا فرمایا(۱) اور اب یہ ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے کہ اسلام کو اپنے صحیح مفہوم کے ساتھ پیش کریں اس ذمہ داری کی سبکدوشی کے مختلف طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ تبلیغی جماعت کا بھی ہے، جس کا ایک مخصوص طریقہ ہے، مسلمانوں کو نماز، روزے سے قریب کرنے میں اس طریقہ نے بڑا اچھا اثر دکھایا، یہ اشاعت اسلام انبیاء علیہم السلام نے بھی اور ان کے بعد والے علماء نے بھی بیان، اجتماعات، ومدارس دینیہ، وغیرہ کے ذریعہ پروان چڑھائی، نیز احادیث میں بہت سی چیزیں اور اعمال ایسے ملتے ہیں جن پر ایمان پر خاتمہ کی خوش خبری ملتی ہے، نیز گشت مختلف طریقوں میں سے ایک ہے، جو اس کو چاہے اپنالے اور جو اس کے علاوہ دوسرا طریقہ دعوت، حکمت، موعظت کے ساتھ اپنالے اس کو بھی مطعون نہیں کیا جاسکتا (۱) اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ جن صاحب نے مذکورہ فی السوال تقریر فرمائی انہیں سے اس کی وضاحت طلب کی جائے، سیاق و سباق کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ مفہوم کچھ اور ہو یا کوئی لفظ ادھر ادھر ہوگیا ہو اگر کوئی کوتاہی ہوجائے اور جس سے کوتاہی ہو وہ مومن اور نیک ہو تو اس کوباعث نزاع بنانے سے بہتر وضاحت طلب کرنا ہے ورنہ درگذر کرنا ہے۔

(۱) التذکیر علی المنابر للوعظ والاتعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع یکرہ إعطاء سائل المسجد‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۱)
(۱) {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (سورۃ النحل: ۱۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھانے کے بعد صاحب خانہ کے گھر کے لئے خیر وبرکت کی دعاء مقصود ہو تو عمومی یا انفرادی طور پر دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اس کا التزام درست نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صاحب خانہ کے لئے ضیافت کے موقع پر دعاء کا ثبوت ملتا ہے جس کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے: ’’عن عبد اللّٰہ بن بسر رضي اللّٰہ عنہ، قال: نزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي قال: فقربنا إلیہ طعاما ووطبۃ فأکل منہا ثم أتی بتمر فکان یأکلہ ویلقی النوی بین إصبعیہ ویجمع السبابۃ والوسطیٰ، قال شعبتہ: ہو ظني وہو فیہ إن شاء اللّٰہ إلقاء النوی بین الإصبعین ثم أتی بشراب فشربہ ثم ناولہ الذي عن یمینہ قال: فقال أبي: وأخذ بلجام دابتہ أدع اللّٰہ لنا فقال: اللہم بارک لہم في ما رزقتہم واغفرلہم وارحمہم‘‘(۱)
امام نوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’وفیہ استحاب طلب الدعاء من الفاضل ودعاء الضیف بتوسعۃ الرزق والمغفرۃ والرحمۃ وقد جمع صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذا الدعاء خیرات الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
کھانے کے بعد سنت طریقہ یہ ہے کہ: اللہ بتارک وتعالیٰ کی حمد وثناء کرے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت میں نقل کی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طعاما فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘(۳) ’’وأیضاً: عن أبي سعید قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین‘‘(۱)

مذکورہ احادیث اور وضاحت سے ثابت ہوا کہ کھانے کے بعد بطور شکر دعاء مانگنا مندوب ومستحب ہے اور اگر کوئی ساتھی اور رفقاء کھانے سے فارغ نہیں ہوئے تو دعاء میں اپنی آواز کو پست رکھنا مسنون ہے کہ کہیں دوسرے حضرات آواز سن کر کھانے سے رک نہ جائیں؛ اس لیے انتظار کر لے یا آہستہ سے دعاء پڑھ لے۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص395
 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب کی جگہ ناپاک ہے، اگر اس سیٹ پر بیٹھا اور کپڑا پسینہ سے اس قدر تر ہوگیا کہ پسینہ سے سیٹ گیلی ہوگئی تو اس سے کپڑا ناپاک ہوجائے گا اور اگر کپڑا گیلا نہیں ہوا، تو ناپاکی کا حکم نہیں ہوگا۔(۲)

(۲) کما لا ینجس ثوب جاف طاھر في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ص:۴۱)؛ و إذا لف الثوب النجس في الثوب الطاھر والنجس رطب، فظھرت نداوتہ في الثوب الطاھر، لکن لم یصر رطبا بحیث لو عصر یسیل منہ شيء ولا یتعاطر، فالأصح أنہ لا یصیر نجساً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع، في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني المخففۃ، ومما یتصل بذلک مسائل، ج۱، ص:۱۰۲)؛ و لف طاھر في نجس مبتل بماء إن بحیث لو عصر تنجس و إلا فلا ۔۔۔ و اختار الحلواني أنہ لا ینجس إن کان الطاھر بحیث لا یسیل فیہ شيء ولا یتقاطر لو عصر، وھو الأصح کما في الخلاصۃ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص450

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوںقسم کے وضو اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں اور باقی ہیں، دونوں سے نماز ادا کرنا صحیح ہے۔(۱)

(۱) (مفتی رشید احمد لدھیانویؒ، احسن الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۲، ص:۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند) منھا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي والمني الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘ ج۱،ص:۶۰ مکتبۃ فیصل دیوبند) ، و منھا مایخرج من غیر السبیلین: و یسیل إلی ما یظھر من الدم والقیح الخ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور ستر کھلنا یہ نجاست کا خروج نہیں ہے۔ بحرمیں ہے:و ینقضہ خروج نجس۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘،ج۱، ص:۶۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212