زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 38 / 1051

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  زکوۃ کی رقم مستحقین ِ زکوۃ کی ملک میں دینی ضروری ہے،  جب تک مستحقین کی ملکیت میں رقم دے کر ان کو بااختیار نہ بنادیا جائے، اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ لہذا فلاحی اداروں کے لئے لازم ہے کہ وہ رقم کی حیثیت لازمی طور پر معلوم کرلیں ؛ اگر زکوۃ کی رقم  ہے تو اس کو کسی مستحق کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، اس کو رفاہی کاموں میں براہ راست استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر نفلی صدقہ ہے   تو بلاتملیک اس کو رفاہی کاموں میں اور علاج و معالجہ وغیرہ تمام امور میں استعمال کرنا جائز ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر کسی مستحق کی ملکیت میں دینا بھی درست ہے، مگر ایسی چیز خریدنا جائز نہیں  جو کسی ایک مستحق کی ملکیت میں نہ آئے، لہذا ایمبولنس کی گاڑی وغیرہ زکوۃ کی رقم سے خریدنا جائز نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 39/1106

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ہی سے غیر حاجی لوگوں کواپنی قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے   بال و ناخن وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے۔ لیکن حاجیوں کے لئے ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ساتویں ذی الحجہ کو احرام باندھنے سے پہلےتک کاٹ سکتے ہیں؛ حاجیوں کے لئے احرام کے بعد کاٹنا ممنوع ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 951/41-90

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں بھی نماز درست ہوجاتی ہے، لیکن اگر کوئی عذر نہ ہو تو مسجد میں جماعت سے ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ لاک ڈاؤن میں ابھی مسجدیں پورے طور پر نہیں کھلی ہیں، اور کرونا نامی وبا کے خطرات اب بھی ہیں، اس لئے اگر کوئی احتیاط برتتے ہوئے گھر میں نماز پڑھے تو گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1164/42-389

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی مصلحت سے دوسرے کے نام رجسٹری کرادینے سے وہ شخص مالک نہیں ہوجاتاہے۔ بلکہ ہبہ کرکے اس کو قبضہ کرادیا جائے تب ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ محض رجسٹری  سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ تاہم اس کا خیال رہے کہ اگر والد کا انتقال ہوگیا ہے اور جن کے نام رجسٹری ہے وہ ملکیت کا دعوی کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مالک بنادیا تھا تو ظاہر ہے ان کا ہی قول معتبر ہوگا۔ البتہ اگر وہ ملکیت کے دعوی میں غلط  ہوں  گے  تو اس کا گناہ ان کو خود ہوگا اور بروز حشر ان کے لئے یہ وبال جان ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1510/42-989

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح دعا مانگنا  جس میں اپنے زمانہ کے تمام لوگوں کی ہدایت  مراد ہو، ثابت اوردرست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن  اس طرح کی دعاء سے یہ مراد لینا کہ از اول تا آخر سب کو ہدایت ملے تو یہ نصوص کے خلاف ہے؛  ایسی دعا غیرمشروع ہے ۔   

"إن الله تعالى لم يبعثني طعانا ولا لعانا، ولكن بعثني داعية ورحمة، اللهم اهد قومي فإنهم لا يعلمون" (شعب الایمان، فصل فی بیان النبی ﷺ 3/45) والأولى أن يدعى لكل حي بالهداية (فتح الباری لابن حجر، باب اذا القی علی ظھر المصلی قذر 1/352) قال تعالى: فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ {هود:105}، وقال تعالى: وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {هود:119}، وقال تعالى: فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ {الشورى:7}، وقال تعالى: وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {السجدة:13)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1606/43-1202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت  نہیں کرسکتاہے۔ کیوں امامت کے شراءط میں سے ہے کہ اما  م کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جبکہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔  اس لئے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں۔ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی  کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیرمعذورمقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لئے آپ کو  اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔  لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی  وجہ سے ہوجائے گی، البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب و استنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔   البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278)

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

وكذا لايصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسة.

قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز لأن الإمام صاحب عذرين والمؤتم صاحب عذر واحد اهـومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اهـ".  (شامی (1/ 578)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اس شخص پر توبہ اور استغفار لازم ہے، اس کلمہ کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا۔

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ مؤمن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار الرجوع عن ذلک۔ (۱) قال رجل: یا رب أین ستم مبسند۔ قال بعضہم: یکفر والأصح أنہ لا یکفر الخ‘‘۔ (۲)

لیکن ایسے الفاظ کا استعمال کرنا غلط ہے، پریشانی کی حالت میں بھی صبر کے دامن کو تھامے رکھنا ایک مؤمن کی شان ہے؛ لہٰذا احتیاط کے طور پر تجدید نکاح بھی کر لینا چاہئے۔

’’وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح، وفي الشامي:

وتجدید النکاح أي احتیاطاً کما في الفصول العمادیۃ الخ‘‘ (۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

(۲) أیضاً: ’’منہا ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰۔

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷۔

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1982/44-1926

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  سوال میں ذکر کردہ جملے کفریہ جملے ہیں، اس لئے عورت پر تجدید ایمان و تجدید نکاح  ضروری ہے ۔ بندوں پر لازم ہے کہ  مشکلات اور مصائب میں مزید اللہ کی جانب متوجہ ہوں۔ مگر اس عورت نے  اللہ پر الزام لگاکر مسئلہ کو اور سنگین بنادیا ۔ دنیا دارالاسباب ہے اور بندوں کو ایک گونہ اختیار دیاگیاہے ، اگر کوئی  چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ لے تو اسباب کے درجہ میں ہاتھ کٹ جائے گا، اس میں اللہ پر الزام لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال ان کفریہ جملوں کی وجہ سے تجدید ایمان و تجدید نکاح لازم ہوگیا، اور توبہ کرے کہ آئندہ پھر کبھی ایسی بات زبان پر نہیں لائے گی۔ اللہ ہم سب کا ناصر ومددگار ہو۔  

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ". (شامی 4/ 224)

 ’’وفي الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمداً لكنه لم يعتقد الكفر، قال بعض أصحابنا: لايكفر؛ لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر، وهو الصحيح عندي؛ لأنه استخف بدينه (البحرالرائق19/488)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے انسان کے بارے میں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ فلاں انسان کب برا کام کرے گا کب نیکی کرے گا کب توبہ کرے گا کس عمل پر اس کو اچھا بدلہ دینا ہے اور کس پر اس کو سزا دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر بات ازل ہی سے ہے، اللہ

تعالیٰ نے ہر انسان کے ہر عمل کو اپنے علم کی وجہ سے پہلے ہی لکھ دیا ہے اب وہ جو بھی کرے گا وہ اس لکھے ہوئے کے مطابق کرے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو لکھے ہوئے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے میں وہ آزاد ہے جو چاہے اپنے اختیار سے کرے؛ لیکن جو بھی وہ عمل کرے گا وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ اس کو لکھ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ خالد نے مثلاً کل اپنے اختیار سے سفر کیا اخبار والوں کو اس کا سفر معلوم ہوگیا انہوں نے اخبارات میں شائع کردیا کہ کل خالد سفر کرے گا انہوں نے اپنے علم کی وجہ سے لکھ دیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ کہ کل خالد جو سفر کرے گا وہ اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے مجبور ہوکر کرے گا سفر اس کا اپنے اختیار سے ہوگا البتہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سفر نہیں بھی ہوسکتا اخبارات کی خبر خلاف واقعہ ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ ان کے علم کی کمی ہے۔ ان کو حادثہ کا ہونا یا نہ ہونا معلوم نہیں اس لئے وہ اس کی خبر نہیں دے سکتے اللہ تعالیٰ کو وہ حادثہ بھی معلوم ہے بہر حال تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہئے نیز مسئلہ ذرا باریک ہے۔ اور غور طلب ہے۔ اور سمجھنے کا ہے اس لئے اس میں زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں {مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِيْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَاط} (۱) دوسری جگہ ہے: {إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍہ۴۹} (۲)

(۱) سورۃ الحدید: ۲۲۔

(۲) سورۃ القمر: ۴۹۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 1 ص 188)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں پر اگر بتی جلانا یا پھول ڈالنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اس لیے بدعت کہا جائے گا جو قابل ترک ہے، دفن کرنے کے بعد قبر پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں ہے کہ اس میں اشتباہ ضرور ہے۔
اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعاء ہی کرنی ہو تو قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کی جائے۔(۱)

(۱) فما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت وغیرہا وینقل إلی ضرائح الأولیاء تقربا إلیہم فحرام بإجماع المسلمین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۱)
ویستحب …… بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فقد یثبت أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ أول سورۃ البقرۃ عند رأس میت وآخرہا عند رجلیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372