اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ تمام بشری تقاضوں سے پاک ہوتے ہیں۔(۱)

(۱) {ھَلْ أَتٰئکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ إِبْرٰھِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ہم ۲۴  إِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ہج ۲۵  فَرَاغَ إِلٰٓی أَھْلِہٖ فَجَآئَ  بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ ہلا ۲۶  فَقَرَّبَہٗٓ إِلَیْہِمْ قَالَ ألََا تَأْکُلُوْنََ ہز  ۲۷ } (سورۃ الذٰریات: ۲۴ - ۲۷)
عن ابن عباس {وَعَلَّمَ أٰدَمَ الْأَسْمَآئَ کُلَّھَا} قال علمہ أسماء ولدہ إنسانا إنسانا والدواب، فقیل: ہذا الحمار، ہذ الجمل، ہذا الفرس، وقال: أیضاً: ہي ہذہ الأسماء التي یتعارف بہا الناس: إنسان ودابۃ، وسماء، وأرض، وسہل، وبحر، وجمل، وحمار، وأشباہ ذلک من الأمم وغیرہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ البقرۃ: ۳۱‘‘: ج ۱، ص: ۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص254

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ نے دودھ پینے کے فوراً بعد قئی کردی ہے اور وہ دودھ ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا، بلکہ منہ میں ہی تھا اور بچہ نے قئی کردی تو وہ ناپاک نہیں ہے۔ اگر وہ بدن میں یا کپڑے میں لگ جائے تو اس کو دھونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وہ دودھ حلق سے نیچے اتر گیا تھا پھر بچے نے دودھ کی قئی کی تو وہ ناپاک ہے، اس کے بدن یا کپڑے پر لگنے کی صورت میں دھونا ضروری ہے اس لیے کہ حلق میں جانے کی وجہ سے اس کا اتصال نجاست سے ہوگیا ہے۔
و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ قیل ھو المختار والصحیح ظاھر الروایۃ، أنہ نجس لمخالطتہ النجاسۃ و تداخلھا فیہ بخلاف البلغم۔(۱)
قال الحسن ’’إذا تناول طعاما أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینقض، لأنہ طاھر حیث لم یستحل و إنما اتصل بہ قلیل القئي فلا یکون حدثا فلا یکون نجسا، و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ و صححہ في المعراج و غیرہ، و محل الاختلاف ما إذا وصل إلی معدتہ ولم یستقر، أما لو قاء قبل الوصول إلیھا وھو في المرئي فإنہ لا ینقض اتفاقا۔۔۔ لأن ما یتصلہ بہ قلیل وھو غیر ناقض۔(۲)

(۱)ابراہیم، حلبي کبیري،ج۱، ص:۱۲۹
(۲)ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱،ص:۶۷


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص456

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض ستر وغیرہ دیکھنے اور ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہاں دوبارہ وضو کر لینا بہتر ہے ۔(۱)

(۱)عن قیس بن طلق بن علي عن أبیہ عن النبي ﷺ قال: وھل ھو إلا مضغۃ منہ أو بضعۃ منہ، (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب ترک الوضو من مس الذکر،‘‘ ج۱، ص:۲۵)؛ و أنہ سئل عن الرجل یمس ذکرہ في الصلوٰۃ فقال: ھل ھو إلا بضعۃ منک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و لا ینقض الوضوء مس الذکر و کذا مس الدبر والفرج مطلقا۔ (ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص۸۲)؛ و ’’ولا ینقضہ (مس ذکر) لکن یغسل یدہ ندباً، ولکن یندب للخروج من الخلاف لا سیما للإمام‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص۲۷۸-۲۷۹، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: (۱) شدید ضرورت میں لون لینے کی گنجائش ہے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلاکراہت جائز ہے، اگر شدید مجبوری نہ ہو تو امامت مکروہ ہے۔(۱)
(۲) مقتدیوں کی ناراضگی اگر شرعی وجہ سے ہو مثلاً امام احکام شرعیہ کے خلاف کرتا ہو اور ایسا کرنا شرعاً ثابت بھی ہو تو اس صورت میں فتویٰ یہی ہوگا کہ اس امام کو معزول کردیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے؛ بلکہ ناراضگی کسی ذاتی وجہ کی بنا پر ہو تو امام کی امامت پروہ ناراضگی بالکل اثر انداز نہیں ہوگی اور امامت اس کی بلاشبہ جائز و درست ہوگی۔(۲)
(۳) امام پر ضروری ہے کہ وہ فوٹو ہٹادے اگر قدرت کے باوجود وہ نہیں ہٹائے گا تو نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی لیکن بکراہت ہوگی۔(۳)

(۱) وفي القنیۃ والبغیۃ یجوز للمحتاج الاستقراض الربح انتہی۔ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الأول، القاعدۃ الخامسۃ‘‘: ص: ۹۳ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریمًا لحدیث أبي داؤد، لایقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قومًا وہم لہ کارہون، وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)

(۳) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔۔۔۔ وقال في مجمع الروایات۔ وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزًا ثواب الجماعۃ؛ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳،  شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص76

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے اگر سچی توبہ کریں اور اس کا اعلان کریں تو پھر ان کی امامت بلا کراہت درست ہوگی نیز امامت پر باقی رکھنے یا علاحدہ کرنے کا اختیار مسجد کی کمیٹی، متولی اور مصلیان مسجد کو ہے۔(۱)

(۱) کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الاستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد۔ وشرعًا: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالٰی بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ (فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ) تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص201

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: امام کو مقررہ وقت پر حاضر رہنا ضروری ہے، منٹ، دو منٹ انتظار کرنے کی گنجائش ہے، اگر اس سے زائد کی تاخیر کرے، تو دوسرا شخص نماز پڑھادے اور امام تاخیر کی وجہ سے قصور وار ٹھرایا جائے گا، لیکن اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جائے، تو قصور وار نہیں ہوگا۔(۳)

(۳) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الفاسق الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ ولفظہ لا بأس تقید في الغالب أن ترکہ أفضل فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص289

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محراب میں امام صاحب اس طرح کھڑے ہوں کہ دونوں قدم داخل محراب ہوں، تو مکروہ ہے، البتہ قدمین خارج محراب ہوں، تو مکروہ نہیں ہے  نمازیوں کے ازدحام اور جگہ کی تنگی کے سبب مجبوراً اندرون محراب تنہا امام کے قیام کی نوبت آجائے تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’ویکرہ قیام الإمام بجملتہ في المحراب لا قیامہ خارجہ وسجودہ فیہ (إلی قولہ) وإذا ضاق المکان فلا کراہۃ‘‘(۲)
(۱) ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ  إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین، وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن یقوم في الطاق، کذا في الفتاویٰ البرہانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ،  فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قبل الزوال اذان جمعہ بالکل درست نہیں تاہم اگرزوال کے فوراً بعد سنت اداکرلی جائے اور پھر فوراً اذان خطبہ و خطبہ کے بعد نماز فرض ادا کرلی جائے تو درست اور جائز ہے۔
’’لقولہ علیہ السلام إذا مالت الشمس فصل بالناس الجمعہ‘‘۔(۱)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، کتاب الصلاۃ ’’فصل في قیام شہر رمضان ‘‘: ج ۱، ص: ۸۳۔ لایسن لغیرہا کعید، فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر … قولہ وقع بعضہ وکذا کلہ بالأولی ولو لم یذکر البعض لتوہم خروجہ فقصد بذکرہ التعمیم لا التخصیص۔ (ابن عابدین،رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰، ط: زکریا۔
لوقت أي وقت المکتوبۃ واعتقاد دخولہ أو ما یقوم مقام الاعتقاد من غلبۃ الظن، فلو شرع شاکاً فیہ لاتجزیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ ’’مطلب قد یطلق الفرض علی مایقابل الرکن‘‘:ج ۱، ص: ۴۵۲۔
تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصبح لایجوز اتفاقا وکذا في الصبح  … عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح مجمع البحرین لابن الملک، وعلیہ الفتوی، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الحجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص179

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 2808/45-4385

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ منہ بولی بہن اجنبیہ ہے، اس سے مکمل پردہ لازم ہے، یہ احتیاطی پہلو آپ نے اختیا رکیا ہے، یہ اچھی بات ہے لیکن بہتر ہوگا کہ اگر اس کا کوئی ذمہ دار ہے تو اس کے واسطے سے اس کی مدد کریں  اور اگر اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے اور آپ ہی اس کے نگراں ہیں تو پھر اس کو جوکچھ کہنا ہو اپنی بیوی کے واسطہ سے کہیں اور اس کی مدد کریں۔ مجبوری میں آپ اس طرح میسیج کرسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی سنتیں خواہ فرائض کے ساتھ قضا ہوں یا انفراداً سنتوں کی شرعاً قضاء نہیں ہے۔ ’’إذا فاتت عن وقتہا لا تقضی، سواء فاتت وحدہا أو مع الفریضۃ‘‘ (۱) ہاں مگر سنت فجر اگر فجر کے ساتھ قضا ہوجائیں تو طلوع کے بعد زوال سے پہلے فرضوں کے ساتھ ان کو بھی پڑھا جائے اور اگر زوال تک نہ پڑھ سکے تو زوال کے بعد سنت فجر کی بھی قضاء نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تنہا سنت فجر چھوٹ جائے اور فرض ادا کرلے تو بھی سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
’’فان فاتت مع الفرض تقضی مع الفرض… أما إذا فاتت وحدہا لا تقضی‘‘(۲) لیکن بہتر یہ ہے کہ اگرتنہا سنت چھوٹ جائے تو بعد طلوع آفتاب قضاء کرلی جائیں۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع:کتاب الصلاۃ، السنن تقضی أم لا ج۱، ص: ۶۴۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) أیضا: ج۱، ص: ۶۴۳۔
وقضاء الفرض والواجب والسنۃ فرض وواجب وسنۃ لف ونشر مرتب۔ قولہ: وقضاء الفرض إلخ، لو قدم ذلک أول الباب أو آخرہ عن التفریع الآتي لکان أنسب۔ وأیضا قولہ والسنۃ یوہم العموم کالفرض والواجب ولیس کذلک، فلو قال وما یقضی من السنۃ لرفع ہذا الوہم رملي۔ (ابن عابدین،  رد المحتار : ج۲، ص: ۶۶)
وقید بسنۃ الفجر لأن سائر السنن لا تقضی بعد الوقت لاتبعا ولامقصودا واختلف المشایخ في قضائہا تبعاً للفرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحۃ الخالق وتکملۃ الطوري، ج ۲، ص: ۸۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص369