Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2710/45-4226
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر معاملہ کرتے وقت اس طرح کی شرط تھی کہ مضارب اپنی مرضی سے کام کرے گااور رب المال نے اس اجازت کے ساتھ اس کو مال دیا تھا تو ایسی صورت میں مضارب کے لیے کسی دوسرے کو بطور مضاربت کے مال دینا اور اس سے نفع حاصل کرکے مضارب اول اور رب المال کے درمیان شر ط کے مطابق تقسیم کرنا جائز ہے۔
فإن كان قال له اعمل فيه برأيك، فله أن يعملجميع ذلك إلا القرض؛ لأنه فوض الأمر في هذا المال إلى رأيه على العموم وقد علمنا أن مراده التعميم فيما هو من صنع التجار عادة فيملك به المضاربة والشركة والخلط بماله؛ لأن ذلك من صنع التجار كما يملك الوكيل توكيل غيره بما وكل به إذا قيل له اعمل فيه برأيك ولا يملك القرض؛ لأنه تبرع ليس من صنع التجار عادة فلا يملكه بهذا اللفظ كالهبة والصدقة (المبسوط،22/40)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی گنجائش ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ طہارت اس ہاتھ سے نہ کرے، جس میں انگوٹھی ہے؛ مناسب ہے کہ تعویز ہو یا انگوٹھی اس کو نکال کر ہی جائے۔(۱)
(۱) قلت لکن نقلوا عندنا أن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب : إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۵۵۲)؛ و یکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللّٰہ تعالیٰ أو شيء من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، الإستنجاء علی خمسۃ أوجہ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۶)؛ و عن أنس رضی اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۴۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب نے قربانی کے جانور کی قیمت، اس سے متعلق اخراجات قربانی کرانے والوں سے لیے اس میں کوئی حرج نہیں تھا، پھر کچھ نمازیوں کے کہنے پر وہ کام بھی بند کردیا یہ اور بھی اچھی بات ہوئی تو بظاہر امام صاحب کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہے اس لیے بشرطِ صحت سوال ان کی امامت درست ہے ان کی اقتدا چھوڑ کر کوئی انتشار پیدا کرنا غلط ہے۔ (۱)
(۱) وأما الإجماع فإن الأمۃ اجمعت علی ذلک قبل وجود الأصم حیث یعقدون عقد الإجارۃ من زمن الصحابۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہم إلی یومنا ہذا من غیر نکیر فلا یعبأ بخلافہ إذ ہو خلاف الإجماع۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الإجارۃ،’’فصل في رکن الإجارۃ ومعناہا‘‘:ج۴، ص:۱۷۴، المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
لوأم قوما وھم لہ کارھون إن الکراھۃ لفساد فیہ أو لأنھم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریما۔ وإن ھو أحق لا والکراھۃ علیھم۔ ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار ج۲، ص۸۹۲، زکریا، دیوبند
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص52
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص واقعی طور پر مدرسہ نہ ہونے کے باوجود دھوکہ دے کر، جھوٹ بول کر مدرسہ کا چندہ کرتا ہے تو یہ شخص فاسق ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے کسی متقی، دیندار، پرہیز گار شخص کو امام مقرر کیا جائے۔(۲)
(۲) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند) ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لابنال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص180
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2749/45-4293
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال جس شخص كی جس حركت كا آپ تذکرہ کر رہے ہیں وہ بچکانہ حرکت معلوم ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے وہ ابھی حد بلوغ کو نہ پہونچا ہو جو شرعاً ما مور نہیں ہوگا اور اگر واقعی وہ بالغ ہے تو عمل کثیر کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو گئی تھی اس پر اعادہ لازم ہے، نمازی کی نماز میں جان بوجھ کر خلل ڈالنے والا گنہگار ہوتا ہے اسے چاہئے کہ توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کی حرکتوں سے باز رہے، کیونکہ نمازی کی نماز میں خلل ڈالنا یا آگے سے گزرنا عابد اور معبود کے مابین حامل ہونا ہے جس پر کافی وعید وارد ہوئی ہے۔
عن أبي جهيم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه مكان أن يقف أربعين خبراً له من أن يمر بين يديه‘‘ (مشكوة المصابيح، ’’كتاب الصلاة‘‘: ص: 74)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:گرمی کی وجہ سے مسجد کے اصل جماعت خانہ اور صحن مسجد کو چھوڑ کر چھت پر عشاء اور تراویح کی جماعت کرنا مکروہ ہے، ہاں جن کونیچے جماعت خانہ اور صحن میں جگہ نہ ملے اگر وہ چھت پر جاکر نماز پڑھ لیں، تو بلا کراہت جائز ہے، کہ یہ مجبوری ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ؛ ولہذا إذا شتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذٍ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ‘‘(۱) شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد الخ، ویلزمہ کراہۃ الصلوۃ أیضاً فوقہ فلیتأمل‘‘(۲) اس لیے گرمی میں صحن مسجد میں نماز باجماعت بدون حرج کے بھی صحیح ہے(۳) اور اگر کسی جگہ صحن داخل مسجد نہ ہو اور مسجد سے خارج ہو، تو بانی مسجد یا متولی مسجد اور جماعت کے لوگ باہم متفق ہوکر اس کے داخل کرنے کی نیت کرلیں، تو صحن داخل مسجد ہو جائے گا اور اس پر مسجد کے جملہ احکام جاری ہوں گے۔(۴)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۸۔
(۳) وفناء المسجد لہ حکم المسجد۔ (أیضًا:’’باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۲)
(۴) أرض وقف علی مسجد والأرض بجنب ذلک المسجد وأرادوا أن یزیدوا في المسجد شیئاً من الأرض جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق بہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص517
نماز / جمعہ و عیدین
الجــواب وباللہ التوفـیـق:عیدین میں جماعت سے قبل اذان دینا بلا شبہ بدعت ہے۔(۱)
(۱) وروي محمد بن الحسن أنا أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن حماد بن أبي سلیمان عن إبراہیم النخعي عن عبد اللّٰہ بن مسعود وکان قاعداً في المسجد الکوفۃ ومعہ حذیفۃ بن الیمان وأبو موسیٰ الأشعري فخرج علیہم الولید ابن عقبۃ بن أبي معیط وہو أمیر الکوفۃ یومئذ فقال: إن غداً عیدکم فکیف أصنع؟ فقالا: أخبرہ یا أبا عبد الرحمن! فأمرہ عبد اللّٰہ بن مسعود أن یصلی بغیر أذان والإقامۃ الخ‘‘ (إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیري، ’’فصل في صلاۃ العید‘‘: ص: ۴۹۰، دار الکتاب دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی یوم العید بغیر أذان ولا إقامۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۹۱، رقم: ۱۲۷۴)
الأذان سنۃ للصلوات الخمس والجمعۃ لا سواہا للنقل المتواتر۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص157
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نمازپوری ہوجانے کے بعد اتفاقاً دو چار آدمیوں کا صف سے الگ یا تھوڑا ہٹ کر تسبیح پڑھنے والوں کو منافق کہنا درست نہیں تسبیح کے دوران صف سے تھوڑا آگے پیچھے ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب یستقبل الإمام الناس إذ سلّم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷: )
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو وردٍ۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمینا وشمالا وأماما وخلفا وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (ابن عابدین،در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما لو زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء أن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص426
بدعات و منکرات
Ref. No. 2805/45-4393
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی تقریبات میں چھوٹی بچیوں کے ذریعہ نعت و ترانے پیش کرنے اور مختصر اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم بچیوں کو غیرشرعی لباس پہنانا یا ترانے و نعت میں ڈانس کے طور پر اشارے کرانا جائز نہیں ہے۔ بڑی اور بالغ بچیوں کو پروگرام میں سب کے سامنےلانا فتنہ کا باعث ہے یہاں تک کہ پردہ کے ساتھ بھی مناسب نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار کعت ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ رکعت سنت مؤکدہ ہیں؛ اس لیے نماز جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے سنت مؤکدہ کی نیت سے اور دو رکعت سنت مؤکدہ کی نیت سے الگ سے پڑھے اور صرف چار رکعت سنت مؤکدہ پڑھنے والے کو ملامت نہ کی جائے۔
’’وأربع قبل الجمعۃ وأربع بعد ہا وکذا ذکر الکرخي، وذکر الطحاوي عن أبي یوسف أنہ قال: یصلي بعدہا ستاً وقیل ہو مذہب علي رضي اللّٰہ عنہ وما ذکرنا أنہ کان یصلي أربعاً مذہب ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الصلاۃ المسنونۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔)
(و السنۃ قبل الجمعۃ أربع وبعدہا أربع) … (وعند أبي یوسفؒ) السنۃ بعد الجمعۃ (ست) رکعات وہو مروي عن علي رضي اللّٰہ عنہ و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’فصل في النوافل‘‘: ج ، ص: ۳۳۷، دارالکتاب دیوبند)
وسنّ مؤکداً (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعۃ) وأربع (بعدہا بتسلیمۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۵۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص350