طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے  اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے، تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے، تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘(۱)اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایا جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔
 جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرھا فخرج بعصرہ ولو لم یعصرھا لم یخرج لم ینقض لأنہ مخرج ولیس بخارج‘‘ (۲)یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا؛ کیوںکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے؛ چنانچہ علامہ لکھنویؒ صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: ’’في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی۔ و کیف وجمیع الأدلۃ الموردۃ من السنۃ والقیاس تفید تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت في المخرج‘‘(۳)

(۱) فتح القدیر، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۶
(۲)محمد بن محمود، العنایۃ شرح الہدایۃ ، ’’فصل في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۵۴
(۳)کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، شرح فتح القدیر ، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اگر کوئی غیر حافظ پابند شرع ایسا ہو جو نماز پڑھا سکے تو وہ نماز کے لیے مقدم ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہو کہ نماز بھی صحیح پڑھا سکے کہ اس کو چند سورتیں بھی یاد نہ ہوں تو بغیر جماعت نماز پڑھنے کے بجائے اسی غیر حافظ کو امام بنالیا جائے۔(۱)
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ فرض وقیل واجب وقیل سنۃ … قولہ قدر فرض … قدر ما تجوز بہ الصلاۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء، الإسلام، والبلوغ والعقل والذکـورۃ والقراء ۃ، بحفظ آیۃ تصح بہا الصلوۃ علی الخلاف، قولہ بحفظ آیۃ، ولو قصیرۃ والأولی أن یقول بحفظ ما تصح بہ الصلوۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۸، شیخ الہند دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص82

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد کا اجنبیہ عورت کو چھونا درست نہیں ہے؛ اس لیے امام صاحب کا یہ پیشہ قابلِ ترک ہے اگر امام صاحب چوڑیاں بیچیں مگر عورتوں کو اپنے ہاتھ سے نہ پہنائیں تو ان کی امامت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر باز نہ آئیں تو ان کی جگہ کسی اور مناسب آدمی کو امام بنادیا جائے۔(۱)

(۱) وإذا صلی الرجل خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لما روینا من الحدیث لکن لاینال ثواب من یصلي خلف عالم تقي۔ (قاضي خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلوۃ، فصل فیمن یصح الاقتداء بہ وفیمن لایصح‘‘:ج۱، ص: ۵۹)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذٰلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)  
کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الإستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد، وشرعاً: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ فتجب إہانتہ شرعًا، فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ تبع فیہ الزیلغي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص:۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص206

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف بندی کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے بالغ مردوں کی صفیں لگائی جائیں اس کے بعد نابالغ لڑکوں کی صف بنائی جائے پس اگر نابالغ لڑکے نے بڑوں کی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تو نماز ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلینی منکم أولو الأحلام والنہي۔  (المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۸)
ویصف الرجال ثم الصبیان ثم الخناثی ثم النساء۔ (حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۱۶)
والترتیب الحاصر لہا أن یقدم الأحرار البالغون ثم الأحرار الصبیان ثم العبید البالغون ثم العبید الصبیان ثم الأحرار الخناثی الکبار ثم الأحرار الخناثی الصغار ثم الأرقاء الخناثی الکبار ثم الأرقاء الخناثی الصغار ثم الحرائر الکبار ثم الحرائر الصغار ثم الإماء الکبار ثم الإماء الصغار۔ (عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، أولٰی الناس بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 413


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے تو اس وقت ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے جس کو عام زبان میں کہتے ہیں کہ عصر کی نماز مثل ثانی پر پڑھنی چاہئے یہ عصر کی نماز کا وقتِ جواز ہے اور اصفرار شمس سے پہلے پہلے تک عصر کی تاخیر مستحب ہے اور اصفرار تک موخر کرنا مکروہ ہے، اگر کسی وجہ سے عصر کی نماز مثل اول پر پڑھ لے تو نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں اس لیے کہ صاحبینؒ کے نزدیک عصر کی نماز کا وقت مثل اول پر ہی شروع ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) وقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في شرح المجمع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت‘‘: الفصل الأول في أوقات الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

وأول وقت العصر من ابتداء الزیادۃ علی المثل أو المثلین لما قدمناہ من الخلاف إلی غروب الشمس علی المشہور۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاويعلی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 57

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہنا نماز کے شروع کرنے کے لیے ہر ایک نمازی (امام، مقتدی، مدرک، مسبوق) پر الگ الگ فرض ہے جس کے چھوڑ دینے سے ترک فرض لازم آئے گا اور نماز نہیں ہوگی پس مذکورہ دونوں مسئلوں میں جس طرح امام پر تکبیر تحریمہ فرض ہے اسی طرح مدرک و مسبوق پر بھی فرض ہے اس کے چھوڑ دینے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في قولہم الإساء ۃ دون الکراہۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۰، ۱۷۱، زکریا دیوبند۔
(قولہ وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ) للمواظبۃ وہي وإن کانت من غیر ترک تفید الوجوب لکن إذا لم یکن ما یفید إنہا لیست لحامل الوجوب، وقد وجد، وہو تعلیمہ الأعرابي من غیر ذکر تأویل، وتأخیر البیان عن وقت الحاجۃ لا یجوز، علی أنہ حکي في الخلاصۃ خلافا في ترکہ، و قیل یأثم، وقیل لا، قال والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیانا۔ اہـ۔ (ابن نجیم، البحرالرائق،کتاب الصلاۃ ’’سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۲۸؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص316

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صور ت مسئولہ کے متعلق فتاوی محمودیہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
غلطی منافی صلاۃ ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر معنی بگڑنے سے نماز فاسد ہوگئی تھی تو اس لفظ کا صحیح طور پر اعادہ کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوئی، بلکہ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ عالمگیری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صحیح ہوجائے گی۔ ہمارے اکابر اس کو نفل وتراویح وغیرہ پر محمول کرتے ہیں۔ وسط کلمہ پر سانس توڑنے سے خواہ تشہد وغیرہ میں معنی صحیح رہیں یا بگڑیں سب کا ایک حکم ہے۔(۱)

(۱) (فتاوی محمودیہ ج ۱۱ ص۲۰۶ مطبوعہ مکتبہ محمودیہ میرٹھ۲۰۰۹ء)
لو قرأ القرآن في الصلاۃ بالألحان إن غیر الکلمۃ تفسد، وإن کان ذلک في حروف المد واللین لا تفسد إلا إذا فحش۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: البال الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰، زکریا دیوبند)
اعلم أن الحرف إما أن یکون من أصول الکلمۃ أولا،وعلی کل إما أن یغیر المعنیٰ أو لا، فإن غیر نحو خلقنا، بلا خاء أو جعلنا بلا جیم تفسد عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص253

حدیث و سنت

Ref. No. 40/986

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے، اور احادیث حب وطن کے جواز پر دلالت کرتی ہیں تاہم مذکورہ  جملہ حدیث کی کتابوں میں ہمیں نہیں ملا۔ ہوسکتا ہے کسی نے اپنی طرف سے بیان کیا ہو اور یہ مطلب لیا ہو کہ وطن سے محبت ایمان کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/1005

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمپنی اپنے تعارف کے لئے  اور گراہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے  آن لائن ٹرانزیکشن پر بطور کیش بیک اورریوارڈ جو رقم دیتی ہے وہ انعام کے درجہ میں ہے، وہ سود کے زمرے میں نہیں ہے اس لئے اس انعامی رقم کواستعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔یہ ایسے ہی ہے  جیسےکہ آپ نے کوئی چیز خریدی اور کمپنی نے اس کے ساتھ ایک چیز مفت میں دیدی۔  تاہم اس بات کا خیال رہے کہ پے ٹی ایم اور دیگر والیٹ یا اپپس اگر جمع شدہ پیسے پر بطور سود کچھ متعین رقم دیتے ہیں تو اس کو سود کہا جائے گا اور اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا بلکہ دیگر سود کی طرح اس سود کو بھی بلانیت ثواب فقراء پر صدقہ کردینا واجب ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 953/41-000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

As long as the father is alive, the children have no share in his property. Children’s demand to give them their shares in his lifetime is totally illegal in shariah. Father has full authority over his property to give it to any relatives and friends and also to masjid and madrasa. Nevertheless, one should inculcate in his mind that mirath is a sharia right, hence no one can overlook it. Therefore, if a father gives away his property to his relatives merely with the intention to deprive some or all of his children of mirath completely, then it is unlawful and a great sin.

الارث جبری لا یسقط بالاسقاط ( العقود الدریۃ 2/51)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband