نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہشتی زیور میں یہ مسئلہ لکھا ہے یہ مسئلہ اسی طرح شامی میں ہے:
’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کاسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ أن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید الصلوٰۃ إذا زال المانع کذا في الدر والوقایۃ وأما إذا کان من قبل اللہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۲)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص291


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں کے بعد دعا کی روایات میں تاکید و ترغیب آئی ہے؛ اس لیے فرض نمازوں کے بعد دعا کا اہتمام ہونا چاہیے اور جب سب لوگ اس کا اہتمام کریں گے، تو اجتماعی دعا کی ہیئت ہوجائے گی، تاہم امام کے ساتھ دعا کو لازم وضروری سمجھنا درست نہیں ہے اس لیے کہ اقتدا ء سلام پر ختم ہوجاتی ہے۔ دعا نماز کا حصہ نہیں ہے؛ اس لیے اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے، جو صاحب نماز کے بعد مطلقا دعا سے منع کرتے ہیں وہ غلط ہے؛ اس لیے کہ نماز کے بعد دعا حدیث سے ثابت ہے۔
’’عن معاذ بن جبل: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال: ’’یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک‘‘ فقال: ’’أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘ وأوصی بذلک معاذ الصنابحي، وأوصی بہ الصنابحي أبا عبد الرحمن‘‘
’’حدثنا محمد بن سلمۃ المرادي، حدثنا ابن وہب، عن اللیث بن سعد، أن حنین بن أبي حکیم حدثہ، عن علي بن رباح اللخمي، عن عقبۃ بن عامر قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أقرأ بالمعوذات دبر کل صلاۃ‘‘(۱)
’’حدثنا محمد بن یوسف، قال: حدثنا سفیان، عن عبد الملک بن عمیر، عن وراد کاتب المغیرۃ بن شعبۃ، قال: أملی علي المغیرۃ بن شعبۃ في کتاب إلی معاویۃ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت، ولا معطي لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد، وقال شعبۃ: عن عبد الملک بن عمیر، بہذا، وعن الحکم، عن القاسم بن مخیمرۃ، عن وراد، بہذا، وقال الحسن: ’’الجد: غني‘‘(۱)
’’حدثنا عبید اللّٰہ بن معاذ، قال: حدثنا أبي، حدثنا عبد العزیز بن أبي سلمۃ، عن عمہ الماجشون بن أبي سلمۃ، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع عن علي بن أبي طالبٍ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال: ’’اللہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت‘‘(۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص434

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں بلا کراہت نماز صحیح اور درست ہے۔
’’لو قرأ آمن الرسول في رکعۃ وقل ہو اللّٰہ أحد في رکعۃ لا یکرہ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بلا عذربیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے؛ البتہ بعض فقہاء نے سنت فجر کو مستثنی کیا ہے، یعنی فجر کی سنت بلا عذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔
’’یجوز النفل إنما عبر بہ لیشمل السنن المؤکدۃ وغیرہا فتصح إذا صلاہا ’’قاعدا مع القدرۃ علی القیام‘‘ وقد حکي فیہ إجماع العلماء، وعلی غیر المعتمد یقال: إلا سنۃ الفجر لما قیل بوجوبہا وقوۃ تأکدہا، و إلا التراویح علی غیر الصحیح لأن الأصح جوازہا قاعدا من غیر عذر فلا یستثنی من جواز النفل جالسا بلا عذر شيء علی الصحیح‘‘(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في صلاۃ النفل جالساً الخ‘‘: ج ۱، ص:۴۰۲، ۴۰۳، مکتبہ: شیخ الہند۔)
وأما السنن الرواتب فنوافل حتی تجوز علی الدابۃ، وعن أبي حنیفۃ ینزل لسنۃ الفجر لأنہا آکد من غیرہا، وروي عنہ أنہا واجبۃ، وعلی ہذا الخلاف أداؤہا قاعداً۔ (فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۰، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص358

مساجد و مدارس

Ref. No. 1088 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  زکوة اور صدقات واجبہ میں تملیک ضروری ہے، زکوة کی رقم فقراء کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، بلا تملیک ان رقومات کا استعمال مدرسہ یا کسی بھی دوسرے رفاہی کاموں میں درست نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں بلا تملیک زکوة کی رقم سے مدرسہ کے لئے زمین خریدنا اور سایہ وغیرہ کا انتظام کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اہل خیر حضرات نفلی صدقات اور امداد سے اس میں تعاون کریں ، یا پھر زکوة کی رقم کسی غریب کو دیدی جائے اور اس کو بااختیار بنادیا جائے پھر اس کو مدرسہ کے لئے خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے اگر وہ اپنی مرضی سے دیدے تو اس کو مدرسہ کی زمین یا تعمیر میں لگانا درست ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔    پوری حدیث بحوالہ نقل فرمائیں تو اس کا جواب لکھا جائے گا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/863

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سنت کے خلاف ہے ، سنت یہ ہے کہ پورا 'السلام علیکم ' کہاجائے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1142/42-372

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The white substance maybe discharged when you were sleeping in before Asr. You have to repeat the Asr and Maghrib after taking a compulsory bath. Due to only thoughts of wet dream, Ghusl is not obligatory on you until you see semen discharge. The discharge you feel due to lust without visible semen is called ‘Mazi’. Due to Mazi, only wadhu is broken not Ghusl.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 1493/42-954

وباللہ التوفیق:۔ قبرستان کا سابقہ گیٹ اور موجودہ گیٹ کے درمیان تیس گز زمین قبرستان کی ملک تھی یا محض قبرستان جانے کے لئے  بطور راستہ استعمال کی جارہی تھی  ۔نیز اس کے برابر میں جو پلاٹ عرفان کا ہے اس کاراستہ مالک زمین نے کہاں دیا۔ مسجد جو بنی ہے وہ قبرستان کی زمین ہے یا الگ سے لی گئی ہے۔ ان تمام تفصیلات کے ساتھ دارالافتاء سے رجوع کریں یا علاقہ کے معتبر مفتیان کرام سے معائنہ کرائیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1666/43-1292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، لہٰذا والد کا اپنی اولاد میں موجودہ مکان کو مشترکہ طور پر ہبہ کرنا درست نہیں ہوگا، اگروالد نے زبانی طور پر ہبہ کیا ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ  مکان بدستور والد کی ملکیت میں رہے گا اور والد کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہء شرعی کے موافق تقسیم ہوگا۔ والد  اگر  اپنی اولاد کے درمیان کمروں کی تقسیم کردیں اور ایک کمرہ اپنے لئے رکھ لیں تو یہ مناسب ہے۔  

لأن هبة المشاع باطلة وهو الصحيح كما في مشتمل الأحكام نقلا عن تتمة الفتاوى والهبة الفاسدة لا تفيد الملك على ما في الدرر وغيرها والمسألة مسطورة في التنوير أيضا (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، کتاب الھبۃ 2/85)

وفي الجوهرة، وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له ثم يسلمه الدار مثلا فتصح لشغلها بمتاع في يده (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع (شامی، کتاب الھبۃ 5/692)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند