ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1864/43-1727

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ سے پیسے لیتاہے اور والد کی طرف سے متعینہ رقم سے زیادہ خرچ کرنے کی صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہیں ہے تو زائد پیسہ واپس کرنا ضروری ہے۔  نیز باپ سے جس مقصد کے لئے پیسے مانگے تھے، اسی مقصد میں صرف کرنا ضروری ہے؛ سوال میں مذکور صورت کذب بیانی ہے،اور جھوٹ سے بہرحال  پرہیز ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Business & employment
click here: https://dud.edu.in/darulifta/?qa=4059/mining-trading-currency-allowed-person-earning-jazakallah&show=4059#q4059

متفرقات

Ref. No. 2197/44-2345

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  چونکہ اس شخص نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملازمت اختیار کرنے سےا نکار کردیا، اس لئے اس کا دست برداری کے کاغذ پر صلح کا عوض وصول کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں ایک بڑی تعداد کا کھانا بھی اپنے ذمہ ڈالنا جب کہ برداشت سے باہر ہو، شرعاً درست نہیں ہے۔(۱) ان رسوم کو شرعی اور لازمی درجہ دیدینا تو قطعاً جائز نہیں ہے؛ نیز اگرچندہ کو لازم قرار دیا جائے کہ بہر صورت دینا ہی پڑے گا، تو شرعاً درست نہیں ہے اور اگر اپنی مرضی سے کوئی دیدے تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ نیز ترغیب دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور جو رقم مسجد میں آئے اس کا استعمال مسجد میں شرعاً درست ہے؛ نیز اگر حسب وسعت مشورہ دہندگان کو کھانا وغیرہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۲)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) عن أبي الزبیر، عن جابر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعي أحدکم إلی طعام، فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۳۰)
عن نافع، قال: سمعت عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجیبوا ہذہ الدعوۃ إذا دعیتم لہا، قال: وکان عبد اللّٰہ بن عمر یأتي الدعوۃ في العرس، وغیر العرس، ویأتیہا وہو صائم۔ عن أبي شریح الکعبي: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ جائزتہ یومہ ولیلتہ الضیافۃ ثلاثۃ أیام وما بعد ذلک فہو صدقۃ ولا یحل لہ أن یثوي عندہ حتی یحرجہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’باب ما جاء في الضیافۃ‘‘: ج۱، ص: ۲، رقم: ۳۷۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص446

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اجتماعی عبادت کے اہتمام پر کوئی شرعی دلیل معلوم نہیں ہوتی؛ اس لئے از خود اس کا اہتمام کرنا شرعاً درست نہیں (۱) ہاں اگر اتفاقاً فرد فرد ہوکر اجتماع ہوجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں ہے اور بلا ضرورت یا ضرورت سے زائد روشنی اسراف اور ناجائز ہے۔ (۲)

(۱) والمتابعۃ کما تکون في الفعل تکون في الترک أیضاً، فمن واظب علی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)
(۲) {وَأٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاہ۲۶ إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۶ -۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص494

Fiqh

Ref. No. 2483/45-3773

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میک اپ کی چیزوں میں یا کھانے پینے کی چیزوں میں جب تک یقین اورتحقیق کے ساتھ معلوم نہ ہو کہ اس میں حرام اور نجس چیز کی آمیزش ہے،  تو محض کسی کے کہہ دینے سے یا شک کی بنا پر اس کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے اور اس کا استعمال حرام نہیں ہوگا۔  کسی  چیز کے استعمال سے پہلے اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں عام حالات میں تحقیق  کرنا ضروری  نہیں ہے،البتہ اگرقرائن سے شک و شبہ پیداہوجائے تو احتیاط کرنا بہتر ہے۔

من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا فہو طاہر مالم یستیقن،وکذا مایتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱) ۔ (ایضاح المسائل ۱۴۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی وعصری تعلیم حاصل کرنے میں شرعاً کوئی وجہ عدم جواز کی نہیں ہے ، بلکہ ہر وہ علم جو نفع بخش ہو اور جس سے انسان کو معرفت خدا وندی حاصل ہو، اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ البتہ دینی اسلامی مدرسہ اس کو کہا جاتا ہے کہ جس میں قرآن و حدیث اور ان سے متعلق علوم پڑھائے جائیں اور یہ ہی اس کا اصل مقصد ہے اگر اس کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جائیں تو وہ ضمنی ہوں اور اتنی حد تک ہوں کہ دیکھنے والے ان کو  ضمنی ہی سمجھیں اس سلسلہ میں صائب الرائے علماء کا جو فیصلہ ہو وہی معتبر ہے۔(۱)

(۱) عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أتعلم لہ کلمات من کتاب یہود قال: إني واللّٰہ ما آمن یہود علی کتابي، قال: فما مر بي نصف شہر حتی تعلمتہ لہ قال: فلما تعلمتہ کا إن ذا کتب إلی یہود کتبت إلیہم وإذا کتبوا إلیہ قرأت لہ کتابہم قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث حسنٌ صحیحٌ، وقد روي من غیر ہذا الوجہ عن زید بن ثابت۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الاستئذان، باب ما جاء في تعلیم السریانیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۰، رقم: ۲۷۱۵)
عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: إذا صلی الصبح حین یسلم اللہم إني أسألک علماً نافعاً، ورزقاً طیباً، عملاً متقبلاً۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ، فیہا باب ما یقال بعد التسلیم‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۸، رقم: ۹۲۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص184

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی سے استنجا کرنا شرعاً درست ہے؛ البتہ استنجا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنے ہاتھ کو کلائی تک دھولے پھر مقعد کو خوب ڈھیلا کرکے (اگر روزہ دار نہ ہو) بائیں ہاتھ سے خوب استنجا کرے ’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ’’إذا بال نتر ذکرہ ثلاث نترات‘‘(۱) اور بیچ کی انگلی کو ابتدا میں باقی انگلیوں سے کچھ اونچا کرے اور اس سے مقام نجاست کو دھوئے، پھر چھوٹی انگلی (جس کو عرف میں کنی انگلی کہتے ہیں) کے پاس کی انگلی اٹھائے اور اس سے اس مقام کو دھوئے، پھر چھوٹی انگلی کو اٹھائے اور پھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی اٹھائے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اس قدر دھونے میں مبالغہ کرے کہ اس کو یقین یا غالب گمان ہو جائے کہ صفائی ہوگئی ہے اور چکنائی بھی دور ہوگئی ہے اور اگر روزہ دار ہو، تو زیادتی نہ کرے اور نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے، دھونے کی کچھ حد مقرر نہیں ہے، اگر کوئی شخص وسوسہ والا ہے تو اپنے لیے تین مرتبہ دھونے کی مقدار مقرر کرلے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:
’’وصفۃ الاستنجاء بالماء أن یستنجی بیدہ الیسری بعدما استرخی کل الاسترخاء إذا لم یکن صائما ویصعد أصبعہ الوسطی علی سائر الأصابع قلیلا في ابتداء الاستنجاء ویغسل موضعہا ثم یصعد بنصرہ ویغسل موضعہا ثم یصعد خنصرہ ثم سبابتہ فیغسل حتی یطمئن قلبہ أنہ قد طہر بیقین أو غلبہ ظن ویبالغ فیہ إلا أن یکون صائما ولا یقدر بالعدد إلا أن یکون موسوسا فیقدر في حقہ بالثلاث۔ کذا في التبیین‘‘(۲)
مزید فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
استنجا میں تین انگلیوں سے زیادہ استعمال نہ کرے انگلیوں کی چوڑائی سے استنجا کرے انگلیوں کی پشت اور سر سے استنجا نہ کیا جائے پانی نرمی سے آہستہ آہستہ ڈالے پانی ڈالنے میں سختی نہ کرے، بعض علماء نے کہا ہے کہ انگلیوں کا استعمال نہ کرے؛ بلکہ ہتھیلی سے دھونا کافی ہے ایسے ہی عورت کے لئے بہتر ہے کہ کشادہ ہو کر بیٹھے ہتھیلی سے اوپر اوپر دھولے۔
’’ولا یستعمل في الاستنجاء إلا أکثر من ثلاث أصابع ویستنجی بعرض الأصابع لا برء وسہا، کذا في محیط السرخسي ویصب الماء بالرفق ولا یضرب بالعنف، کذا في المضمرات ویدلک برفق۔ وقال عامۃ المشایخ: یکفیہ الغسل  بکفہ من غیر أن یرفع أصبعہ وقال عامتہم: تجلس المرأۃ منفرجۃ وتغسل ما ظہر بکفہا ولا تدخل أصبعہا، کذا في السراج الوہاج وہو المختار، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الصیرفیۃ وتکون أفرج من الرجل کذا في المضمرات‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستبراء عن البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۵۵۲۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثالث: فی الاستنجاء صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج:۱، ص:۳۰۱
(۱) أیضاً:            

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص96

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک جس طرح مردوں کے لیے سنت ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت ہے۔(۱) اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو، تو انگلی کا استعمال مسواک کے قائم مقام ہوجاتاہے(۲)۔ اسی طرح اگر عورت مسواک کی نیت سے ’’علک‘‘ (ایک خاص قسم کا گوند) کا استعمال کرے، تو اس کو مسواک کی طرح ہی ثواب حاصل ہوگا۔(۳)

(۱) عن عائشۃؓ انھا قالت : کان نبی اللّٰہ ﷺ یستاک فیعطیني السواک لأغسلہ فأبدأ بہ فاستاک ثم أغسلہ و أدفعہ إلیہ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’باب غسل السواک،‘‘ ج۱، ص:۸، رقم: ۵۳، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) و تقوم الأصبع أو الخرقۃ الخشنۃ مقامہ عند فقدہ أو عدم أسنانہ في تحصیل الثواب لا عند وجودہ۔ (ابن نجم، بحرالرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۱، دارالکتاب دیوبند)؛  و عند فقدہ أو فقد أسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ، کما یقوم العلک مقامہ للمرأۃ مع القدرۃ علیہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۶، زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) سواک و یقوم العلک مقامہ للنساء، (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحاوی، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في سنن الوضوء،‘‘ص:۶۸، دارالکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ صالح اور نیک بھی ہے اور نماز پڑھانی جانتا ہے اور نماز کے مسائل سے واقف ہے، تو اس کو مستقل امام بنایا جا سکتا ہے۔(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرء ہم لکتاب اللّٰہ فإن کانوا في القراء ۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ‘‘(۱)
(۲) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من حق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم:۶۷۳۔
 
 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبندج 5 ص:35