نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1147/42-366

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مسجد میں باضابطہ امام ومؤذن کے ذریعہ جماعت کا نظم ہو وہاں مسافرین کا اسی جگہ اپنی جماعت کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم اس سے اہل محلہ کی جماعت اصلیہ پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اہل محلہ اپنی نماز معمول کے مطابق اذان و اقامت کے ساتھ ہی ادا کریں گے۔

’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1257/42-602

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قبرستان میں پرنالے رکھنا اور کوڑا کرکٹ  - تعمیرات کا  مٹیریل ہو یا کوئی اور قسم کا کچرا -  ڈالنا سب ناجائز ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کی روک تھام کریں۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:

ویکرہ ان یبنی علی القبر او یقعد او ینام علیہ او یوطا علیہ او تقضی حاجۃ الانسان من بول وغائط (کتاب الصلوۃ ، الباب الحادی والعشرون،  فی الجنائز  2/227 زکریا دیوبند) وکرہ تحریما (قضاء الحاجۃ) ای البول والغائط علیھا بل وقریبا منھا وکذا کل مالم یعھد من غیر فعل السنۃ (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی  ص623، کتاب الصلوۃ ، فصل فی زیارۃ القبور، مکتبہ شیخ الھند دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1506/42-976

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں، نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے اگر شوہر نے اپنی مدخول بہا کو تین طلاق دی توشرعاً   تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔اب دونوں کا نکاح مکمل ختم ہوچکاہے۔   

وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196) وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1608/43-1230

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان مسبوقین کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ امام کا انتظار کرنا چاہئے ، اس لئے ان کی نماز فاسد  ہوگئی۔ وہ نماز توڑ کر اپنی انفرادی نماز اداکریں ۔

 ولوقام امامہ لخامسۃ فتابعہ ان بعد القعود تفسد والا لا حتی یقید الخامسۃ بسجدۃ (شامی 1/599) ولوقام الالمام الی الخامسۃ فتابعہ المسبوق ان قعد الامام علی راس الرابعۃ تفسد صلوۃ المسبوق وان لم یقعد لم یفسد حتی یقید الخامسۃ بالسجدۃ فاذا قیدھا بالسجدۃ فسدت صلوۃ الکل (الھندیۃ 1/150 کتاب الصلوۃ ، زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1979/44-1921

بسم اللہ الرحمن الرحیم:   وہ کپڑے جن پر عربی کے مقدس کلمات لکھے  ہوئےہوں،  ان کو استعمال کرنے سے ان کلمات کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ان کو پہننا مناسب نہیں ہے۔

جائے نماز پر پھولوں سے نقش و نگار بنایاجاتاہے ، اگر بہت غور سے دیکھاجائے تو بعض مرتبہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ کسی جاندار کی تصویر ہے، حالانکہ وہ حقیقت میں تصویر نہیں  ہوتی ہے، اس لئے اس پر شبہہ نہ کیاجائے ، ان پر نماز درست ہوجاتی ہے۔  البتہ اگر ہر ایک کو اس پر جاندار کی  یا کسی دیوی وغیرہ کی تصویر  صاف نظر آتی ہو تو پھر  تصاویر محرمہ کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے اس پر نماز درست  نہیں ہوگی۔ اور اس جائے نماز کو مسجد میں  بچھانا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2054/44-2139

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مقصد کے لئے چھٹی لی گئی ہے اگر اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو تو پرائیویٹ نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کراما کاتبین انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے  ہیں، قرآن میں ہے (تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ (جو) بہت معزز ہیں، (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیں۔ وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو)۔
حضرت ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک اس (انسان) کے دائیں طرف ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور ایک اس کے بائیں طرف ہوتا ہے جو برائیاں لکھتا ہے۔(۱)

(۱) قولہ تعالیٰ: {وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ ہلا ۱۰ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ہلا ۱۱ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ہ۱۲} یعني وإن علیکم ملائکۃ حفظۃ کراماً فلا تقابلو ہم بالقبائح، فإنہم یکتبون علیکم جمیع أعمالکم۔ ……
عن مجاہد عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أکرموا الکرام الکاتبین الذین لا یفارقونکم إلا عند إحدی حالتین الجنابۃ، والغائط۔ وروایۃ آخر: لایفارقونکم إلا عند إحدی ثلاث حالات: الغائط والجنابۃ، والغسل۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الإنفطار: ۱۲‘‘: ج ۴، ص: ۴۱۷)
(۲) عن ابن جریج رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، قال: ملکان أحدہما عن یمینہ یکتب الحسنات وملک عن یسارہ یکتب السیئات فالذي عن یمینہ یکتب بغیر شہادۃ من صاحبہ، والذي عن یسارہ لا یکتب إلا عن شہادۃ صاحبہ إلخ۔ (أبو محمد عبد اللّٰہ الأصبہاني، العظمۃ: ج ۳، ص: ۹۹۹، رقم: ۵۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص253

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں بھی شادی ونکاح وغیرہ سارے کام کرنا جائز ہیں، اس کو برا سمجھنا یا بد فال سمجھنا بالکل غلط ہے؛ ایسا عقیدہ خلاف شریعت اور واجب الترک ہے۔(۳)

(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:…  لا عدوي ولا ہامۃ ولانوء ولا صفر۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب السلام: باب لا عدوي ولا طہري لا ہامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۱)
اللہم لا طیر إلا طیرک ولا خیر إلا خیرک ولا رب لنا غیرک۔ (مصنف ابن أبي شیبہ، ’’باب من رخص في الطیرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۶۴۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص460


 

Miscellaneous

Ref. No. 2436/45-3686

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The relation between husband and wife is a precious gift of Allah. For a successful married life, mutual relationship and respect of each other is necessary and they are obliged to fulfill each other's rights. A Muslim is bound by the commandments of Allah and the Messenger of Allah in all the circumstances. Disagreement between husband and wife is not a new thing, but managing it and maintaining this relationship for a lifetime by tolerating each other is socially good and fruitful in the hereafter as well.

After a few months of marriage, the second blessing of Allah has been received, hopefully the present pregnancy will strengthen the mutual love and affection of both of you, and lay the foundation of a new life. Therefore, both of you must abstain from the sin of abortion and be in love with each other, and at present you both must pay attention to the coming child.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: آپ کے سوالات کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ انقلابِ حقیقت و ماہیت سے کیا مرادہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ انقلابِ حقیقت سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز فی نفسہٖ اپنی حقیقت کو چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں تبدیل ہوجائے، مثلاً شراب سرکہ بن جائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا بن جائے کہ ان تمام صورتوں میں شراب، خون اور نطفے نے اپنی اصل حقیقت چھوڑ دی اور دوسری حقیقتوں میں تبدیل ہوگئے۔ واضح رہے کہ ماہیت و حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت لگایا جائے گا جب پہلی حقیقت کے مخصوص آثار اس میں باقی نہ رہیں، جیسے خون کے مشک میں تبدیل ہوجانے سے خون کے مخصوص آثار بالکل زائل ہوجاتے ہیں۔ بعض آثار کا زائل ہوجانا یا قلیل ہونے کی وجہ سے محسوس نہ ہونا تبدیلِ حقیقت کو ثابت نہیں کرتا، جیسا کہ آپ نے سوالِ مذکور میںفقہاء کی یہ تصریح ذکر کی ہے کہ اگر آٹے میں کچھ شراب ملا کر گوندھ لیا جائے اور روٹی پکالی جائے تو روٹی ناپاک ہے۔ رد المحتار، ج۱، ص:۵۱۹، ۵۲۰ میں ہے ’’قلت: لکن قد یقال: إن الدّبس لیس فیہ انقلاب حقیقۃ؛ لأنہ عصیر جمد بالطبخ و کذا السمسم إذا درس واختلط دھنہ بأجزاء، ففیہ تغیّر وصف فقط، کلبن صار جبناً و برّ صار طحیناً، و طحین صار خبزاً بخلاف نحو خمر صار خلاًّ‘‘ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شراب نے اس صورت میں فی نفسہ اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے بلکہ اجزاء کے قلیل ہونے کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہورہی ؛ کیوںکہ آٹے کے مقابلے میں شراب کے اجزاء کم تھے، پس یہ انقلابِ حقیقت نہیں ہے؛ بلکہ اختلاط ہے۔ اسی طرح حقیقتِ منقلبہ کے بعض غیرمخصوص آثار کا باقی رہ جانا، انقلابِ ماہیت سے مانع نہیں، جیسا کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے وقت بھی اس کی رقت باقی رہتی ہے۔تو چوںکہ رقت، شراب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، اس لیے اس کا باقی رہ جانا انقلابِ حقیقت سے مانع نہیں  خلاصہ یہ ہے کہ انقلابِ ماہیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شیٔ دوسری شیٔ میں اس طرح تبدیل ہوجائے کہ پہلی چیز کے مخصوص آثار و کیفیات میں سے کچھ باقی نہ رہے، بعض کیفیاتِ غیرمخصوصہ کا باقی رہ جانا تبدیلیٔ ماہیت سے مانع نہیں۔رہا صابون میں خنزیر کی چربی کا مسئلہ تو عرض ہے کہ صابون بن جانے کے بعد تبدیلی ماہیت کی وجہ سے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اس کا استعمال جائز ہوگا:’’و یطھر زیت تنجس بجعلہ صابوناً، بہ یفتی للبلوی کتنور رش بماء نجس لا بأس بالخبز فیہ۔(۱)
جُعل الدھن النجس فی صابون، یفتی بطھارتہ؛ لأنہ تغیر، والتغیر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔ (۲)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۹

(۲)ایضاً:

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص454