Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1387/42-797

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follow:

According to the words used to trim the mustache in the Ahadith, the mustache should be trimmed with scissors so deeply that it seems to be shaved or the redness of the lips appears. This is allowed and also commendable. However, shaving the mustache with a razor or a blade is not recommended by the jurists, although it is permissible too. 

عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ انھکوا لشوارب واعفوا اللحی (بخاری ومسلم) واختلف فی المسنون فی الشارب ھل ھو القص وا الحلق ؟ والمذھب عندا بعض المتاخرین من مشائخنا انہ القص ، قال فی البدائع وھو الصحیح ۔ وقال الطحاوی القص حسن والحلق احسن وھو قول علماءنا الثلاثۃ (شامی 2/550) ثم فی المغرب احفی شاربہ بالحاء المھملۃ ای بالغ فی جزہ ۔ قیل الاحفاء قریب من الحلق ، واما الحلق فلم یرد بل کرھہ بعض العلماء ورآہ بدعۃ (مرقاۃ المفاتیخ شرح مشکوۃ، باب الترجل 7/2815)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1503/42-980

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قربانی  کے بڑے جانور میں شرکت  کے لئے تمام لوگوں کی رقم اس طور پر شامل ہونی  ضروری ہے کہ کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔ یعنی  کسی ایک  سے ساتویں حصہ سے کم پیسے لینا درست نہیں ہوگا۔  لہذا اگر کسی نے ایک ہی جانور کے حصے مختلف قیمتوں میں بیچے تو جس کا حصہ جانور کی کل رقم کے ساتویں حصہ سے کم ہوگا اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اور پھر کسی کی قربانی درست نہیں ہوگی۔  

فشمل ما إذا اتفقت الأنصباء قدرا أو لا لكن بعد أن لا ينقص عن السبع، ولو اشترك سبعة في خمس بقرات أو أكثر صح لأن لكل منهم في بقرة سبعها لا ثمانية في سبع بقرات أو أكثر، لأن كل بقرة على ثمانية أسهم فلكل منهم أقل من السبع (شامی، کتاب الاضحیۃ 6/316) ولا تجوز عن ثمانية أخذا بالقياس فيما لا نص فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من السبع، ولا تجوز عن الكل لانعدام وصف القربة في البعض (العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الاضحیۃ 9/511) وتجوز عن ستة، أو خمسة، أو أربعة، أو ثلاثة ذكره في الأصل لأنه لما جاز عن سبعة فما دونها أولى، ولا يجوز عن ثمانية لعدم النقل فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من سبع بدنة لا يجوز عن الكل لأنه بعضه إذا خرج عن كونه قربة خرج كله (البحرالرائق، کتاب الاضحیۃ 8/198)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1602/43-1297

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمپنی کا مینیجر کمپنی کے مالک کا وکیل اور امین ہوتاہے، کمپنی اس کو ماہانہ تنخواہ دیتی ہے۔ اس کا کسی سے معاملہ کرکے زیادہ پیسے لینا اور کمیشن لینا  مالک کے ساتھ خیانت اور دھوکہ ہے جو جائز نہیں ہے، اس لئے اس کا اس طرح کا مطالبہ شرعا ناجائز ہے، اور آپ کا بل میں اضافہ کرکے رقم  اس کو دینا بھی رشوت کے زمرے میں آتاہے جو حرام ہے۔ اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ روزی کا مالک اللہ تعالی ہے، مینیجر کو سمجھاکر اگر کام چلتاہو تو بہتر ہے ورنہ آپ کسی اور کمپنی سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں، اور کوئی دوسرا کام بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ میں کوئی اور کام نہیں جانتا، بلاوجہ کی بات ہے،  ہاتھ پیر مارنےسے اور محنت کرنے سے راستے کھل جاتے ہیں۔ ابتداء بہت بڑا نقصان نظرآتاہے لیکن جب اللہ کے لئے کوئی جائز کام شروع کرتاہے  تو ہر قدم پر مدد آتی ہے۔ مایوس نہ ہوں۔ جرات کے ساتھ مینیجر سے بات کریں اور رشوت لینے دینے سے گریز کریں۔

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورۃ المائدة: 2)

إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".  (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام، الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:1467 ،ج:3؍573،ط:دارالجیل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1681/43-1296

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کےنظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیاگیا ہے اور  اب پوری دنیا  میں نماز کا وقت جاننے کے لئے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں ،یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتاہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل ، اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیاجاسکتاہے جبکہ نیٹ سے مربوط ہو۔  دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے  طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتاہے، اس لئے آپ کے علاقہ میں جو جنتری  ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کرلیا جائے اور اس پر اعتماد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کریں تاکہ صحیح وقت معلوم ہوسکے۔  Ref. No. 1580/43-1112 فتوی نمبر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 1877/43-1736

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دن و رات میں ہر ایک مرد و عورت پر پانچ نمازیں فرض ہیں،  اس لئے اگر کسی جگہ کسی نماز کا وقت نہیں آیا تو بھی قریبی ممالک کا وقت محسوب ہوگا اور پانچ نمازیں اس کے حساب سے پڑھنی ہوں گی۔ لہذا صورت مسئولہ میں حامد پر مغرب کی نماز فرض ہوگی اور اس کی قضاء کرنی ہوگی۔

 مطلب في فاقد وقت العشاء كأهل بلغار.(قوله: فإن فيها يطلع الفجر قبل غروب الشفق) مقتضاه أنه فقد وقت العشاء والوتر فقط وليس كذلك، بل فقد وقت الفجر أيضا؛ لأن ابتداء وقت الصبح طلوع الفجر، وطلوع الفجر يستدعي سبق الظلام ولا ظلام مع بقاء الشفق أفاده ح.۔ ۔ ۔ أقول: الخلاف المنقول بين مشايخ المذهب إنما هو في وجوب العشاء والوتر فقط، ولم نر أحدا منهم تعرض لقضاء الفجر في هذه الصورة، ۔۔۔(قوله: فيقدر لهما) هذا موجود في نسخ المتن المجردة ساقط من المنح، ولم أر من سبقه إليه سوى صاحب الفيض، حيث قال: ولو كانوا في بلدة يطلع فيها الفجر قبل غيبوبة الشفق لا يجب عليهم صلاة العشاء لعدم السبب، وقيل يجب ويقدر الوقت. اهـ.۔۔۔۔ولأن هذه المسألة نقلوا فيها الاختلاف بين ثلاثة من مشايخنا وهم البقالي والحلواني والبرهان الكبير فأفتى البقالي بعدم الوجوب، وكان الحلواني يفتي بوجوب القضاء ثم وافق البقالي لما أرسل إليه الحلواني من يسأله عمن أسقط صلاة من الخمس أيكفر؟ فأجاب السائل بقوله: من قطعت يداه أو رجلاه كم فروض وضوئه؟ فقال له: ثلاث، لفوات المحل، قال فكذلك الصلاة، فبلغ الحلواني ذلك فاستحسنه ورجع إلى قول البقالي بعدم الوجوب. وأما البرهان الكبير فقال بالوجوب، لكن قال في الظهيرية وغيرها: لا ينوي القضاء في الصحيح لفقد وقت الأداء. واعترضه الزيلعي بأن الوجوب بدون السبب لا يعقل، وبأنه إذا لم ينو القضاء يكون أداء ضرورة، وهوأي الأداء فرض الوقت ولم يقل به أحد، إذ لا يبقى وقت العشاء بعد طلوع الفجر إجماعا. اهـ. وأيضا فإن من جملة بلادهم ما يطلع فيها الفجر كما غربت الشمس كما في الزيلعي وغيره، فلم يوجد وقت قبل الفجر يمكن فيه الأداء.۔۔۔۔ (قوله: وأوسعا المقال) أي كل من الشرنبلالي والبرهان الحلبي لكن الشرنبلالي نقل كلام البرهان الحلبي برمته فلذا نسب إليه الإيساع. ۔ ۔(قوله: ومنعا ما ذكره الكمال) أما الذي ذكره الكمال فهو قوله ومن لا يوجد عندهم وقت العشاء أفتى البقالي بعدم الوجوب عليهم لعدم السبب كما يسقط غسل اليدين من الوضوء عن مقطوعهما من المرفقين ۔۔۔۔والأحسن في الجواب عن المحقق الكمال ابن الهمام أنه لم يذكر حديث الدجال ليقيس عليه مسألتنا أو يلحقها به دلالة، وإنما ذكره دليلا على افتراض الصلوات الخمس وإن لم يوجد السبب افتراضا عاما؛ لأن قوله وما روي معطوف على قوله ما تواطأت عليه أخبار الإسراء، وما أورده عليه من عدم الافتراض على الحائض والكافر يجاب عنه بما قاله المحشي من ورود النص بإخراجهما من العموم. ۔ هذا وقد أقر ما ذكره المحقق تلميذاhه العلامتان المحققان ابن أمير حاج والشيخ قاسم. والحاصل أنهما قولان مصححان، ويتأيد القول بالوجوب بأنه قال به إمام مجتهد وهو الإمام الشافعي كما نقله في الحلية عن المتولي عنه۔ (الدر المختار مع حاشية ابن عابدين، کتاب الصلوٰۃ ، مطلب في فاقد وقت العشاء كأهل بلغار، ج:1، ص : 362، مط : سعید )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1976/44-1918

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  سفر شرعی میں مسافت کا اعتبار شہر کی آخری آبادی سے ہوگا، اور دوسرے شہر کی ابتدائی آبادی تک ہوگا، اگر اس طرح دونوں شہروں کی مسافت کم از کم سوا ستتر کلومیٹر ہے، تو آپ مسافر ہوں گے، فقہی کتب میں عبارات مصرح ہیں۔

من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ من جانب خروجہ  ۔ ۔  قاصدا ۔ ۔  مسیرۃ ثلثۃ ایام ولیالیھا ۔ ۔  صلی الفرض الرباعی رکعتین ۔۔ حتی یدخل موضع مقامہ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر 2/599 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2055/44-2267

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر قرآن کی سورت یاد ہو تو زبانی اور یاد نہ ہو تو اسکرین شاٹ دیکھ کر یا موبائل میں دیکھ کر پڑھنا اور  دم کرنا جائز ہے۔ ایسا کرنے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ وضو  اور غسل کے بغیر بھی قرآن کی ریکارڈنگ سنی جاسکتی ہے۔ البتہ غسل کی ضرورت ہو تو قرآن کی تلاوت ممنوع ہے، اور وضو نہ ہو تو تلاوت بھی ممنوع نہیں ہے بلکہ بے وضوقرآن کو ہاتھ لگانا ممنوع ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2148/44-2232

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا شخص شرعا معذور ہے ، اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ دماغی مریضوں کے مخصوص ادارہ یا اسپتال میں داخل کردیا جائے، تاکہ اس کے ضرر سے بچاجاسکے، اس سلسلہ میں  قانونی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2207/44-2317

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رشوت میں سودی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم  اس کے مالک کو لوٹا نا لازم ہے، اور اگر مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو غریبوں میں بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے اپنے کسی بھی کام میں سود کی رقم استعمال کرنا اور اس سے فائدہ اٹھاناجائز نہیں ہے، حتی کہ ناجائز مقدمہ کی پیروی میں یا رشوت میں دینا بھی جائز نہیں ہے۔

'' والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له، ويتصدق به بنية صاحبه''۔ (فتاوی شامی،5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال مذکور میں امام صاحب کی بات بالکل صحیح ہے، عذاب قبر برحق ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
’’ویسلط علیہ عقارب وثعابین لو نفخ أحدہم في الدنیا ما أنبتت شیئاً تنہشہ وتؤمر الأرض فتضم حتی تختلف أضلاعہ‘‘ (۱)
جو شخص قبر میں منکر نکیر کا صحیح جواب نہیں دے گا اس پر ایسے بچھو اور سانپ مسلط کردئے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین میں پھونک مار دے تو زمین کے تمام نباتات جل کر راکھ ہو جائیں، پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے اور وہ سکڑ جاتی ہے حتی کہ اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔
’’یکفر بإنکار رؤیۃ اللّٰہ تعالیٰ عز وجل بعد دخول الجنۃ، وبإنکار عذاب القبر‘‘(۲)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے عذاب قبر کا منکر کافر ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے علاوہ امت مسلمہ کے قطعی عقیدے کی تکذیب کرنا ہے۔
’’عذاب القبر وقد ورد الشرع بہ، قال اللّٰہ تعالیٰ: النار یعرضون علیہ غدوا وعشیا: واشتہر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والسلف الصالح الاستعاذۃ من عذاب القبر وہو ممکن فیجب التصدیق بہ‘‘(۳)

(۱) طبراني، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: …، رقم: ۴۶۲۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بیوم القیامۃ وما فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵۔
(۳) محمد بن محمد الغزالي، إحیاء علوم الدین، ’’الفصل الثالث: من کتاب قواعد العقائد، الرکن الرابع في السمعیات وتصدیقہ علیہ السلام‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص252