نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  بیماری کا علاج مجبوری ہے اس لیے حسب ضرورت آپریشن کرنا درست ہے اور اس کی وجہ سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، امامت درست ہے، لیکن بوقت ضرورت قدر ضرورت سے تجاوز ہر گز نہ کیا جائے آپریشن میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔(۱)

(۱) و الأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ و فسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، و قبل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدا (للقراء ۃ، ثم الأروع) أی: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص78

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:  صورت مذکور ہ میں اگر واقعی طور پر نکاح سے پہلے اس شخص نے آئندہ ہونے والی بیوی سے زنا کرلیا ہے جیسا کہ اس کا اقرار بھی ہے تو وہ شخص گناہگار ہے
اور فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے(۱) البتہ اگر وہ شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو توبہ سے اس کا گناہ معاف ہوجائے گا اور اس کی امامت بھی درست اور صحیح ہوجائے گی کہ کفر و شرک کے علاوہ سبھی گناہ سچی پکی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں ۔ (۲)
’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۱)


(۱) یکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق: فاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۸)
(۲) {وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج} (سورۃ النساء: ۴۸)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص202

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب جس نے چالیس سال خدمت انجام دی ہے اور بظاہر لوگوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تو محض اس بنیاد پر کہ انہوں نے ایک دھوکہ بازکمپنی کا ساتھ دیا تھا امامت سے برطرف کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اولاً امام صاحب پر الزام ثابت نہیں ہے اور اگر الزام ثابت ہوجائے، تو امام صاحب نے دھوکہ باز کمپنی کا ساتھ جان بوجھ کر نہیں دیا ہوگا وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ کمپنی صحیح ہے؛ اس لیے اس کا ساتھ دیا ہوگا؛ اس لیے امام صاحب امامت وخطابت کرسکتے ہیں۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶  } (سورۃ الحجرات: ۶)

قولہ تعالیٰ: {{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا} لدلائل قد قامت علیہ فثبت أن مراد الآیۃ في الشہادات والزام الحقوق أو إتیان أحکام الدین والفسق السني لیست من جہۃ الدین والاعتقاد۔ (أحمد بن علی ابوبکر الرازی الجصاص الحنفي، أحکام القرآن، ج۲، ص: ۲۷۹)
قال في البحر: واستفید من عدم صحۃ عزل الناظر بلا جنحۃ عدمہا لصاحب وظیفۃ في وقف بغیر جنحۃ وعدم أہلیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الوقف، مطلب لایصح عزل صاحب وظیفۃ بلاجنحۃ أو عدم أہلیۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۸۱)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص290

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف بندی کی ترتیب اس طرح حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ پہلے مردوں کی صف بندی کی جائے، اس کے بعد والی صف میں بچوں کو کھڑا کیا جائے،(۱) البتہ اگر ایک ہی بچہ ہے تو اس کو بڑوں کی صف میں شامل کر لیا جائے الگ سے نہ کھڑا ہو۔(۲)
(۱) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ السلام: لیلیني منکم أولا الأحلام والنہي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۷)
(۲) ویقتضي أیضاً أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وإن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 409

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کامل طور پر طلوع شمس کے بعد سے اشراق کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔اور یہ وقت تقریباً پندرہ بیس منٹ ہوتا ہے۔(۱)
(۱)ومن المندوبات: صلاۃ الضحیٰ: وأقلہا رکعتان وأکثرہا ثنتا عشرۃ رکعۃ ووقتہا من ارتفاع الشمس إلی زوالہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحیٰ) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
وابتداؤہ من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ:  فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۳۹۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 54

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیر نامسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہیں کرنا چاہئے، ایسا کر نا مکر وہ ہے، لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہو گئی اور اس کے بعد پڑھی گئی نماز بلا کر اہت درست ہو گئی۔ جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اس کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے، اگر مؤذن ناراض ہو تاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہو تا ہے تو دوسرا شخص بلا اجازت بھی اقامت کہہ سکتا ہے۔ نماز بہر صورت درست ہو جاتی ہے۔
’’قولہ: ویلتفت یمینا وشمالا بالصلاۃ والفلاح لما قدمناہ ولفعل بلال رضي اللّٰہ عنہ علی ما رواہ الجماعۃ، ثم أطلقہ فشمل ما إذا کان وحدہ علی الصحیح؛ لکونہ سنۃ الأذان فلایترکہ خلافا للحلواني؛ لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي السراج الوہاج: أنہ من سنن الأذان فلایخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول‘‘
’’وقید بالیمین والشمال؛ لأنہ لایحول وراء ہ لما فیہ من استدبار القبلۃ، ولا أمامہ لحصول الإعلام في الجملۃ بغیرہا من کلمات الأذان، وقولہ بالصلاۃ والفلاح لف ونشر مرتب یعني أنہ یلتفت یمینا بالصلاۃ وشمالاً بالفلاح، وہو الصحیح خلافا لمن قال: إن الصلاۃ بالیمین والشمال والفلاح کذلک، وفي فتح القدیر: أنہ الأوجہ، ولم یبین وجہہ، وقید بالالتفات؛ لأنہ لایحول قدمیہ؛ لما رواہ الدارقطني عن بلال قال: أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أذنا أو أقمنا أن لانزیل أقدامنا عن مواضعہا، وأطلق في الالتفات ولم یقیدہ بالأذان، وقدمنا من الغنیۃ أنہ یحول في الإقامۃ أیضًا، وفي السراج الوہاج لایحول فیہا  لأنہا لإعلام الحاضرین بخلاف الأذان فإنہ إعلام للغائبین، وقیل: یحول، إذا کان الموضع متسعًا ‘‘(۱)
’’ویحول في الإقامۃ إذا کان المکان متسعًا وہو أعدل الأقوال کما في النہر‘‘(۲)
’’أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقاً)، وإن بحضورہ کرہ أن لحقہ وحشۃ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  ج۱، ص: ۴۴۹،۴۵۰۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج۲، ص: ۶۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص182


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: {أحد} کی دال پر تنوین ہے اور تنوین میں نون ساکن ہوتا ہے اور ساکن کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اس کو اگلے حرف سے ملانا ہو تو اس ساکن پر کسرہ پڑھا جاتا ہے ’’الساکن إذا حرک حرک بالکسر‘‘(۱)؛ اس لیے {أحدُنِ اللّٰہ} پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نماز درست ہے۔

(۱) وفیما قریٔ من قولہ تعالیٰ: قل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ الصمد، فشاذ۔ والأصل في تحریک الساکن الأول الکسر لما ذکرنا أنہ من سجیۃ النفس إذا لم تستکرہ علی حرکۃ أخری۔ (ابن الحاجب، الرضي الاستراذي، ’’باب التقاء الساکنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵)
وحق الساکن إذا حرک بالکسر۔ (محمد بن عبداللّٰہ، علل النحو: ج ۱، ص: ۱۶۴)
فجملۃ ہذا الباب في التحرک أن یکون الساکن الأول مکسوراً وذلک قولک أضرب وأکرم الرجل وأذہب وقل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ لأن التنوین ساکن وقع بعدہ حرف ساکن فصار بمنزلۃ باء أضرب ونحو ذلک۔ (الکتاب لسیبویہ، ’’إذا حذفت الف الوصل لالتقاء الساکنین‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۲؛ و الأصول في النحو، ’’الف الوصل‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص249

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ سنتیں وقت ظہر شروع ہونے کے بعد پڑھی ہیں خواہ اذان سے پہلے ہی پڑھی ہو ں تو جائز اور درست ہیں، اعادہ ان کا بعد ِ اذان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۱)  و أما الصلاۃ المسنونۃ فھي السنن المعھودۃ للصلوات المکتوبۃ ۔۔۔۔ أما الأوّل فوقت جملتھا وقت المکتوبات لأنھا توابع للمکتوبات، فکانت تابعۃ لھا في الوقت، (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص۲۸۴)
وھو سنۃ للفرائض الخمس في وقتھا ولو قضاء لأنہ سنۃ لصلاۃ حتی یبرد بہ لا للوقت لا یسن لغیرھا کعید (قولہ لعید أي وتر و جنازۃ و کسوف و استسقاء و تراویح و سنن رواتب لأنھا اتباع للفرائض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار ج۱، ص۸۵-۳۸۴، کتاب الصلوٰۃ، سعید، کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص371

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No 918 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The interest money you received from the bank is Haram and you have to get rid of it by giving it to poor and needy persons as charity. The charity should be made without the intention of reward. The interest received from the bank is haram for those who are wealthy as per shariah (Sahibe Nisab), but for those who are poor and needy, the interest is not Haram but it is Halal. Since the interest money is not lawful for us so we cannot like it for ourselves. But when it is Halal for others then we like it for them. Similarly we give the zakat of our wealth to widows, poor and needy who are eligible for zakat because it is halal for them and we cannot hold the zakat amount with us because it is haram for us.  

And Allah Knows Best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. no. 38 / 995 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  حدود وسزا کے نفاذ کے لئے دارالاسلام  اور امیرالمسلمین کا ہونا ضروری ہے، اس لئے ہندوستان میں حدود کا نفاذ نہیں ہوسکتا البتہ ملکی قوانین کے مطابق ان کو سزا ملنی ضروری ہے تا کہ جرائم کا انسداد ہو۔ تاہم ایک مسلمان پر ایسے فعل کے صادر ہونے پر سچے دل سے توبہ واستغفار لازم ہے، امید ہے کہ انشاء اللہ آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند