نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محراب میں امام صاحب اس طرح کھڑے ہوں کہ دونوں قدم داخل محراب ہوں، تو مکروہ ہے، البتہ قدمین خارج محراب ہوں، تو مکروہ نہیں ہے  نمازیوں کے ازدحام اور جگہ کی تنگی کے سبب مجبوراً اندرون محراب تنہا امام کے قیام کی نوبت آجائے تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’ویکرہ قیام الإمام بجملتہ في المحراب لا قیامہ خارجہ وسجودہ فیہ (إلی قولہ) وإذا ضاق المکان فلا کراہۃ‘‘(۲)
(۱) ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ  إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین، وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن یقوم في الطاق، کذا في الفتاویٰ البرہانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ،  فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قبل الزوال اذان جمعہ بالکل درست نہیں تاہم اگرزوال کے فوراً بعد سنت اداکرلی جائے اور پھر فوراً اذان خطبہ و خطبہ کے بعد نماز فرض ادا کرلی جائے تو درست اور جائز ہے۔
’’لقولہ علیہ السلام إذا مالت الشمس فصل بالناس الجمعہ‘‘۔(۱)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، کتاب الصلاۃ ’’فصل في قیام شہر رمضان ‘‘: ج ۱، ص: ۸۳۔ لایسن لغیرہا کعید، فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر … قولہ وقع بعضہ وکذا کلہ بالأولی ولو لم یذکر البعض لتوہم خروجہ فقصد بذکرہ التعمیم لا التخصیص۔ (ابن عابدین،رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰، ط: زکریا۔
لوقت أي وقت المکتوبۃ واعتقاد دخولہ أو ما یقوم مقام الاعتقاد من غلبۃ الظن، فلو شرع شاکاً فیہ لاتجزیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ ’’مطلب قد یطلق الفرض علی مایقابل الرکن‘‘:ج ۱، ص: ۴۵۲۔
تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصبح لایجوز اتفاقا وکذا في الصبح  … عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح مجمع البحرین لابن الملک، وعلیہ الفتوی، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الحجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص179

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 2808/45-4385

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ منہ بولی بہن اجنبیہ ہے، اس سے مکمل پردہ لازم ہے، یہ احتیاطی پہلو آپ نے اختیا رکیا ہے، یہ اچھی بات ہے لیکن بہتر ہوگا کہ اگر اس کا کوئی ذمہ دار ہے تو اس کے واسطے سے اس کی مدد کریں  اور اگر اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے اور آپ ہی اس کے نگراں ہیں تو پھر اس کو جوکچھ کہنا ہو اپنی بیوی کے واسطہ سے کہیں اور اس کی مدد کریں۔ مجبوری میں آپ اس طرح میسیج کرسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی سنتیں خواہ فرائض کے ساتھ قضا ہوں یا انفراداً سنتوں کی شرعاً قضاء نہیں ہے۔ ’’إذا فاتت عن وقتہا لا تقضی، سواء فاتت وحدہا أو مع الفریضۃ‘‘ (۱) ہاں مگر سنت فجر اگر فجر کے ساتھ قضا ہوجائیں تو طلوع کے بعد زوال سے پہلے فرضوں کے ساتھ ان کو بھی پڑھا جائے اور اگر زوال تک نہ پڑھ سکے تو زوال کے بعد سنت فجر کی بھی قضاء نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تنہا سنت فجر چھوٹ جائے اور فرض ادا کرلے تو بھی سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
’’فان فاتت مع الفرض تقضی مع الفرض… أما إذا فاتت وحدہا لا تقضی‘‘(۲) لیکن بہتر یہ ہے کہ اگرتنہا سنت چھوٹ جائے تو بعد طلوع آفتاب قضاء کرلی جائیں۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع:کتاب الصلاۃ، السنن تقضی أم لا ج۱، ص: ۶۴۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) أیضا: ج۱، ص: ۶۴۳۔
وقضاء الفرض والواجب والسنۃ فرض وواجب وسنۃ لف ونشر مرتب۔ قولہ: وقضاء الفرض إلخ، لو قدم ذلک أول الباب أو آخرہ عن التفریع الآتي لکان أنسب۔ وأیضا قولہ والسنۃ یوہم العموم کالفرض والواجب ولیس کذلک، فلو قال وما یقضی من السنۃ لرفع ہذا الوہم رملي۔ (ابن عابدین،  رد المحتار : ج۲، ص: ۶۶)
وقید بسنۃ الفجر لأن سائر السنن لا تقضی بعد الوقت لاتبعا ولامقصودا واختلف المشایخ في قضائہا تبعاً للفرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحۃ الخالق وتکملۃ الطوري، ج ۲، ص: ۸۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص369

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2666/45-4429

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر حافظ نفل میں قرآن کریم سنائے اور دوسرا حافظ اس کی اقتداء میں اس کا قرآن کریم سنے باہر باقاعدہ کسی کو جماعت میں شرکت کے لئے نہ بلایا جائے اور یہ تعداد تین سےزیادہ نہ ہو تو قرآن کریم کو پختہ کرنے کے لئے اس طرح قرآن کریم سنانے کی گنجائش ہے۔

اما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره وثلاثة بواحد فيه خلاف‘‘ (رد المحتار: ج 2، ص: 48- 49)

ولا يصلي الوتر ولا التطوع بجماعة خارج رمضان أي يكره ذلك علي سبيل التداعي بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدر ولا خلاف في صحة الإقتداء إذ لا مانع

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 854 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ نقد قیمت  اداکرنے پر کم  قیمت میں دینا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت پر اضافہ کردینا  درست ہے، بشرطیکہ  مجلس عقد ہی میں قیمت کا نقد یا ادھار ہونا متعین ہوگیا ہو۔   اور پھر جو قیمت طے ہوجائے خریدار سے اسی کا مطالبہ ہو ،  ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی اوراضافہ  ہرگزنہ کیا جائے۔ اس  کو فقہاء نے جائز لکھا ہے ، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔ آئندہ جو بھی صورت پیش آئے گرچہ بینک اس کو سود کا نام دے، آپ کسی  ماہر مفتی سے صورت حال بتاکر شرعی نقطہ نظر معلوم کرلیں کہ آیا شرعی اعتبار سے بھی وہ سود ہے یا نہیں۔ (ھدایہ) واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1122 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں  اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں وہ مشرک ہیں ؛ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ غیر مسلم کو اسلام کے بنیادی عقائد کو سمجھادیا جائے کہ اسلام میں اصل شرک و بت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالی کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ اور جو اس کے خلاف کرے وہ اسلام سے خارج ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No 38 / 996

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بینک سے سود لے کر  غرباء ومساکین پربلانیت ثواب  صدقہ کردینا واجب ہے، اس کو کسی رفاہی کام میں صرف کرنا یا بیت الخلاء وغیرہ میں لگانا درست نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

Ref. No. 39/1084

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

You own the required nisaab for Qurbani though it is not in your hands and you have right to claim. In shariah, you are regarded the owner of Nisab. So you are obliged to do Qurbani.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 944/41-86

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تاہم اس طرح کے وسوسوں سے بچنا لازم ہے۔ وسوسوں کو بالکل جگہ نہ دیں۔  اس فتوی کو ذہن پر سوار نہ کریں۔ اور جب بھی اس طرح کا وسوسہ آئے، ذہن کو اس جانب سے ہٹاکر اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم  پڑھیں. کثرت سے اس کا ورد کرتے رہنے سے بھی وسوسوں سے نجات ملے گی ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند