نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: (۱) مجبوری میں غلط کام کرکے پھر توبہ کرلی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲) جو لوگ سودی کاروبار میں ملوث ہوں ان کو امام نہ بنایا جائے امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اور متقی ہو اور معاشرہ میں نیک نام ہو اس لیے اگر ایسے لوگ امام کے منصب پر ہوں تو ان کو جلد از جلد توبہ کرلینی چاہئے اور اگر توبہ نہ کریں اور سودی کاروبار نہ بند کریں تو ان کی جگہ دوسرے کو امام بنادیا جائے۔(۱)

(۱) {یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
عن جابر قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ) ہم سواء۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساقات، باب لعن آکل الربا مؤکلہ‘‘: ج۳، ص: ۱۲۱۹، رقم: ۱۵۹۸)
عن ابن سیرین قال: کل شيء فیہ قمار فہو من المیسر۔
 (أخرجہ ابن أبي شیبہ،  في مصنفہ، ’’کتاب البیوع والأقضیۃ‘‘: ج۴، ص: ۴۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص191

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مردوں کے لیے بغیر کسی عذر کے گھر پر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، حضرات فقہا نے فرض نماز جماعت کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کو حکماً واجب لکھا ہے؛ اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ مسجد کی جماعت ترک نہ ہو پائے، لیکن اگر کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد کی جماعت چھوٹ جائے تو گھر والوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا درست ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے جب واپس آئے تو جماعت ہو چکی تھی اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ جیسا کہ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے:
’’ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں مرد اپنی بیوی اور بچوں کو نماز جماعت سے پڑھانا چاہے تو وہ پڑھا سکتا ہے، لیکن جب گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اس وقت صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد خود آگے کھڑا ہوجائے یعنی امام بنے، پہلی صف میں بچے (لڑکے) کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا جو گھر کی خواتین ہوں، کھڑی ہوں۔ اور اگر ایک بچہ ہو تو وہ مرد کے دائیں طرف کھڑا ہو اور باقی خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔
نیز گھر میں جماعت کرتے وقت اذان واقامت کہنا ضروری نہیں ہے، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، تاہم افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ  جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت شوہر کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو اذان بھی شوہر دے یا اگر کوئی سمجھ دار بچہ ہو تو وہ اذان دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(وکرہ ترکہما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وکذا ترکہا) لا ترکہ لحضور الرفقۃ (بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (وفي بیتہ بمصر) أو قریۃ لہا مسجد؛ فلایکرہ ترکہما إذ أذان الحی یکفیہ‘‘(۲)
’’(قولہ: في بیتہ) أي فیما یتعلق بالبلد من الدار والکرم وغیرہما، قہستاني، وفي التفاریق: وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفی بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریبًا وإلا فلا۔ وحد القرب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ إسماعیل۔ والظاہر أنہ لایشترط سماعہ بالفعل، تأمل‘‘
’’(قولہ: لہا مسجد) أي فیہ أذان وإقامۃ، وإلا فحکمہ کالمسافر صدر الشریعۃ‘‘
’’أن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’(ویقف الواحد) ولو صبیاً، أما الواحدۃ فتتأخر (محاذیاً) أي مساویاً (لیمین إمامہ) علی المذہب، ولا عبرۃ بالرأس بل بالقدم، فلو صغیراً فالأصح ما لم یتقدم أکثر قدم المؤتم لاتفسد، فلو وقف عن یسارہ کرہ (اتفاقاً وکذا) یکرہ (خلفہ علی الأصح)؛ لمخالفۃ السنۃ، (والزائد) یقف (خلفہ) فلو توسط اثنین کرہ تنزیہاً، وتحریماً لو أکثر‘‘(۲)
’’(وإن أم نساء، فإن اقتدت بہ) المرأۃ (محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ، فلا بد) لصحۃ صلاتہا (من نیۃ إمامتہا) لئلایلزم الفساد بالمحاذاۃ بلا التزام (وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ) فقیل: یشترط، وقیل: لا کجنازۃ إجماعًا، وکجمعۃ وعید علی الأصح خلاصۃ وأشباہ، وعلیہ إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتہا وإلا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲،ص: ۲۸۸۔            (۲) وفیہ أیضاً۔
(۱) أخرجہ النسائي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۸۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلوۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲،ص: ۳۰۷۔            (۳) أیضاً۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص384

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کو بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھائی۔
انبیاء علیہم السلام جب صفیں درست کرچکے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امامت کے لیے آگے بڑھادیا اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے قریب حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے تھے اور داہنی جانب حضرت اسماعیل علیہ السلام کھڑے تھے اوربائیں جانب حضرت اسحاق علیہ السلام کھڑے تھے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر تمام انبیاء علیہم السلام کھڑے ہوئے تھے۔(۱)
(۱)  فحانت الصلوٰۃ فأممتہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ج۱ ، ص:۹۶ ، رقم: ۲۷۸)
ولعل المراد بہا صلوۃ التحیۃ أو یراد بہا صلوٰۃ المعراج۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفضائل والشمائل: باب في المعراج الأول‘‘: ج۱۰، ص:۵۷۱، رقم: ۵۸۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام کا اذان پڑھنا درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے روایات سے ایک ہی شخص کا اذان دینا اور نماز پڑھانا ثابت ہے۔(۳)

(۳) عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربک من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن للصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہ عز وجل: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم للصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبد، وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجۃ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰، رقم: ۱۲۰۳)
عن عقبۃ بن عامر قال: کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامنی عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، فيمصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر، مؤسسۃ علوم القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص168

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی مخصوص طریقہ پر پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر دوام اور استمرار درست نہیں؛ اس لیے غیر لازم چیز کو لازم سمجھنا شرعاً جائز نہیں(۱) آیت کریمہ (مذکورہ فی السوال) کے سنتے ہی درود فرض نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیرًا علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین،  رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ولو قرأ القرآن فمر علی إسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵،ص: ۳۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں جان بوجھ کر دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔ البتہ اگر بھول  سے ایسا ہوا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرصورت نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ ہی نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔ اور نوافل میں ایک ہی سورت دو رکعتوں میں پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
’’لا بأس أن یقرأ سورۃً ویعیدہا في الثانیۃ۔ (قولہ: لا بأس أن یقرأ سورۃً إلخ) أفاد أنہ یکرہ تنزیہا، وعلیہ یحمل جزم القنیۃ بالکراہۃ، ویحمل فعلہ علیہ الصلاۃ والسلام لذلک علی بیان الجواز، ہذا إذا لم یضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولیٰ: {قل أعوذ برب الناس} أعادہا في الثانیۃ إن لم یختم، نہر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص232

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرأت میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے، تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہر صورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو، تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)
قالوا: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوساً أثم، لکن لا یلزمہ سجود السہو؛ لأن ذلک من واجبات القرائۃ لا من واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي، ردالمحتار مع الدرالمختار، باب صفۃ الصلاۃ، ’’مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص360

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Red. No. 2832/45-4435

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کرنا درست ہے اور اس سے بھی آدمی برئ الذمہ ہو جائے گا گرچہ بہتر یہی ہے کہ رمضان شروع ہونے کے بعد ہی آداکرے، لیکن اگر کسی نے رمضان سے پہلے اداکردیا تو واجب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے۔

"(وصح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره) اعتبارا بالزكاة والسبب موجود إذ هو الرأس (بشرط دخول رمضان في الأول) أي مسألة التقديم (هو الصحيح) وبه يفتى جوهرة وبحر عن الظهيرية لكن عامة المتون والشروح على صحة التقديم مطلقا وصححه غير واحد ورجحه في النهر ونقل عن الولوالجية أنه ظاهر الرواية. قلت: فكان هو المذهب.

 (قوله: اعتبارا بالزكاة) أي قياسا عليها. واعترضه في الفتح بأن حكم الأصل على خلاف القياس فلا يقاس عليه؛ لأن التقديم، وإن كان بعد السبب هو قبل الوجوب وأجاب في البحر بأنها كالزكاة بمعنى أنه لا فارق لا أنه قياس اهـوفيه نظر والأولى الاستدلال بحديث البخاري وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين قال في الفتح وهذا مما لا يخفى على النبي صلى الله عليه وسلم بل لا بد من كونه بإذن سابق فإن الإسقاط قبل الوجوب مما لا يعقل فلم يكونوا يقدمون عليه إلا بسمع اهـ(قوله: فكان هو المذهب) نقل في البحر اختلاف التصحيح ثم قال لكن تأيد التقييد بدخول الشهر بأن الفتوى عليه فليكن العمل عليه وخالفه في النهر بقوله واتباع الهداية أولى. قال في الشرنبلالية قلت: ويعضده أن العمل بما عليه الشروح والمتون، وقد ذكر مثل تصحيح الهداية في الكافي والتبيين وشروح الهداية. وفي البرهان وابن كمال باشا وفي البزازية الصحيح جواز التعجيل لسنين رواه الحسن عن الإمام اهـوكذا في المحيط. اهـ.

قلت: وحيث كان في المسألة قولان مصححان تخير المفتي بالعمل بأيهما إلا إذا كان لأحدهما مرجح ككونه ظاهر الرواية أو مشى عليه أصحاب المتون والشروح أو أكثر المشايخ كما بسطناه أول الكتاب وقد اجتمعت هذه المرجحات هنا للقول بإطلاق فلايعدل عنه، فافهم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 367):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 849 Alif

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  مذکورہ فیصلہ شرعی دارالقضاء سے ہوا ہے، اور شرعی دارالقضاء کے فیصلہ پر دارالقضاء ہی سے نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ اس لئے اسی دارالقضاء میں اپیل کریں یا کسی دوسرے دارالقضاء سے رجوع کیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/872

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کے خطبہ کے دوران  کسی  بھی قسم کا چندہ کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند