نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ بستیوں میں سے کسی بستی میں جمعہ و عیدین درست ہو تو اس بستی میں عیدگاہ بنا کر تمام کا شریک ہوجانا درست ہے اور اگر کسی بستی میں بھی جمعہ وعیدین درست نہ ہوں تو کسی بھی بستی میں عیدگاہ بناکر عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں(۲) اس لیے بہتر  یہ ہے کہ تجربہ کار مفتیوں کو بلاکر معائنہ کرالیں اور ان کے شرعی فیصلہ کے مطابق عمل کریں۔(۲) قولہ: (وفي القہستاني الخ … وتقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق … وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لا تجوز في الصغیرۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶، ۷)لا تجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب، کذا في المضمرات۔ تجب صلاۃ العید علی کل من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ، کذا في الہدایۃ، ویشترط للعید ما یشترط للجمعۃ إلا الخطبۃ، کذا في الخلاصۃ، فإنہا سنۃ بعد الصلاۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  جس جگہ عید کی نماز درست ہے وہاں پر متعدد جگہوں پر بھی عید کی نماز درست ہے اس لیے صورت مسئولہ میں دونوں عیدگاہوں میں نماز عید ادا ہوجائے گی لیکن آپسی اختلاف سے اجتناب لازم ہے۔(۱)(۱) إن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالاتفاق۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین: مطلب: یطلق المستحب علی السنۃ وبالعکس‘‘: ج ۳، ص: ۴۹)وتجوز إقامۃ صلاۃ العیدین في موضعین، وأما إقامتہا في ثلاثۃ مواضع، فعند محمد رحمہ اللّٰہ تجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب کہ پہلے سے عید کی نماز کے وقت کا اعلان کردیا گیا اور اسی وقت پر نماز ادا کی گئی جس وقت کا اعلان تھا تو یہ شرعاً درست ہوا لوگوں کو وقت پر عیدگاہ حاضر ہوکر جماعت میں شریک ہونا چاہئے تھا۔ اور جب نماز عید باجماعت کچھ لوگوں کی چھوٹ گئی تھی تو عیدگاہ سے الگ کسی میدان یا مسجد میں جماعت کی جانی چاہئے تھی؛ اس لیے کہ عیدگاہ میں جماعت ثانیہ مکروہ ہے تا ہم اگر عیدگاہ میں دوبارہ نماز باجماعت اداء کرلی گئی، تو نماز درست ہوگئی؛ لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے ان لوگوں کو استغفار کرنا چاہئے۔(۱)(۱) قولہ: (ولم تقض إن فاتت مع الإمام)؛ لأن الصلاۃ بہذہ الصفۃ لم تعرف قربۃ إلا بشرائط لا تتم بالمنفرد فمرادہ نفي صلاتہا وحدہ، وإلا فإذا فاتت مع إمام، وأمکنہ أن یذہب إلی إمام آخر فإنہ یذہب إلیہ؛ لأنہ یجوز تعدادہا في مصر واحد في موضعین وأکثر اتفاقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 237

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں، تاہم فتنے سے بچنے کے لیے صورت یہ ہی ہے کہ دونوں فریق ایک ہی جگہ نماز پڑھیں خواہ اختلاف کی وجہ سے الگ الگ پڑھنی پڑے لیکن جس جگہ پر پہلی جماعت ہو اس جگہ سے ایک دو صف چھوڑ کر دوسری جماعت کریں تاکہ ہیئت بدل جائے۔(۱)(۱) قولہ: (ولم تقض إن فاتت مع الإمام)؛ لأن الصلاۃ بہذہ الصفۃ لم تعرف قربۃ إلا بشرائط لا تتم بالمنفرد فمرادہ نفي صلاتہا وحدہ، وإلا فإذا فاتت مع إمام وأمکنہ أن یذہب إلی إمام آخر فإنہ یذہب إلیہ؛ لأنہ یجوز تعدادہا في مصر واحد في موضعین وأکثر اتفاقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)        ……(ولا یصلیہا وحدہ إن فاتت مع الإمام) … أي رجل أفسد صلاۃ واجبۃ علیہ ولا قضاء (و) لو أمکنہ الذہاب إلی إمام آخر فعل؛ لأنہا (تؤدي بمصر) واحد (بمواضع) کثیرۃ (اتفاقاً)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸، ۵۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 237

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی نماز عید چھوٹ جائے اگر دوسری جگہ جماعت عید ملنا ممکن ہو اور وہاں تک جانا بھی ممکن ہو، تو وہاں جانا چاہئے اور وہاں جاکر نماز عید ادا کرنی چاہئے؛ چوں کہ نماز عید ایک شہر میں متعدد جگہ بالاتفاق ادا کی جاسکتی ہے۔ اور اگر وہ وہاں جانے سے قاصر ہو، تو اس کو چاہئے کہ چار رکعت نماز چاشت کی طرح ادا کرے یہ نماز عیدین کی نماز نہ ہوگی؛ بلکہ چاشت کی نماز ہوگی، تو اس سے ثواب میں جو کمی واقع ہوگئی تھی اس کی کچھ تلافی ہوجائے گی۔(۱)(۱) قولہ: (ولم تقض إن فاتت مع الإمام)؛ لأن الصلاۃ بہذہ الصفۃ لم تعرف قربۃ إلا بشرائط لا تتم بالمنفرد فمرادہ نفي صلاتہا وحدہ، وإلا فإذا فاتت مع إمام وأمکنہ أن یذہب إلی إمام آخر، فإنہ یذہب إلیہ؛ لأنہ یجوز تعدادہا في مصر واحد في موضعین وأکثر اتفاقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)(ولا یصلیہا وحدہ إن فاتت مع الإمام) … أي رجل أفسد صلاۃ واجبۃ علیہ، ولا قضاء (و) لو أمکنہ الذہاب إلی إمام آخر فعل؛ لأنہا (تؤدي بمصر) واحد (بمواضع) کثیرۃ (اتفاقاً) (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸، ۵۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر تنہا نماز عید پڑھی ہے، تو اس کا اعتبار نہیں(۱) اور اگر جماعت سے پڑھی ہے، تو اس پر ضروری ہے کہ وہ صاف کہے کہ میں اپنی نماز پڑھ چکا ہوں اور امام نہ بنے، جماعت کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے، اس کی نماز نفل ہو جائے گی۔(۲)(۱) قولہ: (ویصلي الإمام بہم الخ) ویکفي في جماعتہا واحد کما في النہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: یطلق المستحب علی السنۃ وبالعکس‘‘: ج ۳، ص: ۵۳)(۲) (و)لا (مفترض بمتنفل وبمفترض فرضا آخر)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴)قولہ: (ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر) أي وفسد اقتداء المفترض بإمام متنفل أو بإمام یصلي فرضا غیر فرض المقتدي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 235

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسجد تنگ ہونے کی بناء پر مسجد کے باہر دوسری جماعت کرنا بلا کراہت درست ہے، البتہ سڑک پر اس طرح نماز ادا کرنا کہ گزرنے والوں کو تکلیف ہو درست نہیں اس سے بچنا چاہئے اور کچھ راستہ کھلا چھوڑ دینا چاہئے تاکہ کسی کو پریشانی نہ ہو، تاہم جو لوگ صف بناتے بناتے مسجد میں پہونچ جائیں اور مسجد کے اندر صفیں بنا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ایسی صورت میں مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی نماز بلا کراہت درست ہے اور یہ مسجد کے باہر کھلے میدان میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ جماعت میں شامل کہلائیں گے۔’’ویجوز اقتداء جار المسجد بإمام المسجد وہو في بیتہ إذا لم یکن بینہ وبین المسجد طریق عام، وإن کان طریق عام ولکن سدتہ الصفوف جاز الاقتداء لمن في بیتہ بإمام المسجد‘‘(۱)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الرابع في بیان ما یمنع صحۃ الاقتداء وما لا یمنع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 234

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بہتر یہ ہے کہ نماز عید ایک جگہ پڑھی جائے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہو سکیں، لیکن عیدگاہ میں گنجائش نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زائد جگہ نمازِ عید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جو لوگ مسجدوں میں عید کی نماز ادا کریں ان کی نماز بھی درست ہے، لیکن اگر عیدگاہ میں گنجائش نہیں ہے تو مدرسہ کے کھُلے میدان میں یا کسی دوسرے بڑے میدان میں عید کی نماز ادا کرنی چاہئے۔ جس شہر میں عیدگاہ یا کوئی بڑا میدان میسر ہو وہاں عید کی نماز عیدگاہ میں ہی ادا کرنی سنت ہے، عیدگاہ کو یا اس میدان کو چھوڑ کر مسجد یا عمارت میں نماز عید ادا کرنے سے نماز عید تو ادا ہو جائے گی مگر سنت کا ثواب حاصل نہ ہوگا، آبادی سے باہر صحراء میں نمازعید ادا کرنا افضل وسنت ہے خواہ عیدگاہ ہو یا نہ ہو۔’’(تؤدي بمصر) واحد (بمواضع) کثیرۃ (اتفاقاً‘‘(۱)’’حتی لو صلی العید في الجامع ولم یتوجہ إلی المصلی فقد ترک السنۃ‘‘(۲) (۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۵۹۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 232

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: پرانی عیدگاہ کے تنگ ہونے کی وجہ سے نئی عیدگاہ بنا لینا اچھی بات ہے اور قابل قدر اقدام ہے تاہم پرانی عیدگاہ کو ویران چھوڑ دینا درست نہیں ہے، اس عیدگاہ کی حفاظت بھی ضروری ہے ورنہ اس پر غیر کے قبضہ کا اندیشہ رہتا ہے، اس لیے اس پرانی عیدگاہ کی جگہ پنج وقتہ نمازوں کے لئے مسجد بنادی جائے اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو تو دینی مدرسہ ومکتب بھی بنایا جا سکتا ہے، اسی طرح اس جگہ پیڑ پودے لگا کر اس کی آمدنی نئی عیدگاہ میں بھی لگائی جا سکتی ہے، اس لئے اس کو ویران نہ چھوڑا جائے اور جلد از جلد اس جگہ پر کوئی کام شروع کردیا جائے۔’’فقال محمد: إذا خرب ولیس لہ ما یعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد أخر أو لخراب القریۃ … وقال أبو یوسف: ہو مسجد أبدا إلی قیام الساعۃ لا یعود میراثا، ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلی مسجد أخر، سواء کانوا یصلون فیہ أولا وہو الفتوی‘‘(۱)(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف: فصل فيأحکام المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۱؛ ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الوقف: مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ‘‘: ج ۶، ص: ۵۴۸؛ جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق بہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 232

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسلمانوں کی تمام عبادات نماز روزہ وغیرہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے نماز جائز طریقہ پر پڑھی جائے تو رضاء الٰہی کا سبب ہے اور اگر شرعی طریقہ پر نہ پڑھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے پس اصل مقصد رضاء الہٰی ہے اور شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جہاں نماز جمعہ درست نہیں وہاں عیدین بھی درست نہیں ہے(۲) اس لئے مذکورہ جگہ میں عیدین  درست نہیں اگر سہولت ہو اورکوئی پڑھنا چاہے تو قریب کے قصبہ میں نماز پڑھ لے نہ پڑھنے والوں پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ ان پر نماز واجب نہیں ہے۔(۲) (تجب صلاتہما) في الأصح (علی من تجب علیہ الجمعۃ بشرائطہا) المتقدمۃ (سوی الخطبۃ) فإنہا سنۃ بعدہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۴۵، ۴۶)تجب صلاۃ العید علی کل من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ، کذا في الہدایۃ، ویشترط للعید ما یشترط للجمعۃ، إلا الخطبۃ، کذا في الخلاصۃ فإنہا سنۃ بعد الصلاۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 231