نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللّٰہ التوفیق: علماء وصلحاء کا لباس اختیار کرنا چاہئے، اور لباس کواس کی اصلی حالت پر ہونا چاہئے۔ ہاف آستین میں ہیئت معروفہ کی خلاف ورزی ہے؛ اس لیے مکروہ ہے۔(۱)
’’(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل‘‘(۲)

(۱) ٰیبَنِيْٓ أٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْاوَاشْرَبُوْاوَلَاتُسْرِفُوْا ج إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع۳۱  (الاعراف:۳۱)
(قولہ: کمشمرکم أو ذیل) أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمر کمہ أو ذیلہ وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ،  لکن قال في القنیۃ: واخلتف فیمن صلی وقد شمر کمیہ لعمل کان یعملہ قبل الصلاۃ أو ہیئتہ ذلک اھـ، ومثلہ ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراک الرکعۃ مع الإمام۔ وإذا دخل في الصلاۃ کذلک وقلنا بالکراہۃ فہل الأفضل إرخاء کمیہ فیہا بعمل قلیل أو ترکہما؟ لم أرہ: والأظہر الأول بدلیل قولہ الأتی: ولو سقطت قلنسوتہ فإعادتہا أفضل تأمل، ہذا، وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ وظاہرہ أنہ لا یکرہ إلی ما دونہما: قال في البحر: والظاہر الإطلاق لصدق کف الثوب علی الکل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص:۴۰۶، زکریا،د یوبند)
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص139

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شامی نے جو بات نقل کی ہے وہی صحیح معلوم ہوتی ہے مقدار ہی کو بیان کرنا مقصود ہے تعیین مقصود نہیں ہے؛ لہٰذا دوسری سورتوں کا پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔(۱)

(۱) (۱) قولہ واختار في البدائع عدم التقدیر الخ۔ وعمل الناس الیوم علی ما اختارہ في البدائع- رملي- والظاہر أن المراد عدم التقدیر بمقدار معین لکل أحد وفي کل وقت، کما یفیدہ تمام العبارۃ، بل تارۃ یقتصر علی أدنی ما ورد کأقصر سورۃ من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورۃ من قصارہ عند ضیق وقت أو نحوہ من الأعذار، لأنہ علیہ الصلاۃ و السلام قرأ في الفجر بالمعوذتین لما سمع بکاء، صبي خشیۃ أن یشق علی أمہ۔ وتارۃ یقرأ أکثر ماورد إذا لم یمل القوم، فلیس المراد إلغاء الوارد ولو بلاعذر، لذا قال في البحر عن البدائع: والجملۃ فیہ أن ینبغی للإمام أن یقرأ مقدار مایخف علی القوم ولا یثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۲۶۲،زکریا دیوبند)
ذکر الکرخي وقال: وقدر القرائۃ في الفجر للمقیم قدر ثلاثین آیۃ إلی ستین آیۃ، سوی فاتحۃ الکتاب في الرکعۃ الأولی، وفي الثانیۃ مابین عشرین إلی ثلاثین الخ … والجملۃ فیہ أنہ ینبغي للإمام أن یقرأ مقدار مایخف علی القوم، ولایثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام لما روي عن عثمان بن أبي العاص الثقفي أنہ قال: آخر ما عہد إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أصلي بالقوم صلاۃ أضعفہم وروي عنہ علیہ السلام أنہ قال: من أم قوماً فلیصل بہم صلاۃ أضعفہم فإن فیہم الصغیر والکبیر وذا الحاجۃ۔ وروي أن قوم معاذ لما شکوا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تطویل القراء ۃ دعاہ فقال أفتان أنت یامعاذ قالہا ثلاثاً، أین أنت من والسماء والطارق، والشمس وضحاہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان القدر المستحب من القراء ۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، ۴۸۰، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص366

طلاق و تفریق

Ref. No. 2456/45-4428

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ منگنی کے بعد نکاح بھی ہو گیا تھا اگرچہ رخصتی نہیں ہوئی تھی اگر بات یہی ہے تو دنیوی عدالت کے ذریعہ بغیر شوہر کی مرضی کے نکاح فسخ نہیں ہو سکتا ہے دونوں کا نکاح بدستور باقی ہے، لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر لڑکی کو یا اس کے گھر والوں کو شرعی یا طبعی اعذار کی بنا پر نکاح ختم کرانا ہے تو شرعی دار القضاء سے رجوع کر سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Marriage (Nikah)

Ref. No. 945 Alif

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

Loving a girl is unlawful and a big sin as per the Shariah; one must shun it. However, if one falls in love he should get up in the mid night of Friday and keeping her in mind read the following text to seek her from Allah.

The text is as follows:

                            فان تولوا فقل حسبی اللہ لاالہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ، انت الرب حسبی من فلانۃ بنت فلانۃ اعطف قلبھا الی۔

For more detail, read ‘Ganjeena e Asraar’ by Allamah Kashmiri (ra).

And Allah Knows Best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 943/41-87

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لفظ خلع  الفاظ کنائی میں سے ہے۔ اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے خلع کے الفاظ کہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

 لو قال: خالعتك ونوى الطلاق يقع الطلاق ولا يسقط شيء من المهر والنفقة. (الدرالمختار 3/595) وأما حكم الخلع فإن كان بغير بدل بأن قال خالعتك ونوى به الطلاق فحكمه أن يقع الطلاق ولا يسقط شيء من المهر والنفقة الماضية   (البحرالرائق 4/206)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1043/41-214

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) جب ریاح کے خارج ہونے کا یقین ہوجائے گرچہ اس میں آواز یا بدبو نہ ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (2) ہوا نکلنے کا یقین ہے تو وضو ٹوٹ گیا گرچہ  بہت تھوڑی سی نکلی ہو۔ (3) پیشاب اور پاخانے کے راستے سے کوئی بھی چیز نکلی تو وضو ٹوٹ جائے گا،حتی کہ اگر کوئی کیڑا وغیرہ نکلا تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ (4) ایک فی صد بھی اگر ہوا نکلے گی تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اس میں اصل سبیلین سے نکلنے پر وضو کے ٹوٹنے کا مدار ہے۔ اگر سبیلین سے نکلنا پایا گیا تو وضو کا ٹوٹنا بھی پایا جائے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1255-42-592

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسی مجبوری میں از راہ انسانیت ان کا تعاون کرنے کی گنجائش ہے، تاہم جلانے میں کسی تعاون کی ضرورت نہیں ، اس لئےلاش کو جلانے کے عمل میں اور ان کے مذہبی رسومات میں تعاون سے گریز کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1504/42-978

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب جانور بیچنے والے نے جانور کی عمر وغیرہ سب کچھ کی وضاحت کردی تو اس کی کمائی حلال ہے۔یہ خریدنے والے کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے قربانی کے لئے اس کو وکیل بنایاہے ان کی طرف سے واجب جانور کی قربانی کرے۔ ایسا جانور قربانی میں ذبح کرنا جس کی عمر مکمل نہ ہو جائز نہیں ہے اور جو لوگ اس طرح کی قربانی کریں گے وہ گنہگار ہوں گے اور دوسروں کی قربانی صحیح نہ ہونے کا گناہ بھی ان کے ہی سر جائے گا۔

لابأس بأن یواجر المسلم داراً من الذمي لیسکنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق للمسلم أثم في شيءٍ من ذلک؛ لأنه لم یوجرها لذلک والمعصیة في فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار في ذلک. (المبسوط ج :17 ص: 309) وذكر الزعفراني أنه ابن سبعة أشهر. والثني منها ومن المعز سنة، ومن البقر ابن سنتين، ومن الإبل ابن خمس سنين، ويدخل في البقر الجاموس لأنه من جنسه (فتح القدیر، کتاب الاضحیۃ 9/517)م (تبیین الحقائق، مما تکون الاضحیۃ 6/7) (تحفۃ الفقھاء، کتاب الاضحیۃ 3/84)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1977/44-1919

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  سوال میں مذکور عمل کثیر کی تعریف درست ہے،  اس کے علاوہ عمل کثیر کی یہ تعریف بھی کی گئی ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے  کہ یہ عمل کرنے والا نماز میں نہیں ہے، مثلا اگر کوئی ایک رکن میں تین بار اس طرح کھجائے کہ تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین تسبیح کہنے کی مقدار وقت سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی، لیکن اگر رکن طویل ہو اور کھجانے کے لئے تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین تسبیح کہنے کی مقدار وقت سے زیادہ ہو تو دیکھنے والے کو اس شخص کے  نماز میں نہ ہونے کا یقین نہیں ہوگا، اس لئے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ باقی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں۔

"(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل۔  ۔ ۔ ۔  (قوله: ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة ط قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها ط. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية.

القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل۔   الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها.    الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى. اهـ. قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ. اهـ.  (قوله: ما لا يشك إلخ) أي عمل لا يشك أي بل يظن ظنا غالبا شرح المنية وما بمعنى عمل، والضمير في بسببه عائد إليه والناظر فاعل يشك، والمراد به من ليس له علم بشروع المصلي بالصلاة كما في الحلية والبحر. وفي قول الشارح من بعيد تبعا للبدائع والنهر إشارة إليه لأن القريب لا يخفى عليه الحال عادة فافهم (قوله: وإن شك) أي اشتبه عليه وتردد"۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624)

"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (وعبثه به) أي بثوبه (وبجسده) للنهي إلا لحاجة۔ ۔ ۔  (قوله: وعبثه) هو فعل لغرض غير صحيح قال في النهاية: وحاصله أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به. أصله ما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا. وفي زمن الصيف كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة لأنه كان مفيداً كي لاتبقى صورة. فأما ما ليس بمفيد فهو العبث اهـوقوله كي لا تبقى صورة يعني حكاية صورة الألية كما في الحواشي السعدية، فليس نفضه للتراب. فلا يرد ما في البحر عن الحلية من أنه إذا كان يكره رفع الثوب كي لا يتترب، لا يكون نفضه من التراب عملا مفيدا (قوله للنهي) وهو ما أخرجه القضاعي عنه صلى الله عليه وسلم: «إن الله كره لكم ثلاثاً: العبث في الصلاة. والرفث في الصيام، والضحك في المقابر» " وهي كراهة تحريم كما في البحر (قوله: إلا لحاجة) كحك بدنه لشيء أكله وأضره وسلت عرق يؤلمه ويشغل قلبه. وهذا لو بدون عمل كثير. قال في الفيض: الحك بيد واحدة في ركن ثلاث مرات يفسد الصلاة إن رفع يده في كل مرة اهـ۔ وفي الجوهرة عن الفتاوى: اختلفوا في الحك. هل الذهاب والرجوع مرة أو الذهاب مرةً والرجوع أخرى" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 640)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام سفر

Ref. No. 2149/44-2233

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر سفر کے ارادہ سے نکلا اور سفر کی مسافت شرعی پوری نہیں کی اور واپس آگیا، تو واپسی میں وہ مسافر نہیں رہا، البتہ جو نمازیں واپسی کے ارادہ سے قبل  قصر کی ہیں ان کو دوبارہ اداکرنا ضروری نہیں ہے۔

 اما اذا لم یسر ثلاثۃ ایام فعزم علی الرجوع او نوی الاقامۃ یصیر مقیما وان کان فی المفازۃ  (الھندیۃ 1/199 الباب الخامس عشر فی صلوۃ المسافر، زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند