Frequently Asked Questions
Business & employment
Ref. No. 2318/44-3494
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If you have a fair job or business, then a bank job involving any kind of usury is not allowed for you. It is clearly mentioned in the Hadith that involvement in usurious business transactions is not permissible, and the writers of interest based transactions, and the witnesses, are equal partners in the sin.
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربا وموکلہ وشاھدیہ وکاتبہ" (سنن الترمذی: 239/1)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ سوال میں جن رسوم کا تذکرہ ہے، وہ بلاشبہ غیر اصولی رسوم ہیں، اس قسم کی رسوم پر عمل کرنا بسا اوقات گناہ کبیرہ تک پہنچادیتا ہے، پس مذکورہ صورت میں جو رسم ذکر کی گئی ہے کہ اگر بغیر چالے کے لڑکی شوہر کے گھر جا کر پندرہ دن رہے اور وہاں شوہر اس سے صحبت کرے تو اس صحبت کو بھی حرام سمجھا جاتا ہے اور بچہ کو بھی برادری کے لوگ حرام سمجھتے ہیں؛ حالاںکہ وہ شریعت اسلامیہ کی رو سے حلال ہے۔ (۱) پس برادری کے لوگوں کو ایسی رسم جاری کرنا بھی گناہ اور صحبت اور بچے دونوں کو حرام سمجھنا بھی گناہ در گناہ ہے اور برادری کے چودھری جو ان رسوم کو بتلاتے ہیں، وہ بھی سخت گناہگار ہیں۔ نکاح کے بعد لڑکی کو روکنا، رسوم کی پابندی کرنا اور شوہر کا بیوی سے جدا رہنا، یہ سب رسوم گناہ کا باعث ہیں؛ بلکہ مذکورہ رسوم پر عمل کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس رسم کو ختم کرنا باعث ثواب ہے۔(۱)
(۱) {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَہ۸۷} (سورۃ المائدہ: ۸۷) (۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ما أحدث مما یخالف الکتاب أو السنۃ أو الأثر أو الإجماع فہو ضلالۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص449
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی کوئی حتمی تاریخ ثابت نہیں ہے، اور نہ اس میں عبادت کرنی ثابت ہے،(۳) البتہ شب قدر،(۴) شب براء ت،(۵) عنداللہ بہت متبرک ہیں اور ان راتوں میں جتنی عبادت کی جائے باعث اجر و ثواب ہے؛ لیکن نوافل با جماعت نہ پڑھنی چاہئیں کیوںکہ وہ بدعت اورمکروہ ہے۔(۱)
(۳) إنا لم نجد فی کتب الأحادیث لا إثباتا ولا نفیا ما اشتہر بینہم من تخصیص الخامس عشر من رجب بالتعظیم والصوم والصلاۃ۔ (ما تثبت بالسنۃ: ص: ۱۹۲)
(۴) {إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ہجصلے ۱ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍہ۳ط ؔ} (سورۃ القدر: ۱، ۳)
(۵) إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ص: ۱۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص497
اسلامی عقائد
Ref. No. 2484/45-3772
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روٹی کو اس طرح باندھنے کی گنجائش ہے، تاہم کوئی اور طریقہ علاج استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مستفتی نے جو حضرت مولانا حقانی کے متعلق حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ کا جو فیصلہ نقل کیا وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت رحمۃ اللہ نے بیان فرمایا ہے، جو اپنی جگہ پر مسلم اور قابل اعتماد ہے حضرت کے بالمقابل دیگر ہر کس وناکس کی بات معتبر نہیں ہوگی، حضرت کا فیصلہ کافی ہے دوسروں کی طرف قطعاً توجہ کی ضرورت نہیں۔(۱)
(۱) وعن أبي الدرداء قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما حد العلم الذي إذا بلغہ الرجل کان فقیہاً، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حفظ علی أمتي أربعین حدیثاً في أمر دینہا بعثہ اللّٰہ فقیہا وکنت لہ یوم القیامۃ شافعاً وشہیداً۔
قال الطیبي فإن قیل کیف طابق الجواب السؤال أجیب بأنہ من حیث المعنی کأنہ قیل معرفۃ أربعین حدیثا بأسانیدہا مع تعلیمہا الناس … والظاہر أن معرفۃ أسانیدہا لیست بشرط الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۸، رقم: ۲۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص187
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کاغذ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ٹیشو پیپر جو ایسی ہی ضروریات کے لئے بنائے جاتے ہیں، دوسرے عام کاغذ جو حصول علم کا ذریعہ ہے، اس دوسرے کاغذ کے استعمال میں مذکورہ رواج غلط ہے اس کا ترک ضروری ہے، کاغذ لکھا ہوا ہو یا کورا بہر صورت اس پر پیشاب وغیرہ ممنوع ہے۔ کہ کاغذ حصول علم کا ذریعہ ہے اس بناء پر قابل احترام ہے۔
’’وکذا ورق الکتابۃ لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ کتابۃ العلم‘‘ (۱)
جو حال درخت کے پتوں کا ہے وہی حال کاغذ کا ہے۔یعنی کاغذ بھی پتوں کی طرح چکنا ہے۔ (نجاست دور نہ کرے گا بلکہ اور بھی پھیلا دے گا) اور قیمتی بھی ہے اور شریعت میں اس کی حرمت بھی ہے اس لئے کہ وہ علم کا آلہ ہے۔
’’(أو استنجی برجیع دابۃ أو عظم)، إذا کانت الدابۃ مما یؤکل لحمہ فہو ممنوع الاستنجاء برجیعہا؛ لأنہ جاء ما یدل علی أن الروث یکون علفاً لدواب الجن، والعظم یکون طعاماً للجن، وأما إذا کان من غیر مأکول اللحم فإنہ نجس والنجاسۃ لا تزال بالنجاسۃ، فما یؤکل لحمہ کالإبل والبقر والخیل وغیر ذلک من مأکول اللحم فہذا ہو الذی یکون رجیعہ علفاً لدواب الجن، وأما ما لا یؤکل لحمہ فأرواثہ نجسۃ، فلا تزال بہا النجاسۃ؛ لأنہا تزید النجاسۃ نجاسۃ، ویمکن أیضاً أنہا تنشر النجاسۃ فی أماکن أخری غیر المکان الذي علیہ النجاسۃ في الأصل۔ قولہ: (فإن محمداً -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - بريء منہ)، ہذا یدل علی تحریم ذلک، وفیہ: أن ہذہ الأمور التي وصف من فعلہا بأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم برئ منہ من الکبائر، وأنہا حرام، وأنہا لا تسوغ ولا تجوز،(۱) فنہی في الحدیث عن الاستنجاء بالعظم لأنہ غذاء للجن فیستنبط من ذلک کراہیۃ الاستنجاء بالأوراق التي أعدت لکتابۃ العلم لما في ذلک اتلاف حق العلم کما کان إتلاف غذاء الجن بالاستنجاء بالعظم وہذاالحدیث وإن کان سندہ ضعیف ولکنہ قوی درایۃً‘‘.
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء: ج ۱، ص: ۵۱۳؛و فتا ویٰ رحیمیہ، ج ۴، ص: ۲۵۔
(۱) شرح سنن أبي داؤد لعبد المحسن العباد، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص100
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس نے وضو میں مسواک کی، پھر نماز پڑھی اس کی فضیلت اس نماز سے ستر گنا بڑھی ہوئی ہے، جو ایسے وضو سے پڑھی جائے، جس میں مسواک نہ کی گئی ہو، وضو کرتے وقت مسواک موجود نہ ہو، تو انگلی سے دانت مل لینا بھی کافی ہوگا، لیکن مسواک کرنا افضل ہے اور بھولنے کی صورت میں نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے مسواک کرنا مستحب ہے۔(۱)
(۱) صلوٰۃ بسواک أفضل من سبعین صلوٰۃ بغیر سواک۔ (علاء الدین السمرقندي، کنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، ’’کتاب الطہارۃ، السواک،‘‘ ج۹، ص:۱۳۸، رقم: ۲۶۱۷۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و عن أبي أمامۃ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: تستاکوا فإن السواک مطہرۃ للفم و مرضاۃ للرب (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، کتاب الطہارۃ و سننہا، باب السواک، ج۱، ص:۲۵، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)؛ فإن لم یجد فیعالج فمہ بالأصبح و السواک أفضل۔ (محمد بن أحمد أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارت،‘‘ ج۱، ص:۱۳)؛ و إلا إذا نسیہ فیندب للصلوٰۃ کما یندب لإصفرار سن و تغیر رائحۃ، الخ۔ ( ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الطھارۃ، مطلب: في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز با جماعت کے لیے کس وقت کھڑا ہونا چاہئے اقامت کے شروع میں یا اس وقت جب مؤذن حی علی الصلاۃ کہے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اختلاف استحباب وعدم استحباب میں ہے، جواز و عدم جواز میں نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی اقامت کے شروع میں کھڑا نہ ہو، تو اس کی امامت شرعاً درست ہے؛ البتہ اس کو لازم ہے کہ ان لوگوں پر لعن طعن نہ کرے جواقامت کے شروع میں کھڑے ہوتے ہیں؛ کیوں کہ یہ مسئلہ استحبابی ہے اس میں شدت سے کام نہ لیا جائے۔(۱)
(۱) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص38
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: لڑکی کی شادی کرنا موقع اور کفو کے مل جانے پر ضروری ہے اگر مناسب رشتہ مل جائے تو دیر نہ کرنی چاہئے حدیث شریف میں اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے۔کہ لڑکا و لڑکی کے بالغ ہوجانے کے بعد نکاح میں جلدی کرنی چاہئے تاہم امامت اس کی درست ہے۔(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا خطب إلیکم ممن ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ إلا تفعلوہ تکن فتنۃ في الأرض وفساد عریض‘‘(۲)
(۱) قولہ وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولدالزنا، بیان للشیئین الصحۃ والکراہۃ، أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث صلوا خلف کل بر وفاجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)
(۲) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب النکاح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من ترضون دینہ فزوجوہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۷، رقم: ۱۰۸۴؛ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص63
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تین طلاق کے بعد مطلقہ کے ساتھ رہنا بالکل حرام ہے پردہ اور علیحدگی واجب ہے،(۱) جو شخص تین طلاق دینے کے بعد اسی کے ساتھ شوہر وبیوی کی طرح رہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس کی اذان وامامت مکروہ تحریمی ہے، اور اس کے ساتھ رابطہ وتعلقات رکھنا بھی درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وفاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمرہ والزاني وأکل الربا، ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص193