Frequently Asked Questions
Eating & Drinking
Ref. No. 1384/42-798
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Labeling a product with Halal or Haram depends on its elements. We cannot say anything about protein powder before correct knowledge of its ingredients. You may seek guidance from the institutions that issue halal certificates for the same.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
فقہ
Ref. No. 2206/44-2327
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہی بصیرت کے لئے بنیادی طور پر دوچیزیں ضروری ہیں، کتب فقہیہ کا مطالعہ اور فقہ وفتاویٰ سے مزاولت۔ بہتر ہوگا کہ علاقہ کے کسی دارالافتاء سے منسلک ہوجائیں اور مطالعہ کی روشنی میں استفتاء کے جوابات تیار کریں، اور کچھ دن کسی ماہر مفتی کو معائنہ کرادیاکریں۔
کتب فتاویٰ کے مطالعہ میں متون سے مطالعہ کا آغاز کرنا بہتر ہے، من حفظ المتون نال الفنون۔ حوالہ میں بھی متون کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر متون و شروح میں ٹکراؤ ہوجائے تو متون کو مقدم کیاجائے گا، اس لئے کہ متون نقلِ مذہب کے لئے ہی لکھی گئی ہیں۔ عربی فتاویٰ میں مذکورہ فتاویٰ کا مطالعہ مفید ہوگا: رد المحتار، بدائع الصنائع، عالمگیری، البحرالرائق، فتح القدیر، المبسوط وغیرہ۔ اردو میں امداد الفتاویٰ ، فتاویٰ محمودیہ، کفایت المفتی، فتاویٰ دارالعلوم ، احسن الفتاویٰ، کتاب الفتاویٰ مفید ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت جبرئیل اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں (۲) اورفرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا فرمایا ہے ان میں تو الد و تناسل کا وہ طریقہ نہیں ہے جو دنیا میں رائج ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بغیر ماں باپ کے پیدا فرمایا ہے۔ (۱)
(۲) {وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ہلا ۱۶۴} (سورۃ الصافات: ۱۶۴)
{ذُوْمِرَّۃٍط فَاسْتَوٰی ہلا ۶ وَھُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلٰی ہط ۷ } (سورۃ الصافات: ۱۶۴)
(۱) ولا یوصفون بذکورۃ ولا أنوثۃ إذ لم یرد بذلک نقل ولا دل علیہ عقل۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الملائکۃ عباد اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص254
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو پانی آنکھوں سے نکلتا ہے، وہ ناقض وضو نہیں ہے۔(۲)
(۲) قال رسول اللّٰہ ﷺ : الوضوء من کل دم سائل۔ (شمس الأئمۃ السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل،‘‘ ج۱، ص:۷۶، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، والمخرج بعصر والخارج بنفسہ سیان في حکم النقض علی المختار کما في البزازیۃ، قال: لأن في الإخراج خروجا فصار کالفصد، وفي الفتح عن الکافي: أنہ الأصح و اعتمدہ القھستاني، و في القنیۃ و جامع الفتاویٰ :أنہ الأشبہ و معناہ أنہ الأشبہ بالمنصوص روایۃ، والراجح درایۃ فیکون الفتوی علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۶۴-۲۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص217
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوغہ پہن کر نمازپڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر ٹخنوں سے نیچے نہ ہونا چاہئے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ما أسفل من الکعبین من الإزارفي النار۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب ما أسفل من الکعبین ففی النار‘‘: ج۲، ص: ۸۶۱، رقم: ۵۷۸۷)
عن أبي ذرؓ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أنہ قال:ثلاثۃ لا یکلمہم اللّٰہ ولا ینظر إلیہم یوم القیامۃ، ولا یزکیہم ولہم عذاب ألیم، قلت من ہم یا رسول اللّٰہ فقد خابوا وخسروا فأعادہا ثلثا، قلت من ہم یا رسول اللّٰہ فقد خابوا، وخسروا، قال: المسبل، والمنان، والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب، أو الفاجر۔ (أخرجہ أبوداؤد في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب ماجاء في الإسبال، الإزار‘‘: ج۲، ص: ۵۶۵، رقم:۴۰۸۷)
إن الإسبال یکون في الإزار والقمیص والعامۃ وأنہ لا یجوز إسبالہ تحت الکعبین إن کان للخیلاء، فإن کان لغیرہا فہو مکروہ، وظواہر الأحادیث فی تقییدہا بالجر خیلاء تدل علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء … وأما القدر المستحب فیما ینزل إلیہ طرف القمیص والإزار فنصف الساقین کما في حدیث ابن عمر المذکور، وفي حدیث أبي سعید: إزارۃ المؤمن إلی أنصاف ساقیہ لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ما أسفل من ذلک فہو في النار، فالمستحب نصف الساقین والجائز بلا کراہۃ ما تحتہ إلی الکعبین فما نزل عن الکعبین فہو ممنوع فإن کان للخیلاء فہو ممنوع منع تحریم وإلا فمنع تنزیہ … قال القاضي: قال العلماء: وبالجملۃ یکرہ کل ما زاد علی الحاجۃ والمعتاد في اللباس من الطول والسعۃ واللّٰہ أعلم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الأول‘‘: ج۸، ص: ۱۹۸، رقم: ۴۳۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے مقتدیوں کو اعتراض کا حق حاصل ہے مگر فتنہ و انتشار سے پرہیز کریں۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، وأما الفاسق عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ ‘‘: ص: ۳۰۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص201
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کے امام ومؤذن کو پہلے اوقاف سے ہی وظیفہ ملتا تھا لیکن جب اوقاف کا نظام معطل ہوگیا، تو لوگوں نے اپنے طور پر امام ومؤذن کے وظیفہ کا انتظام کیا اب جب کہ اوقاف سے دہلی میں تنخواہ بحال ہوگئی ہے؛ اس لیے اگر مسجد کمیٹی والے تنخواہ نہ دیں تو کوئی غلط نہیں ہے؛ اس لیے کہ امام ومؤذن کو وظیفہ ملنا چاہیے، چاہے کمیٹی دے یا وقف بورڈ دے۔
مسجد میںامام و مؤذن کے نام پر پہلے جو پیسہ جمع ہوتا تھا، اگر اس پیسے کو مسجد کمیٹی تعمیر میں لگاتی ہے، تو یہ عمل درست ہے۔
وقف بورڈ سے مسجد کے امام ومؤذن کو جو وظیفہ مل رہا ہے اس میں سے کچھ کمیٹی والوں کا لے لینااور تعمیر میں لگانا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ امام ومؤذن مصالح مسجد میں سب سے مقدم ہیںپہلے ان کی ضرورت پوری کی جائے گی تعمیری ضرورت اس کے بعد ہے۔ کمیٹی کا یہ عمل اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ یہ پیسے امام ومؤذن کی تنخواہ کے نام پر آرہے ہیں؛ اس لیے دوسرے مصرف میں استعمال میں لانا کیوں کر درست ہوگا؟
’’وتقطع الجہات للعمارۃ إن لم یخف ضرر بین فتح، فإن خیف کإمام وخطیب وفراش قدموافیعطی المشروط لہم-ویدخل في وقف المصالح قیم... إمام خطیب والمؤذن یعبر‘‘(۱)
(۱) ویبدأ من غلتہ بعمارۃ ثم ماہو أقرب لعمارتہ کإمام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون بقدر کفایتہم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح، وتمامہ في البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب یبدأ بعد العمارۃ بما ہو أقرب إلیہا‘‘: ج۶، ص: ۵۶۰، دارالفکر، بیروت)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص291
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت طریقہ تو یہ ہے کہ اگر مقتدی ایک ہے، تو اس کو داھنی طرف کھڑا کیا جائے اور اگر بالکل پیچھے یا بائیں کھڑا ہو گیا، تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہو گئی۔(۱)
(۱) قولہ ویقف الواحد عن یمینہ والإثنان خلفہ لحدیث ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أنہ علیہ السلام صلی بہ وأقامہ عن یمینہ وہو ظاہر في محاذاۃ الیمین وہي المساواۃ، وہذا ہو المذہب خلافاً لما عن محمد من أنہ یجعل أصبعہ عند عقب الإمام، وأفاد الشارح أنہ لو وقف عن یسارہ فإنہ یکرہ یعني اتفاقاً، ولو وقف خلفہ فیہ روایتان أصحہما الکراہۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص409
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سایہدو مثل ہونے کے بعد (مفتی بہ قول کی رو سے) عصر کی نماز پڑھی جائے تو غروب شمس تک ایک گھنٹہ اور چند منٹ کا وقفہ رہتا ہے دو گھنٹہ کا نہیں۔(۱)
(۱) (وأول وقت العصر من ابتداء الزیادۃ علی المثل أو المثلین) لما قدمناہ من الخلاف (إلی غروب الشمس) علی المشہور لقولہ علیہ السلام: من أدرک رکعۃ من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک العصر، وقال الحسن بن زیاد: إذا اصفرت الشمس خرج وقت العصر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
ووقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في ’’شرح المجمع‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ، ج۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 53