Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور وضو کی حالت میں موذی جانور کو مار نے سے وضو پر اثر نہیں پڑے گا(۱) نیز خون نجاستِ غلیظہ ہے اگر ہاتھوں یاجسم کے کسی حصے پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۲)
(۱) قولہ لا ینقض الوضوء أي لعدم الخروج (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطھارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹)
(۲) في رقیق من مغلظۃ کعذرۃ، و دم مسفوح من سائر الحیوانات۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، قبیل: مطلب في طہارۃ بولہ،‘‘ ج۱، ص:۲۲-۲۴)،… و وزناً بقدر مثقال في الکثیف من نجس مغلظ کالدم‘‘ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۹۳، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، النوع الأول: المغلظۃ ۔۔۔ و کذلک الخمر والدم المسفوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق:اگر وہ موچی ہے اور نماز پڑھانی جانتا ہے اور قرآن پاک صحیح پڑھتا ہے تو اس کے پیچھے سب کی نماز درست ہوگی۔(۱)
مسجد محلہ جس میں کہ امام مقرر ہو محلہ کے اکثر نمازی اسی میں نماز پڑھتے ہوں تو مفتی بہ قول کی رو سے جماعت ثانیہ اس میں مکروہ ہوگی۔(۲)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن، الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ، ثم الأروع أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار) (أیضًا:)
(۲) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لافي مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن، قولہ: ویکرہ أي تحریمًا؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ الخ)۔۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعًا۔ ۱ہـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: (أیضًا: ص: ۲۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص74
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ اشخاص کی کمائی پوری کی پوری حرام ہو، کمائی کا کوئی جائز طریقہ موجود ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ اشخاص کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ درست نہیں ہے اور اگر کوئی جائز کمائی بھی ہو تو کھانے پینے کی گنجائش ہے؛ اسی اعتبار سے امام صاحب کو بھی عمل کرنا چاہئے اس کے خلاف عمل کرنا درست نہیں اگر اس کے خلاف عمل ہو تو امامت میں بھی کراہت ہے۔ (۱)
(۱) آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لابأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۷، زکریا، دیوبند)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص200
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت عبادت ہے اور عبادت پر اجرت فقہاء مقتدمین کے نزدیک ناجائز ہے؛ اس لیے کہ طاعت پر اجرت لینا درست نہیں ہے، لیکن حضرات متاخرین نے طاعت پر اجرت کو ضرورتاً جائز قرار دیا ہے، کیوں کہ پہلے بیت المال سے دینی خدمت گاروں کو وظیفہ دیا جاتا تھا، اب بیت المال اور اوقاف کے نظام ختم ہو جانے کی وجہ سے وظیفہ نہیں دیا جاتا ہے اب اگر دینی خدمت گاروں کو تنخواہ نہیں دی گئی تو جمعہ وجماعت کا نظام متاثر ہو جائے گا، اس لیے امام کی تنخواہ مقرر کرنا درست ہے، دین کی بقاء اور آبیاری اس سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور تنخواہ لینے کی وجہ ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
’’إن المتقدمین منعوا أخذ الأجرۃ علی الطاعات وأفتی المتأخرون بجواز التعلیم والإمامۃ کان مذہب المتأخرین ہو المفتی بہ‘‘(۱)
’’ویفتی الیوم بصحتہا أي الإجارۃ علی تعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص:۵۶۸۔
(۲) أیضًا:۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص288
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف اول میں جگہ خالی چھوڑ کر دوسری صف بنانا مکروہ ہے؛ البتہ اگر صف اول میں جگہ نہ ہو تو آنے والا دوسری صف میں کھڑا ہو جائے، اور ممکن ہو تو کسی ایک مقتدی کو صف اول سے کھینچ کر اپنے ساتھ دوسری صف میں کھڑا کر لے، لیکن آج کل لوگوں میں جہالت غالب ہے، اگلی صف سے کھینچنے میں نماز کے فساد کا قوی اندیشہ ہے، اس لیے تھوڑا انتظار کرے کہ کوئی مصلی آجائے تو اس کو ساتھ لے لے اور اگر کوئی ساتھ میں کھڑا ہونے والا نہ ہو تو تنہا دوسری صف بنا لے۔ اگر کوئی شخص دوسری صف میں تنہا کھڑا ہو جب کہ پہلی صف میں ایک آدمی کی جگہ باقی ہو تو آنے والے کو چاہئے کہ دوسری صف میں کھڑے ہونے والے کے ساتھ کھڑا ہو جائے، اور اگر دوسری صف میں دو لوگ ہوں اور پہلی صف میں ایک آدمی کی گنجائش ہے تو آنے والے کو چاہئے کہ صف اول کو پُر کرے، اور اس کے لیے اگر نمازی کے سامنے سے گزر کر جانا پڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۱)
(۱) کرہ کقیامۃ في صف خلف صف فیہ فرجۃ … ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم، وفي الحدیث من سد فرجۃ غفر لہ وصح خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ، وبہذا یعلم جہل من یستمسک عند دخول داخل بجنبہ في الصف، ویظن أنہ ریاء کما بسط في البحر (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)
وقدمنا کراہۃ القیام في صف خلف صف فیہ فرجۃ للنہی، وکذا القیام منفردا وإن لم یجد فرجۃ بل یجذب أحدا من الصف ذکرہ ابن الکمال، لکن قالوا في زماننا ترکہ أولٰی، فلذا قال في البحر: یکرہ وحدہ إلا إذا لم یجد فرجۃ۔ (أیضًا:)
والأولٰی في زماننا عدم الجذب والقیام وحدہ وفي الخلاصۃ إن صلی خلف الصف منفردا مختارا من غیر ضرورۃ یجوز وتکرہ، ولو کبر خلف الصف وأراد أن یلحق بالصف یکرہ، وفي الفتح عن الدرایۃ لو قام واحد بجنب الإمام وخلفہ صف یکرہ إجماعا، والأفضل أن یقوم في الصف الأخیر إذا خاف إیذاء أحد وفي کراہۃ ترک الصف الأول مع إمکان الوقوف فیہ اختلاف۔ وفي الشرح إذا تکامل الصف الأول لا ینبغي أن یتزاحم علیہ لما فیہ من الإیذاء (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروھات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص407
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بلا ثبوت شرعی کسی کو عیب لگانا سخت گناہ ہے۔ قرآن کریم میںارشاد خداوندی ہے۔{اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط}(۱) لیکن اگر صورت مذکورہ واقعی صحیح ہے، جیسا کہ بتایا گیا ہے، تو ایسے شخص کو مؤذن نہ بنانا چاہئے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ کسی دیندار پرہیزگار شخص کو مؤذن بنایا جائے۔(۲)
(۱) سورۃ الحجرات: ۱۲۔
(۲) وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ، کذافي النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
ویکرہ أذان الفاسق ولایعاد، ہکذافي الذخیرۃ۔ (أیضًا)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۵۹۰،مختار اینڈ کمپنی دیوبند)؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہ، باب فضل الأذان وثواب المؤذنین‘‘: ج ۱، ص: ۵۳، رقم: ۷۲۶)
ومنہا: (أي من سنن الأذان) أن یکون تقیاً؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لا یؤدیہا إلا التقي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل بیان سنن الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۲)
و منہا: أي من صفات المؤذن أن یکون تقیاً؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، و الأمانۃ لا یؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالما بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، و یؤذن لکم خیارکم، و خیار الناس العلماء۔ (أیضًا)
و ینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ، کذافي النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
و یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد، ہکذافي الذخیرۃ۔ (أیضاً)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص178
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2807/45-4383
In the name of Allah the most Grciosut the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Bareerah means a virtuous woman, this is a good name, you can name your daughter Bareerah. Hazrat Bareerah was a slave girl who used to serve Hazrat Ayisha (ra), who was later bought and freed by Hazrat Ayisha (ra). Her story about Khiyare Itq (choice of freedom) is very famous in the books of Hadith and Fiqh.
"(عن عروة عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها في بريرة:) أي: في شأنها وأمر شرائها (خذيها) أي: من مواليها باشترائها (فأعتقيها، وكان زوجها عبداً، فخيرها) أي: بريرة (رسول الله صلى الله عليه وسلم) أي: بين فسخ النكاح وإمضائه (فاختارت نفسها ولو كان حراً لم يخيرها)".مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2095)
"وعن ابن عباس قال: «كان زوج بريرة عبداً أسوداً يقال له: "مغيث"، كأني أنظر إليه يطوف خلفها في سكك المدينة، ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعباس: يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثاً، فقال النبي: لو راجعتيه! فقالت: يا رسول الله تأمرني؟ قال: إنما أشفع، قالت: لا حاجة لي فيه» . رواه البخاري". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (5 / 2095)
"بريرة مولاة عائشة قيل: كانت مولاة لقوم من الأنصار، وقيل: لآل عتبة بن أبي إسرائيل، وقيل: لبني هلال، وقيل: لآل أبي أحمد بن جحش، وفي هذا القول نظر، فقد تقدم في ترجمة زوجها معتب أنه هو الذي كان مولى أبي أحمد بن جحش، والثاني خطأ، فإن مولى عتبة سأل عائشة عن حكم هذه المسألة فذكرت له قصة بريرة، أخرجه بن سعد وأصله عند البخاري: فاشترتها عائشة فأعتقتها، وكانت تخدم عائشة قبل أن تشتريها، وقصتها في ذلك في الصحيحين، وفيهما عن عائشة كانت في بريرة ثلاث سنن، الحديث. وفيه: الولاء لمن أعتق، وقد جمع بعض الأئمة فوائد هذا الحديث فزادت على ثلاثمائة، ولخصتها في فتح الباري. وأخرج النسائي من طريق يزيد بن رومان عن عروة عن بريرة قالت: كان في ثلاث سنن، الحديث. ورجاله موثقون، لكن قال النسائي: إنه خطأ، يعني والصواب عروة عن عائشة، وذكرها أبو عمر من طريق عبد الخالق بن زيد بن واقد عن أبيه أن عبد الملك بن مروان قال: كنت أجالس بريرة بالمدينة، فكانت تقول لي: يا عبد الملك إني أرى فيك خصالاً، وإنك لخليق أن تلي هذا الأمر، فإن وليته فاحذر الدماء، فأني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: إن الرجل ليدفع عن باب الجنة بعد أن يظهر إليه بملء محجمة من دم يريقه من مسلم بغير حق". (الإصابة في تمييز الصحابة - (7 / 535)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نماز فجر میں جماعت کھڑی ہوگئی ہو تو مسجد سے باہر سنت فجر پہلے پڑھے ۔ اگر یہ امید ہے کہ ایک رکعت امام کے ساتھ مل سکتی ہے تو سنت پہلے پڑھے اس کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوکر فرض کی تکمیل کرے اور اگر ایک رکعت بھی امام کے ساتھ ملنے کی امید نہ ہو؛ بلکہ اندیشہ ہو کہ دونوں رکعتیں چھوٹ جائیں گی تو جماعت میں شریک ہوجائے اور سنت فجر چھوڑ دے۔
’’إلا رکعتي الفجر، فإنہ یصلیہما خارج المسجد، وإن فاتتہ رکعۃ من الفجر، فإن خاف أن تفوتہ الفجر ترکہما‘‘(۱) صرف قاعدہ ٔاخیرہ کے مل جانے کی امید پر سنتیں نہ پڑھی جائیں۔
جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد کوئی بھی سنت یا نفل مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے اس سے بظاہر جماعت سے انحراف معلوم ہوتا ہے اس لیے خواہ سنت فجر ہو خارج از مسجد پڑھی جائیں مسجد کی سہ دری وغیرہ میں یا اگر خارج از مسجد کوئی جگہ نہ ہو تو مسجد کے فرش پر آخری صف میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
’’یکرہ لہ التطوع في المسجد۔ سواء کان رکعتي الفجر أو غیرہما من التطوعات لأنہ یتہم بأنہ لا یری صلاۃ الجماعۃ‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل الصلاۃ المسنونۃ و بیان ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۹، زکریا دیوبند۔)
(۲) أیضاً:۶۳۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1117 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ایسی کوئی روایت ہمارے سامنے سے نہیں گذری۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 933 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There is nothing wrong in addition of the above mentioned phrase in Sana according to the meaning.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband