Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سننے والے بھی آہستہ تکبیر کہہ سکتے ہیں اور دل میں درود پڑھیں۔
’’وإذا کبر الإمام بالخطبۃ یکبر القوم معہ، وإذا صلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي الناس في أنفسہم امتثالاً للأمر وسنۃ الإنصات‘‘(۱)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر: في صلاۃ العیدین‘‘: ج۱، ص: ۲۱۲۔ویکبر القوم معہ، ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أنفسہم امتثالاً للأمر وسنۃ الإنصات۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 138
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: خطبہ میں مذکورہ مقدس حضرات کا ذکر کرنا اور پڑھنا سنت نہیں؛ بلکہ مستحب ہے۔ اور اگر کوئی مذکورہ اسمائے مبارکہ کو خطبہ میں نہ پڑھے تو خطبہ میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔’’ویندب ذکر الخلفاء الراشدین والعمین‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۱۔وذکر الخلفاء الراشدین والعمین مستحسن بذلک جری التوارث۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۱۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 137
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قرآن پاک کی تفسیر اور مطلب سے ناواقف عوام کے لیے بیان سننا اور دینی احکامات سے واقف ہونا زیادہ افضل ہے، تلاوت تو بعد میں بھی کی جا سکتی ہے۔’’أولیٰ الظاہر أن ہذا خاص بمن لا قدرۃ لہ علی فہم الآیات القرآنیۃ والتدبر في معانیہا الشرعیۃ، والاتعاظ بمواعظہا الحکمیۃ، إذ لا شک أن من لہ قدرۃ علی ذلک یکون استماعہ أولیٰ بل أوجب، بخلاف الجاہل فإنہ یفہم من المعلم والواعظ ما لا یفہمہ من القارئ فکان ذلک أنفع لہ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب: في من سبقت یدہ إلی مباح‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ وقت میں امام کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔ البحر الرائق میں خطبہ کے بیان میں ہے۔’’وترک السلام من خروجہ إلی دخولہ في الصلاۃ وترک الکلام، … قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام یبطل ذلک‘‘(۲)(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۹۔وترک الکلام من خروجہ إلی دخولہ في الصلاۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۳)وإذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کا خطبہ کھڑے ہوکر پڑھنا سنت ہے، بیٹھ کر اگرچہ پڑھنا جائز ہے؛ لیکن بغیر عذر کے مکروہ ہے۔(۱)(۱) قولہ: (وطہارۃ وستر عورۃ قائما)، جعل الثلاثۃ في شرح المنیۃ واجبات مع أنہ نفسہ صرح في متن الملتقی بسنیۃ الطہارۃ والقیام کما في کثیر من المعتبرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب قال اللّٰہ تعالیٰ: أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۳) (ویخطب قائما علی طہارۃ) لأن القیام فیہما متوارث … (ولو خطب قاعداً أو علی غیر طہارۃ جاز)۔ (علي بن أبي بکر المرغیناني، الہدایۃ مع فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، ۵۷)وأما سننہا فخمسۃ عشر … وثانیہا: القیام ہکذا في البحر الرائق،… … ولو خطب قاعداً أو مضطجعا جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 135
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بہتر اور افضل یہ ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران مثل حالت تشہد صلوۃ کے بیٹھے؛ لیکن اگر اس طرح بیٹھنے میں تکلیف ہو یا عذر ہو تو پھر جس طرح بیٹھنے میں سہولت ہو اس طرح بیٹھ سکتے ہیں؛(۱) البتہ پاؤں قبلہ کی طرف پھلا کر نہ بیٹھے کہ اس میں مسجد کی بے ادبی ہے اور نمازیوں کے لیے تکلیف دہ ہے سوال میں جس مخصوص انداز میں بیٹھنے کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(۱) إذا شہد الرجل عند الخطبۃ إن شاء جلس محتبیا أو متربعا أو کما تیسر؛ لأنہ لیس بصلاۃ عملا وحقیقۃ، کذا في المضمرات، ویستحب أن یقعد فیہا کما یقعد في الصلاۃ، کذا في معراج الدرایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 134
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: زبان سے نہیں دل سے کہہ سکتا ہے۔ یہ مستثنیٰ ہے۔(۳)
(۳) وینبغي أن لا یجیب بلسانہ اتفاقاً فيالأذان بین یدي الخطیب۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب: في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۰)قولہ: (ولا کلام) … وکذلک إذا ذکر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یجوز أن یصلوا علیہ بالجہر؛ بل بالقلب، وعلیہ الفتوی رملي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 133
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: خطیب کے ممبر پر آجانے کے بعد کوئی وظیفہ پڑھنا یا انگلیاں چومنا وغیرہ شرعاً درست نہیں۔ حاضرین پر لازم ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اذان وخطبہ سنیں(۱) اگر کچھ لوگ دور ہوں اور آواز کم آئے یا بالکل نہ آئے، تو بھی پورے طور پر متوجہ رہنا لازم ہے یہ حکم حدیث پاک میں صراحۃً موجود ہے۔ ’’وإذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام‘‘(۱)’’وإذا خرج الإمام یوم الجمعۃ ترک الناس الصلاۃ والکلام‘‘(۲)(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۔(۲) أخرج ابن أبي شیبۃ عن عروۃ قال: إذا قعد الإمام علی المنبر فلا صلاۃ وعن الزہري قال: في الرجال یجیئ یوم الجمعۃ والإمام یخطب یجلس ولا یصلي۔ (ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۵)عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من تکلم یوم الجمعۃ والإمام یخطب فہو کمثل الحمار یحمل أسفاراً۔ (خطیب تبریزی، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب التنظیف والتکبیر‘‘: ص: ۱۲۳، رقم: ۱۳۹۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں وہ شخص جمعہ کا خطبہ دے سکتا ہے؛ اس لیے کہ یہ جائز ہے کہ جمعہ کا خطبہ کوئی دے اور نماز کوئی اور پڑھائے مگر مناسب بات یہ ہے کہ خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ دونوں کو ایک ہی شخص پڑھائے مگر کوئی اس کے خلاف کرے تو جائز ہے۔(۲)
’’قولہ: (لأنہما) أي: الخطبۃ والصلاۃ کشيء واحد، لکونہما شرطاً مشروطا ولا تحقق المشروط بدون شرطہ، فالمناسب أن یکون فاعلہما واحداً‘‘(۱) اسی طرح عیدین کا مسئلہ بھی ہے۔(۲) (لا ینبغي أن یصلي غیر الخطیب) لأنہما کشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان، وصلی بالغ جاز) ہو المختار۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،… ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۹)وقد علم من تفاریعہم أنہ لا یشترط في الإمام أن یکون ہو الخطیب۔ (أیضاً: ص: ۱۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 131
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جس لباس میں باہر نکلنا، بازار جانا، شادی وغمی کی مجالس میں شرکت پسند نہ کرتا ہو، بلکہ معیوب سمجھتا ہو اس لباس کو پہن کر نماز پڑھنا یا پڑھانا مکروہ ہے اور جب کہ لنگی پہن کر خطبہ پڑھانے والے، لنگی باندھنے اور مجالس میں جانے باہر نکلنے کے عادی ہیں، تو پھر نماز پڑھانے میں بھی کراہت نہیں ہے۔(۱)(۱) قولہ: (وصلاتہ في ثیاب بذلۃ) … قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایۃ: بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷)وتکرہ الصلاۃ في ثیاب البذلۃ، کذا في معراج الدرایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہند، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني: فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 131