طہارت / وضو و غسل
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت میرا ایک سوال ہے میرے گھر کے اوپر چھت میں کرکٹ لگا ہوا ہے جہاں پر کیڑے مکوڑوں کی بیٹ بہت زیادہ پائی جارہی ہے اور میں نے مفتیان کرام سے سنا ہے کہ وہ بیٹ ناپاک ہے مجھے پریشانی یہ ہوتی ہے کہ بارش کا موسم ہوتا ہے بارش ہوتی ہے تو اس بیٹ سے ٹچ ہو کر نیچے پانی گرتے رہتا ہے جس کی وجہ سے کافی آنے جانے میں بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے اور میں نے صرف اپنے گھر پر ہی نہیں بلکہ میں بہت گھروں پر اس طریقے سے بیٹ میں نے دیکھ چکا ہے حضرت اس سے بچنا بہت مشکل لگتا ہے حضرت میں نے بیٹ بہت دفعہ صاف بھی کیا ہے لیکن بھی بیڈ آجاتا ہےحضرت اس کے بارے ذرا رہنمائی فرما دیں کہ اس سے کیا کرنا چاہیے کیونکہ میں بہت پریشان ہوں حضرت اس کا جواب جلد سے جلد میرے تک پہنچانے کی کوشش کریں جزاک اللہ

Death / Inheritance & Will

 

Ref. No. 1876/43-1737

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the legal heirs are only one son and four daughters, then the entire property left by mother shall be divided into six shares, out of which two shares shall go to the son, and each daughter will get one share. The son gets double share and daughter gets single share.

للذکر مثل حظ الانثیین (سورۃ النساء)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2053/44-2053

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The purpose of cutting these hairs is cleanliness, and this purpose can be achieved with a machine as well as with a blade, but it is better to use a blade or a razor.

ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".

(الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها (5/358)

"وأما الاستحداد فهو حلق العانة سمي استحداداً؛ لاستعمال الحديدة وهي الموسى، وهو سنة، والمراد به نظافة ذلك الموضع، والأفضل فيه الحلق، ويجوز بالقص والنتف والنورة، والمراد بالعانة: الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذاك الشعر الذي حوالي فرج المرأة".

(شرح النووي علی مسلم، کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة (3/148) ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

: الفطرة خمس، منھا الاستحداد (مشکاة المصابیح: ۲/۳۸۰، کتاب اللباس باب الترجل)

قال القاري: الاستحداد أي حلق العانة وھو استفعال من الحدید من نحو الموسیٰ في حلق العانة، فإن أزال شعرہ بغیر الحدید لا یکون علی وجہ السنة (مرقاة المفاتیح: ۸/۲۸۹، باب الترجل مکتبہ امدادیہ پاکستان)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2150/44-2227

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو عورت کسی کے نکاح میں پہلے سے ہے اس کا نکاح کسی دوسرے مَرد سے حرام ہے، اگر نکاح کرلیا تو نکاح باطل ہوگا، اور زنا کی مرتکبہ ہوگی، اور فوری تفریق لازم ہے، البتہ اگر عورت پہلے شوہر سے خلع لے لے یا قاضی کے یہاں فسخ نکاح کا دعوی کرے اور قاضی شرعی ضابطہ کو بروئے کار لاتے ہوئے نکاح کو فسخ کردے، تو پھر عدت گزار کر دوسرے مَرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

ومنھا ان لا تکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالی "والمحصنات من النساء  وھی ذوات الازواج (بدائع الصنائع 2/548، زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ تمام بشری تقاضوں سے پاک ہوتے ہیں۔(۱)

(۱) {ھَلْ أَتٰئکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ إِبْرٰھِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ہم ۲۴  إِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ہج ۲۵  فَرَاغَ إِلٰٓی أَھْلِہٖ فَجَآئَ  بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ ہلا ۲۶  فَقَرَّبَہٗٓ إِلَیْہِمْ قَالَ ألََا تَأْکُلُوْنََ ہز  ۲۷ } (سورۃ الذٰریات: ۲۴ - ۲۷)
عن ابن عباس {وَعَلَّمَ أٰدَمَ الْأَسْمَآئَ کُلَّھَا} قال علمہ أسماء ولدہ إنسانا إنسانا والدواب، فقیل: ہذا الحمار، ہذ الجمل، ہذا الفرس، وقال: أیضاً: ہي ہذہ الأسماء التي یتعارف بہا الناس: إنسان ودابۃ، وسماء، وأرض، وسہل، وبحر، وجمل، وحمار، وأشباہ ذلک من الأمم وغیرہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ البقرۃ: ۳۱‘‘: ج ۱، ص: ۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص254

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ نے دودھ پینے کے فوراً بعد قئی کردی ہے اور وہ دودھ ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا، بلکہ منہ میں ہی تھا اور بچہ نے قئی کردی تو وہ ناپاک نہیں ہے۔ اگر وہ بدن میں یا کپڑے میں لگ جائے تو اس کو دھونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وہ دودھ حلق سے نیچے اتر گیا تھا پھر بچے نے دودھ کی قئی کی تو وہ ناپاک ہے، اس کے بدن یا کپڑے پر لگنے کی صورت میں دھونا ضروری ہے اس لیے کہ حلق میں جانے کی وجہ سے اس کا اتصال نجاست سے ہوگیا ہے۔
و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ قیل ھو المختار والصحیح ظاھر الروایۃ، أنہ نجس لمخالطتہ النجاسۃ و تداخلھا فیہ بخلاف البلغم۔(۱)
قال الحسن ’’إذا تناول طعاما أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینقض، لأنہ طاھر حیث لم یستحل و إنما اتصل بہ قلیل القئي فلا یکون حدثا فلا یکون نجسا، و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ و صححہ في المعراج و غیرہ، و محل الاختلاف ما إذا وصل إلی معدتہ ولم یستقر، أما لو قاء قبل الوصول إلیھا وھو في المرئي فإنہ لا ینقض اتفاقا۔۔۔ لأن ما یتصلہ بہ قلیل وھو غیر ناقض۔(۲)

(۱)ابراہیم، حلبي کبیري،ج۱، ص:۱۲۹
(۲)ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱،ص:۶۷


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص456

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض ستر وغیرہ دیکھنے اور ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہاں دوبارہ وضو کر لینا بہتر ہے ۔(۱)

(۱)عن قیس بن طلق بن علي عن أبیہ عن النبي ﷺ قال: وھل ھو إلا مضغۃ منہ أو بضعۃ منہ، (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب ترک الوضو من مس الذکر،‘‘ ج۱، ص:۲۵)؛ و أنہ سئل عن الرجل یمس ذکرہ في الصلوٰۃ فقال: ھل ھو إلا بضعۃ منک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و لا ینقض الوضوء مس الذکر و کذا مس الدبر والفرج مطلقا۔ (ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص۸۲)؛ و ’’ولا ینقضہ (مس ذکر) لکن یغسل یدہ ندباً، ولکن یندب للخروج من الخلاف لا سیما للإمام‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص۲۷۸-۲۷۹، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: (۱) شدید ضرورت میں لون لینے کی گنجائش ہے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلاکراہت جائز ہے، اگر شدید مجبوری نہ ہو تو امامت مکروہ ہے۔(۱)
(۲) مقتدیوں کی ناراضگی اگر شرعی وجہ سے ہو مثلاً امام احکام شرعیہ کے خلاف کرتا ہو اور ایسا کرنا شرعاً ثابت بھی ہو تو اس صورت میں فتویٰ یہی ہوگا کہ اس امام کو معزول کردیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے؛ بلکہ ناراضگی کسی ذاتی وجہ کی بنا پر ہو تو امام کی امامت پروہ ناراضگی بالکل اثر انداز نہیں ہوگی اور امامت اس کی بلاشبہ جائز و درست ہوگی۔(۲)
(۳) امام پر ضروری ہے کہ وہ فوٹو ہٹادے اگر قدرت کے باوجود وہ نہیں ہٹائے گا تو نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی لیکن بکراہت ہوگی۔(۳)

(۱) وفي القنیۃ والبغیۃ یجوز للمحتاج الاستقراض الربح انتہی۔ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الأول، القاعدۃ الخامسۃ‘‘: ص: ۹۳ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریمًا لحدیث أبي داؤد، لایقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قومًا وہم لہ کارہون، وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)

(۳) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔۔۔۔ وقال في مجمع الروایات۔ وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزًا ثواب الجماعۃ؛ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳،  شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص76

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے اگر سچی توبہ کریں اور اس کا اعلان کریں تو پھر ان کی امامت بلا کراہت درست ہوگی نیز امامت پر باقی رکھنے یا علاحدہ کرنے کا اختیار مسجد کی کمیٹی، متولی اور مصلیان مسجد کو ہے۔(۱)

(۱) کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الاستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد۔ وشرعًا: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالٰی بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ (فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ) تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص201

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: امام کو مقررہ وقت پر حاضر رہنا ضروری ہے، منٹ، دو منٹ انتظار کرنے کی گنجائش ہے، اگر اس سے زائد کی تاخیر کرے، تو دوسرا شخص نماز پڑھادے اور امام تاخیر کی وجہ سے قصور وار ٹھرایا جائے گا، لیکن اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جائے، تو قصور وار نہیں ہوگا۔(۳)

(۳) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الفاسق الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ ولفظہ لا بأس تقید في الغالب أن ترکہ أفضل فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص289