Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیرمیں دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں کی لوسے ملائے ہاتھوں کو اس طرح رکھے کہ انگلیوں کا تھوڑا سا جھکاؤ قبلے کی طرف رہے اور ایک سانس میں کہے اللہ اکبر پھر ہاتھ باندھے۔(۱)
(۱)(وکیفیتہا) إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبیین ولا یطأطأ رأسہ عند التکبیر، کذا في الخلاصۃ، قال الفقیہ أبوجعفر: یستقبل ببطون کفیہ القبلۃ وینشر أصابعہ ویرفعہما فإذا استقرتا في موضع محاذاۃ الإبہامین شحمتي الأذنین یکبر، قال شمس الأئمۃ السرخسي: علیہ عامۃ المشایخ، کذا في المحیط، والرفع قبل التکبیر ہو الأصح، ہکذا في الہدایۃ وہکذا تکبیرات القنوت وصلاۃ العیدین ولا یفرعہما في تکبیرۃ سواہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ’’الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوٰۃ وأدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
والأصح أنہ یرفع یدیہ أولا ثم یکبر لأن فعلہ نفي الکبریاء عن غیر اللّٰہ والنفي مقدم علی الإثبات۔ (ویرفع یدیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ) وعند الشافي رحمہ اللّٰہ: یرفع إلی منکبیہ، وعلی ہذا تکبیرۃ القنوت والأعیاد والجنازۃ، لہ حدیث أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ إلی منکبیہ، ولنا روایۃ وائل بن حجر والبراء وأنس رضي اللّٰہ عنہم، أن النبي علی الصلاۃ والسلام کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء أذنیہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶، ۲۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص314
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی دو رکعتیں اور سنن و نوافل کی ہر ہر رکعت یعنی جن رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنی واجب ہے ، اگر ان میں بھول سے کوئی آیت یا آیت کا کچھ حصہ چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو واجب ہے اور فرض کی آخری دو رکعتوں میں چوں کہ سورۂ فاتحہ واجب ہی نہیں ہے اس لیے وہاں کسی آیت کے چھوٹنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہے۔(۱)
(۱) و ذکر الآیۃ تمثیل لا تقیید إذ بترک شییٔ منہا آیۃ أو أقل ولو حرفا لا یکون آتیا بکلھا الذي ھو الواجب۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ج۲، ص۱۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص251
Innovations
Ref. No. 1131 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It has no proof; hence it is better to avoid it.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 925
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسے شخص کو پیسے نہ دئے جائیں جو ان کو فواحش اور غلط کاموں میں خرچ کرتاہو، اور جبکہ اس کی مالی حالت ٹھیک ہے، اگر اس کو رقم دی جائے گی تو غلط کاموں میں لگنے کا ایک ذریعہ حاصل ہوجائے گا، اس لئے ایسے شخص کی مالی مدد نہ کی جانی چاہئے، البتہ اگر پیسے دے کر تالیف قلب کرے اور پھر اس کو سمجھائے تاکہ وہ غلط کام چھوڑدے تو اس طرح اپنے سے مانوس کرنے کے لئے مالی تعاون کرنا درست ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 898
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے پُرفتن دور میں مناسب نہیں۔گھر میں تربیت کا ماحول بنائیں تو بہت بہتر ہے اور ثواب بھی زیادہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No.
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ? کے لیے حیات برزگی ثابت ہے،آپ? قبراطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرماں ہیں۔الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔حَیَاۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَبْرِہِ ہُوَ وَسَاءِرِ الْاَنْبِیَاء ِ مَعْلُومَۃٌ عِنْدَنَا عِلْمًا قَطْعِیًّا لِمَا قَامَ عِنْدَنَا مِنَ الْاَدِلَّۃِ فِی ذَلِکَ وَتَوَاتَرَتْ (بِہِ) الْاَخْبَارُ، وَقَدْ اَلَّفَ الْبَیْہَقِیُّ جُزْء ًا فِی حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ فِی قُبُورِہِمْ، فَمِنَ الْاَخْبَارِ الدَّالَّۃِ عَلَی ذَلِکَ مَا اَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ اُسَرِیَ بِہِ مَرَّ بِمُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ، وَاَخْرَجَ ابو نعیم فِی الْحِلْیَۃِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَبْرِ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ قَاءِمٌ یُصَلِّی فِیہِ، وَاَخْرَجَ ابو یعلی فِی مُسْنَدِہِ، وَالْبَیْہَقِیُّ فِی کِتَابِ حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْاَنْبِیَاء ُ اَحْیَاء ٌ فِی قُبُورِہِمْ یُصَلُّونَ، وَاَخْرَجَ ابو نعیم فِی الْحِلْیَۃِ عَنْ یوسف بن عطیۃ قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِیَّ یَقُولُ لحمید الطویل: ہَلْ بَلَغَکَ اَنَّ اَحَدًا یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ إِلَّا الْاَنْبِیَاء َ؟ قَالَ: لَا، وَاَخْرَجَ ابو داود وَالْبَیْہَقِیُّ عَنْ اوس بن اوس الثقفی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ قَالَ: مِنْ اَفْضَلِ اَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فَاَکْثِرُوا عَلَیَّ الصَّلَاۃَ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ عَلَیْکَ صَلَاتُنَا وَقَدْ اَرِمْتَ؟ یَعْنِی: بَلِیتَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَامَ الْاَنْبِیَاء ِ، وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ فِی شُعَبِ الْإِیمَانِ، والاصبہانی فِی التَّرْغِیبِ عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِی سَمِعْتُہُ وَمَنْ صَلَّی عَلَیَّ نَاءِیًا بُلِّغْتُہُ.
وَاَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ فِی تَارِیخِہِ عَنْ عمار سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ لِلَّہِ تَعَالَی مَلَکًا اَعْطَاہُ اَسْمَاعَ الْخَلَاءِقِ قَاءِمٌ عَلَی قَبْرِی فَمَا مِنْ اَحَدٍ یُصَلِّی عَلَیَّ صَلَاۃً إِلَّا بُلِّغْتُہَا، وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ فِی حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ، والاصبہانی فِی التَّرْغِیبِ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ مِاءَۃً فِی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ، قَضَی اللَّہُ لَہُ مِاءَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِینَ مِنْ حَوَاءِجِ الْآخِرَۃِ وَثَلَاثِینَ مِنْ حَوَاءِجِ الدُّنْیَا، ثُمَّ وَکَّلَ اللَّہُ بِذَلِکَ مَلَکًا یُدْخِلُہُ عَلَیَّ فِی قَبْرِی کَمَا یُدْخِلُ عَلَیْکُمُ الْہَدَایَ(حاوی للفتاوی،انباء الاذکیا بحیاۃ الانبیاء،۲/۸۷۱)(۲)آپ? کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے بلکہ خود حضو ر? نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے،اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہ۔\ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ، اَنَّ رَجُلًا ضَرِیرَ البَصَرِ اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّہَ اَنْ یُعَافِیَنِی قَالَ: إِنْ شِءْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِءْتَ صَبَرْتَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ. قَالَ: فَادْعُہْ، قَالَ: فَاَمَرَہُ اَنْ یَتَوَضَّاَ فَیُحْسِنَ وُضُوء َہُ وَیَدْعُوَ بِہَذَا الدُّعَاء ِ: اللَّہُمَّ إِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، إِنِّی تَوَجَّہْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ، اللَّہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ: ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ(سنن الترمذی حدیث نمبر؛3578)وَمن آدَاب الدُّعَاء تَقْدِیم الثَّنَاء علی اللہ والتوسل بِنَبِی اللہ، لیستجاب الدُّعَاء (حجۃ اللہ البالغۃ 2/10)(3)صحابہ کرام تمام کی تمام عادل اور معیار حق ہیں صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم? سے جس قدر دین برحق سیکھا دو دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا،کوء ی حکم نہیں بدلا،کوئی بات آنحضرت? کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نییہ فرمایا کہ یہ حضور? کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے،صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کینقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جاء ے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گااور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کینزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے،اۃن کے پاس دین برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہذا عقل دین میں صحابہ معیار حق ہیں (فتاوی محمودیہ۲/۵۰۲)جن حضرات کے یہ خیالات ہیں وہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا،ان کی دعوت قبول کرنا،ان کی پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہوتو احتراز بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1037/41-265
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، مذکورہ زمین پر اقبال مرحوم کے تینوں بیٹوں کا حق یقینی ہے، کیونکہ وہ بھی اقبال مرحوم کے وارث ہیں۔ اقبال مرحوم کی کل جائداد کو 24 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو تین حصے اور ہر ایک بیٹے کو سات ساتھ حصے ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1150/42-386
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی بھی عمل سے قبل نیت کا اعتبار ہے، کام کرلینے کے بعد اس میں نیت معتبر نہیں ہے۔ اس لئے مسجد کو حلال رقم سے تعمیر کی اب صورت یہ ہوگی کہ جس قدر حرام مال مسجد میں لگایا ہے اتنا حلال مال بلانیت ثواب صدقہ کردیا جائے تو مسجد کی تعمیر حلال مال سے ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1680/43-1298
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کے سابق استفتاء کے جواب میں یہ تحریر کیا گیاتھا کہ جب تک حرمت کی کوئی دلیل نہیں مل جاتی اس وقت تک ہر چیز پاک شمار ہوگی۔ اور اس کا استعمال بھی جائز ہوگا، کیونکہ حلت کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو چیز حرام ہوگی اس کی دلیل اور وجہ حرمت کا پایا جانا ضروری ہے۔ البتہ اگر کسی چیز کے سلسلہ میں حلال و حرام کا شبہہ ہو تواس سے احتراز کرنا بہتر ہے اور احوط ہے۔ آج کے دور میں ہر سامان کے اجزائے ترکیبی کوڈ کے ساتھ لکھے ہوتے ہیں ان کو آن لائن چیک کیاجاسکتاہے۔ اگر ان میں کوئی غیرشرعی اجزاء نہ ہوں تو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
[قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة] (91) قوله: الأصل في الأشياء الإباحة إلخ ذكر العلامة قاسم بن قطلوبغا في بعض تعاليقه أن المختار أن الأصل الإباحة عند جمهور أصحابنا، وقيده فخر الإسلام بزمن الفترة فقال: إن الناس لن يتركوا سدى في شيء من الأزمان، وإنما هذا بناء على زمن الفترة لاختلاف الشرائع ووقوع التحريفات، فلم يبق الاعتقاد، والوثوق على شيء من الشرائع فظهرت الإباحة بمعنى عدم العقاب، بما لم يوجد له محرم ولا مبيح انتهى. (غمز عیون البصائرفی شرح الاشباہ والنظائر 1/223)
ترجيحُ ما يقتضي الحظر على ما يقتضي الإباحة: لأنه أحوطُ، ولقوله صلى الله عليه وسلم: «دعْ ما يَرِيبُك إلى ما لا يَريبُك» (أحمد والترمذي والنسائي وابن حبان عن الحسن بن علي رضي الله عنهما).ـ (اصول الفقہ الذی لایسع الفقیہ جھلہ، ترجیح المثبت علی النافی 1/437)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1787/43-1534
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the girl did not like the proposal but the family members got her married and the girl did not say anything then the silence will be considered as consent and the marriage will be valid. Nevertheless, the family members should not do so, otherwise it may lead to a lot of difficulties in future whose remedy will be impossible. Moreover, if the girl rejected the proposal clearly, even then the parents got her married, so the marriage did not take place. Since, it is not permissible to marry off a sane adult girl without her consent; such a marriage will not take place legally. However, if the girl is a minor, then the marriage is valid.
لايجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج." (الفتاوى الهندية (1/ 287، كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء، ط: رشيدية)
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 247، کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )
And Allah knows the best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband