ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/1005

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمپنی اپنے تعارف کے لئے  اور گراہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے  آن لائن ٹرانزیکشن پر بطور کیش بیک اورریوارڈ جو رقم دیتی ہے وہ انعام کے درجہ میں ہے، وہ سود کے زمرے میں نہیں ہے اس لئے اس انعامی رقم کواستعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔یہ ایسے ہی ہے  جیسےکہ آپ نے کوئی چیز خریدی اور کمپنی نے اس کے ساتھ ایک چیز مفت میں دیدی۔  تاہم اس بات کا خیال رہے کہ پے ٹی ایم اور دیگر والیٹ یا اپپس اگر جمع شدہ پیسے پر بطور سود کچھ متعین رقم دیتے ہیں تو اس کو سود کہا جائے گا اور اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا بلکہ دیگر سود کی طرح اس سود کو بھی بلانیت ثواب فقراء پر صدقہ کردینا واجب ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 953/41-000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

As long as the father is alive, the children have no share in his property. Children’s demand to give them their shares in his lifetime is totally illegal in shariah. Father has full authority over his property to give it to any relatives and friends and also to masjid and madrasa. Nevertheless, one should inculcate in his mind that mirath is a sharia right, hence no one can overlook it. Therefore, if a father gives away his property to his relatives merely with the intention to deprive some or all of his children of mirath completely, then it is unlawful and a great sin.

الارث جبری لا یسقط بالاسقاط ( العقود الدریۃ 2/51)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1039/41-228

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فرض نمازوں میں مسنون قرات مستحب ہے جس کا اہتمام کرنا چاہئے۔

ویستحب فی الحضر ان یقرأ فی الفجر طوال المفصل وفی الظھر کذلک۔ ـ(منیۃ المصلی 97) والمستحب قراءۃ المفصل تیسیرا للأمر (فتاوی قاضیخان 1/16)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1152/42-388

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آئی ، معنی میں فساد نہیں آیا، اس لئے نمازدرست  ہوگئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کفریہ منتر پڑھنا حرام ہے اور کفر تک پہونچانے والا ہے؛ اس لئے ایسے کلمات سے احتراز اور اپنے ایمان کی حفاظت ازحد لازمی اور ضروری ہے۔ (۱)

(۱) فما یکون کفراً بالاتفاق یوجب احتیاط العمل کما في المرتدِّ، وتلزم إعادۃ الحجِّ إن کان قد حج، ویکون وطؤہ حینئذٍ مع إمرأتہ زناً، والولد الحاصل منہ في ہذہ الحالۃ ولد الزِّنا، ثم إن أتی بکلمۃ الشہادۃِ علی وجہ العادۃ لم ینفعہ ما لم یرجع عما قالہ لأنہ بالإتیان بکلمۃ الشہادۃ لا یرتفع الکفر، وما کان في کونہ کفراً اختلاف یؤمر قائلہ بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک احتیاطا، وما کان خطأ من الألفاظ لا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفاروالرجوع عن ذلک، ہذا إذا تکلم الزوج فإن تکلمت الزوجۃ ففیہ اختلافٌ في إفساد النکاح، وعامَّۃ علمائِ بخاري علی إفسادہ لکن یجبر علی النکاح ولو بدینارٍ وہذا بغیر الطلاق۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقي الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ، ولا اعتبار باعتقادۃ، ومن تکلم بہا خطأً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عالماً عامداً کفر عند الکل، ومن تکلم بہا اختیاراً جاہلاً بأنہا کفرٌ ففیہ اختلاف، والذي تجود أنہ لا یفتی بتکفیر مسلمٍ أمکن حمل کلامہ علی محملٍ حسن أو کان في کفرہ اختلاف۔ (ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا: ج ۶، ص: ۳۵۸)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1780/43-1519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پنجوقتہ نمازیں شب معراج میں فرض ہوئیں، البتہ معراج کا واقعہ کب پیش آیا اس سلسلہ میں راجح  قول یہ ہے کہ ماہ رجب سنہ 12 نبوی میں یہ واقعہ پیش آیا۔

 وفرضت فی الاسراء (الدر المختار مع رد المحتار  1/352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1881/43-1751

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں مرحومہ کی کل جائداد کو  32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ایک چوتھائی یعنی آٹھ حصے مرحومہ کے شوہر کو ، ہر ایک بیٹے کو چھ چھ اور ہر ایک بیٹی کو تین تین حصے ملیں گے۔ مرحومہ کے بھائی کو اس کی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقدیر کی بحث وتحقیق میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ بچنا چاہئے۔(۱) مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔ تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے۔(۲)

۱) عن أبي  ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فُقِئ في وجنتیہ حب الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم أن لاتنازعوا فیہ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۷، رقم: ۹۸)

(۲) المعلق والمبرم کل منہما مثبت في اللوح غیر قابل للمحو، نعم المعلق فيالحقیقۃ مبرم بالنسبۃ إلی علمہ تعالیٰ۔ (أیضاً: ’’الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

 

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)

 

اسلامی عقائد

 Ref. No. 2385/44-3602

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی غالبا اپنے شوہر کو طعنہ دے رہی ہے کہ تم دینداری کا ڈھونگ کرتے ہو، اگر یہی دینداری ہے تو اس سے اچھا جاہل رہنا ہے، اس لئے میں اپنے بچوں کو آوارہ بناؤں گی، ظاہر ہے کہ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو آوارہ کیونکر بنانا چاہے گی، اس لئے یہ محض ایک دھمکی ہے، اور غصہ کا اظہار معلوم ہوتاہے، اس میں دین کی تخفیف درحقیقت نہیں ہے۔ اس لئے عورت کے مذکورہ جملوں سے کفر لازم نہیں آئے گا۔ البتہ بظاہر دین سے بیزاری کی بات ہے، اس لئے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور آئندہ اس طرح کی بات سے گریز کرنا چاہئے جس سے بظاہر بھی دین کا استخفاف معلوم ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2558/45-3905

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حضور ﷺ کے لباس میں ازار (تہبند) قمیص اور چادر کا ذکر ملتاہے، اور شلوار کا استعمال صحابہ کرام سے ثابت ہے، نیز حضور اکرم ﷺ سے شلوار کا خریدنا ثابت ہے۔ جس وضع قطع اور ہیئت کی شلوار قمیص علماء وصلحاء پہنتے ہیں وہ اقرب الی السنۃ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لباس کے لئے جن اصولوں کی طرف رہنمائی  فرمائی ہے اس کی روشنی میں لباس اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ وہ لباس ساتر ہو، اور غیرمسلموں کا شعار نہ ہو۔ لہذا آپ کا لباس غیرشرعی نہیں ہے، شبہہ نہ کیاجائے۔

عن ابی ھریرۃؓ  قال دخلت یوما السوق مع رسول اللہ ﷺ فجلس الی البزازین فاشتری سراویل باربعۃ دراھم۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، باب السراویل  5/121)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند