Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 949/41-93

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, in this case you have to do Sajda-e Sahw at the end as you have followed your imam in salam by mistake.  

ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الفتاوی الھندیۃ 1/98)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ بعض ناعاقبت اندیش یا فرق ضالہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے واقعات اور کہانیاں گڑھ کے پیش کردیتے ہیں، جو سنہرے نظر آتے ہیں؛ لیکن براہِ راست عقائد پر ان کی زد پڑتی ہے جیسا کہ ایک نصیحت بھی سالہا سال سے چلی آرہی ہے اور لوگ چھپوا چھپوا کر تقسیم کرتے ہیں؛ لیکن وہ ایک یہودی کی ایجاد ہے جس نے مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کے لئے خواب گھڑا۔ سوال میں تحریر کردہ صورت اس سے ملتی جلتی ہے جس پریقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ صورت حال واقعی من گھڑت ہے۔ رہی روٹی سے شفا ہوجانے کی بات تو اس میں بڑا دخل قوت ارادی کو بھی ہوتا ہے، یقین کے ساتھ یہ کہنا کہ یہ روٹی ہی باعث شفا بنی مشکل ہوگا اور شرعی ضابطہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس پر عمل کیا جائے، بلکہ اس کو پھیلنے سے روکا جائے۔(۱

(۱) نیز ایسی باتوں کی اشاعت نہ کی جائے اس سے فتنہ کا اندیشہ ہے اور ہر وہ چیز جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو وہ قابل اشاعت نہیں ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب قائم کیا ہے ’’باب من خص بالعلم قوماً دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا‘‘ اس باب کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کو نقل کیا ہے ’’وقال علي -رضي اللّٰہ عنہ- حدثوا الناس بما یعرفون أتحبون أن یکذب اللّٰہ ورسولہ‘‘ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب من خص بالعلم قوماً دون قوم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴، رقم: ۱۲۷)

وقال العیني: أي کلموا الناس بما یعرفون أي بما یفہمون والمراد کلموہم علي قدر عقولہم وفي کتاب العلم لآدم بن أبي إیاس عن عبد اللّٰہ بن داود عن معروف فما آخرہ ودعوا ما ینکرون أي ما یشتبہ علیہم فہمہ۔

أن یکذب: وذلک لأن الشخص إذا سمع مالا یفہمہ ومالا یتصور إمکانہ یعتقد استحالتہ جہلا فلایصدق وجودہ فإذا أسند إلی اللّٰہ ورسولہ یلزم تکذیبہا۔ (بدر الدین العینی، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب من خص بالعلم قوما دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1991/44-1938

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Reciting the Holy Qur’an, zikr and azkar, nafl prayer or fasting, tawaf, umrah and hajj, sacrifice, and giving charity to the poor and the needy for isale sawab is correct according to the Shariah, and the reward of all these deeds reaches the deceased. Those doing it also get full reward. This is the view of Ahlus Sunnat wal-Jama'at. And there are many hadiths in this regard.

عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما» (سنن أبي داود (4/ 336)

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً". ( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١٢، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

"قال الخطابي: وفیه دلیل علی استحباب تلاوة الکتاب العزیز علی القبور؛ لأنه إذا کان یرجی عن المیت التخفیف بتسبیح الشجر فتلاوة القرآن سورة یٰس يخفف الله عنهم یومئذ". (عمدة القاری علي صحيح البخاري   ، کتاب الوضوء ، باب من الکبائر أن لایستتر من بوله، ٢ / ٥٩٨)

"فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ أَوْ الْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ: أَحَدُهُمَا: عَنْ نَفْسِهِ، وَالْآخَرُ: عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ آمَنَ بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَبِرِسَالَتِهِ» صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرُوِيَ «أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: إنَّ أُمِّي كَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ». وَعَلَيْهِ عَمَلُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ لَدُنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَيْهَا، وَالتَّكْفِينِ، وَالصَّدَقَاتِ، وَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَجَعْلِ ثَوَابِهَا لِلْأَمْوَاتِ، وَلَا امْتِنَاعَ فِي الْعَقْلِ أَيْضًا؛ لِأَنَّ إعْطَاءَ الثَّوَابِ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى إفْضَالٌ مِنْهُ لَا اسْتِحْقَاقَ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَى مَنْ عَمِلَ لِأَجْلِهِ بِجَعْلِ الثَّوَابِ لَهُ، كَمَا لَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ بِإِعْطَاءِ الثَّوَابِ مِنْ غَيْرِ عَمَلٍ رَأْسًا". (البحر الرائق، كتاب الحج، فَصْلٌ نَبَاتَ الْحَرَمِ، ٢ / ٢١٢)

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة". ( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٣/ ٥٩)

"فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء کان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدکم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبو یه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور )

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے تو حسب وضاحت مفسرین و متکلمین اس کے شقی و سعید یعنی جنتی و جہنمی ہونے کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کو مجبور محض کردیا جاتا ہو کہ وہ جو چاہے کرے جہنمی ہی ہوگا اس کا عمل کارآمد نہ ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ جو کام ہوگا اللہ تعالیٰ کو اس کے بارے میں پورا علم ہے کہ بندہ دنیا میں کیا کرے گا۔

اچھے کام کرے گا یا برے کام کرے گا اس کا علم خدا تعالیٰ کو بدرجہ اتم ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اپنی عقل وسمجھ سے برے کام کرے یا بھلے، جنت حاصل کرنے کے لئے عبادت و ریاضت کرے یا جہنم کی طرف لے جانے والے کفر وشرک یا گناہ کا ارتکاب کرے بندہ کو اس میں پورا اختیار ہے وہ جو بھی کرنے کا ارادہ کرے گا اس کو اس کے لئے سہل کردیا جائے گا لیکن بندہ اپنے اختیار سے اچھا برا جوبھی کرے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم پہلے سے ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے ہی لکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں جہل و خطاء کا شائبہ بھی ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے باخبر ہوتے ہوئے جو لکھ دیا ہے وہی ہوگا الحاصل بندہ مجبور محض نہیں یہ معمولی  وضاحت آپ کے سمجھنے کے لیے کردی گئی ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر کے مسئلہ پر بہت زیادہ تفصیل کو پسند نہیں فرمایا ہے اور اگر آپ طالب علم ہیں تو معتبر کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)

۱) سأل (رجل) علي بن أبي طالب، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

وعن سہل بن سعد رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: إن العبد لیعمل عمل أہل النار، وإنہ من أہل الجنۃ، ویعمل عمل أہل الجنۃ، وإنہ من أہل النار، وإنما الأعمال بالخوا تیم، متفق علیہ۔ (أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۰رقم: ۸۳)

وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-، وہو الصادق المصدوق: إن خلق أحدکم یجمع في بطن أمہ أربعین یوما نطفۃ، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یبعث اللّٰہ إلیہ ملکا بأربع کلمات: فیکتب عملہ، وأجلہ، ورزقہ، وشقيّ، أو سعید، ثم ینفخ فیہ الروح، فوالذي لا إلہ غیرہ إن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل النار فیدخلہا۔ وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل الجنۃ فیدخلہا، متفق علیہ۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۸۲)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص190)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بزرگ کے محض قیام پر وہاں ان کا مزار بنا لینا سخت گناہ ہے(۱) اور پھر وہاں پر چڑھاوے، نذر ونیاز وغیرہ بھی سخت گناہ ہیں(۲) البتہ اس جگہ پر جو مسجد ہے اس میں نماز پڑھنا درست ہے، لیکن وہ عام مسجد کی طرح ہے اس میں نماز پڑھنے پر کسی مخصوص ثواب کا استحقاق نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ صرف تین مساجد کی فضیلت حدیث سے ثابت ہے ان کے علاوہ کسی بھی مسجد کی کوئی مخصوص فضیلت نہیں ہے۔

(۱) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
قال الکمال: لا یدفن صغیر ولا کبیر في البیت الذي مات فیہ فإن ذلک خاص بالأنبیاء علیہ السلام بل یدفن في مقابر المسلمین۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۱۲)
(۲) بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کر کے صرف علماء ومشائخ ہی کو قبلۂ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق نہیں کرتے ہیں یہ اصلی مرض یہود ونصاری کا ہے۔ (مفتی محمد شفیع عثمانی، معارف القرآن ، ج:۱، ص: ۳۳۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص373

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہر عورت کا حق ہے جو کہ شوہر پر واجب ہوتا ہے۔ شوہر کو تو کم کرنے کا یا معاف کرنے کا حق ہی نہیں اس پر تو ادائے گی واجب ہوتی ہے جس کے لئے اصول و ضابطہ مقرر ہے، عورت اگر بغیر کسی دباؤ اور جبر کے کچھ کم کردے تو اس کو اختیار ہوتا ہے وہ کم کر سکتی ہے لیکن اگر جبراً کم کرایا جائے تو کم نہیں ہوگا۔ ایسے ہی ایک ناجائز طریقہ یہ بھی ہے کہ بعض نا اہل اور بے غیرت آدمی پہلی رات کو بیوی سے مہر معاف کراتے ہیں یا کم کراتے ہیں۔ تو عورت اپنے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے دباؤ محسوس کرتی ہے اور مہر معاف کرتی ہے یا کم کرتی ہے تو اس طرح بھی مہر قطعاً معاف نہیں ہوتا نہ ہی کم ہوتا ہے بلکہ شوہر پر مکمل کی ادائے گی واجب رہتی ہے۔(۱)

(۱) والمہر یتأکد بأحد معان ثلاثۃ: الدخول، والخلوۃ الصحیحۃ وموت أحد الزوجین سواء کان مسمی أو مہر المثل حتی لا یسقط منہ شیء بعد ذلک إلا بالإبراء من صاحب الحق کذا في البدائع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب السابع: في المہر، الفصل الثاني: فیما یتأکد بہ المہر والمتعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص462

اسلامی عقائد

Ref. No. 2556/45-3912

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کے لئے تمام طرح کی تیاریاں ہورہی ہیں، رشتہ داروں  کی آمد ورفت جاری ہے، ہر طرف شادی کا چرچہ ہے، پھر لڑکی نے نانا کے سامنے  نکاح نامہ پر انگوٹھا لگایا ، لڑکی دولہن کے طور پر سنگھار کرہی ہے، یہ سب کچھ  اس بات کی علامت ہے کہ لڑکی کو نکاح کا علم ہے اور لڑکی نے نکاح کی اجازت دیدی ہے،  مزید یہ کہ لڑکی کے باپ نے اپنی موجودگی میں نکاح کرایا ہے۔ اس لئے یہ نکاح درست ہوگیا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2587/45-4211

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کسی شخص کا فاجر وفاسق ہونا شرعاً ناپسندیدہ ہے، حکمت وتدبیر کے ساتھ اس کو گناہوں سے بچنےکی ترغیب دینی چاہئے تاہم اگر وہ کسی کی نماز جنازہ میں شرکت کرتا ہے یا جنازہ کو کندھا دیتا ہے تو اس میں شرعاً نہ کوئی قباحت ہے اور نہ کراہت۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر تعویذ کو اچھی طرح کپڑے میں سی دیا جائے، تو اس کوپہن کر بیت الخلا میں جانا درست ہے۔ لہٰذا اگر والٹ میں بند ہو، تو اس کو جیب میں رکھ کر لےجانے میں حرج نہیں ہے؛ البتہ اس کو ساتھ نہ لے جانا بہتر ہے اگر ممکن ہو۔(۱)

(۱) تکرہ إذا بۃ درہم علیہ آیۃ إلا إذا کسرہ، رقیۃ في غلاف متجاف لم یکرہ دخول الخلاء بہ والاحتراز أفضل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸؛ وفتح القدیر لإبن الہمام، ’’باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب ما یمنع الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص114

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح بیٹھنے میں ، مقعد، یعنی :سرین بھی ایک طرف سے اٹھی رہتی ہے اور ہیئت نماز کے خلاف بھی ہے، اس لیے اس صورت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا؛ لیکن آپ کا سونا عام انسانوں کی طرح نہ تھا؛ اس لیے یہ قیاس غلط ہے؛ لہٰذا استرخاء مفاصل (جو غلبہ نوم کی وجہ سے ہوتا ہے، سبب ہے مقعد کے زمین سے اٹھنے کا اور یہ سبب ہے خروج ریح کا؛ اس لیے نوم ناقض وضو ہوئی، لہٰذا اگر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے میں سو گیا اوراس حالت میں غلبہ نوم کی وجہ سے استرخاء مفاصل ہو گیا؛ اس کی وجہ سے مقعد زمین سے اٹھ گئی، تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اس نوم کے بعد اگر نماز پڑھائی تو نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) و ینقضہ حکماً نوم یزیل مسکتہ أي قوتہ الماسکۃ بحیث تزول مقعدتہ من الأرض، وھو النوم علی أحد جنبیہ أو ورکیہ أو قفاہ أو وجھہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم من بہ انفلات ریح غیر ناقض،‘‘ ج ۱، ص:۲۷۰)؛ و سئل أبونصر رحمہ اللّٰہ عمن نام قاعداً نوماً ثقیلاً؟ فقال: لا وضوء علیہ، لکن یشترط أن یکون مقعدہ علی الأرض وھو الصحیح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني ما یوجب الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۲۵۴)؛ والعتہ لا ینقض کنوم الأنبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔ قولہ:کنوم الأنبیاء قال في البحر: صرح في القینۃ بأنہ من خصوصیاتہ ﷺ، ولذا ورد في الصحیحین ’’أن النبي ﷺ نام حتی نفخ، ثم قام إلی الصلاۃ، ولم یتوضا‘‘ لما ورد في حدیث آخر: إن عیني تنامان، ولا ینام قلبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج ۱، ص:۲۷۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص226