نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ آخری صف میں یا جہاں کنارے پر جگہ ہو وہاں نماز ادا کریں ان شاء اللہ ان کو جماعت اور صف اول کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول وبہ أخذ أبوحنیفۃؒ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 417

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:مختار مذہب یہ ہے کہ تہجد کا وقت نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے خواہ اس سے پہلے سویا ہو یا نہ سویا ہو (سونا شرط نہیں ہے) ہاں سونے کے بعد اٹھ کر پڑھنا بہتر ہے۔(۱)

(۱) عن الحجاج بن عمرو المازني قال: أیحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ تلک کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ الطبراني، في معجمہ: ج ۸، ص: ۲۹۲، رقم: ۸۶۷۰)(شاملہ)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 63

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض وواجبات اور فجر کی سنتوں میں قیام فرض ہے، دیگر سنتوں اور نوافل میں قیام فرض نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی شدید تکلیف یا مجبوری ہو جس کی وجہ سے آدمی کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو فرائض، واجبات اور سنت فجر میں قیام اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے۔(۳) لہٰذا اگر نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جائیں تو درست ہوجاتے ہیں(۴) البتہ کھڑے ہونے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیٹھ کر نوافل سے آدھا ثواب ملتا ہے۔(۵)

 (۳) منہا القیام في فرض وملحق بہ کنذر وسنۃ فجر في الأصح لقادر علیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص: ۱۳۱)
(۴) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعدا لامضطجعا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، بحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳)
(۵) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قاعدا فلہ نصف أجر القائم۔ ( مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب القصد في العمل، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰، رقم: ۱۲۴۹)
وکذا في ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں معنی میں تغیر فاحش ہونے کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) فالعبرۃ في عدم الفساد عدم تغیر المعنی (ابن الھمام، فتح القدیر’’باب صفۃ الصلا‘‘: ج۱، ص: ۳۳۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1014 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صور ت مسئولہ کے متعلق  فتاوی محمودیہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"جو غلطی منافی صلوۃ ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر معنی بکڑنے سے نماز فاسد ہوگئی تھی تو اس لفظ کا صحیح طور پر اعادہ کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوئی، بلکہ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ عالمگیری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صحیح ہوجائے گی۔ ہمارے اکابر اس کو نفل وتراویح وغیرہ پر حمل کرتے ہیں۔ وسط کلمہ پر سانس توڑنے سے خواہ تشہد وغیرہ میں معنی صحیح رہیں یا بگڑیں سب کا ایک حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ ج 11 ص206 مطبوعہ مکتبہ محمودیہ میرٹھ2009ء)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hadith & Sunnah

Ref. No. 934

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The Sunnah of the Prophet Muhammad (saws) of two types; Sunnat-e Muakkadah (which the Prophet did persistently) and Sunnat-e Ghair-Muakkadah (which the prophet did but did not do persistently).

Sunnat-e Muakkadah brings a great deal of reward. Hence, it is a sin to abandon the sunnat e muakkadah for no reason. While leaving the sunnat e Ghair muakkadah is not a sin. But the one who neglects this suunah is missing out on a great reward. Acting upon sunnat Ghair Muakkadah is also a virtuous deed, one should follow it too. For detail you had better study the book “Talimul Islam”.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1004

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ظہر کا وقت شروع ہونے سے قبل سنت موکدہ معتبر نہیں ، وقت ہونے کے بعد ہی ادا کی جائے۔ کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھیں یا جمعہ کے بعد ان سنتوں کو پڑھ لیں،  اس کی گنجائش ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1049/41-210

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زیرناف اور بغلوں کی صفائی  اور ناخن کاٹنا امور فطرت میں سے ہیں۔ ہر ہفتہ اس کا اہتمام کرنا مستحب  ہے اور چالیس دن کے اندر کرنا  مسنون  ہے، اور چالیس دن سے زیادہ باقی رکھنا مکروہ تحریمی اور گناہ کا موجب ہے۔  عشرہ  ذی الحجہ میں قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے بال وناخن وغیرہ نہ کاٹنا صرف مستحب ہے لیکن وہ بھی  اس شرط کے ساتھ  کہ غیرضروری بالوں کی صفائی کے چالیس دن نہ پورے ہوئے  ہوں۔ لہذا جو شخص  عشرہ ذی الحجہ شروع ہونے سے قبل  کسی بھی وجہ سے زیر ناف اور بغلوں کی صفائی  نہیں کرسکا اور چالیس دن گزرچکے ہیں تو  اس  کو چاہئے  کہ  اب صفائی کرلے؛ مزید تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔   

عن ام سلمۃ رضی اللہ عنہاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :اذادخل العشرواراد بعضکم ان یضحی فلایمسن من شعرہ شیئا وفی روایۃ فلایأخذن شعراولایقلمن ظفراوفی روایۃ من رأی ھلال ذی الحجۃ واراد ان یضحی فلایأخذن من شعرہ ولامن اظفارہ ۔رواہ مسلم۔

ویستحب حلق عانۃ وتنظیف بدنہ بالاغتسال فی کل اسبوع مرۃ والأفضل یوم الجمعۃ وجازفی کل خمسۃ عشر وکرہ ترکہ وراء الأربعین مجتبی۔ (ردالمحتار 5/261)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1262/42-605

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں والدین کی کل جائداد  کو آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر ترکہ میں کل اٹھائیس لاکھ  روپئے ہی صرف ہیں تو اس طرح تقسیم کریں کہ ہر ایک بیٹے کو سات لاکھ روپئے اور ہر ایک بیٹی کو تین لاکھ پچاس ہزار روپئے دیدئے جائیں۔ جس بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اس کا حصہ  (سات لاکھ) اس کی بیوی اور اولاد میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم بیٹے کے حصہ میں سے آٹھواں حصہ اس کی بیوی کودینے کے بعد  بقیہ مال اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کریں  کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1605/43-1157

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور شخص طلاق کا انکار کررہاہے، اور طلاق کے وسوسہ کو ختم کرنے کے لئے کہتاہے کہ میں بھلا طلاق کیسے دے سکتاہوں یعنی نہیں دے سکتا، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کا خیال آنا وقوع طلا ق کے لئے کافی نہیں ہے۔  وقوع طلاق کے لئے صریح یا کنائی الفاظ  کا زبان سے ادا کرنا  ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ  کنائیہ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں  طلاق واقع ہوتی ہے۔  صورت مسئولہ میں آپ نے طلاق  کے بارے میں ایک جملہ خود سے کہا جو طلاق کا انکارکرنے کے لئے تھا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ جب آپ صراحت سے طلاق کا انکار کررہے ہیں تو طلاق کیونکر واقع ہوگی۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔  

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند