Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعمال صالحہ (خواہ زبانی یا قلب) کی نیت پر صرف نیت کا ثواب ملتا ہے اور جب اس عمل کو بندہ کرتا ہے، تو کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، ظاہر ہے کہ نیک عمل کرنے کا ثواب صرف نیت والے ثواب سے زیادہ ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ عز وجل: إذا ہم عبدي بحسنۃ ولم یعملہا کتبتہا لہ حسنۃ فإن عملہا کتبتہا لہ عشر حسنات إلی سبعمائۃ ضعف وفي روایۃ إلی أضعاف کثیرۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب إذا ہمّ العبد بحسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۸)
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبعمائۃ ضعف۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل الصیام‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳، رقم: ۱۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص385
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبرستان ایسی جگہ کا نام ہے کہ وہاں جا کرآدمی کو آخرت اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کے کام کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے آخرت کی طرف توجہ ہوتی ہے، کسی قبر پر یا قبروں کے قریب استنجا کرنا یا گوبر وغیرہ ڈالنا حماقت وجہالت ہے، یہ صورت بالکل ناجائز ہے، لوگوں کو اس سے روکا جائے اور قبرستان کی حفاظت کے جو عرفی طریقے ہیں وہ اختیار کئے جائیں۔
’’یحرم قضاء الحاجۃ فوق المقبرۃ وعلۃ ذلک ظاہرۃ فإن المقابر محل عظات وعبرۃ فمن سوء الأدب والخلق أن یکشف الإنسان فوقہا سوئتہ ویلوثہا بالأقذار الخارجۃ منہ علی أنہ قد صح عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ حث علی زیارۃ القبور لتذکر الآخرۃ فمن الجہل والحماقۃ أن یتخذ الناس الأماکن التي تزار للتذکروالاعتبار محلا للبول والتبرز‘‘(۱)
’’وفي مقابر لأن المیت یتأذي بما یتأذي بہ الحي والظاہر أنہا تحریمیۃ‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: محبث آداب قضاء الحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب القول المرجح علی الفعل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص95
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بغیر مسواک کے منہ کی صفائی کی سنت تو ادا ہو جائے گی؛ لیکن لکڑی کے فوائد سے محروم ہوں گے۔(۱)
(۱)عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ یجزئ من السواک الأصابع۔ و روی الطبراني عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا قالت : قلت یارسول اللہ ﷺ الرجل یذھب فوہ یستاک؟ قال نعم: قلت کیف یصنع؟ قال یدخل أصبعہ في فیہ۔ قال النووي : و یستحب أن یبدأ بالجانب الأیمن من فمہ عرضا ولا یستاک طولا لئلا یدمی لحیۃ أسنانہ فإن خالف صح مع کراھۃ۔ (علي بن محمد ملا علي، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’باب السواک،‘‘ ج۲، ص:۸۰مکتبۃ فیصل، دیوبند)؛ و تقوم الأصبع أوالخرقۃ الخشنۃ مقامہ عند فقدہ أو عدم أسنانہ في تحصیل الثواب لا عند وجودہ۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۲۱ (شاملہ))؛ وعن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ تجزئ الأصابع مجري السواک۔ (أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستیاک بالأصابع،‘‘ ج۱، ص:۱۳۴، رقم:۱۷۸(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص199
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف شادی نہ ہونا امامت و اذان کے ناجائز ہونے کا سبب نہیں ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی دوسری بات کراہت کی اس میں نہیں ہے تو ایسے شخص کا امام بنانا اور اذان دینا بلا شبہ جائز ہے، جن لوگوں نے ناجائز بتایا وہ غلطی پر ہیں اور جہالت کا شکار ہیں۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
قولہ بأحکام الصلاۃ فقط أيْ وإن کان غیر متبحّر في بقیۃ العلوم، وہو أولی من المتبحر، کذا في زاد الفقیر عن شرح الإرشاد۔ (قولہ ثم الأحسن زوجۃ) لأنہ غالبا یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا۔ (أیضًا)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص59
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال امام صاحب کے لیے مذکورہ بالا امور شرعاً و اخلاقاً ناجائز اور منصب امامت کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں ان کو ان تمام حرکتوں سے فوری توبہ کرلینی چاہئے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے بصورت دیگر اراکین کمیٹی کو چاہئے کہ ایسے امام کو تبدیل کردیں اور کسی نیک اور صالح امام کو مقرر کرلیں تاہم فتنہ وفساد سے ہر حال میں بچا جائے جب تک اس امام کو کمیٹی والے تبدیل نہ کریں اس کے پیچھے نمازیں ادا ہوجاتی ہیں۔
’’أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال: فضل الجماعۃ أفاد أن الصلوٰۃ خلفہما أولی من الإنفراد؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۱۔
(۲) أیضًا:۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص187
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کیف ما اتفق زید، عمر، بکر وغیر کے ناموں کے ساتھ اس قسم کے جملے املاء میں لکھا دئیے جاتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں، دوسروں کو اس پر بدگمانی نہیں کرنی چاہئے ورنہ تو خواہ مخواہ بدگمانی کرنے والے سخت گنہگار ہوں گے جب کہ امام کے دوسرے معاملات سے اس کی دینداری اور دینی تعلیم کا جذبہ بھی ظاہر ہے اور نماز ایسے امام کے پیچھے درست اور صحیح ہے۔(۱)
(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامتہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأحق بالامامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
من أبغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر … ویخاف علیہ إذا شتم عالماً أو فقیہاً من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا مایتعلق بالعلم والعلماء‘: ج۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص277
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض فقہاء نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لیے اگر کبھی کسی وجہ سے جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ گھر میں جماعت کرلی جائے جیسا کہ ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔(۱)
محدث ہیثمی ؒ نے کہا کہ اس حدیث کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا۔ شیخ حسن سلمانؒ نے بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔(۲)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر ۰۸۳۹‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے نیز ابن عبد الرزاق نے ’’مصنف ۲/۹۰۴/۳۸۸۳‘‘ میں ذکر کیا ہے)۔
’’عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثم آمر رجلاً فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، الخ۔‘‘(۱)
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۲)
’’قال في الشامي: (قولہ: وتکرار الجماعۃ) لما روي عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ‘‘ المرأۃ إذا صلت مع زوجہا في البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعۃ، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلۃ تقع رأس المرأۃ في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرۃ للقدم‘‘(۳)
(۱) معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ج۲، ص۵۴، المعجم الاوسط ج۵،ص ۱۰۶۴،ج ۷،ص ۲۸۶، المجروحین لابن حبان ج ۳ص۴، ۵، الکامل لابن عدی ج ۶،ص۸۹۳۲۔
(۲) إعلام العابد في حکم تکرار الجماعۃ فی المسجد الواحد، ص ۴۳
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کیف الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، رقم: ۵۰۶،ط: اشرفی دیوبند۔
(۲) أخرجہ البخاري، فيصحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، رقم: ۶۴۵۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ ج ۲، ص: ۲۸۸۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص381
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:کوئی شخص صحیح اسلامی عقیدہ کا حامل ہو، شہادتین اور ارکان وواجبات اسلام نیز فرائض پر اعتقاد رکھتا ہو، آخرت و تقدیر کو برحق سمجھتا ہو تو وہ مسلمان ہے۔ عمداً حالت حدث میں نماز پڑھنے کے دو معنی ہیں؛ اگر اعتقاد یہ ہے کہ وضو نماز کی صحت کے لیے لازم اور ضروری نہیں ہے، تو اس شخص پر کفر عائد ہوجائے گا؛ اس لیے کہ نماز کے لیے وضو کا ہونا قرآن مقدس سے ثابت ہے(۱) اوراگر اعتقاد یہ ہے کہ نماز کے لیے وضو تو ضروری ہے اس کا پختہ عقیدہ ہے اس کے باوجود بغیر وضو نماز پڑھ لی تو یہ شخص انتہائی گناہگار ہے، گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ البتہ شرعاً کافر نہیں ہے اس لیے کہ یہ عملاً نافرمانی ہے، اعتقاد اس کا صحیح ہے،(۱) اس شخص پر توبہ لازم ہے۔ مذکورہ شخص کی جو بھی مراد ہو کس نظریہ سے اس نے ایسا کیا ہے؟ اس سے معلوم کرلیا جائے کہ شریعت کا قاعدہ ہے اگر کسی شخص کے کفرمیں ننانوے احتمال ہوں اور ایک احتمال عدم کفر کا ہو یعنی اسلام کا ایک احتمال ہو تو احتمال اول کو ترک کرکے دوسرے احتمال ہی کو اختیار کیا جائے گا؛ پس بغیر تعیین کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا؛ البتہ یہ شخص بلا شبہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۲)
(۱){ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ط} (سورۃ المائدہ: ۶)
الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر، کصلاتہ لغیر القبلۃ أومع ثوب نجس وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۸۵، ۱۸۶)
(۲) في الخلاصۃ وغیرہا إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم۔ (ابن عابــدین، الـدر المختـار مع رد المحتار،’’کتاب الجہاد‘‘ باب المرتد،مطلب مایشک أنہ ردۃ لایحکم بہا‘‘:ج ۶، ص: ۳۵۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 27
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اذان درست ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں؛ اس لیے کہ یہ معمولی غلطی ہے؛ لیکن اگر کسی جگہ مؤذن کی عادت ہو تو پھر اس کو بتانے اور سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ اذان سنت کے مطابق دی جائے۔
’’وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول: أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت منظومۃ مرتبۃ، فتؤدی علی نظیرہ وترتیبہ إن مضی علی ذلک جازت صلاتہم‘‘(۱)
(۱) برہان الدینالمرغینانی، المحیط البرہاني، في فقہ النعماني، کتاب الصلاۃ، بیان الصلاۃ التي لہا أذان والتي لا أذان لہا وفي بیان أنہ في أي حال یری بہ، في تداک الحد الواقع فیہ: ج ۱، ص: ۳۴۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص166