Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 41/1003

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Performing two Rakats of Tahajjud in one unit is better.  صلوۃ اللیل مثنی مثنی

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 950/41-92

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بینک میں جتنی رقم موجود ہے ، وہ اور اس کے علاوہ جو بھی جائداد والد نے چھوڑی ہے، اس میں تمام اولاد کا حق ہے۔  کل مال کا آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کے لئے ہے اور باقی جائداد اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1038/41-266

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خاتون کے شوہر  کی کل جائداد کواولاً  48/حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے 6/حصے خاتون یعنی بیوی کو ملیں گے، آٹھ آٹھ حصے ماں باپ  میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ اور ہر ایک بیٹے کو 13 حصے ملیں گے۔  پھر جو کچھ باپ کو ملا ہے  اس کو اس کی جائداد میں شامل کرکے  کل جائداد کو اس کی اولاد میں تقسیم کریں گے ، اس طور پر کہ مرحوم  سسرکی بیوی (خاتون کی ساس) کو  آٹھ میں سے ایک حصہ ملے گا، اور باقی سات حصے اس کی اولاد میں لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ دے کر تقسیم کریں گے۔ اولاد کی موجودگی میں بھائیوں کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔ نیز  انتقال کے وقت جو کچھ آدمی کی ملکیت میں ہے  بینک میں  موجود رقم ہو  یاسونا چاندی اور  زمین وغیرہ ہو سب وراثت میں تقسیم ہوگا۔ البتہ شوہر کے انتقال کے بعد جو سرکار ی کی طرف سے بیوی کو ملتا ہے اس پر بیوی کا حق ہے اس کو شوہر کی وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 1153/42-390

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

After all, she was muslim if she didn’t do anything that is obviously kufr. Her aqeeda was not based on kufr. If the case is so, she should be buried according to Islamic norms.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1509/42-988

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے جانور کو سجانے و سنوارنے میں آج کل خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے یقینا اس میں پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع ہے۔ اور اس میں فخرومباہات ، ریاکاری اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنے کی کوشش بھی ہے، اس لئے اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ البتہ اس سے قربانی پر فرق نہیں آئے گا، قربانی درست ہوگی اور گوشت کھانا بھی درست ہوگا۔ نیز اگر صرف جانور کے احترام کے طور پر  اظہارِخوشی کے لئے پھولوں کا ایک معمولی سا ہار ڈال دیا جائے  تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی  ہے گرچہ اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۲؍۵۵۹ رقم: ۴۰۳۱ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۲؍۳۷۵)
قال القاري: أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ، وکذا في مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۸؍۲۵۵ رقم: ۴۳۴۷ رشیدیۃ، وکذا في فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۱۱؍۵۷۴۳ رقم: ۸۵۹۳ نزار مصطفیٰ الباز ریاض( البحث الثانی: النہي عن خاتم الحدید وغیرہ مخصوص بالخاتم أو شامل لسائر الحلي، منہا فلم أر نصا فیہ في کلام الفقہاء إلا أن الحدیث وکلام الفقہاء یرشد أن إلی عدم الاختصاص لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مالي أری علیک حلیۃ أہل النار؟ وقال: مالي أری منک ریح الأصنام، فدل ذٰلک علی أنہ غیر مخصوص بالخاتم؛ بل یشمل کل حلیۃ من الحدید أو الشبہ النحاس والصفر الخ۔ (إعلاء السنن، کتاب الحظر والإباحۃ / باب خاتم الحدید وغیرہ ۱۷؍۳۳۰ المکتبۃ الإمدادیۃ مکۃ المکرمۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کہنا یا عقیدہ رکھنا حرام ہے، ایسا شخص ایمان سے خارج ہوجاتاہے، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، ایسے شخص پر توبہ اور تجدید ایمان لازم ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کرنے کی ان کے اندرقطعا استطاعت نہیں ہے۔ اور اگر عقیدہ درست ہو؛ لیکن زبان سے یوں ہی کہہ دیا تو بھی گناہ ہے، لیکن ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ (۲)

(۱) الرجل إذا ابتلیٰ بمصیبات متنوعۃ فقال: أخذت مالي وأخذت ولدي وأخذت کذا وکذا فماذا تفعل وما بقي لم تفلعہ وما أشبہ ہذا من الألفاظ فقد کفر، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، قبیل ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶)

تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

روزہ و رمضان

Ref. No. 1882/43-1750

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو روزہ چھوٹ گیاہے اس کی قضا لازم ہوگی، اور اب انڈیا میں موجود  ہیں تو انڈیا کے حساب سے روزہ مکمل کرنا ہوگا، گرچہ روزہ تیس سے زیادہ ہوجائے۔   فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (سورۃ البقرۃ 185)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قضاء کے معنی فیصلہ کرنا، ادا کرنا، اور انجام دینا ہے۔ اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کار خانۂ قدرت وجود میں لایا گیا، قدر اور تقدیر کے معنی ہیں اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے (۱) جن امور کا اللہ تعالیٰ ازل میں فیصلہ کر چکا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم لگ چکا اسی کو شریعت میں قضاء وقدر سے بھی تعبیر کرتے ہیں، تقدیر کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ اب تک ہوا ہے اور آئندہ ہونے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اندازے اور فیصلۂ ازل کے مطابق ہے، ہر چیز اسی کے ارادہ اور حکم کے تحت وقوع پزیر ہوتی ہے، اس کی مرضی ومشیت کے خلاف ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ہے، ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، نیز قضاء وقدر میں فرق یہ ہے کہ احکام اجمالیہ کلیہ جو ازل میں ہیں وہ قضاء ہے اوراحکام جزئیہ تفصیلہ ہیں جو کلی کے موافق ہوں وہ قدر ہے، قضاء اور قدر ’’سر من أسرار اللّٰہ‘‘ میں سے ہیں جس کی پوری حقیقت کی اطلاع نہ کسی مقرب فرشتہ کو دی گئی اور نہ کسی نبی اور رسول کو؛ اس لئے اس میں زیادہ بحث ومباحثہ اور غور وفکر کرنا عام آدمی کے لئے درست نہیں، حدیث پاک میں اس پر بحث ومباحثہ کرنے سے سخت ممانعت آئی ہے۔

’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم ألا تنازعوا فیہ‘‘(۲)

جہاں تک قرآن وحدیث میں اجمالاً مذکور ہے اسی پر ایمان لانا چاہئے کما حقہ اس کو سمجھنا انسانی طاقت وعقل سے باہر ہے، اسی کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا: جب ایک سائل نے

 ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔

’’سأل (رجل) علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ، وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال‘‘(۱) لہٰذا اس کے بارے میں بحث ومباحثہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

۱) راغب أصفھاني، المفردات: ج۱، ص:۶۰۴، ۷۰۴

(۲)  أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء من  التشدید في الخوض في القدر، باب منہ‘‘: ج ۴، ص:

۴۴۳رقم: ۲۱۳۴)

(۳) أیضاً:، رقم: ۲۱۳۳۔

۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹۔

وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (أیضاً:، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ عرس اور مذکورہ سوال کا حکم تو عدم جواز ہی کا ہے اور اس کی اتباع نہیں کرنی چاہئے، منکرات پر عمل کرنا باعث گناہ ہے اور بعض صورتوں میں وہ منکرات میں شمار ہوتا ہے۔(۱) ایسے مجامع کی رونق کے لیے شرکت کر نے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام صاحب اگر دل سے برا جانتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور وہ شرکت کے لیے مجبور ہیں تو ان کے پیچھے پڑھی گئی نماز بلاشبہ ادا ہوگئی امامت کو صورت مسئول عنہا میں ناجائز کہنا درست نہ ہوگا؛ لیکن ان کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اصلاح کی سعی کرتے رہیں مناسب وقت میں لوگوں کو سمجھاتے رہیں اور منکرات پر عمل کرنے کی دنیاء و آخرت میں ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جو کہ باعث فتنہ و فساد بن جائے اور نفرت کا اضافہ ہوجائے کہ اصل حکم سے ہی اعراض کرنے لگیں (جیسا کہ ہوتا ہے کہ نمازی آپ کی حق بات کو نہیں مانتے) تو اس طریقہ سے اسلام کا راستہ محدود ہوجاتا ہے اس لئے اس سے احتراز ہی کرنا ہوگا۔ نیز امام صاحب کے عقائد اگر اسلام کے خلاف اور کفریہ ہوں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے اور جن کے اعمال فسقیہ ہوں ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ دل سے ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعمال سے ہی باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔(۱)
(۱) {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (سورۃ المائدہ: ۲)
(وفاسق وأعمیٰ) ونحوہ الأعشي، نہر، (إلا أن یکون) أي غیر الفاسق (أعلم القوم) فہو أولی (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ، وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ: إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وہي اعتقاد إلخ) عزاہ ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸ - ۳۰۰)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا کام کرنے کے متعدد طریقے ہیں نیز ایک ہی جماعت ہر ہر شعبہ میں کام کرے ایسا ہونا بھی مشکل ہے، کوئی کسی شعبہ میں کام کرتا ہے تو کوئی دوسرے شعبہ میں کام کرتا ہے حتی الوسع اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرتے رہنا چاہئے باقی تفصیلات کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۲)

(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاۃ شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)
وذلک الإیمان باللّٰہ، وصفاتہ، وحدوث ما دونہ، وبملائکتہ، وکتبہ، ورسلہ، والقدر، وبالیوم الآخر، والحبّ في اللّٰہ، والبغض فیہ، ومحبّۃ النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلم واعتقاد تعظیمہ، وفیہ الصّلاۃ علیہ، واتّباع سنّتہ، والإخلاص وفیہ ترک الریاء، والنّفاق، والتوبۃ، والخوف، والرجاء، والشکر، والوفاء، والصبر، والرضا بالقضاء، والحیاء، والتوکّل، والرحمۃ، والتواضع، وفیہ توقیر الکبیر، ورحمۃ الصغیر، وترک الکبر، والعجب، وترک الحسد والحقد، وترک الغضب، والنطق بالتوحید، وتلاوۃ القرآن، وتعلم العلم وتعلیمہ، والدعاء، والذکرالخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۷۰؍ ۷۱، رقم: ۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص313