Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1256/42-593
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ 'مرید' اسمائے الہیہ میں سے نہیں ہے، جبکہ اسمائے الہیہ توقیفی ہیں ، لہذا ایسا وظیفہ پڑھنا درست نہیں ہے جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہ ہو۔اس لئے اس سے احتراز کریں اور اسمائے الہیہ میں سے کسی نام کا وظیفہ پڑھیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1505/42-977
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بیع کے اندر اس طرح کی شرط غیرمعتبر ہے۔ مسلمان خریدنے کے بعد اس جانور کا پورامالک ہوگیا وہ جو چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کرے، ، بیچنے والے کا اس طرح کی شرط لگانا غیرمعتبر ہے؛ اس لئے اس وضاحت کے باوجود مسلمان اگر اس جانورکی قربانی کردے تو قربانی درست ہوجائے گی، کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد) ... (أو لايقتضيه ولا نفع فيه لأحد) ... (كشرط أن لايبيع) عبر ابن الكمال بيركب (الدابة المبيعة) فإنها ليست بأهل للنفع (الدر المختار وحاشية ابن عابدين 5/87)
"الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه”وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا،(كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه للبائع"(الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار 1/417 ط:دار الکتب العلمیۃ (منهاشرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الرباوالبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع5/169 ط:دارالکتب العلمیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1978/44-1920
بسم اللہ الرحمن الرحیم: حضرت مہتمم صاحب کی طرف سے جو کچھ آپ کو ملتاہے وہ آپ کے لئے ہدیہ ہے۔ اگر آپ مستحق زکوۃ ہیں تو وہ آپ کو زکوۃ کی رقم سے بھی دے سکتے ہیں ، اور اگر آپ مستحق زکوۃ نہیں ہیں تو وہ اپنی تنخواہ سے آپ کو دیتے ہوں گے۔ حضرت مہتمم صاحب کو زکوۃ کے مصارف کا بخوبی علم ہوگا اس لئے اگر آپ مستحق ہوں گے تبھی وہ دیتے ہوں گے یا پھر اپنی جیب خاص سے دیتے ہوں گے۔ آپ اس میں بلاوجہ شبہہ نہ کریں اور جو کچھ وہ دیں اس کو قبول کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بیان کرکے لوگوں کو شریعت کے مطابق شادی کرنے کی ترغیب دی جائے اور غلط رسم و رواج سے لوگوں کو روکا جائے، تو درست ہے۔(۱) لیکن مروجہ میلاد درست نہیں ہے۔(۲)
(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من مولدٍ وقد احتوی علی بدعٍ ومحرماتٍ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن محمد، المدخل: ج ۲، ص: ۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص459
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا التزام درست نہیں ہے(۱) اور کیف ما التفق میں حرج نہیں ہے۔(۲)
(۱) ومنہا وضع الحدود والتزام الکیفیات والہیئات والمعینۃ والتزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق، الشاطبي، الاعتصام، ’’الباب الأول في تعریف البدع إلخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵، ۲۶)…(۲) قولہ بزیارۃ القبور أي لا بأس بہا بل یندب کما في البحر عن المجتبیٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر ایک مسلمان پر اتنا قرآن پڑھنا فرض ہے جس سے نمازیں درست ہوں اور مکمل قرآن پڑھنا بھی مطلوب ومسنون ہے، تعلیم کو بالکلیہ چھوڑ کر تبلیغ میں نکلنا یا بچوں کو نکالنا نادانی ہے اور تبلیغ بھی مطلوب ہے، لیکن تعلیم اہم ہے۔(۱)
(۱) {لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
قال تعالیٰ: {یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ} یعني: القرآن {وَ یُزَکِّیْہِمْ} أي یأمرہم بالمعروف وینہاہم عن المنکر لتزکو نفوسہم وتطہر لمن الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} یعني: القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، ص: ۲۶۴۷)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲،رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۵۰۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص306
اسلامی عقائد
الجواب:تصور شیخ بوقت مراقبہ کسی مقدس و بزرگ خاص طور پر اپنے پیر و مرشد کا خیال کرنے کو کہتے ہیں تاکہ ان کے نیک اعمال اور زہد و تقویٰ کو دعاؤں کی قبولیت اور جائز مقاصد میں کامیابی کے لئے وسیلہ بنایا جائے، تصور شیخ میں بقول حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ کی صورت کا خیال امر فضول ہے جیسے کسی کے تذکرہ کے وقت کسی کا خیال آتا ہے ایسا ہی تصور شیخ ہے؟ (فیوض قاسمیہ) مشائخ چشتیہ نے اس طریقہ کو علاج نفس و تزکیۂ باطن کے لئے اختیار فرمایا ہے۔ سید الطائفہ حضرت الحاج امداد اللہ قدس سرہ نے اپنے خلیفہ خاص حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو مراقبہ تصور شیخ کے اختیار کرنے کی اجازت و ترغیب دی، حضرت حاجی صاحبؒ اپنے ایک مکتوب بنام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’و اگر فراغ باشد بعد نماز صبح و یا مغرب یا عشاء علیحدہ در حجرہ وغیرہ بہ نشینند و دل را از جمیع خیالات خالی کردہ متوجہ بایں جانب شوند و تصور کنند کہ گویا پیش شیخ خود نشستہ ام و فیضان الٰہی از سینۂ او بسینۂ ام می آید‘‘ (رقومات امدادیہ) حضرت مولاناشاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے جواز کو اختیار فرمایا وہ فرماتے ہیں: ’’والرکن الأعظم ربط القلب بالشیخ علی وصف المحبۃ والتعظیم الخ وہذا السر نزل الشرع باستقبال القبلۃ الخ فیکون کالمراقبۃ‘‘ (القول الجمیل) لیکن مراقبۂ تصورِ شیخ میں شرط ہے کہ جب شیخ سے دور ہو تو تصور و خیال تو یہ رہے کہ گویا میں شیخ کے سامنے ہوں اور اعتقاد پختگی کے ساتھ یہ رہے کہ شیخ اپنے وطن میں ہے ۔(۱)
(۱) وہذہ النسبۃلا تکاد تحصل إلا بصحبۃ المشایخ الکمل الذین استنارت قلوبہم بنور ہذہ النسبۃ العظمیٰ وہي التي لم تزل تنتقل من قلب إلی قلب: ومبدأہا مشکاۃ النبوۃ ومعدن الرسالۃ قلب سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأما ما سوی ذلک من المجاہدات والأعمال والأخلاق فیمکن تحصیلہا بصرف الہمۃ من غیر احتیاج إلی صحبۃ المشایخ وإن کان حصولہا بصحبتہم مع صرف الہمۃ متیسراً بسہولۃ وبدون صحبتہم متعسراً في کلفۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب: باب الذکر والدعاء‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص402
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر اتفاقاً لیکوریا کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار درہم سے زیادہ ہو، تو اس حالت میں نماز ادا نہیں ہوگی، لیکن اگر کسی عورت کو یہ بیماری اتنی بڑھ گئی ہو، کہ معذور کے درجہ میںآجائے، تو اس کے حق میں لیکوریا ناپاک نہیں سمجھا جائے گا اور وہ انہیں کپڑوں میں نماز ادا کر سکتی ہے۔
و إن کانت أکثر من قدر الدرھم منعت جواز الصلاۃ۔(۲)و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریماً، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیھاً، فیسنّ و فوقہ مبطل فیفرض۔ (۳)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ، و کلما بسط شیئا، تنجس من ساعتہ صلّی علی حالہ، و کذا لولم یتنجس إلا أنہ یلحقہ مشقۃ بتحریکہ۔(۱)
۲) عالم بن علاء الدین الحنفي، تاتارخانیہ ، کتاب الطہارۃ، الفصل السابع، في النجاسات و أحکامھا، النوع الثاني في مقدار النجاسۃ التي یمنع جواز الصلوٰۃ، ج۱، ص:۴۴۰
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۲۰
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، متصل: باب سجود التلاوۃ، ج۲، ص:۵۷۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو اور نماز دونوں فاسد ہو جاتی ہیں۔(۲)
(۲)قولہ ﷺ :الا من ضحک منکم قھقھۃ فلیعد الوضوء والصلٰوۃ جمیعاً۔ (أحمد بن محمد، قدوری، ’’کتاب الطہارۃ، حاشیہ۸‘‘، ص۱۷، مکتبہ بلال دیوبند)، والمذھب أن الکلام مفسد للصلاۃ کما صرح بہ في النوازل بأنہ المختار، فحینئذ تکون القھقھۃ من النائم مفسدۃ للصلاۃ لا الوضوء۔(ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۷۸)؛ و یترک القیاس والأثر و رد في صلٰوۃ مطلقۃ فیقتصر علیھا، والقھقھۃ: ما یکون مسموعا لہ ولجیرانہ، والضحک: ما یکون مسموعا لہ دون جیرانہ الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ أول، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص۲۷)؛ و إنما وجب الوضوء بھا عقوبۃ و زجراً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص:۲۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص215
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر بیڑی سگریٹ پینے کے فوراً بعد نماز پڑھاتے ہیں تو نماز میں کراہت آئے گی۔(۱)
(۱) عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل من ہذہ، قال: أول مرۃ الثوم، ثم قال: الثوم والبصل والکراث فلا یقربنا في مساجدنا۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باب ماجاء في کراہۃ أکل الثوم والبصلۃ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج۲، ص: ۳، رقم: ۱۸۰۴)
ویکرہ لمن أراد حضور الجماعۃ ویلحق بہ کل مالہ رائحۃ کریہۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الأطعمۃ‘‘: ج۸، ص: ۱۰۷، رقم: ۴۱۹۶)
قال العلماء: ویلحق بالثوم کل مالہ رائحۃ کریہۃ من المأکولات وغیرہا۔ (الطیبي، شرح الطیبي، ’’کتاب الصلوۃ: باب المساجد‘‘: ج۲، ص: ۲۳۳، رقم: ۷۰۷)
تفسیر السراج المنیر ج۱، ص: ۴۱۔
وأما الفاسق في الشرع فہو الخارج عن أمر اللّٰہ بارتکاب کبیرۃ أو إصرار علی صغیرۃ ولم تغلب طاعاتہ علی معاصیہ ولایخرجہ ذلک عن الإیمان، إلا إذا اعتقد حل المعصیۃ سواء أکانت کبیرۃ أم صغیرۃ۔(مفردات القرآن للراغب، ج۱، ص: ۶۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص73