Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1787/43-1534

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the girl did not like the proposal but the family members got her married and the girl did not say anything then the silence will be considered as consent and the marriage will be valid. Nevertheless, the family members should not do so, otherwise it may lead to a lot of difficulties in future whose remedy will be impossible. Moreover, if the girl rejected the proposal clearly, even then the parents got her married, so the marriage did not take place. Since, it is not permissible to marry off a sane adult girl without her consent; such a marriage will not take place legally. However, if the girl is a minor, then the marriage is valid.

لايجوز ‌نكاح ‌أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج." (الفتاوى الهندية (1/ 287، كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء، ط: رشيدية)

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 247، کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

And Allah knows the best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

عائلی مسائل

Ref. No. 1880/43-1752

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کارشتہ بہت نازک ہوتاہے، اس کو بہت سنبھال کر رکھنا ہوتاہے، تھوڑی سی بے توجہی سے وہ رشتہ ٹوٹ جاتاہے اور دونوں گھرانے برباد ہوجاتے ہیں۔ موجودہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے۔ بیوی سے پیار و محبت  اس کا بنیادی حق ہے۔ خامیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں ان کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو نرمی اور پیار سے ہی ممکن ہے، سختی اور زبردستی سے کام خراب ہوجاتاہے۔ میاں بیوی کی اس لڑائی میں کون حق پر تھا اور کس کی غلطی کتنی تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اس لئے آپ اور آ پ کے والد صاحب توبہ واستغفار کریں، مرحومہ  کی مغفرت کے لئے دعاکریں کہ اس نے جرم عظیم کیا ہے، خودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ آپ لوگوں  کی اور مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2321/44-3482

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے مہمل  لوگ پہلے سے کسی کے بارے میں کسی دوسرے سے  کچھ جانکاری حاصل کرلیتے ہیں، اور پھر اس کو اس انداز سے بیان کرتےےہیں کہ جیسے ان کو غیب کی خبر ہو، حالانکہ جوکچھ اس طرح کے پنڈت اور نجومی کسی کے بارے میں بتاتے ہیں، وہ محض ایک اندازہ ہے جو اکثر جھوٹ ثابت ہوتاہے، نیزبعض علامتوں سے کسی چیز کے بارے میں تخمینی بات کہنا غیب کی خبر کے مترادف نہیں ہے، اس لئے عالم الغیب صرف اور صرف حق  جل مجدہ کی ذات ہے،حق تعالی ہی  تمام چیزوں کی پوری پوری خبررکھنے والے ہیں،  اور ہر ایک کے مستقبل سے پوری طرح واقف ہیں۔   جو لوگ ان جھوٹے اور مکار نجومیوں کی  باتوں پر یقین کرکے ان کے پاس جاتے ہیں ان کا ایمان سلب ہوجاتاہے۔ اس لئے  مسلمانوں کو  چاہئے کہ اس طرح کے ڈھونگیوں سے ہوشیار رہیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔

- "وعن عائشة قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الملائكة تنزل في العنان - وهو السحاب - فتذكر الأمر قضي في السماء، فتسترق الشياطين السمع فتسمعه فتوحيه إلى الكهان، فيكذبون معها مائة كذبة من عند أنفسهم» ". رواه البخاري".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2904)  ط: دار الفكر، بيروت)

- "وعن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «سأل أناس رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكهان، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنهم ليسوا بشيء. قالوا: يا رسول الله، فإنهم يحدثون أحياناً بالشيء يكون حقاً. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تلك الكلمة من الحق، يخطفها الجني، فيقرها في أذن وليه قر الدجاجة، فيخلطون فيها أكثر من مائة كذبة» . متفق عليه".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  (7 / 2903) ط: دار الفكر، بيروت)

"وعن حفصة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من أتى عرافاً فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلةً» ". رواه مسلم". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2905) ط: دار الفكر، بيروت)

وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من أتى كاهناً فصدقه بما يقول، أو أتى امرأته حائضاً، أو أتى امرأته في دبرها فقد برئ مما أنزل على محمد» ". رواه أحمد، وأبو داود". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2907) ط: دار الفكر، بيروت)

" باب الكهانة، بفتح الكاف، وكسرها كذا في النسخ، وفي القاموس كهن له كمنع، ونصر، وكرم كهانة بالفتح قضى له بالغيب، وحرفته الكهانة بالكسر اهـ. والمراد بها هنا الأخبار المستورة من الناس في مستقبل الزمان". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2902) ط: دار الفكر، بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 2352/44-3538

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is permissible for you to pray Zuhr instead of Friday prayer in such a compulsion, but missing the regular Friday prayer is a matter of great concern and deprivation, so either try to get permission for Friday prayer or take your monthly leave on Friday so that you may get at least one or two Fridays in a month, and if all attempts to offer Friday prayer fail, do continue to look for another job, and hold on to the current job until another suitable job is found.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2560/45-3907

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غیرماکول اللحم جانور کا بول و براز ناپاک ہے، چھپکلی بھی غیرماکول اللحم جانور ہے، لہذا اس کی بیٹ ناپاک ہے، اگر وضوخانہ کی نالی میں پانی جمع رہتاہے اور اس میں چھپکلی کی بیٹ پڑی ہوتو وہ پانی ناپاک ہے، اگر دوران وضو اس کی چھینٹیں بدن یا کپڑے پر لگ جائیں  تو ناپاک ہوں گے۔

وبول غیرماکول اللحم  ولو من صغیر لم یطعم ۔ ۔ ۔ وروث وخثی افاد بھما نجاسۃ خرء کل حیوان غیرالطیور ۔ وقال ابن عابدین (قولہ افاد بھما) اراد بالنجاسۃ المغلظۃ  (رد المحتار مع الدرالمختار- باب الانجاس  ج1ص523 تا 525) واشار بالروث والخثی الی نجاسۃ خرء کل حیوان غیرالطیور (البحر الرائق 2/242 دارالکتاب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔(۱)

(۱) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’لیس بحدیث إنما ہو کلام السری السقطی‘‘۔ (المصنوع في أحادیث الموضوع: ص: ۸۲)
رواہ أبو الشیخ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً، وفي إسنادہ عثمان بن عبد اللّٰہ القرشي وإسحاق بن نجیع المطلي کذّابان والمتہم بہ أحدہما، وقد رواہ الدیلمي من حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ من وجہ آخر: (الفوائد المجموعۃ: ص: ۲۴۲، عمدۃ الأقاویل في تحقیق الأباطیل: ص: ۲۴۷؍ ۲۷۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر حکمت جانے حکم کو تسلیم کرنے کا نام اطاعت ہے احکامِ شریعت کی حکمت تلاش کرنا شان عبدیت کے خلاف ہے، بس یہ سمجھنا چاہئے کہ جب حکم کرنے والا حکیم ہے، تو اس کے حکم میں ضرور کوئی حکمت ہوگی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، بندہ کا کام حکم بجا لانا ہے، نہ کہ وجہیں تلاش کرنا، ہاں ایسی حکمتیں تلاش کرنا جو حکم خداوندی کی عظمت میں اضافہ کرتی ہوں ممنوع نہیں ہے؛ اس لیے بعض علماء نے احکام خداوندی کی کچھ حکمتیں بیان کی ہیں، کہ ریح خارج ہونے سے ملائکہ سے دوری ہو جاتی ہے اور طبیعت میں سستی آ جاتی ہے، وضو کرنے سے طبیعت میں فرحت ونشاط پیدا ہو جاتا ہے اور فرشتوں کا قرب نصیب ہو جاتا ہے، شیاطین سے دوری ہو جاتی ہے، وضو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عظمت اور اس کی توقیر کا اظہار بھی ہے، اس جگہ کا دھونا جہاں سے ریح خارج ہوئی ہے؛ اس لئے ضروری نہیں کہا گیا کیونکہ وہاں سے کوئی نجاست کا خروج تو ہوا نہیں کہ اسے دھویا جائے۔
’’وقیل إن العبد إذا شرع في الخدمۃ یجب أن یجدد نظافتہ وأیسرہا تنقیۃ الأعضاء التي تنکشف کثیراً لتحصل بہا نظافۃ القلب إذ تنظیف الظاہر یوجب تنظیف الباطن‘‘(۱)
’’فلا یسن من ریح لأن عینہاطاہرۃ وإنما نقضت لانبعاثہا عن موضع النجاسۃ‘‘(۲)

(۱) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلفہ پی کر نشہ ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ لیکن اگر نشہ اتنا ہو کہ نیند کی طرح غفلت ہو جائے، تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۱)

(۱) و منھا: الإغماء والجنون، والغشي والسکر … و حد السکر في ھذا الباب: أن لا یعرف الرجل من المرأۃ عند بعض المشائخ، وھو اختیار الصدر الشھید۔ والصحیح، ما نقل عن شمس الأئمۃ الحلواني: أنہ إذا دخل في بعض مشیتہ تحرک، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۳)؛  و ینقضہ إغماء و منہ الغشي و جنون و سکر بأن یدخل في مشیہ تمایل۔(الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘ ج۱، ص:۲۷۴)؛  وفي الخلاصۃ : السکر حدث إذا لم یعرف بہ الرجل من المرأۃ۔ و في المجتبیٰ: إذا دخل في مشیتہ تمایل، وھو الأصح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۵۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:  بشرط صحت سوال ہندہ کے شوہر کا امام بننا درست ہے امامت میں کوئی کراہت نہیں ہے ہندہ کو گھر میں رہنے کے لیے کہا جائے اور جس کام میں واقعۃ وہ معذور ہے اس پر زبردستی نہ کی جائے۔(۱)

(۱) قولہ بشرط اجتنابہ الخ، کذا في الدرایۃ المجتبی وعبارۃ الکافی وغیرہ الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لا یرغبون في الاقتداء بہ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
{وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰیط وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَایُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّلَوْکَانَ ذَا قُرْبٰیط اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَط وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُہ۱۸} (الفاطر: ۱۸)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر عما لم یکن متبدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں زید بلا شبہ فاسق ہے اور علامت نفاق میں سے ایک امانت میں خیانت بھی ہے۔ حدیث شریف میں ’’إذا أوتمن خان‘‘ اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ در مختار میں ہے۔
’’وتکرہ إمامۃ عبد وفاسق، وقال في رد المحتار: مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
نیز شامی نے لکھا ہے کہ ایسا شخص قابل اہانت ہے اور امامت عہدۂ عظمت ہے وہ ایسے شخص کو نہ دیا جائے جو کہ واجب الاہانۃ ہو۔(۲)
لہٰذا ایسے شخص کو امامت ومدرسی سے الگ کر دیا جائے اور جو رقوم اس پر واجب الادا ہوں وہ وصول کی جائیں۔(۳)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) لو صلی خلف فاسق أو مبتدع ینال فضل الجماعۃ؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی علی خلف نبي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص205