ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1260/42-594

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لون سود وقمار پر مشتمل ہوتاہے ، اور مذکورہ صورت کوئی اضطراری و شدید مجبوری کی بھی نہیں ہے، اس لئے لون لینا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hadith & Sunnah

Ref. No. 1508/42-986

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

According to the experts of Hadith, as the sayings and actions of the Prophet (saws) are called hadith, the same way the sayings and actions of the companions are called hadith. But, the sayings and actions attributed to the Prophet (saws) are called ‘Hadith-e Marfooa’ and the sayings and actions attributed to a companion are called ‘Hadith-e Mauqoof’.

فصل في ألفاظ يتداولها أهل الحديث) المرفوع ما أضيف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة لا يقع مطلقه على غيره سواء كان متصلا أو منقطعا وأما الموقوف فما أضيف إلى الصحابي قولا له او فعلا أو نحوه متصلا كان أو منقطعا ويستعمل في غيره مقيدا  فيقال حديث كذا وفقه فلان على عطاء مثلا وأما المقطوع فهو الموقوف على التابعى قولا له أو فعلا متصلا كان أو منقطعا  )شرح النووی علی مسلم، فصل فی الفاظ یتداولھا اھل الحدیث 1/29) والمراد بالحديث في عرف الشرع ما يضاف إلى النبي وكأنه لوحظ فيه مقابلة القرآن لأنه قديم وهذا حديث انتهى وفي شرح الألفية الحديث ويرادفه الخبر على الصحيح ما أضيف إلى النبي أو إلى الصحابي أو إلى دونه قولا أو فعلا أو تقريرا أو صفة. (فیض القدیر، مقدمۃ المؤلف 1/17)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 1773/43-1509

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں لڑکی نے لڑکے کو وکیل بنادیا  اور لڑکے نے لڑکی کو اپنی زوجیت میں دو یا زیادہ گواہوں کی موجودگی میں قبول کرلیا تو نکاح درست ہوگیا ۔ اب فرحین اور زبیر دونوں  از روئے شرع میاں بیوی ہیں۔ نکاح کی مجلس میں لڑکا اصیل  اور لڑکی کی جانب سے بطور وکیل کے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتاہے، اور نکاح اس طرح منعقد ہوجاتاہے۔ اسلئے مذکورہ نکاح  درست ہوکرمنعقد  ہواہے۔  عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی درست ہوجاتاہے۔

فالعقد ھو ربط اجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا لکن ھنا ارید بالعقد الحاصل بالمصدر وھو الارتباط لکن النکاح ھو الایجاب والقبول مع ذلک الارتباط۔ وانما قلنا ھذا لان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح لا امورا خارجیۃ کالشرائط ونحوھا وقد ذکرت فی شرح التنقیح فی فصل النھی کالبیع فان الشرع یحکم بان الایجاب والقبول الموجودین حسا یرتبطان ارتباطا حکمیا فیحصل معنی شرعی یکون ملک المشتری اثرا لہ فذلک المعنی ھو البیع۔ (شرح الوقایۃ، کتاب النکاح 2/4، مکتبہ بلال دیوبند)

واذا اذنت المرأة للرجل ان یزوجہا من نفسہ فعقد بحضرة شاہدین جاز - - -  ولنا أن الوكيل في النكاح سفير ومعبر، والتمانع في الحقوق دون التعبير ولا ترجع الحقوق إليه، (فتح القدیر، فصل فی الوکالۃ بالنکاح 3/305) (الھدایۃ، ، فصل فی الوکالۃ بالنکاح 1/17)

(وإذا أذنت المرأة لرجل أن يزوجها من نفسه) أو ممن يتولى تزويجه أو ممن وكله أن يزوجه منها (فعقد) الرجل عقدها حسبما أذنت له (بحضرة شاهدين جاز) العقد، ويكون وكيلا من جانب وأصيلا أوولياً أو وكيلا من آخر، وقد يكون وليا من الجانبين: كأن يزوج بنته من ابن أخيه، قال في الهداية: إذا تولى طرفيه فقوله "زوجت" يتضمن الشطرين، ولا يحتاج إلى القبول. اه (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح 3/21)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ہوا قبل (آگے کی شرم گاہ) سے نکلتی ہے، وہ ناقض وضو نہیں ہے۔(۱)

(۱)ولنا فیہ کلام و خروج غیر نجس مثل ریح أو دودۃ أو حصاۃ من دبرہ خروج ذلک من جرح ولا خروج ریح من قبل غیر مفضاۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الضوء‘‘ ج۱، ص:۲۶۳)؛ ولا یرد علی المنصف الریح الخارجۃ من الذکر و فرج المرأۃ فإنھا لا تنقض الوضوء علی الصحیح ۔(ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب مسح علی خفیہ‘‘، ج۱، ص:۵۹)؛ و ینقض الوضوء إثنا عشر شیئا ما خرج من السبیلین إلا ریح القبل في الأصح۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ،  فصل ینقض الوضوء،‘‘ ص۳۵، مکتبۃ عکاظ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  بیماری کا علاج مجبوری ہے اس لیے حسب ضرورت آپریشن کرنا درست ہے اور اس کی وجہ سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، امامت درست ہے، لیکن بوقت ضرورت قدر ضرورت سے تجاوز ہر گز نہ کیا جائے آپریشن میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔(۱)

(۱) و الأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ و فسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، و قبل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدا (للقراء ۃ، ثم الأروع) أی: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص78

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:  صورت مذکور ہ میں اگر واقعی طور پر نکاح سے پہلے اس شخص نے آئندہ ہونے والی بیوی سے زنا کرلیا ہے جیسا کہ اس کا اقرار بھی ہے تو وہ شخص گناہگار ہے
اور فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے(۱) البتہ اگر وہ شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو توبہ سے اس کا گناہ معاف ہوجائے گا اور اس کی امامت بھی درست اور صحیح ہوجائے گی کہ کفر و شرک کے علاوہ سبھی گناہ سچی پکی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں ۔ (۲)
’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۱)


(۱) یکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق: فاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۸)
(۲) {وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج} (سورۃ النساء: ۴۸)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص202

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب جس نے چالیس سال خدمت انجام دی ہے اور بظاہر لوگوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تو محض اس بنیاد پر کہ انہوں نے ایک دھوکہ بازکمپنی کا ساتھ دیا تھا امامت سے برطرف کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اولاً امام صاحب پر الزام ثابت نہیں ہے اور اگر الزام ثابت ہوجائے، تو امام صاحب نے دھوکہ باز کمپنی کا ساتھ جان بوجھ کر نہیں دیا ہوگا وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ کمپنی صحیح ہے؛ اس لیے اس کا ساتھ دیا ہوگا؛ اس لیے امام صاحب امامت وخطابت کرسکتے ہیں۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶  } (سورۃ الحجرات: ۶)

قولہ تعالیٰ: {{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا} لدلائل قد قامت علیہ فثبت أن مراد الآیۃ في الشہادات والزام الحقوق أو إتیان أحکام الدین والفسق السني لیست من جہۃ الدین والاعتقاد۔ (أحمد بن علی ابوبکر الرازی الجصاص الحنفي، أحکام القرآن، ج۲، ص: ۲۷۹)
قال في البحر: واستفید من عدم صحۃ عزل الناظر بلا جنحۃ عدمہا لصاحب وظیفۃ في وقف بغیر جنحۃ وعدم أہلیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الوقف، مطلب لایصح عزل صاحب وظیفۃ بلاجنحۃ أو عدم أہلیۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۸۱)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص290

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف بندی کی ترتیب اس طرح حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ پہلے مردوں کی صف بندی کی جائے، اس کے بعد والی صف میں بچوں کو کھڑا کیا جائے،(۱) البتہ اگر ایک ہی بچہ ہے تو اس کو بڑوں کی صف میں شامل کر لیا جائے الگ سے نہ کھڑا ہو۔(۲)
(۱) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ السلام: لیلیني منکم أولا الأحلام والنہي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۷)
(۲) ویقتضي أیضاً أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وإن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 409

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کامل طور پر طلوع شمس کے بعد سے اشراق کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔اور یہ وقت تقریباً پندرہ بیس منٹ ہوتا ہے۔(۱)
(۱)ومن المندوبات: صلاۃ الضحیٰ: وأقلہا رکعتان وأکثرہا ثنتا عشرۃ رکعۃ ووقتہا من ارتفاع الشمس إلی زوالہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحیٰ) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
وابتداؤہ من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ:  فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۳۹۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 54

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیر نامسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہیں کرنا چاہئے، ایسا کر نا مکر وہ ہے، لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہو گئی اور اس کے بعد پڑھی گئی نماز بلا کر اہت درست ہو گئی۔ جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اس کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے، اگر مؤذن ناراض ہو تاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہو تا ہے تو دوسرا شخص بلا اجازت بھی اقامت کہہ سکتا ہے۔ نماز بہر صورت درست ہو جاتی ہے۔
’’قولہ: ویلتفت یمینا وشمالا بالصلاۃ والفلاح لما قدمناہ ولفعل بلال رضي اللّٰہ عنہ علی ما رواہ الجماعۃ، ثم أطلقہ فشمل ما إذا کان وحدہ علی الصحیح؛ لکونہ سنۃ الأذان فلایترکہ خلافا للحلواني؛ لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي السراج الوہاج: أنہ من سنن الأذان فلایخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول‘‘
’’وقید بالیمین والشمال؛ لأنہ لایحول وراء ہ لما فیہ من استدبار القبلۃ، ولا أمامہ لحصول الإعلام في الجملۃ بغیرہا من کلمات الأذان، وقولہ بالصلاۃ والفلاح لف ونشر مرتب یعني أنہ یلتفت یمینا بالصلاۃ وشمالاً بالفلاح، وہو الصحیح خلافا لمن قال: إن الصلاۃ بالیمین والشمال والفلاح کذلک، وفي فتح القدیر: أنہ الأوجہ، ولم یبین وجہہ، وقید بالالتفات؛ لأنہ لایحول قدمیہ؛ لما رواہ الدارقطني عن بلال قال: أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أذنا أو أقمنا أن لانزیل أقدامنا عن مواضعہا، وأطلق في الالتفات ولم یقیدہ بالأذان، وقدمنا من الغنیۃ أنہ یحول في الإقامۃ أیضًا، وفي السراج الوہاج لایحول فیہا  لأنہا لإعلام الحاضرین بخلاف الأذان فإنہ إعلام للغائبین، وقیل: یحول، إذا کان الموضع متسعًا ‘‘(۱)
’’ویحول في الإقامۃ إذا کان المکان متسعًا وہو أعدل الأقوال کما في النہر‘‘(۲)
’’أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقاً)، وإن بحضورہ کرہ أن لحقہ وحشۃ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  ج۱، ص: ۴۴۹،۴۵۰۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج۲، ص: ۶۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص182