نکاح و شادی

Ref. No. 948/41-89

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حالت حیض میں نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، البتہ  جب تک عورت حالت حیض میں رہے گی، شوہر کے لئے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا۔  لڑکی والوں کو نکاح کا دن متعین کرنے سے قبل گھر کی عورتوں سے اس سلسلہ میں اندازہ  معلوم کرلینا چاہئے۔

وأما نحو الحيض والنفاس والإحرام والظهار قبل التكفير فهو مانع من حل الوطء لا من محلية العقد فافهم.  (الدرالمختار  ج3/ص4)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1990/44-1937

بسم اللہ الرحمن الرحیم: نماز کے شرائط میں سے وقت کا ہونا بھی ہے۔ اور نمازی کو نماز شروع کرنے سے پہلے وقت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ لیکن گاؤں میں لوگ اس سلسلہ میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ، اس لئے اس طرح کا اعلان کرنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور کسی دن اعلان نہ ہونے پر ہنگامہ برپا نہ کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2276/44-2432

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی، ہاں، اس سلسلہ میں صریح احادیث موجود ہیں کہ مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں ایک لاکھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 1406)

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ

و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 1413)

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رُزَيْقٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَلْهَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ .

فتح الملھم: (باب فضل الصلاۃ بمسجدي مكۃ و المدينۃ، 301/6، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی) لاحتمال ان حديث الاقل قبل حديث الاكثر ثم تفضل الله بالاکثر شيئا بعد شيء ويحتمل ان يكون تفاوت الاعداد لتفاوت الاحوال۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور خیر القرون سے اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر یا حضرت خدیجہ، حضرت زینب دختر رسول کی قبروں پر یا حضرات صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر یا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبروں پر پھول چڑھائے ہوں ان میں تو عشق ومحبت حقیقی اور جبلّی تھی، وہ ثواب اور خیر کے کاموں میں سبقت بھی کرنے والے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے قبروں پر پھول نہیں چڑھائے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کھجور کی دو ٹہنیاں گاڑدی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پھول ڈالے جاسکتے ہیں، اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ امت کو بھی قبر پرکھجور کی ٹہنی ہی گاڑنی چاہئے جو حدیث سے ثابت ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جن کی قبروں پر کھجور کی ٹہنیاں گاڑی گئی اس میں ان دونوں میتوں کو عذاب ہو رہا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں: ’’إني مررت بقبرین یعذبان فأحببت بشفاعتي أن یرفہ ذاک عنہما مادام الغصنان رطبین‘‘(۱) کہ میں دو قبروں کے پاس سے گزرا ان دونوں میتوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کے ذریعہ یہ پسند کیا کہ جب تک ٹہنیاں تر رہیں ان دونوں سے عذاب کی کمی ہو۔
اس صحیح روایت سے بصراحت معلوم ہوا کہ عذاب ہلکے ہونے کا اصل سبب آپ کی شفاعت تھی، ٹہنیاں تو صرف ایک علامت کے طورپر تھیں۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ عذاب کے ہلکے ہونے کا اصل سبب ٹہنیوں کا سبز ہونا تھا، اور یہی چیز پھولوں میں بھی پائی جاتی ہے، تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوسکتا ہے کہ جن کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہو، جیسے گنہگار اور فاسق وفاجر لوگوں کی قبروں پر سبز شاخیں کھجور کی گاڑی جائیں، اولیاء اللہ کی قبروں کے ساتھ یہ معاملہ (نعوذ باللہ) رکھنے والوں کا کیا یہ عقیدہ ہوسکتا ہے؟ ہم تو اہل اللہ کو جنتی سمجھتے ہیں جو جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے معطر ہیں۔(۲)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الزہد والرقاق، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ أبي الیسر‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۹، رقم: ۳۰۱۳۔
(۲) إعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو باطل وحرامٌ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصوم: باب ما یلزم الوفاء بہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۳)

قبر پر پھول چڑھانا نادرست ہے۔ (فتاوی رشیدیہ: ص: ۲۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص374

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر یا اسی طرح دیگر کسی تقریب کے موقع پر پھولوں کا ہار ڈالنے کی گنجائش ہے کہ اس سے خوشی کا اظہار مقصود ہوتا ہے؛ نیز یہ کسی قوم کا تہذیبی شعار نہیں ہے ہاں اس میں اسراف فضول خرچی اور ریا ونمود سے پرہیز کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کو لازم وضروری سمجھنا غلط ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب ما جاء في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹)
قال القاري: أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم، أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ (بذل المجہود، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص463

طہارت / وضو و غسل

الجواب و باللہ التوفیق : مذکورہ حلال جانوروں کا جھوٹا پاک ہے، اس سے وضوء جائز اور درست ہے اور اس کو پینا درست ہے۔(۱)          

(۱) و أما سؤر ما یؤکل لحمہ فلأنہ متولد من لحم طاھر فأخذ حکمہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۲۳)، و سؤر الآدمي وما یؤکل لحمہ طاھر لأن المختلط بہ اللعاب و قد تولد من لحم طاھر فیکون طاھرا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل في الآسار وغیرہا،ج۱، ص:۱۱۲)؛ إن السؤر یعتبر بلحم مسئرہ فإن کان لحم مسئرہ طاھرا فسؤرہ طاھر، أو نجسا فنجس، أو مکروھا فمکروہ، أو مشکوکا فمشکوک۔(ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ٹوائلٹ پیپر کا استعمال جائز ہے، اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے اور پانی نہ بھی استعمال کیا جائے تو بھی ٹوائلٹ پیپر سے استنجا کے بعد نماز صحیح ہوجائے گی؛ البتہ اگر نجاست اپنے مخرج سے ایک درہم سے زائد تجاوز کر گئی ہو، تو پانی کا استعمال ضروری ہوگا، صرف پیپر کا استعمال کافی نہ ہوگا۔

’’یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والجلد وما أشبہہا … ثم الاستنجاء بالأحجار إنما  یجوز إذا اقتصرت النجاسۃ علی موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعہا بأن جاوزت الشرج اجمعوا علی أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسۃ إذا کانت أکثر من قدر الدرہم یفترض غسلہا بالماء‘‘(۱)
’’کان عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا بال قال: ناولني شیئا أستنجی بہ قال: فأناولہ العود والحجر أو یأتي حائطا یتمسح بہ أو یمسہ الأرض ولم یکن یغسلہ۔ وہذا أصح‘‘(۲)
’’(ویجب) أي یفرض غسلہ (إن جاوز المخرج نجس)‘‘ (۳)


نیز جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی وغیرہ سے استنجا کرنے کے سلسلے میں ایک ضابطہ یاد رکھیں کہ: استنجا کرنا ہر ایسی چیز سے درست ہے جس میں نجاست کو دور کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ قابل احترام بھی نہ ہو، پھر عام طور پر نجاست کو دور کرنے کے لئے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں یا استعمال کئے جاتے ہیں، پہلا: یہ کہ نجاست کو بہا دے اور دوسرا نجاست کو جذب کرلے اگر مارکیٹ میں موجود جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی میں نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے، تو شریعت مطہرہ نے ان سے اور ان جیسی چیزوں سے استنجا کرنے کی اجازت دی ہے اور استعمال کرنے کو جائز لکھا ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ الکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان  قالعا للنجاسۃ غیر متقوم‘‘(۴)
 ’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۱)
’’فعن عائشۃ  رضي اللّٰہ عنہا ، قالت: قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ماورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۴۰۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۴) نجم الحسن أمروہوي، نجم الفتاوی: ج ۲، ص:۱۴۹، ۱۵۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما یجوز بہ الاستنجاء بہ ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص115

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان مذکورہ صورتوں میں آنکھوں میں پانی نکل آئے یا بغیر درد اور تکلیف کے کسی طرح سے آنکھوں سے پانی نکل آئے، تو ان صورتوں میں وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ وضو باقی رہتا ہے، البتہ آنکھ دکھنی آئی ہو یا کوئی درد یا تکلیف ہو، جس کی وجہ سے چکنا پانی یا پیپ نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے:
 ’’کما لا ینقض لو خرج من أذنہ ونحوہا کعینہ وثدیہ قیح ونحوہ کصدید وماء سرۃ وعین لا بوجع، و إن خرج بہ أي بوجع نقض؛ لأنہ دلیل الجرح فدمع من بعینہ رمد أو عمش ناقض الخ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذھبہ،‘‘ ج۱، ص:۲۷۹)،  و في المنیۃ عن محمدؒ إذا کان في عینہ رمد و تسیل الدموع منھا آمرہ بالوضوء لوقت کل صلوۃ؛ لأني أخاف أن یکون ما یسیل منھا صدیدا فیکون صاحب عذر الخ۔ (أحمد بن محمد الطحاوي، حاشیۃ الطحاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل نواقض الوضوء،‘‘ ص:۸۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص227

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور پورے بدن پر پانی بہانا فرض ہے، وضو کے فرائض اس میں خود بخود ادا ہو جاتے ہیں اور غسل سے پہلے وضو کرنا مسنون ہے، فرض نہیں ہے۔ لہٰذا اس غسل سے نماز اور تلاوت وغیرہ کرنا درست ہے۔(۱)

(۱)عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا أن النبي ﷺ کان لا یتوضأ بعد الغسل (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في الوضو بعد الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۰) ؛ و یقول القاضي و في العارضۃ: لم یختلف أحد من العلماء في أن الوضوء داخل في الغسل۔ (محمد یوسف بن محمد، معارف السنن، ’’باب ما جاء إذا التقی الختانان وجب الغسل‘‘ ج ۱، ص:۳۶۸مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند) أخرج الطبراني في الأوسط: عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من توضأ بعد الغسل فلیس منا: والظاھر أن عدم استحبابہ لو بقی فتوضأ إلی فراغ الغسل۔ فلو أحدث قبلہ ینبغي إعادتہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ )
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص299

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے امام صاحب خشوع وخضوع کی وجہ سے اور ذہنی انتشار سے حفاظت کی غرض سے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھاتے ہیں تو یہ مکروہ نہیں ہے، تاہم بغیر کسی عذر اور ضرورت کے نماز میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا اور پڑھانا دونوں مکروہ ہے۔

’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)

’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید حلیۃ وبحر‘‘(۲)
(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قام أحدکم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔ قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھا لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ در۔ أو قصد قطع النظر عن الأغیار والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم، قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلوۃ، بیان مایستحب ومایکرہ في الصلوۃ‘‘: ج۱، ص:۵۰۷۔
(۲) ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلوۃ، ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص87