نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسلمان کا فرض ہے کہ کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے روگردانی نہ کرے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں تیجہ وغیرہ غیر شرعی رسومات میں امام کی شرکت جائز نہیں۔(۲)
(۲) عن عائشۃ -رضی اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد محدثات الأمور، کتاب الأقضیۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴، رقم: ۱۷۱۸)
یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وہي بدعۃ مستقبحۃ، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل البیت‘‘:ج۳، ص: ۱۴۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص296

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں صفوں کو درست کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور صفوں کی درستگی میں مل مل کر کھڑا ہوناہے(۱) اور نماز کا متوارث طریقہ یہی ہے کہ لوگ مل مل کر کھڑے ہوں اس لیے اگر اتنا فاصلہ ہو کہ لوگوں کا ایک نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تا ہو تونماز کے متوارث طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ بالکل درست نہیں ۔(۲) ہاں اگر معمولی فاصلہ ہو جس میں بظاہر لوگوں کا ایک ہی نماز میں ہونا معلوم ہو تو موجودہ حالات میں اس کی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ تو صف میں متصل کھڑے ہوں؛ لیکن ایک دو آدمی مسجد میں ہی ایک میٹر کے فاصلے سے کھڑے ہوں تو اگر چہ ایسا کرنا بھی درست نہیں ہے تاہم اس کی نماز ہوجائے گی۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک، وینبغي أن یکملوا ما یلی الإمام من الصفوف، ثم ما یلی ما یلیہ، وہلمّ جرًّا، وإذا استوی جانبا الإمام فإنہ یقوم الجائی عن یمینہ، وإن ترجح الیمین فإنہ یقوم عن یسارہ، وإن وجد في الصف فرجۃ سدّہا، وإلا فینتظر حتی یجيء آخر کما قدمناہ، وفي فتح القدیر: وروي أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنہ قال: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدیکم (بأیدی) إخوانکم لاتذروا فرجات للشیطان، من وصل صفًّا وصلہ اللہ، ومن قطع صفًّا قطعہ اللّٰہ۔ وروي البزار بإسناد حسن عنہ من سدّ فرجۃً في الصفّ غفر لہ۔ وفي أبي داود عنہ: قال: خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’وقوف المامومین في الصلاۃ خلف الإمام‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵؛ الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۱، ص: ۵۶۸؛ وأحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶)
(۲) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل، مفتاح السعادۃ أو (طریق تجري فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور أو نہر تجري فیہ السفن ولو زورقا ولو في المسجد ولو خلاء أي فضاء في الصحراء أو في مسجد کبیر جداً کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب إذا کانت الثغۃ یسیرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰)
عن أبي بکرۃ رضي اللّٰہ عنہ إنہ انتہي أي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو راکع فرکع قبل أن یصل أي الصف فذکر ذلک النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: زادک اللّٰہ حرصاً ولا تعد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا رکع دون الصف‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱، رقم: ۷۵۰)
(۱) ذکر ما یستفاد منہ: فیہ: الأمر بتسویۃ الصفوف، وہي من سنۃ الصلاۃ عند أبي حنیفۃ والشافعي ومالک، وزعم ابن حزم أنہ فرض، لأن إقامۃ الصلاۃ فرض، وما کان من الفرض فہو فرض۔ قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ فإن قلت: الأصل في الأمر الوجوب ولا سیما فیہ الوعید علی ترک تسویۃ الصفوف، فدل علی أنہا واجبۃ۔ قلت: ہذا الوعید من باب التغلیظ والتشدید تأکیدا وتحریضا علی فعلہا، کذا قالہ الکرماني، ولیس بسدید۔ لأن الأمر المقرون بالوعید یدل علی الوجوب، بل الصواب أن یقول: فلتکن التسویۃ واجبۃ بمقتضی الأمر، ولکنہا لیست من واجبات الصلاۃ بحیث أنہ إذا ترکہا فسدت صلاتہ أو نقصتہا۔ غایۃ ما في الباب إذا ترکہا یأثم۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: ج۵، ص: ۲۵۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 411

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:غروب آفتاب سے لے کر تقریباًایک سوا گھنٹے تک مغرب کی نماز کا وقت رہتا ہے، مگر احتیاطاً مغرب کی نماز جلدیپڑھنی چاہیے، اور ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وقت عشاء شروع ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) ووقت المغرب منہ إلی غروب الشفق وہو الحمرۃ عند ہما وبہ قالت: الثلاثۃ وإلیہ رجع الإمام کما في شروح المجمع وغیرہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ الوسطی، ج ۲، ص: ۱۷)
وقال تلمیذہ العلامۃ قاسم في تصحیح القدوري: إن رجوعہ لم یثبت۔ أیضًا۔
ووقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الأول:  في المواقیت: الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۷)
وأول وقت المغرب منہ أي غروب الشمس إلی قبیل غروب الشفق (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 56

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان، زلزلہ یا دیگر آفات آسمانی پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا؛ لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ یا ہتھیار سمجھتے ہیں؛ اس لیے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ عمل درست ہے۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دل جوئی کے لیے اذان دی جائے؛ کیوں کہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔(۲) ’’قالوا یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن فيأذنہ فإنہ یزیل الہم‘‘(۱)

(۲) قولہ: وخرج بالفرائض الخ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلا یسن للمنذورۃ۔ ورأیت في کتب الشافعیۃ: أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ’’مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰)
وخرج بہا الأذان الذي یسن لغیر الصلاۃ کالأذان في أذن المولود الیمنٰی،…والإقامۃ في الیسریٰ، ویسن أیضاً عن الہم وسوء الخلق لخبر الدیلمي، عن علي، رآني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزیناً فقال: (یا ابن أبي طالب إني أراک حزیناً فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک، فإنہ درء الہم) قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک۔ وقال: کل من رواتہ إلی علي أنہ جربہ، فوجدہ کذلک۔ وروي الدیلمي عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من ساء خلقہ من إنسان أو دابۃ فأذنوا في أذنہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
(۱)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ، ج ۲، ص: ۵۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص186

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہنا نماز کے شروع کرنے کے لیے ہر ایک نمازی (امام، مقتدی، مدرک، مسبوق) پر الگ الگ فرض ہے جس کے چھوڑ دینے سے ترک فرض لازم آئے گا اور نماز نہیں ہوگی پس مذکورہ دونوں مسئلوں میں جس طرح امام پر تکبیر تحریمہ فرض ہے اسی طرح مدرک و مسبوق پر بھی فرض ہے اس کے چھوڑ دینے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) فرائض الصلاۃ ستۃ: التحریمۃ والقیام والقراء ۃ والرکوع والسجود والقعدۃ في أخر الصلاۃ مقدار التشہد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۸)
مفتاح الصلاۃ الطہور، وتحریمہا التکبیر، وتحلیلہا التسلیم۔(أخرجہ الترمذي في صحیحہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في تحریم الصلاۃ وتحلیلہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۸)
وإن أدرک الإمام في الرکوع أو السجود، یتحری إن کان أکبر رأیہ أنہ لم أتی بہ أدرکہ في شيئٍ من الرکوع أو السجود یأتي بہ قائماً وإلا یتابع الإمام ولا یأتي بہ، وإذا لم یدرک الإمام في الرکوع أوالسجود لا یأتي بہما، وإن أدرک الإمام في القعدۃ لا یأتي بالثناء بل یکبر للافتتاح ثم للانحطاط ثم یقعد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹)
ویشترط کونہ (قائما) فلو وجد الإمام راکعاً فکبر منحنیاً إن کان إلی القیام أقرب صح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص315

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں آیت کریمہ مذکورہ کے چھوڑنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا جس سے سورت کا مقصد ہی فوت ہوگیا، اس لیے نماز فاسد ہوگئی۔ نماز کااعادہ لازم ہے۔ ’’ولوزاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا أو قدمہ أو بدلہ بآخر … لم تفسد مالم یتغیر المعنی‘‘(۱)
جس نماز میں ایسا ہوا ہے اسی نماز میں احتیاطا تین دن اعلان کردیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور وہ اعادہ کرلیں۔

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶)
المسألۃ الثالثۃ وضع حرف موضع حرف آخر فإن کانت الکلمۃ لا تخرج عن لفظ القرآن ولم یتغیر بہ المعنی المراد لا تفسد۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۴۰، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص251

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1130 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ۱۔ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، حدیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم ہے ؛ حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر کا عمل تھا کہ ایک مشت سے زائد بالوں کو کٹوادیتے تھے اور صحابہ نے دیکھا اور نکیر نہیں فرمائی۔[کتاب الآثار، عالمگیری، بذل المجہود اوررد المحتارمیں تفصیل موجود ہے۔ ]

۲-۳۔ داڑھ کے اوپر جو بال ہوتے ہیں ان کو داڑھی کہا جاتاہے، اس کے علاوہ جو بال رخسار اور حلقوم پر ہوں وہ داڑھی میں داخل نہیں ہیں اس لئے  ان کو صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۴۔ ناک کے بالوں کو کاٹنا درست ہے، اسی طرح کان کے بالوں کوبھی کاٹنے کی اجازت ہے، نیز سینہ کا بال صاف کرنا بھی درست ہے تاہم خلافِ ادب ہے؛ اگر بیوی ناپسند کرے توکٹوانے میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔

۵۔ خلاف سنت ہے، نماز مکروہ ہوگی۔

۶۔ شرعی اعذار کی بنا ء پر اگر ہو تو گنجائش ہے۔ جب استعمال کی ضرورت محسوس ہو ، صورت حال بتا کر مسئلہ معلوم کرلیں۔

۷۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کذا فی الفتاویٰ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 952/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ بناہوا گھر قسطوں پر لے لیں اور قسطوار پیسے اداکریں، اگرچہ اس صورت میں پیسے زیادہ دینے ہوں گے۔ لیکن یہ صورت جائز ہے۔ جبکہ لون لے کر گھر بنانا بلاشدید ضرورت کے جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1040/41-220

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گراہک کے اکاونٹ سے جو 295 روپئے کٹے ہیں وہ آپ کی غلطی سے کٹے ہیں، کیونکہ آپ نے باونس چیک دیا تھا، اگر باونس چیک نہ دیتے  اور چیک کلیر ہونے کے وقت اکاونٹ میں اتنے  پیسے ہوتے جتنے کا آپ نے چیک دیا ہے تو ظاہر ہے کہ بینک نہ آپ کے اکاونٹ سے کاٹتا اور نہ گراہک  کےاکاونٹ سے۔ اس لئے 295 روپئے واپس کرنے کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہوں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 1151/42-387

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شراب عموما گرم چیزوں سے بنائی جاتی ہے، تاہم شراب بننے کے بعداس کی تاثیر کا علم نہیں ہے۔ جہاں تک مسئلہ ہے اس کے ایسی صورت میں پینے کا تو اگر حالت اضطرار ہو  کہ اس کے علاوہ گرمی حاصل کرنے کی کوئی صورت بالکل نہ ہو اور  اس کے بغیر جان کا خطرہ ہو  اور اس کے پینے میں یقین ہو کہ جان بچ سکتی ہے تو بقدر ضرورت گنجائش ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند