نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1039/41-228

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فرض نمازوں میں مسنون قرات مستحب ہے جس کا اہتمام کرنا چاہئے۔

ویستحب فی الحضر ان یقرأ فی الفجر طوال المفصل وفی الظھر کذلک۔ ـ(منیۃ المصلی 97) والمستحب قراءۃ المفصل تیسیرا للأمر (فتاوی قاضیخان 1/16)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1152/42-388

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آئی ، معنی میں فساد نہیں آیا، اس لئے نمازدرست  ہوگئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کفریہ منتر پڑھنا حرام ہے اور کفر تک پہونچانے والا ہے؛ اس لئے ایسے کلمات سے احتراز اور اپنے ایمان کی حفاظت ازحد لازمی اور ضروری ہے۔ (۱)

(۱) فما یکون کفراً بالاتفاق یوجب احتیاط العمل کما في المرتدِّ، وتلزم إعادۃ الحجِّ إن کان قد حج، ویکون وطؤہ حینئذٍ مع إمرأتہ زناً، والولد الحاصل منہ في ہذہ الحالۃ ولد الزِّنا، ثم إن أتی بکلمۃ الشہادۃِ علی وجہ العادۃ لم ینفعہ ما لم یرجع عما قالہ لأنہ بالإتیان بکلمۃ الشہادۃ لا یرتفع الکفر، وما کان في کونہ کفراً اختلاف یؤمر قائلہ بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک احتیاطا، وما کان خطأ من الألفاظ لا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفاروالرجوع عن ذلک، ہذا إذا تکلم الزوج فإن تکلمت الزوجۃ ففیہ اختلافٌ في إفساد النکاح، وعامَّۃ علمائِ بخاري علی إفسادہ لکن یجبر علی النکاح ولو بدینارٍ وہذا بغیر الطلاق۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقي الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ، ولا اعتبار باعتقادۃ، ومن تکلم بہا خطأً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عالماً عامداً کفر عند الکل، ومن تکلم بہا اختیاراً جاہلاً بأنہا کفرٌ ففیہ اختلاف، والذي تجود أنہ لا یفتی بتکفیر مسلمٍ أمکن حمل کلامہ علی محملٍ حسن أو کان في کفرہ اختلاف۔ (ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا: ج ۶، ص: ۳۵۸)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1780/43-1519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پنجوقتہ نمازیں شب معراج میں فرض ہوئیں، البتہ معراج کا واقعہ کب پیش آیا اس سلسلہ میں راجح  قول یہ ہے کہ ماہ رجب سنہ 12 نبوی میں یہ واقعہ پیش آیا۔

 وفرضت فی الاسراء (الدر المختار مع رد المحتار  1/352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1881/43-1751

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں مرحومہ کی کل جائداد کو  32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ایک چوتھائی یعنی آٹھ حصے مرحومہ کے شوہر کو ، ہر ایک بیٹے کو چھ چھ اور ہر ایک بیٹی کو تین تین حصے ملیں گے۔ مرحومہ کے بھائی کو اس کی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقدیر کی بحث وتحقیق میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ بچنا چاہئے۔(۱) مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔ تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے۔(۲)

۱) عن أبي  ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فُقِئ في وجنتیہ حب الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم أن لاتنازعوا فیہ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۷، رقم: ۹۸)

(۲) المعلق والمبرم کل منہما مثبت في اللوح غیر قابل للمحو، نعم المعلق فيالحقیقۃ مبرم بالنسبۃ إلی علمہ تعالیٰ۔ (أیضاً: ’’الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

 

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)

 

اسلامی عقائد

 Ref. No. 2385/44-3602

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی غالبا اپنے شوہر کو طعنہ دے رہی ہے کہ تم دینداری کا ڈھونگ کرتے ہو، اگر یہی دینداری ہے تو اس سے اچھا جاہل رہنا ہے، اس لئے میں اپنے بچوں کو آوارہ بناؤں گی، ظاہر ہے کہ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو آوارہ کیونکر بنانا چاہے گی، اس لئے یہ محض ایک دھمکی ہے، اور غصہ کا اظہار معلوم ہوتاہے، اس میں دین کی تخفیف درحقیقت نہیں ہے۔ اس لئے عورت کے مذکورہ جملوں سے کفر لازم نہیں آئے گا۔ البتہ بظاہر دین سے بیزاری کی بات ہے، اس لئے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور آئندہ اس طرح کی بات سے گریز کرنا چاہئے جس سے بظاہر بھی دین کا استخفاف معلوم ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2558/45-3905

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حضور ﷺ کے لباس میں ازار (تہبند) قمیص اور چادر کا ذکر ملتاہے، اور شلوار کا استعمال صحابہ کرام سے ثابت ہے، نیز حضور اکرم ﷺ سے شلوار کا خریدنا ثابت ہے۔ جس وضع قطع اور ہیئت کی شلوار قمیص علماء وصلحاء پہنتے ہیں وہ اقرب الی السنۃ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لباس کے لئے جن اصولوں کی طرف رہنمائی  فرمائی ہے اس کی روشنی میں لباس اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ وہ لباس ساتر ہو، اور غیرمسلموں کا شعار نہ ہو۔ لہذا آپ کا لباس غیرشرعی نہیں ہے، شبہہ نہ کیاجائے۔

عن ابی ھریرۃؓ  قال دخلت یوما السوق مع رسول اللہ ﷺ فجلس الی البزازین فاشتری سراویل باربعۃ دراھم۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، باب السراویل  5/121)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو توکل سے تعبیر کرنا بھی بڑی غلطی ہے، حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اگر کوئی دین میں کوتاہی کرے گا، لیکن حقوق العباد جو ذمہ میں رہ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا، اگر صاحب حق معاف نہ کرے، تو آخرت میں مواخذہ ہوگا، حقوق واجبہ کو ترک کرکے جانے کی شرعاً ہر گز اجازت نہیں ہوگی، حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنے اور جان بوجھ کر نقصان برداشت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ (۱)

 (۱) عن معاذ رضي اللّٰہ عنہ، قال: أو صاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعشر کلمات قال: لا تشرک باللّٰہ شیئاً وإن قتلت وحرقت، ولا تعقّنّ والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الخ: رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۸)
وعن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الزہادۃ في الدنیا لیست بتحریم الحلال ولا إضاعۃ، ولکن الزہادۃ في الدنیا أن لا تکون بما في یدیک أو ثق بما في یدي اللّٰہ وأن یکون في ثواب المصیبۃ إذا أنت أصبت بہا أرغب فیہا لو أنہا أبقیت لک۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب التوکل والصبر‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص311

بدعات و منکرات

الجواب:بیعت اس لیے کی جاتی ہے کہ مرشد کی رہنمائی اوراس کی ہدایت پر عمل کرنے سے راہ سنت پر چلنا اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے، بیعت ہونا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور اصلاح نفس کی جس طرح مرد کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عورت کو بھی ضرورت ہے تاہم عورت کی بیعت کے لیے شوہر کا بیعت ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بیعت کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
’’إعلم أن البیعۃ سنۃ لیست بواجبۃ و لم یدل دلیل علی تاثیم تارکہا و لم ینکر أحد علی تارکہا‘‘(۱) ’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وبالجملۃ فالتصوف عبارۃ عن عمارۃ الظاہر والباطن أما عمارۃ الظاہر فالأعمال الصالحۃ وأما عمارۃ الباطن فذکر اللّٰہ وترک الرکون إلی ماسواہ وکان یتیسر ذلک للسلف بمجرد الصحبۃ الخ،(۲) قال عروۃ: فأخبرتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یمتحنہن بہذہ الآیۃ:
{ٰٓیاَ یُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّط اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِھِنَّج فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّط وَأٰ تُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰ تَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقُوْاط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌہ۱۰ وَإِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَأٰ تُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ أَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ أَنْفَقُوْاط وَاتَّقُوا اللّٰہَ  الَّذِيْٓ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَہ۱۱ ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ إِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ أَیْدِیْھِنَّ وَأَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَط إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (۳)
 قال عروۃ: قالت عائشۃ: فمن أقر بہذا الشرط منہن، قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: قد بایعتک کلاما یکلمہا بہ، واللّٰہ ما مست یدہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ، وما بایعہن إلا بقولہ‘‘۔ (۱)

 اسی طرح شادی سے پہلے جب کہ لڑکی اپنے والد کی تربیت میں ہوتی ہے بہتر ہے کہ والد کی اجازت سے کسی مصلح سے بیعت ہوجائے۔ اصلاح کے لیے بہتر ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ہی واسطہ بنائے اور انہی کے ذریعہ اپنے مرشد سے رہنمائی حاصل کرے؛ لیکن اگر عورت کسی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے، تو شیخ کے گھر کی کسی خاتون سے مدد لے سکتی ہے۔(۲)
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدھلويؒ، القول الجمیل، الفصل الثاني:ص: ۱۲۔
(۲) ظفر أحمد العثمانيؒ، إعلاء السنن، کتاب الأدب والتصوف والإحسان: ج ۱۸، ص: ۴۴۹۔
(۳) الممتحنۃ: ۱۰ تا ۱۲) (البقرۃ: ۱۷۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیہ، ’’کتاب الشروط: باب ما یجوز من الشروط في الإسلام والأحکام والمبایعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۲۷۱۱۔
(۲) قولہا واللّٰہ ما مست ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ یبایعہن بالکلام فیہ أن بیعۃ النساء بالکلام من غیر أخذ کف وفیہ أن بیعۃ الرجال بأخذ الکف مع الکلام الخ۔ (النووي، شرح مسلم، ’’کتاب الإمارۃ: باب کیف بیعۃ النساء‘‘: ج ۲،ص: ۱۳۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص404