بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) تبلیغ کے لغوی معنی ہیں، ’’کسی چیز یا بات کو دوسرے تک پہونچانا‘‘ اور معنی شرعی ہیں، ’’دین کی بات کو دوسروں تک پہونچانا‘‘ یہ لفظ قرآن وحدیث میں اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! دوسروں تک پہونچا دیجئے وہ سب کچھ جو اتارا گیا ہے آپ پر آپ کے رب کی طرف سے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’بلغوا عني ولو آیۃ‘‘(۲) میری بات دوسروں تک پہونچا دو اگرچہ وہ ایک ہی بات (حکم شرعی) ہو۔ مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث میں حکم عام ہے جس میں اصل ایمان اور احکام اسلام دونوں کی تبلیغ داخل ہے،حضرت مولانا الیاس صاحب معتبر ومعتمد تھے انہوں نے دین کی بات دوسروں تک پہونچانے کے لئے دعوت کے قرآنی اصول {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ} (۱) پر عمل کرتے ہوئے اس دور کے حالات کے پیش نظر چند اصول کی روشنی میں بعض احکام شرعیہ کی تبلیغ کو اہم اور ضروری سمجھا اور اس کے بعد جماعت کے ذمہ دار حضرات علماء اس کی اتباع کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں اس لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنا بلا شک وشبہ صحیح ہے اور جماعت کی موافقت روز اول سے آج تک مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء نے کی ہے؛ بلکہ بعض اکابر نے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس کام کی غیر معمولی تحسین وتعریف بھی کی ہے۔ (۲) سوال اول کے جواب میں جو آیت کریمہ بیان کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرض منصبی اور کام تبلیغ کو قرار دیا گیا ہے اور آپ نے اس حکم کی مکمل تعمیل فرمائی حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے مفصل خطبہ دیا جس میں مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق ضروری احکام بیان فرمائے اور آخر میں حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ألا ہل بلغت‘‘ بتاؤ کہ میں نے تبلیغ کردی یا نہیں یعنی جو میرا فرض منصبی اور کام تھا وہ میں نے پورا کر دیا یا نہیں؟ حاضرین نے جب تصدیق کردی ’’قالوا: نعم‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہم أشہد‘‘ اے اللہ آپ گواہ رہنا آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کار نبوت ہے جس کو آپ نے بذات خود انجام دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کرنے کے لئے فرمایا: ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘(۲) چونکہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ جماعت، تبلیغی جماعت ہے تو جماعت کا وہ کام جو مولانا مرحوم کے طے کردہ اصول کے مطابق ہوگا وہ بلا شک وشبہ کار نبوت کہلائے گا یعنی تبلیغ کا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے انجام دیا اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے اپنے ارشاد کے ذریعہ اپنے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی تبلیغی جماعت کا کام بھی اسی سلسلہ سے وابستہ ہے۔ (۳) حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دعوت کے قرآنی اصول کے پیش نظر اس دور کی ضرورت اور حالات کو پیش نظر رکھ کر تبلیغ کے لئے جو چند احکام شرعیہ کا انتخاب فرمایا اور تبلیغ کے لئے چند اصول وضع فرمائے، اور طریقہ کار تجویز فرمایا اس طریقہ وتبلیغ کے وہ بانی ہیں ان کو بانی کہنے میں کسی قسم کا شرعی یا عقلی اختلاف واشکال نہیں ہے، مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء اس جماعت کے کام کے مفید ونافع ہونے کے نہ صرف یہ کہ قائل ہیں بلکہ مدارس دینیہ کے ذمہ دارحضرات مرکز نظام الدین دہلی سے رابطہ کر کے مؤقر شخصیات کو طلبہ میں وعظ ونصیحت کرنے کے لئے مدعو کرتے ہیں؛ چنانچہ دار العلوم وقف بھی ہر سال اس کا اہتمام کرتا ہے جس کے نتیجہ میں دار العلوم وقف کے طلبہ اپنا معتد بہ وقت لگاتے ہیں شہر اور قرب وجوار میں جمعرات وجمعہ کو کام ہوتا ہے اور تعطیل کلاں میں زیادہ وقت لگاتے ہیں بلکہ چند سالوں سے یہ سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ بعض طلبہ فراغت کے بعد پورا سال لگاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرات علماء صرف قولاً ہی نہیں بلکہ عملاً جماعت کے موافق اور اس کام کو دین کی اہم ضرورت وخدمت اور عامۃ المسلمین کے لئے مفید ونافع سمجھتے ہیں اور مسلک دیوبند کے ترجمان تمام علماء اس پر متفق ہیں اور اگر کوئی شخص اس کے بر خلاف اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنے اور اس کے کام کو کار نبوت کہنے اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو بانیٔ جماعت کہنے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو غلط کہتا ہے تو ہمارے نزدیک وہ شخص غلط فہمی میں مبتلا ہے اور خطا کار ہے۔ فقط: ’’واللّٰہ أعلم بالصواب وہو یہدي إلی الصراط المستقیم‘‘ (۱) سورۃ المائدہ: ۶۷۔ (۲) عبد الرحمٰن المبارکفوري تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ص: ۳۶۰۔(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔ (۱) مشکوۃ المصابیح، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵رقم: ۲۶۵۹۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص307

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2655/45-4047

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The items mentioned above and all the such products are halal. However, if a product is definitely known to be impure or to contain haram ingredients, it will be haram. However, if you have doubt about something, it is better to avoid it.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست مخرج سے متجاوز نہیں ہوئی ہے، تو پانی سے استنجا سنت ہے نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے اور اگر نجاست مخرج سے متجاوز ہوگئی، تو اگر نجاست قدر درہم سے کم ہے، تو دھونا واجب ہے، نماز پوری کر کے اعادہ کر لے اور اگر نجاست قدر درہم سے زائد ہو گئی، تو دھونا فرض ہے، نماز باطل ہونے کی وجہ سے توڑدے اور از سر نو پڑھے۔
’’والغسل سنۃ ویجب إن جاوز المخرج نجس‘‘(۱)
’’وعفا عن قدر درہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہاً فیسن وفوقہ مبطل فیفرض‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۲)أیضًا، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹیک لگا کر سویا، گرا نہیں اور سرین زمین پر ٹکی رہی، تو اس کا وضو نہیں ٹوٹا۔(۱)

(۱) إذا استند ظھرہ إلی ساریۃ، أو نحوھا بحیث لولا استند، لما استمسک، فنام کذلک، فإن کانت إلیتاہ مستویتین مستوثقتین علی الأرض، لا وضوء علیہ في أصح القولین۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۳۵)؛ و عن أبی یوسف أنہ قال: سألت أبا حنیفۃ عمن استند إلی ساریۃ أو رجل فنام۔ ولو لا الساریۃ والرجل لم یستمسک۔ قال: إذا کانت إلیتہ مستوثقۃ من الأرض فلا وضوء علیہ، و بہ أخذ عامۃ مشائخنا؛ وھو الأصح۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۱۳۵)؛ ولو نام مستنداً إلی مالوأزیل عنہ لسقط، إن کانت مقعدتہ زائلۃً عن الأرض۔ نقض بالإجماع، و إن کانت غیر زائلۃ، فالصحیح أن لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ،  الفصل الخامس، في نواقض الوضوء، ومنھا: النوم‘‘ ج۱، ص:۶۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص219

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  مذکورہ شخص میں اگر شرائط امامت پائی جاتی ہیں تو اس کی امامت درست ہے صرف نکاح نہ کرنے کی وجہ سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔(۲)

(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ، الإسلام، والبلوغ، والعقل،… والذکورۃ، الخ۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
ویشترط کونہ مسلماً حرّا ذکراً عاقلاً بالغًا قادرًا الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘:ج۲، ص: ۲۸۰، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص80

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال الزام تراشی کرنے والے عند اللہ گناہگار ہیں ان پر بلا تحقیق اس طرح کی افواہوں سے باز رہنا لازم ہے اور مذکورہ امام کی امامت پر بے بنیاد الزام تراشیوں کی وجہ سے کوئی اثر نہیں پڑا ان کی امامت درست ہے تاہم مقتدیوں کے سامنے یہ وضاحت کردی جائے کہ میں ان الزامات سے بری ہوں۔(۱) ہاں اگر الزام ثابت ہو جائے تو خیانت کرنے کی وجہ سے مذکورہ شخص فاسق ہے اور اس کی امامت مکروہ ہے۔(۲)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث ولا تحسسوا ولا تجسسوا۔ (أخرجہ البخاري  في صحیحہ، ’’کتاب النکاح، باب لایخطب علی خطبۃ أخیہ حتی ینکح، باب ما ینہی عن التحاسد والتدابر‘‘: ج ۲، ص: ۸۹۲، رقم: ۵۱۴۳)
(۲) یکرہ إمامۃ عبد وإعرابي وفاسق۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص204

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وعظ و نصیحت اوردینی باتیں بتلانا بہت اچھا عمل ہے؛ لیکن اس کے لیے بھی مستحسن اور مفید طریقہ ہی کو اختیار کرنا چاہئے، مسجد میں روزانہ اس انداز پر وعظ کرنا درست نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو نماز پڑھنے میں پریشانی اور خلل ہو نیز روزانہ کے اس انداز سے لوگ اُکتا جاتے ہیں اور پھر وعظ کا اثر بھی نہیں ہوتا، اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھی وعظ کیا جائے اور اس کا خیال رکھا جائے کہ نمازوں میں خلل نہ پڑے نیز صلوٰۃ التسبیح وغیرہ اور دیگر نوافل کا اہتمام گھروں میں کرنا افضل ہے۔
’’صلوا أیہا الناس في بیوتکم فإن أفضل الصلاۃ صلاۃ المرء في بیتہ إلا المکتوبۃ‘‘(۱)
’’مثل البیت الذي یذکر اللّٰہ فیہ والبیت الذي لا یذکر فیہ مثل الحي والمیت‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلوٰۃ اللیل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲، رقم: ۶۹۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ومسلم ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ‘‘: ج۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۷۷۹۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص295

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز تو ہو جاتی ہے؛ لیکن ایسا کرنا درست نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔(۲)
(۲) ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم وفي الحدیث من سد فرجۃ غفرلہ وصح خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۲)
ویکرہ القیام خلف صف فیہ فرجۃ للأمر بسد فرجات الشیطان ولقولہ: من سد فرجۃ من الصف کتب لہ عشر حسنات ومحي عنہ عشر سیئات ورفع لہ عشر درجات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۶۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 411

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:رمضان المبارک کے علاوہ عام دنوں میں اذانِ مغرب کے بعد فوراً جماعت کرنا افضل ہے اس میں اول وقت کی فضیلت بھی ہے اور تکثیر جماعت کی فضیلت کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے؛ کیوںکہ اذان کے سنتے ہی سب لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔
البتہ رمضان کے مہینہ میں چوںکہ روزہ دار نمازی روزہ افطار کر کے مسجد میں آتے ہیں جس میں کچھ وقت ضرور صرف ہوتا ہے پس جماعت میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر کر دی جائے تاکہ سب ہی نمازی افطار سے فارغ ہو کرجماعت میں شریک ہو سکیں کہ اس تاخیر کی وجہ سے تکثیر جماعت کی فضیلت اور ثواب حاصل ہوگا۔
ہمارے بزرگوں اور اسلاف اکابر علماء کرام کا معمول یہی ہے کہ ایام رمضان میں مغرب کی جماعت میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر کرتے ہیں اور فجر کی جماعت میں تعجیل کرتے ہیں تاکہ تکثیر جماعت متحقق ہو جائے۔
البتہ اذانِ مغرب غروب کے فوراً بعد پڑھنی چاہیے کہ جہاں پر سائرن کی آواز یا گھنٹہ یا گولے کی آواز نہ پہونچے وہ لوگ اذان سن کر روزہ افطار کر لیں۔ اور جہاں گھنٹہ، سائرن، وغیرہ کابہتر نظم ہو، تو وہاں اذان تاخیر سے دی جائے۔(۱)
(۱) وقال علیہ الصلاۃ السلام: ’’إن أمتی لن یزالوا بخیر ما لم یؤخروا المغرب إلی اشتباک النجوم‘‘ مضاہاۃ للیہود فکان تاخیرہا مکروہاً ’’إلا في یوم غیم‘‘ وإلا من عذر سفر أو مرض أوحضور مائدۃ، والتأخیر قلیلاً لا یکرہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ص: ۱۸۳، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
قولہ:(یکرہ تنزیہاً) أفاد أن المراد بالتعجیل أن لا یفصل بین الأذان والإقامۃ بغیر جلسۃ أو سکتۃ علی الخلاف وأن ما في القنیۃ من استثناء التأخیر القلیل محمولٌ علی ما دون الرکعتین وأن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیہاً وما بعدہ تحریماً إلا بعذر۔(ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتـاب الصلاۃ: مطلب في طلوع الشمس من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 55

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر طرف بے چینی ہو تو لوگوں کی قلبی راحت کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہے۔
’’عن أنس : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا أذّن في قریۃ أمنہا اللّٰہ تعالیٰ من عذابہ ذلک الیوم‘‘(۱)
’’عن علي: رآني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزینا فقال: (یا ابن أبي طالب إني أراک حزینا فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک، فإنہ درء الہم) قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک‘‘(۲)
’’وفي حاشیۃ البحر الرملي: رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر
الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل وعند إنزال المیت القبر قیاسا علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا‘‘(۱)

(۱) مغلطاي بن قلیج المصري، شرح سنن ابن ماجہ، ’’کتاب الصلاۃ، فضل الأذان وثواب المؤذنین‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۹۔(شاملہ)
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذن‘‘: مطلب في المواضع التي یندب بہا الأذان في غیر الصلاۃ، ج ۲، ص: ۵۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص185