Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1366/42-777

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is wajib (obligatory) to keep the clothes above the ankles, and it is strictly forbidden in the hadiths to keep them below.

عن أبى هريرة - رضى الله عنه - عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففى النار». (فیض الباری، باب من جر ثوبہ من الخیلاء 6/73) (فتح الباری لابن رجب، باب بالتنوین مااسفل من الکعبین 10/257) عَن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أُزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا حرج ولا جناح فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو في النار، من جر إزاره بطراً لم ينظر الله إليه. (معالم السنن، ومن باب قدر موضع الازار 4/197)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1489/42-953

وباللہ التوفیق:۔ اے سی سے نکلنے والا پانی پاک ہوتاہے، اس سے وضو وغسل سب جائز ہے۔ البتہ اس بات کی تحقیق کرلی جائے کہ اس سے اعضاء کو کوئی نقصان تو نہیں پہونچتا۔ طبی اعتبار سے اگر مضر ہو تو بچنا چاہئے تاہم وضو و غسل ہوجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 1866/43-1729

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ شروع کرنے کے بعد بلاکسی عذر شرعی کے توڑنا جائز نہیں ہے، البتہ  رمضان کے قضا روزے توڑنے پر ایک مزید روزہ کی  قضا یاایک مزید کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1962/44-1883

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  چھپکلی کی بیٹ ناپاک ہے، اس لئے  کپڑے اور جسم پر لگنے سے کپڑا اور جسم ناپاک ہوجائیں گے۔ اگر بیٹ خشک ہوگئی ہے تو کپڑے اور بدن پر نہیں لگے گی، لیکن اگر گیلی ہے تو کپڑے خراب ہوجائیں گے اور ناپاک ہوجائیں گے۔ مسجدوں میں صفائی کا اہتمام رکھنا چاہئے، ہر نمازی مسجد کی صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے، اسی طرح نماز سے پہلے نماز پڑھنے کی جگہ کو اچھی طرح دیکھ لینا چاہئے کہ کوئی نجاست مصلی پر نہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 318):

"(و بول غير مأكول و لو من صغير لم يطعم) إلا بول الخفاش و خرأه ... (و خرء) كل طير لايذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولًا فطاهر و إلا فمخفف (و روث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. و قالا: مخففة. و في الشرنبلالية قولهما أظهر.

(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها و لانصراف الإطلاق إليها كما يأتي، و لقوله و قالا: مخففة، وأراد بالحيوان ما له روث أو خثي: أي: سواء كان مأكولا كالفرس والبقر، أو لا كالحمام وإلا فخرء الآدمي وسباع البهائم متفق على تغليظه كما في الفتح والبحر وغيرهما فافهم. (قوله: وفي الشرنبلالية إلخ) عزاه فيها إلى [مواهب الرحمن] لكن في النكت للعلامة قاسم أن قول الإمام بالتغليظ رجحه في المبسوط وغيره اهـ ولذا جرى عليه أصحاب المتون".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے مواقع پر زیارت گاہوں اور قبرستان پر جانا اور اس کو ضروری سمجھنا التزام مالایلزم کے قبیل سے ہے، جو بدعت اور گمراہی ہے۔ ایسے رسم ورواج قابل ترک ہیں، تاکہ بدعت وضلالت کے گناہ سے انسان بچ سکے۔ اور ایسی بدعات ورسم ورواج میں پڑ کر، نمازوں کو کھو بیٹھنا سخت ترین گناہ ہے۔(۱)

(۱) وبالجملۃ ہذہ بدعۃ شرقیۃ منکرۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۵)
وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ … (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر الجہني عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۷)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ: ج ۲۲، ص: ۲۳۷، رقم: ۱۴۳۳۴)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص447

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں ان کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے اور ان پر توارث بھی ہے؛ اس لیے شب برأت کی فضیلت کا انکار کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں اس سلسلے میں بعض روایات ضعیف اور کمزور ہیں؛ لیکن بعض صحیح اور حسن درجہ کی بھی روایتیں ہیں؛ اس لیے مجموعہ روایات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ابن ماجہ کی حدیث:
’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فإن اللّٰہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر لي فأغفر لہ ألا مسترزق فأرزقہ ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر‘‘(۱) کا تعلق ہے اس کو متعدد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے التقریب میں اس پر رد کیا ہے وہ میری نظر سے نہیں گزرا ہاں دیگر محدثین نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے؛ لیکن اس رات کی فضیلت صرف اسی ایک حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ بلکہ اس کے علاوہ دیگر احادیث بھی ہیں جن سے اس رات کی فضیلت پر استدلال کیا گیا ہے مثلاً:
’’وعن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال: یطلع اللّٰہ إلی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو لمشاحن‘‘(۱) اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث ہے:
’’إذا کان لیلۃ النصف من شعبان إطلع اللّٰہ إلی خلقہ فیغفر للمؤمنین ویمہل الکافرین ویدع أہل الحقد بحقدہم حتی یدعوہ‘‘(۲) اس حدیث پر شیخ البانی نے بھی صحیح کا حکم لگایا ہے۔ ترمذی میں روایت ہے:
’’إن اللّٰہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا، فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب‘‘(۳)
اس طرح کی متعدد احادیث ہیں جن میں اگرچہ بعض ضعیف ہیں؛ لیکن تعدد طرق کی وجہ سے ان کا ضعف ختم ہو جاتا ہے اور وہ روایت قابل قبول ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے علماء کا ان روایات پر عمل رہاہے، محض ابن ماجہ کی ضعیف روایت کو دیکھ کر پندرہویں شعبان کا فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا درست نہیں ہے۔

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۱) الترغیب والترہیب، ’’کتاب الأدب وغیرہ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۷، رقم: ۴۱۸۸۔
(۲) صحیح الترغیب والترہیب، ’’الترغیب في الحیاء‘‘: ج ۳، ص: ۳۴، رقم: ۲۷۷۱۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في لیلۃ النصف من شعبان‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۶، رقم: ۷۳۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص495

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال کتابیں اسرائیلی روایات کی حامل ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہوگئی ہیں، (۱) چونکہ ان میں اکثر وبیشتر واقعات وقصص غیر معتبر ہیں ؛ اس لیے پرہیز اولیٰ ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط واقعات کا بیان عقائد اسلامیہ میں رخنہ اندازی کا باعث، البتہ اگر فضائل وشمائل کے باب میں اسرائیلی روایات بھی ہوں، تو چونکہ مقصد راہ خدا وندی کی طرف ترغیب دلانا ہے؛ اس لئے اس میں مضائقہ نہیں ہے۔
مذکورہ کتابوں میں جو باتیں دوسری معتبر کتابوں میں بھی آئی ہیں، وہ مذکورہ کتابوں میں بھی معتبر ہیں، علماء حقانی سے معلوم کرکے کتاب پڑھیں یا سنیں۔

(۱) وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج أي: الحرج الضیق والإثم وہذا لیس علی معنی إباحۃ الکذب علیہم بل دفع لتوہم الحرج في التحدیث عنہم وإن لم یعلم صحتہ وإسنادہ لبعد الزمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص185

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں جب استنجا کے لیے جاتے ہوئے دعا یاد نہیں رہی، تو گندی جگہ پر پہونچنے سے پہلے اور ستر کھولنے سے پہلے دعا یاد آ جائے، تو دعا پڑھ لینی چاہئے؛ لیکن اگر بیت الخلا میں گندی جگہ ہے یا ستر کھول چکا ہے، تو اب زبان سے دعا نہ پڑھے، ہاں بہتر ہے کہ دل ہی دل میں دعاء پڑھ لے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعاء پر بھی اجر عطا فرمائیں گے۔
’’قبل الاستنجاء وبعدہ إلا حال انکشاف وفي محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ،قال ابن عابدین: فلو نسی فیہا سمی بقلبہ ولا یحرک لسانہ تعظیماً لإسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘ (۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقي لا بعمنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص98

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک ہی مسواک جب تک وہ کام دے سکے، اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اگر مسواک سستی ہو اور عام طور پر ملتی بھی ہو؛ لیکن اس کو ضائع کر دینا یا ترک کر دینا جب کہ اس سے کام لیا جا سکتا ہواوردوسری مسواک خرید کراستعمال کرنا، اس پر اسراف کا شبہ ہوتا ہے۔(۱)

(۱) فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک بالشت کے بقدر ہونی چاہیے اس لیے اگر مسواک کرتے کرتے ایک بالشت سے چھوٹی ہوجائے، تو مسواک کو بدلا جاسکتا ہے و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر و طول شبر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ،  مطلب: في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۴)؛ و ندب إمساکہ بیمناہ و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’قبیل مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱،ص:۲۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر لائق امامت ہو تو اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل،… والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸،۷۷، مکتبہ عطاظ دیوبند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان، وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث صلو خلف کل برو فاجر۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص61