Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو توکل سے تعبیر کرنا بھی بڑی غلطی ہے، حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اگر کوئی دین میں کوتاہی کرے گا، لیکن حقوق العباد جو ذمہ میں رہ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا، اگر صاحب حق معاف نہ کرے، تو آخرت میں مواخذہ ہوگا، حقوق واجبہ کو ترک کرکے جانے کی شرعاً ہر گز اجازت نہیں ہوگی، حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنے اور جان بوجھ کر نقصان برداشت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ (۱)
(۱) عن معاذ رضي اللّٰہ عنہ، قال: أو صاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعشر کلمات قال: لا تشرک باللّٰہ شیئاً وإن قتلت وحرقت، ولا تعقّنّ والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الخ: رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۸)
وعن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الزہادۃ في الدنیا لیست بتحریم الحلال ولا إضاعۃ، ولکن الزہادۃ في الدنیا أن لا تکون بما في یدیک أو ثق بما في یدي اللّٰہ وأن یکون في ثواب المصیبۃ إذا أنت أصبت بہا أرغب فیہا لو أنہا أبقیت لک۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب التوکل والصبر‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳)
…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص311
بدعات و منکرات
الجواب:بیعت اس لیے کی جاتی ہے کہ مرشد کی رہنمائی اوراس کی ہدایت پر عمل کرنے سے راہ سنت پر چلنا اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے، بیعت ہونا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور اصلاح نفس کی جس طرح مرد کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عورت کو بھی ضرورت ہے تاہم عورت کی بیعت کے لیے شوہر کا بیعت ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بیعت کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
’’إعلم أن البیعۃ سنۃ لیست بواجبۃ و لم یدل دلیل علی تاثیم تارکہا و لم ینکر أحد علی تارکہا‘‘(۱) ’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وبالجملۃ فالتصوف عبارۃ عن عمارۃ الظاہر والباطن أما عمارۃ الظاہر فالأعمال الصالحۃ وأما عمارۃ الباطن فذکر اللّٰہ وترک الرکون إلی ماسواہ وکان یتیسر ذلک للسلف بمجرد الصحبۃ الخ،(۲) قال عروۃ: فأخبرتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یمتحنہن بہذہ الآیۃ:
{ٰٓیاَ یُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّط اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِھِنَّج فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّط وَأٰ تُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰ تَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقُوْاط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌہ۱۰ وَإِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَأٰ تُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ أَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ أَنْفَقُوْاط وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِيْٓ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَہ۱۱ ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ إِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ أَیْدِیْھِنَّ وَأَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَط إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (۳)
قال عروۃ: قالت عائشۃ: فمن أقر بہذا الشرط منہن، قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: قد بایعتک کلاما یکلمہا بہ، واللّٰہ ما مست یدہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ، وما بایعہن إلا بقولہ‘‘۔ (۱)
اسی طرح شادی سے پہلے جب کہ لڑکی اپنے والد کی تربیت میں ہوتی ہے بہتر ہے کہ والد کی اجازت سے کسی مصلح سے بیعت ہوجائے۔ اصلاح کے لیے بہتر ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ہی واسطہ بنائے اور انہی کے ذریعہ اپنے مرشد سے رہنمائی حاصل کرے؛ لیکن اگر عورت کسی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے، تو شیخ کے گھر کی کسی خاتون سے مدد لے سکتی ہے۔(۲)
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدھلويؒ، القول الجمیل، الفصل الثاني:ص: ۱۲۔
(۲) ظفر أحمد العثمانيؒ، إعلاء السنن، کتاب الأدب والتصوف والإحسان: ج ۱۸، ص: ۴۴۹۔
(۳) الممتحنۃ: ۱۰ تا ۱۲) (البقرۃ: ۱۷۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیہ، ’’کتاب الشروط: باب ما یجوز من الشروط في الإسلام والأحکام والمبایعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۲۷۱۱۔
(۲) قولہا واللّٰہ ما مست ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ یبایعہن بالکلام فیہ أن بیعۃ النساء بالکلام من غیر أخذ کف وفیہ أن بیعۃ الرجال بأخذ الکف مع الکلام الخ۔ (النووي، شرح مسلم، ’’کتاب الإمارۃ: باب کیف بیعۃ النساء‘‘: ج ۲،ص: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص404
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا کرتے وقت پہلے مقعد کو دھونا ضروری ہے یا مقام پیشاب کو اس سلسلے میں احناف کے درمیان اختلاف ہے: حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مقعد کو پہلے دھویا جائے اور پیشاب کے مقام کو بعد میں، حضرات صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک پیشاب کے مقام کو اولاً دھویا جائے اور مقعد کو بعد میں، یہی مختار قول بھی ہے۔
’’ثم عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یغسل دبرہ أولا ثم یغسل قبلہ بعدہ وعندہما یغسل قبلہ أولا، کذا في التتارخانیۃ وعلی قولہما مشی الغزنوی وہو الأشبہ، کذا في شرح منیۃ المصلی لابن أمیر الحاج‘‘(۱)
اور موضع استنجا کے پاک ہونے کے ساتھ ہی ہاتھ بھی پاک ہو جاتا ہے اور استنجا کے بعد ہاتھ بھی کلائیوں تک دھولے تو بہتر ہے جیسا کہ ابتدا میں دھویا جاتا ہے، ہاتھ کو مٹی، صابن، یا ہینڈ واش وغیرہ سے اچھی طرح صاف کر لینا مزید صفائی ستھرائی کا سبب ہے جیسا کہ امام نسائیؒ نے اپنی سنن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم توضأ، فلما استنجی دلک یدہ بالأرض‘‘(۲)
’’وتطہر الید مع طہارۃ موضع الاستنجاء، کذا في السراجیۃ ویغسل یدہ بعد الاستنجاء کما یکون یغسلہا قبلہ لیکون أنقی وأنظف، وقد روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غسل یدہ بعد الاستنجاء ودلک یدہ علی الحائط، کذا في التجنیس‘‘(۳)
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۵۰۔
(۳) أیضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص109
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی شخص کو اس کثرت سے ریاح خارج ہوتی ہو کہ اس کو بغیر ریاح خارج کیے چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت نہ ملے اور یہ پورے وقت ایسا ہی رہے، تو وہ شخص معذور ہے، اس کو چاہیے کہ نماز کے وقت میں وضو کرے اور اس وضو سے جتنی چاہے نمازیں پڑھے؛ تا ہم خیال رہے کہ وقت نکلتے ہی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا(۱) ’’وصاحب عذر من بہ سلس) بول لا یمکنہ إمساکہ (أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ) أو بعینہ رمد أو عمش أو غرب، وکذا کل ما یخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرۃ (إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ) بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث‘‘(۲)
(۱) و منھا أن من بہ سلس البول إذا توضأ للبول ثم اؤدی حالۃ بقاء الوقت تنتقض طھارتہ الخ۔ (محمد بن محمد، العنایہ شرح الہدایہ، ج۱، ص:۸۸ بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ ومن بہ سلس البول والرعاف الدائم و الجرح الذي لا یرقأ یتوضئون بوقت کل صلٰوۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاء وا من الفرائض والنوافل الخ۔ (محمد بن محمد، العنایہ شرح ہدایہ،فصل في المستحاضۃ، ج۱، ص:۲۸۹)؛ و أما أصحاب الأعذار کالمستحاضۃ و صاحب الجرح المسائل والمبطون، ومن بہ سلس البول، ومن بہ رعاف دائم أو ریح و نحو ذلک ممن لا یمضي علیہ وقت صلوۃ إلا و یوجد ما ابتلي بہ من الحدث فیہ، فخروج النجس من ھؤلاء لا یکون حدثا في الحال ما دام وقت الصلوۃ قائما حتی أن المستحاضۃ لو توضأت في أول الوقت فلھا أن تصلي ما شاء ت من الفرائض والنوافل مالم یخرج الوقت، و إن دام السیلان، و ھذا عندنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲۶)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ،باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور،‘‘ ج۱، ص:۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص222
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں زید بد فعلی کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ لیکن اس نے توبہ کرلی اور توبہ کا اعلان بھی کردیا تو اس کی امامت درست ہے؛ مناسب یہ ہے کہ اس مسجد میں امامت نہ کرائے کہ مقتدیوں کے ذہنوں میں اس کی برائی باقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں۔(۱)
(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال: التائب من الذنب کمن لا ذنبہ لہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ یحبّ العبد المؤمن المفتن التواب۔ (أخرجہ أحمد، في المؤطاء، ’’باب مسند علی ابن أبي طالب‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸، رقم: ۶۰۵)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف بروفاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ کتب فقہ میں فاسق کی امامت کو مکروہ تحریمی لکھا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گناہ کبیرہ میں ملوث ہواور توبہ نہ کرے تو فسق کی وجہ سے اس کی امامت مکروہ ہوگی؛ لیکن شرعی تحقیق کے بغیر کسی کو مرتکب کبیرہ نہیں قرار دیا جاسکتا اور اگر کسی شخص پر صرف زنا کی تہمت ہے مگر ثابت نہیں ہوا ہے تو اس پر تہمت لگانے والے سخت گنہگار حق العبد میں گرفتار اور مستحقِ عذاب ہوگا ان لوگوں پر جنہوں نے الزام لگایا ہے توبہ واستغفار اور اس شخص سے معافی طلب کرنا لازم ہے اگر اسلامی قانون نافذ ہوتا تو زنا کی تہمت لگانے والے اگر چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کر پاتے تو اسی ۸۰ کوڑے مارے جاتے۔
سوال میں مذکورہ احوال اگر واقعۃً صداقت پر مشتمل ہیں، اور مذکورہ شخص نے خود ہی قبول
کیا ہے تو ایسا شخص شرعاً امامت کے لائق نہیں ہے، اگر جماعت میں اس سے بہتر شخص امامت کے لائق موجود ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، مسجد کی انتطامیہ پر لازم ہے کہ کسی نیک صالح متبعِ سنت عالمِ دین کو امامت پر مقرر کریں۔
نیز مذکور شخص کا زنا کرنا یا اس کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنا اگر ثابت ہو جائے اور اس کے بعد اس نے توبہ کرلی ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس سے بیزار رہنے والے غلطی پر ہیں توبہ استغفار کے بعد مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے اور ان سب کی نماز اس کے پیچھے ہوجاے گی بشرطیکہ کوئی اور چیز مانع امامت نہ ہو۔
’’وکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین، فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)
’’بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)
’’قولہ: فاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک‘‘(۳)
’’قال تعالیٰ: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً}(۴)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن سعد بن عبادۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: یا رسول اللّٰہ! إن وجدت مع إمرأتي رجلاً أمہِّلہ حتی أتی بأربعۃ شہداء؟ قال نعم‘‘(۵)
’’ویثبت شہادۃ أربعۃ رجال في مجلس واحد … بلفظ الزنا لا الوطء والجماع … وعدّلوا سراً وعلناً … ویثبت أیضاً بإقرارہ أربعاً في مجالسہ: أي المقرالأربعۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحدود‘‘: ج ۴، ص: ۴۲۱۔
(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص207
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص اصلاً مرد ہی ہے اور صرف ظاہری حالت مخنث جیسی بنا رکھی ہے تو اسے مرد ہی کہا جائے گا اور مردوں کی صفوں میں رہ سکتا ہے اور اگر واقعۃً مخنث ہے تو پیچھے کھڑا ہو۔ اور اگر وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہو گیا، تودوسرے لوگوں اور خود اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی؛ بلکہ درست ہوگی، اگر مردوں، بچوں اور مخنثوں کا مجمع ہو، تو ان کی صف بندی میں اس ترتیب کی رعایت رکھیںکہ آگے مرد کھڑے ہوں، پھر بچے اور ان کے پیچھے مخنث۔
’’وإذا وقف خلف الإمام قام بین صف الرجال والنساء لاحتمال أنہ امرأۃ فلا یتخلل الرجال کیلا تفسد صلاتہم‘‘(۱)
’’ویصف الرجال ثم الصبیان ثم الخنثیٰ ثم النساء‘‘(۲)
’’مفہوم أن محاذاۃالخنثیٰ المشکل لا تفسد وبہ صرح في التاتار خانیۃ‘‘(۱)
(۱) المرغیناني، الہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰۔
(۲) أحمد بن محمد القدوري، القدوري مع شرح الثمیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 414
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:یہ وقت بہت معمولی ہوتا ہے آیا اور گیا اس کو قرار نہیں ہے اس لیے احتیاطاً پانچ منٹ کافی ہیں۔(۲)
(۲) ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل وفي ہذا القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ فلعل المراد إنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان أو المراد بالنہار الشرعي وہو من أول طلوع الصبح إلی غروب الشمس وعلی ہذا یکون نصف النہار قبل الزوال بزمان یعتد بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت: ج ۲، ص:۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا واجب نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس کو سنن زوائد میں شمار کیا ہے۔ صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمامؒ اس کے سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں اگر احیانا و اتفاقاً چھوٹ جائے تو گنہ گار نہیں؛ لیکن بار بار ایسا کرنا یقیناً باعثِ گناہ ہے۔
’’وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ أي قبلہا في الخلاصۃ إن اعتاد ترکہ أثم قولہ في الخلاصۃ والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیاناً‘‘(۱)
(۱) وکذلک إذا صلی الفریضۃ بالعذر علی دابۃ والنافلۃ بغیر عذر فلہ أن یصلی إلی أي جہۃ توجہ: کذا فی منیۃ المصلي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص317
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بھول کر پڑھا، تو نماز بھی ہوگئی گنہگار بھی نہیں ہوا اور اگر جان کر پڑھا، تو نماز فاسد ہوگئی اور گنہگار ہوگا۔(۱)
(۱) وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن، والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جریٰ علی لسانہ أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار، ہکذا في الوجیز، للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254