Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1878/43-1738
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحیۃ کے معنی سلام کے ہیں، حنیف کے معنی یکسو، اور ردا کے معنی چادر کے ہیں۔ نام درست ہے، معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے، البتہ صحابیات یا بزرگ خواتین کے نام پر نام رکھنا زیادہ مناسب اور باعث برکت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2066/44-2057
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسابقہ کے انعقاد کے اخراجات کے لئے فیس لینا جائز ہے البتہ فیس کے طور پر لئے گئے پیسوں کو انعام میں دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں قمار کی صورت پائی جاتی ہے، البتہ اگر انعام دوسرے پیسوں سے دیا جائے تو اس مسابقہ میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی فیس کی رقم انعام کے لئے مشروط نہ ہو۔
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 90- 91)
یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضآءَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ، فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَo
روح المعاني: (694/2، ط: رشیدیة)
وفی حکم ذلک جمیع انواع القمار من النرد والشطرنج وغیرھما حتی ادخلوا فیه لعب الصبیان بالجوز والکعاب والقرۃ فی غیر القسمة و جمیع انواع المخاطرۃ والرھان وعن ابن سیرین کل شئی فیه خطر فھو من المیسر۔
فتح القدیر للشوکاني: (336/1)
المیسر میسران، میسر اللھو، میسر القمار، فمن میسر اللھو النرد، والشطرنج، والملاھی کلھا، ومیسر القمار ما یتخاطر الناس علیه، ای فیه مخاطرۃ الربح والخسارۃ بانواع من الالعاب وا لشروط ککل انواع القمار الموجودۃ والتی یمکن ان توجد۔
رد المحتار: (355/3، ط: سعید)
تعلیق التملیک علی الخطر والمال من الجانبیین۔
"معالم السنن "(2/ 255):
أما إذا سبق الأمير بين الخيل وجعل للسابق منهما جعلا أو قال الرجل لصاحبه إن سبقت فلانا فلك عشرة دراهم فهذا جائز من غير محلل،
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقدیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرکے اچھے برے کام کرنے کا اختیار دیدیا ہے، اپنی مرضی سے اچھا کام کریں یا برا کام کریں؛ لیکن چوںکہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے کہ کیا کرے گا اس لئے اس کو پہلے سے ہی لکھ دیا، بندہ کسی کام پر مجبور نہیں ہے۔ لہٰذا جب انسان خود کو مارنے کی سعی و کوشش کرتا ہے تو چوں کہ یہ کوشش اس نے اپنے اختیار سے کی اس لئے سزا کا مستحق ہوگا، ہر گناہ و اچھائی کا یہی معاملہ ہے کہ سعی بندہ کرتا ہے، جیسی وہ کوشش کرتا ہے ویسا ہی نتیجہ اللہ مرتب فرما دیتے ہیں۔ اور اس سعی پر اس کو گناہ یا ثواب ملتا ہے۔(۱)
۱) وللعباد أفعال اختیاریۃ یثابون بہا ویعاقبون علیہا إن کانت معصیۃ لا کما زعمت الجبریۃ أنہ لا فعل للعبد أصلاً۔ (علامہ تفتازانی، شرح عقائد، ’’مبحث: الأفعال کلہا بخلق اللّٰہ والدلیل علیہا‘‘: ص: ۸۱)
عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فُقِئ في وجنتیہ حب الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم أن لاتنازعوا فیہ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۷ رقم: ۹۸)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 185)
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2356/44-3556
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فجر میں مسنون قراءت طوال مفصل ہے، یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک کوئی سورہ یا اتنی مقدار تلاوت کرے، آپ ﷺ سے فجر کی نماز میں 60 آیات سے 100 آیات تک تلاوت کرنا ثابت ہے، کبھی کبھی اس سے کم بھی پڑھنا ثابت ہے۔
سورہ مسئولہ میں اگر امام صاحب مفصلات کے بقدر کہیں سے تلاوت کریں تو سنت ادا ہوجائے گی، اس کو خلاف سنت کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح ترتیب وار نماز میں تلاوت کرنا صحابہ کرام کے عمل سے بھی ثابت ہے۔
عن ابی برزۃ ان النبی ﷺ کان یقرأ فیھا بالستین الی المأۃ یعنی فی الفجر (مصنف ابن ابی شیبۃ ) عن نافع عن ابن عمر قال کان یقرأ فی الفجر بالسورۃ اللتی یذکر فیھا یوسف ویذکر فیھا الکھف۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No 2384/44-3603
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عورت کی سابقہ عدت گزرچکی ہو، اور پھر معتبر دوگواہوں کی موجودگی میں لڑکا و لڑکی ایجاب و قبول کریں۔ اس لئے صورت مسئولہ میں اگر عورت کی عدت وفات (چار ماہ دس دن) گزرچکی ہے تو صرف لڑکا ولڑکی کے تنہائی میں ایجاب وقبول سے نکاح منعقد وصحیح نہیں ہوگا۔ نکاح کے لئے گواہوں کا ہونا شرط ہے، بغیر گواہوں کے نکاح ہرگز نہیں ہوسکتاہے۔
ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه: اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود . (الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 185):
(ولا ينعقد نكاح المسلمين) بصيغة المثنى (إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين) سامعين معاً قولهما فاهمين كلامهما على المذهب كما في البحر. (اللباب في شرح الكتاب (3/ 3):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2559/45-3906
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں اگر فرش سوکھ جائے اور نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو فرش پاک ہے۔
ومنھا الجفاف وزوال الاثر الارض تطھر بالیبس وذھاب الاثر للصلوۃ لا للتیمم ، ھکذا فی الکافی ، ولا فرق بین الجفاف بالشمس والنار والریح والظل ۔ (الھندیۃ ، الفصل الاول فی تطھیر الانجاس 1/44 دارالفکر)
اذا ذھب اثر النجاسۃ (ای ریحھا و لونھا) عن الارض وجفت جازت الصلوۃ علیھا دون التیمم منھا ۔ الشرنبلالی (نورالایضاح ص 54)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سب سے افضل ومقدس کتاب قرآنِ کریم ہے، اس کے بعد حدیث کی معروف کتاب بخاری اور مسلم شریف ہے۔ (۱) فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو کسی کے بارے میں غلو درست نہیں، اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ ہندوستان وغیرہ بعض ممالک میں قرآن کریم کے بعد زیادہ پڑھی جانے والی کتاب فضائل اعمال ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۱) أول من صنف الصحیح البخاري أبو عبد اللّٰہ محمد بن إسمعیل، وتلا أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیري ومسلم مع أنہ أخذ عن البخاري واستفاد منہ یشارکہ في أکثر شیوخہ، وکتاباہما أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ العزیز۔ (مقدمۃ ابن الصلاح ’’النوع الأول من أنواع علوم‘‘: ص: ۸۴)
وہما أصح الکتب بعد القرآن، والبخاري أصحہما واکثر ہما فوائد۔ (تدریب الراوي في شرح تقریب النووي تفضیل صحیح البخاري علی مسلم: ج ۱، ص: ۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310
طلاق و تفریق
Ref. No. 2656/45-4048
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ )اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔(
بظاہر طلاق کا ہی ذکر چل رہاتھا اور عورت کو طلاق دینے کی دھمکی دے رہاتھا اورپھر جب اس کو منع کیاگیا تو طلاق کی نیت سے اس نے کہا کہ پردہ کرلو۔ اس لئے صورت مسئولہ میں یہ تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ۔ اور میاں بیوی کا رشتہ نکاح مکمل طور پر ختم ہوگیااور دونوں اجنبی ہوگئے۔ اب دونوں کا نکاح حرام ہے۔ عدت کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لئے آزاد ہے ۔
كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) - الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك... (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 214)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریڈ میں جذب کرنے کی صلاحیت ہے، اس سے پیشاب تو جذب ہو جائے گا اور استنجا معتبر مانا جائے گا؛ البتہ کھانے پینے کی اشیاء سے استنجا کرنا مکروہ ہے حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
’’عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد إخوانکم من الجن‘‘(۱)
’’ولا یستنجی بعظم ولا بروث لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن ذلک ولو فعل یجزیہ لحصول المقصود ومعنی النہي في الروث للنجاسۃ وفي العظم کونہ زاد الجن، ولا یستنجی بطعام لأنہ إضاعۃ وإسراف‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في کراہیۃ ما یستنجی بہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱، رقم:۱۸۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص108
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے، تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے، تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘(۱)اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایا جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔
جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرھا فخرج بعصرہ ولو لم یعصرھا لم یخرج لم ینقض لأنہ مخرج ولیس بخارج‘‘ (۲)یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا؛ کیوںکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے؛ چنانچہ علامہ لکھنویؒ صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: ’’في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی۔ و کیف وجمیع الأدلۃ الموردۃ من السنۃ والقیاس تفید تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت في المخرج‘‘(۳)
(۱) فتح القدیر، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۶
(۲)محمد بن محمود، العنایۃ شرح الہدایۃ ، ’’فصل في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۵۴
(۳)کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، شرح فتح القدیر ، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220