Frequently Asked Questions
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 956
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر صرف نیت کی تھی نذر نہیں مانی تھی تو اس کو ذبح کرکے اس کا گوشت جو چاہے کرے، صدقہ کرے یا خود کھائے اور رشتہ داروں میں تقسیم کرے۔ تاہم اگر استطاعت ہو تو جانور خرید کر والد مرحوم کی طر ف سے قربانی کرے اگر استطاعت نہ ہو تواس پر لازم نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 896
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ دونوں صورتیں مناسب نہیں، البتہ خطبہ سے پہلے چند منٹ کی تقریر ہو اور پھر خطبہ شروع ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 39/1093
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پوری زبان یا زبان کا اکثر حصہ موجود ہے تو ایسے گونگے کی قربانی جائز ہے۔ قوت گویائی نہ ہونے سے قربانی پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ تاہم ایسے جانور کی قربانی جو ہر طرح کے عیب سے پاک ہو زیادہ اچھا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 40/989
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو السلام علیکم کے ذریعہ سلام کی ابتداء کرنے سے گریز کیا جائے، لیکن اگر کوئی غیر، السلام علیکم کہہ دے تو اس کا جواب 'آداب' وغیرہ جیسے الفاظ سے دیدیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 946/41-88
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The permanent employees working in schools, colleges, Madrasas or companies are called ‘particular employees’. These employees do not have a predetermined end date to their employment. They will remain on their employment until the administration issues new rules and regulations about the salary of the lockdown period. The particular employees’ duty is only to maintain their attendance and punctuality in the time of the service prescribed by the administrative body. And they deserve to get their salary on ground of presence at the time of their job and their salary is not subject to working. Hence those who stayed at home not by choice but by the government’s order while they were willing to work in the office and didn’t show any remissness in their duty, they are entitled to receive the full salary amount of the lockdown period.
Nevertheless, if the management is not able to pay the full wages to the employees at the moment due to fiscal crunch prevalent everywhere in the world, they can pay them later. If the management paid half of the salary or paid nothing right now so once the financial condition of the companies gets stable they have to pay the salary of previous months whatever the payment is due: full or half. It is obvious that the organizations need these employees once the things go well.
It is stated in a Hadith: Your employees are your brethren upon whom Allah has given you authority. If one has one’s brother under his/her control one should feed them with the like of what one eats and clothe them with the like of what one wears. Even no workers can be compelled to do more than what they are capable of doing and the employer is obliged to provide safe workplace. You should not burden them with what they cannot bear and if you do so, help them in their job. (IbneMajah 4/648)
So, in the current scenario, dismissing the employees or deprive them fully of their salaries is not legally and morally encouraged.
۔ قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم، فأطعموهم مما تأكلون، وألبسوهم مما تلبسون، ولا تكلفوهم ما يعنيهم (1)، فإن كلفتموهم فأعينوهم"(سنن ابن ماجہ٤/٦٤٨)(والأجير الخاص) - ويسمى أجير واحدٍ أيضا - هو (الذي) يعمل لواحد عملا موقتا بالتخصيص، ومن أحكامه أنه (يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة) المعقود عليها (وإن لم يعمل) وذلك (كمن استؤجر شهراً للخدمة أو لرعي الغنم) ؛ لأن المعقود عليه تسليم نفسه، لا عمله،(اللباب شرح الكتاب 2/94) الاجير يستحق الاجرة اذا كان في مدة الاجارة حاضرا للعمل و لا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له ان يمنع عن العمل واذا منع لا يستحق الاجرة ومعني كونه حاضرا للعمل ان يسلم نفسه للعمل و يكون قادرا في حال تمكنه من ايفاء ذلك العمل (دررالحكام شرح مجلة الاحكام " مادة 470،ا/٣٨٧)الاجیر الخاص من یستحق الاجرۃ بتسلیم النفس و بمضی المدۃ و لایشترط العمل فی حقہ لاستحقاق الاجرۃ۔ (تاتارخانیۃ١٥/٢٨١))
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 1041/41-216
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, you should recite the Surahs to get blessings. It is a pleasure for a Muslim to follow our beloved Prophet (saws) in all actions. It is the symbol of love and affection toward the Prophet (saws).
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حدیث و سنت
Ref. No. 1515/42-985
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان خیالات کا آنا ایمان کی علامت ہے، مسلمان کا دل گناہوں پر اور شریعت کے مطابق زندگی نہ گرزارنے پر اس کو ملامت کررہا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ نیز یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آدمی اپنے دین کے تعلق سے فکرمند ہے اور اس کے مزاج میں سچائی ہے وہ اللہ تعالی سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی سے ڈرتاہے، اور اپنی دینی حالت درست کرنا چاہتاہے، البتہ بعض مرتبہ بشری تقاضوں سے مغلوب ہوکر وہ غلطی کربیٹھتاہے تاہم نادم و شرمندہ ہے۔ امید ہے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائیں گے ان شاء اللہ۔
جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " والمعنى: عن الذي يمنعكم من قبول ما يلقيه الشيطان إليكم حتى يصير ذلك وسوسة لا يتمكن من القلوب ولا تطمئن إليها النفوس صريح الإيمان، لا أن الوسوسة نفسها صريح الإيمان، لأنها من فعل الشيطان فكيف تكون إيمانا؟ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین، کشف المشکل من مسند عبداللہ بن مسعود 1/327) (شرح النووی، باب بیان الوسوسۃ 2/153) (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الوسوسۃ 1/136)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1594/43-1140
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عام مسلمان کو برا بھلا کہنا گناہ کبیرہ ہے ،اور فسق ہے لیکن عالم اورقاضی کو برا بھلا کہنا سخت گناہ اورشدید فسق کا عمل ہے،اور بعض صورتوں میں کفر کا اندیشہ ہے؛ جس سے اجتناب ہر ایک کے لئے لازم ہے۔ تاہم ایسے شخص کو کافر قرار نہیں دیاجائے گا جب تک کہ وہ صریح کسی حکم شرعی کا انکار نہ کرے۔ اس شخص کو بہت شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہئے۔
(ومنها ما يتعلق بالعلم والعلماء) في النصاب من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، إذا قال لرجل مصلح: ديدا روى نزد من جنان است كه ديدار خوك يخاف عليه الكفر كذا في الخلاصة. ويخاف عليه الكفر إذا شتم عالما، أو فقيها من غير سبب، (الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر انواع منھا ما یتعلق 2/270) (إذا كان المقول له فقيها) أي: عالما بالعلوم الدينية على وجه المزاح فلو قال بطريق الحقارة يخاف عليه الكفر؛ لأن إهانة العلم كفر على المختار (أو علويا) أي: منسوبا إلى علي - رضي الله تعالى عنه۔ وفي القهستاني ولعل المراد كل متق وإلا فالتخصيص غير ظاهر. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، فصل فی التعزیر 1/612)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2052/44-2054
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔محض میاں بیوی کے الگ الگ رہنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے مذکورہ نکاح ابھی باقی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 2561/45-3924
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اکابر علماء دیوبند کے یہاں ذکر کے دو طریقہ رائج ہیں یا تو انفرادی ذکر کرنا یا شیخ کے ساتھ ان کے مریدین بھی ذکر کرنے بیٹھ جائیں جس سے ایک اجتماعی شکل بن جاتی ہے، لیکن ہر شخص علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا ہے کوئی سرا اور کوئی جہر خفی کے ساتھ اس کے علاوہ آپ نے سوال کا جس ذکر بالجہر کا تذکرہ کیا ہے اس کی صورت کی وضاحت نہیں ہے، مطلقاً ذکر جہری بدعت نہیں ہے، بلکہ دونوں طرح ذکر کرنا محقق علماء کے نزدیک جائز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد بلند آواز سے ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیئ قدیر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم شریف: حدیث نمبر: ٥٩٤)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند