اسلامی عقائد

Ref. No. 2272/44-2433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قدرتی طور پر جتنی داڑھی ہے، اسی کو باقی رکھنا مناسب ہے تاہم  بالوں کو بڑھانے والے پاک تیل کا استعمال بھی جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:نفس دعا ثابت ہے، ’’الدعا مخ العبادۃ‘‘ نیز دعا کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے، کسی بھی وقت دعا کرسکتے ہیں، دعا کرنا پسندید عمل ہے قرآن کریم میں ہے {أدعوني استجب لکم} (۱) تاہم کسی وقت کو دعا کے لیے اس طرح خاص کردینا درست نہیں ہے کہ اس وقت دعا کو مباح ہی نہیں، بلکہ لازم وضروری سمجھا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برا سمجھا جائے ایسا کرنا بدعت ہے حدیث ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۲) مذکورہ صورت میں چوں کہ دعا کو اس وقت میں لازم نہیں سمجھا جارہا ہے؛ بلکہ ایک مباح اور پسندیدہ امر کے طور پر دعا کرلیتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی بعض لوگ دعا نہیں بھی کرتے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے؛ اس لیے یہ امر بدعت نہیں ہے۔ (۳)

(۱) (سورۃ غافر: ۶۰)
(۲)  (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۳) عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الدعاء ہو العبادۃ، ثم قرأ: {وقال ربکم ادعوني استجب لکم} (غافر: ۶۰) رواہ أحمد، والترمذي، وأبو داؤد، والنسائي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الدعوات: الفصل الثاني‘‘: ج ۵، ص: ۵۰۲، رقم: ۲۲۳۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے التزام کا ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز اولیٰ ہے۔ تاہم بلا التزام دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (۲)

(۲) فافتتاح الدعاء علی اللّٰہ علی ما ہو أہلہ ثم الصلوٰۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإن کان لہ في الشریعۃ … ثم ہذا التزام ثم تشدید النکیر علی التارک کل ذلک بعید عن السنۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۳، ص: ۱۲۵)
من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ا  ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ،ج۳، ص:۱۱۵ رقم: ۲۹۸۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص507

مساجد و مدارس

Ref. No. 2492/45-3802

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  منبرپرتقریر کے دوران کسی دینی کتاب کی رہنمائی کرنا دعوتِ دین ہے اور خیرخواہی پر مبنی ہے۔ دوران تقریرمسجد میں اس طرح کی بات کرنا بھی دینی بات ہی ہے، اس میں بلاوجہ شک نہ کیاجائے۔ یہ اعلان نہ تو مسجد کے ادب کے خلاف ہے اور نہ ہی یہ بیع فی المسجد کے مشابہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداًء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا تھا؛ اس لئے عذر کرنے کو دین کی محنت کے مذاق سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: کان أبو لیلی یسمر مع علي فکان یلبس ثیاب الصیف في الشتاء وثیاب الشتاء في الصیف، فقلنا: لو سألتہ، فقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث إلي وأنا أرمد العین یوم خیبر، قلت یا رسول اللّٰہ إني أرمد العین فتفل في عیني، ثم قال: اللہم إذہب عنہ الحر والبرد، قال: فما وجدت حراً ولا برداً بعد یومئذ وقال: لأبعثن رجلاً یحب اللّٰہ ورسولہ، ویحبہ اللّٰہ ورسولہ لیسً بفرار) فتشرف لہ الناس فبعث إلي علي فأعطاہا إیاہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب في فضائل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فضل علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۱۱۷)
عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: کنت إلی جنب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغشیتہ السکینۃ فوقعت فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی فخذی، فما وجدت ثقل شيء أثقل من فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم سری عنہ، فقال: (اکتب) فکتبت في کتفٍ {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵) {وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (سورۃ النساء: ۹۵) إلی آخر الآیۃ، فقام ابن أم مکتوم، وکان رجلا أعمی لما سمع فضیلۃ المجاہدین، فقال یا رسول اللّٰہ، فکیف بمن لا یستطیع الجہاد من المؤمنین فلما قضی کلامہ غشیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السکینۃ فوقعت فخذہ علی فخذی ووجدت من ثقلہا في المرۃ الثانیۃ، کما وجدت في المرۃ الأولی ثم سری عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: (اقرأ یا زید) فقرأت {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵)، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} (سورۃ النساء: ۹۵)، الآیۃ کلہا، قال زیدٌ: فأنزلہا اللّٰہ وحدہا، فألحقتہا، والذي نفسي بیدہ کأني أنظر إلی ملحقہا عند صدع في کتف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب في الرخصۃ في العقود من العذر‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۹، رقم: ۲۵۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص305

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ پیر کا اپنے مزعومہ کشف کے ذریعہ نہ ماننے والوں کو بے ایمان،منافق، راندۂ درگاہ کہنا، کھلی ہوئی گمراہی ہے یا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ معاف نہیں ہوئے ایسی گمراہی ہے جس پر کفر کا اندیشہ ہے(۱) اولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد ہو نہیں سکتا اور اگر احتمال ہوتا بھی، تو قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ان کی معافی کے اعلان کے بعد ایسا عقیدہ انتہائی غلط ہے،(۲) مذکورہ پیر کا لوگوں کو بیعت ہونے کے لئے مجبور کرنا یا خلفاء کے ذریعہ جھوٹی تشہیر کرانا، اپنے جھوٹے مشاہدات بیان کرنا یا کرانا، کسی دیندار جماعت کے بارے میں ایمان پر خاتمہ نہ ہونے کی پیشین گوئی کرنا یا اپنی قدم بوسی کرانا ناجائز ہے، ایسے پیر سے بیعت کا تعلق ختم کر کے علیحدہ ہو جانا فرض اور اس کے ساتھ رہنا حرام ہے، نیز ایسے پیر پر صدق دل سے توبہ کرنا فرض ہے۔(۳)

(۱) وقال مع ذلک إن معاصي الأنبیاء کانت عمداً فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع،  ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
(۲) {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاہلا ۱  لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ  صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ہلا ۲  } (سورۃ الفتح: ۱)

(۳) وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر، لا تنفعہ فتویٰ المفتي، ویؤمر بالتوبۃ، والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امرأتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص401

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: بستر اگر خشک ہے اور بدن کو پسینہ بھی نہیںآیا، تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور نہ بدن ناپاک ہوگا، لیکن اگر پسینہ آنے کی وجہ سے پیشاب کا اثر کپڑوں یا بدن میں آگیا، تواب ناپاکی کا حکم ہوگا۔
نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجّس و إلا لا۔ (۳)إذا نام الرجل علی فراش، فأصابہ مني و یبس، فعرق الرجل وابتلّ الفراش من عرقہ۔ إن لم یظھر أثر البلل في بدنہ لا یتنجّس، و إن کان العرق کثیرا حتی ابتلّ الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسدہ، فظھر أثرہ في جسدہ، یتنجس بدنہ۔(۴)
إن نام علی فراش نجس، فعرق وابتلّ الفراش مع عرقہ، فإنہ إن لم یصب بلل الفراش بعد ابتلالہ بالعرق جسدہ، لا یتنجس جسدہ۔(۱)

(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۶۰
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني، في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک، ج۱، ص:۱۰۲
(۱)إبراھیم بن محمد الحلبي، حلبي کبیري، فصل في الآسار، ص:۱۵۳


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت کا اصول ہے ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ کہ یقین شک سے ختم نہیں ہوگا؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو جائے، وضو نہیں ٹوٹے گا، اس لیے اس کا وضو باقی رہا اور نماز مغرب اس کی درست ہو گئی۔(۱)

(۱)الیقین لایزول بالشک۔ و دلیلھا ما رواہ مسلم عن أبي ھریرۃؓ مرفوعاً ’’إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا، فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا، فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتاً أو یجد ریحاً۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثہ،ص:۱۸۳، دارالکتاب دیوبند)، من تیقن الطھارۃ، و شک في الحدث، فھو متطھر (ایضاً، ص:۱۸۷)، من أیقن بالطھارۃ، و شک في الحدث، فھو علی طھارۃ۔(علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء، ج۱، ص:۳۶، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مقتدیوں کی رعایت میں وقت کی پابندی کرنی چاہئے؛ لیکن اگر اتفاقاً کچھ معمولی تاخیر ہوجائے تو مقتدیوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔(۱)

(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، مطلب إطالۃ الرکوع للجائي‘‘ ج۲، ص: ۱۹۹۔
وقال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: إنکم لم تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ۔ (أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب وقت العشاء وتأخیرہا‘‘: ج۱، ص: ۲۲۹، رقم: ۸۴۷)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص شرعاً غاصب ہے جس کی وجہ سے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وأکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹)
کذا تجوز إمامۃ الأعرابي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ، إلا أنہا تکرہ في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إما مالغیرہ‘‘ ج۱، ص: ۱۴۱)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (أیضًا:)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد: قولہ نال فضل الجماعۃ الخ، أن الصلوۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۱)
وإذا صلی الرجل خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لما روینا من الحدیث لکن لاینال ثواب من یصلي خلف عالم تقي۔ (قاضي خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلوۃ، فصل فیمن یصح الاقتداء بہ وفیمن لایصح‘‘: ج۱، ص: ۵۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص198