اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی درجہ میں مباح بھی مان لیا جائے، تو التزام اور زبردستی کی اجازت تو نہیں ہوسکتی۔(۱)

(۱) ودلت المسألۃ أن الملاہي کلہا حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۴۸)
عن عبد اللّٰہ بن السائب یزید عن ابیہ، عن جدہ أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: ((لا یأخذن أحدکم متاع أخیہ لاعباً، ولا بادّاً)) وقال سلیمان: ((لا لعباً ولا بدًّا)) ومن أخد عصا أخیہ فلیردہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ: ج ۲، ص: ۴۲۲، رقم: ۵۰۰۳)
وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پھول جھالر وغیرہ سے زیب وزینت کرنا عیدگاہ کی آمدنی سے جائز اور درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی آمدنی وقف علی اللہ ہے اور وقف کو خرچ کرنا ایسے کاموں پر جائز نہیں ہے(۲)۔ اور ذاتی پیسوں سے یا چندے کے پیسے سے جھالر لگانا ناجائز تو نہیں؛ لیکن کار ثواب بھی نہیں ہے اس لیے اس میں اسراف سے کام لینا درست نہیں ہے۔ (۱)

(۲) شرط الواقف کنص الشارح أي في المفہوم والدلالۃ ووجوب العمل بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في قولہم شرط الواقف کنص الشارع‘‘: ج ۶، ص: ۶۴۹)
(۱) {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًاہ۲۷} (سورۃ الإسراء: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص506

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جہاد کے متعلق احادیث سے مروجہ گشت مراد لینا درست نہیں۔ (۱)

(۱) عن ابن أبي الہذیل رضي اللّٰہ عنہ قال: قال أبو الدرداء رضي اللّٰہ عنہ: من رأی الغدوَّ والروّاح إلی العلم لیس بجہاد فقد نقص علقہ روایۃ۔ (أبو عمر یوسف، جامع بیان القرآن: ج ۱، ص: ۱۵۲، رقم: ۱۵۹)
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (الغدو والرواح إلی المساجد من الجہاد في سبیل اللّٰہ۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر، ’’القاسم بن عبد الرحمن بن یزید‘‘: ج ۸، ص: ۱۷۷، رقم: ۷۷۳۹)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من جاء مسجدنا ہذا یتعلم خیراً أو یعلمہ فہو کالمجاہد في سبیل اللّٰہ، ومن جاء بغیر ہذا کان کالرجل یری الشيء یعجبہ ولیس لہ۔ (أبو عبد اللّٰہ الحاکم، المستدرک للحاکم، ’’فأما حدیث عبد اللّٰہ بن نمیر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۳۰۹)
عن سہل بن سعد الساعدي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من دخل مسجدي ہذا لیتعلم خیراً أو لیعلمہ کان بمنزلۃ المجاہد، في سبیل اللّٰہ ومن دخلہ لغیر ذلک من أحادیث الناس، کان بمنزلۃ من یری ما یعجبہ وہي شيء غیرہ۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر، ’’عبد العزیز بن أبي حازم‘‘: ج ۶، ص: ۱۷۵، رقم: ۵۹۱۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص304

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردہ پیر کے مرید ہونے کے کوئی معنی نہیں، اس لیے اپنی اصلاح وتربیت کے لیے بیعت کی جاتی ہے جب آدمی زندہ نہیں، تو ان سے تربیت کس طرح ہوگی(۱) بالغ اولاد پر والدین کو زبردستی کا یہ حق نہیں ہے۔ اگر مجلس عام ہے تو اس میں شرکت کی گنجائش ہے اور اگر خاص ہے ان کے مریدین اور مجلس کے شرکاء کے لئے تو پھر اس میں عام لوگوں کی شرکت درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الفرض من البیعۃ أمرہ بالمعروف ونہیۃ عن المنکر وإرشادہ إلی تحصیل السکینۃ وإزالۃ الرذائل وإکتساب الحمائد الخ۔ (الشاہ الولي اللّٰہ الدہلوي، القول الجمیل مع شرحہ شفاء العلیل: ص: ۱۴)
فإذا عرفت أن الأخلاق الحسنۃ تارۃ تکون بالطبع والفطرۃ وتارۃ باعتبار الأفعال الجمیلۃ وتارۃ بمشاہدۃ أرباب الأفعال الجمیلۃ ومصاحبتہم۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف: باب الترغیب في مکارم الأخلاق‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۱)
(۲) وعن خنساء بنت خذام: أن أباہا زوجہا وہي ثیب فکرہت ذلک فأتت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرد نکاحہا۔ رواہ البخاري وفي روایۃ نکاح أبیہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الولي في النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰، رقم: ۳۱۲۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص400

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کھٹمل اور مچھر کا خون کپڑے پر لگنے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتا، اس لیے اس کپڑے سے نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔و یجوز رفع الحدث بما ذکر و إن مات فیہ أي الماء ولو قلیلاً غیر دموي کزنبور و عقرب و بق: أي بعوض۔ (۱) و دم البق والبراغیث والقمل والکتان طاھر و إن کثر کذا في السراج الوھاج۔ (۲)

(۱) علاؤ الدین الحصکفي، الدر المختار،  کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص:۳۲۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع، في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني، المخففۃ، و مما یتصل بذلک، ج۱، ص:
۱۰۱

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص452

فقہ

Ref. No. 2697/45-4193

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب نے اپنی بساط بھر کوشش کی لیکن ان کے لڑکے نہیں مانتے، اس لئے امام صاحب معذور ہوں گے اور ان کے پیچھے نماز درست ہوگی، جو لوگ امام کے پیچھے نماز نہیں بڑھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ان کو تمام نمازیں مسجد میں امام کے پیچھے ادا کرنی چاہئے،امام کو چاہئے کہ مزید سختی کر کے بچے کو اس کی غلط حرکتوں سے روکے۔  عاق کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اپنی جائداد سے محروم کردے شریعت میں عاق کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اولاد کو شرعی حصہ بدستور ملے گا۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ‘‘ (ابن ماجہ، ’’باب الوصایا‘‘: ج ١، ص: ٦٦٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب تک روئی کا ظاہری حصہ تر نہ ہوگا، اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔(۱)

(۱)قال الشامي : فلو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لا ینقض لعدم ظھورہ، بخلاف القلفۃ، فإنہ بنزولہ إلیھا ینقض الوضوء۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب : نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲، زکریا بک ڈپو دیوبند)؛  ولو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لم ینقض الوضوء، ولو خرج إلی القلفۃ، نقض الوضوء (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۶۰)؛  و لوحشا الرجل إحلیلہ بقطنۃ، فابتلّ الجانب الداخل منھا، لم ینتقض وضوء ہ، لعدم الخروج، و إن تعدت البلّۃ إلی الجانب الخارج، ینظر إن کانت القطنۃ عالیۃ أو محاذیۃ لرأس الإحلیل، ینتقض وضوء ہ لتحقق الخروج، و إن کانت متسفلۃً، لم ینتقض؛ لأن الخروج لم یتحقق۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء، ج ۱، ص:۱۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام صاحب پر وقت کی پابندی لازم ہے، تجارت میں بھی اپنی نظر کی حفاظت لازم ہے، اس کا خیال رکھا جائے۔ مقتدیوں کے ناراض ہونے کی وجہ سوال میں ذکر نہیں کی گئی ہے کمی امام کی ہو یا مقتدیوں کی تاہم دونوں کو اتحاد واتفاق سے رہنا چاہئے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضًا، ج۱، ص:۲۹۹)
تجوز إمامۃ الأعربي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ إلا أنہا تکرہ في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۳)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)    وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد: قولہ نال فضل الجماعۃ الخ، أن الصلوۃ خلفہما أولی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۱)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص72

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جب امام صاحب نے قسم ہی نہیں کھائی تو حانث ہونے کا کیا مطلب ،نہ وہ حانث ہوئے اور نہ کفارہ ان پر لازم ہے ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اور مذکورہ رسوم واجب الترک ہیں امام کو بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)

(۱) وکذلک إذا ترک ما لا بأس بہ حذرا مما بہ البأس فذلک من أوصاف المتقین وکتارک المتشابہ حذراً من الوقوع في الحرام واستبراء للدین والعرض الخ۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدعۃ الترکیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص286

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگلی صف کی خالی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شامی میں ہے:
’’فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف لأنہ اسقط حرمۃ نفسہ ولا یأثم المار بین یدیہ۔‘‘(۲)
لیکن اگر صفیں زیادہ پار کرنی پڑیں تو ایسا نہ کرے۔

(۲) کرہ کقیامہ في صفٍّ خلف صفٍّ فیہ فرجۃ، قلت: وبالکراہۃ أیضًا صرّح الشافعیۃ۔ ولو وجد فرجۃً في الأوّل لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم۔ وقال ابن عابدین تحتہ: أن الکلام فیما إذا شرعوا، وفي القنیۃ: قام في آخر صفٍّ وبین الصّفوف مواضع خالیۃ، فللداخل أن یمرّ بین یدیہ لیصل الصّفوف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص:۳۱۲، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص403