Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: کراہت سے خالی نہیں ہے۔ حدیث میں ہے ’’ومن مس الحصاء فقد لغا رواہ مسلم‘‘ جب ’’مس حصاء‘‘ یعنی کنکریوں سے کھیلنے اور ان کو ہاتھ میں لینے کی ممانعت ہے کہ اس میں مشغول ہے غیر خطبہ کی طرف تو پنکھا جھلنا اس سے زیادہ مشغول ہونا ہے الا یہ کہ گرمی کی شدت ہو اور پنکھے کے بغیر سکون نہ ملے تو قدر ضرورت گنجائش ہے۔(۱)(۱) من توضأ فأحسن الوضوء ثم أتی الجمعۃ فاستمع وانصت غفرلہ ما بین الجمعۃ إلی الجمعۃ وزیادۃ ثلاثۃ أیام ومن مس الحصی فقد لغا۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضل الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۵۰، رقم: ۱۰۵۰)فمعناہ کما قال النووي: فیہ الہني عن مس الحصی وغیرہ من أنواع العبث في حال الخطبۃ، وفیہ إشارۃ إلی الحض علی إقبال القلب والجوارح علی الخطبۃ والمراد باللغو ہنا: الباطل المذموم المردود۔ (نووي، دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین لمحي الدین النووي، ’’باب فصل یوم الجمعۃ و وجوبھا‘‘ بیروت: دارالکتب العلمیہ ج ۳، ص: ۵۷۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 119
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ الموفق:(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر اور متعدد خطبے ثابت ہیں جنہیں مختلف بزرگوں نے جمع فرمایا ہے۔(۲) ایک ہی خطبہ کو بار بار پڑھنے میں حرج نہیں ہے آخر نماز میں بھی تو سورہ فاتحہ بار بار پڑھی جاتی ہے اچھا یہ ہے کہ مختلف مختصر خطبے یاد کرنے چاہئے ایسے عوام پر نظر نہیں ہونی چاہئے صحیح اور مسنون عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر نظر ہونی چاہئے اور اس کی رضامندی ہی اصل ہے۔(۱)(۳) جان بوجھ کر نماز کے چھوڑنے کو کفر کے قریب بتایا جاتا ہے حدیث شریف میں ہے ’’من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر‘‘(۲) کہ جان بوجھ کر نماز کا چھوڑ نا کفر کے قریب قریب ہے اللہ تعالیٰ نماز کی ہمت دے اس کی اہمیت اور فضیلت پر نظر ہو تو ادائیگی آسان ہوجاتی ہے۔(۱) فحقیقۃ الإخلاص: التبري عن کل مادون اللّٰہ تعالی۔ (المفردات في غریب القرآن: ص: ۲۹۳)(۲) من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر، أي المستحق عقوبۃ الکفر کذا فسرہ الشافعي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب القصاص: الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۵، رقم: ۳۴۴۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 118
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: جمعہ کی اذان اول کے بعد اور اذان ثانی سے پہلے وعظ و نصیحت و بیان مسائل کا دور صحابہؓ سے ثبوت ہے اس کو بدعت و ناجائز کہنا بلا دلیل ہے، حسب ضرورت وعظ و نصیحت اس وقت بھی بلا شبہ جائز ہے، شرط یہ ہے کہ نماز پڑھنے والوں کی نمازوں میں خلل کا سبب نہ بنے جس کی صورت یہ ہے کہ تمام لوگوں کو اطلاع ہو کہ اذان ثانی سے قبل سنتوں کا وقت دیا جائے گا نیز اذان ثانی کا جو وقت مقرر ہے اسی وقت پر ہو اور وعظ و نصیحت میں اس قدر تاخیر نہ ہو کہ لوگوں کے لیے زحمت کا باعث بن جائے نیز حسب مصلحت وضرورت باہمی مشورے سے وقت کے اندر کچھ تقدیم و تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)(۱) وأخرج ابن عساکر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عن حمید بن عبد الرحمن أن تمیماً الداري رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ استأذن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ في القصص سنین، فأبي أن یأذن لہ، فاستأذن في یوم واحد، فلما أکثر علیہ، قال لہ: ما تقول؟ قال: أقرأ علیہم القرآن، وآمرہم بالخیر، وأنہاہم عن الشر۔ قال عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: ذلک الذبح، ثم قال: عظ قبل أن أخرج في الجمعۃ فکان یفعل ذلک یوماً واحداً في الجمعۃ۔ (ابن الجوزي، الموضوعات الکبری، ’’مقدمہ فصل: ولما کان أکثر القصاص والوعاظ‘‘: ص: ۲۰)تنبیہ: ذکر الملا علی القاري رحمہ اللّٰہ ہذا الحدیث في مقدمۃ الموضوعات الکبریٰ؛ ولکنہ لیس بموضوع بل ہو من مستدلاتہ علی عدم جواز القصص الطویلۃ التي لا ضرورۃ إلی بیانہا؛ بل الأحسن أن یکون الوعظ مختصراً جامعاً خالیاً عن الحشو والزوائد علی طریق الإیجاز۔ (أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب إن الدین النصحیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 117
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: جمعہ کی اذان اول کے بعد خطبہ کا ترجمہ و مفہوم بتانا درست ہے اور خطبہ کی اذان ثانی کے بعد نماز سے پہلے ترجمہ وغیرہ درست نہیں ہے؛ صرف عربی زبان میں خطبہ دیا جائے۔(۳)(۳) وأخرج ابن عساکر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عن حمید بن عبد الرحمن أن تمیماً الداري رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ استأذن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ في القصص سنین، فأبی أن یأذن لہ، فاستأذن في یوم واحد، فلما أکثر علیہ، قال لہ: ما تقول؟ قال: أقرأ علیہم القرآن، وآمرہم بالخیر، وأنہاہم عن الشر۔…قال عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ ذلک الذبح، ثم قال: عظ قبل أن أخرج في الجمعۃ فکان یفعل ذلک یوماً واحداً في الجمعۃ۔ ( ابن الجوزي، الموضوعات الکبری، ’’مقدمہ فصل: ولما کان أکثر القصاص والوعاظ‘‘بیروت: دارالکتب العلمیۃ: ص: ۲۰)تنبیہ: ذکر الملا علی القاري رحمہ اللّٰہ ہذا الحدیث في مقدمۃ الموضوعات الکبریٰ؛ ولکنہ لیس بموضوع، بل ہو من مستدلاتہ علی عدم جواز القصص الطویلۃ التي لا ضرورۃ إلی بیانہا، بل الأحسن أن یکون الوعظ مختصراً جامعاً خالیاً عن الحشو والزوائد علی طریق الإیجاز۔ (أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب إن الدین النصحیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 116
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: پڑھے یا نہ پڑھے، آہستہ پڑھے یا زور سے پڑھے سب درست ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ آہستہ پڑھے۔’’وأما سنتہا فخمس عشرۃ … و رابعہا: (قال أبو یوسف: في الجوامع التعوذ في نفسہ قبل الخطبۃ … وہي تشتمل علی عشرۃ أحدہا: البداء ۃ بحمد اللّٰہ‘‘(۱)’’ویبدأ بالتعوذ سرا قولہ: (ویبدأ) أي قبل الخطبۃ الأولیٰ بالتعوذ سرا، ثم بحمد اللّٰہ تعالیٰ والثناء علیہ، والشہادتین، والصلاۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم الخ‘‘(۲)(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۸۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب: قال اللہ تعالیٰ أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۱۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 115
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: خطبہ اگر حفظ یاد ہے تو خطبہ کی کتاب کا ہاتھ میں لینا ضروری نہیں ہے اور نہ مستحب ہے، مگر دونوں طریقے جائز ہیں؛ خواہ ہاتھ میں لے کر پڑھے یا بغیر ہاتھ میں لے کر زبانی پڑھے۔ اصل مقصد وعظ ونصیحت اور جمعہ وعیدین کے احکام کو بیان کرنا ہے۔ البتہ صحیح اعراب اور ادائے گئی حروف ضروری ہے۔(۱)(۱) لما رأیت أکثر الخطباء یوم الجمعۃ وغیرہا جاہلین غیر قادرین علی جمع کلمات عربیۃ، ومن ثم تری بعضہم یخطبون باللسان الفارسیۃ والہندیۃ، وبعضہم یخلطون اللسان العربیۃ باللسان العجمیۃ غافلین عن أنہ خلاف السنۃ۔ (اللکنوي، مجموعۃ رسائل اللکنوي، مجموعۃ الخطب اللکنویۃ، مکتبہ انتشارات، شیخ الاسلام احمد جام، ایران: ج ۲، ص: ۳)ولما کانت أکثر شریعتنا بالعربیۃ، یلزم علی الناس أن یتعلموا اللسان العربي بقدر ما یرتفع بہ الحاجۃ، فإن ما لایتم الواجب إلا بہ اجب، ومن ہنا صرحوا أن تعلم الصرف والنحو وغیرہما من مبادي العلوم بقدر ما یحتاج إلیہ في فہم الشریعۃ واجب۔ ( اللکنوي،مجموعۃ رسائل اللکنوي، رسالۃ آکام النفائس: ج ۴، ص: ۴۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 114
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: خطبہ جمعہ نماز جمعہ کے لیے شرط ہے اور حضرات علماء نے صراحت کی ہے کہ بہتر ہے کہ خطبہ اور نماز دونوں ایک شخص پڑھائے اس لیے کہ دونوں شئی واحد کے حکم میں ہے، تاہم امام اور خطیب کا متحد ہونا شرط نہیں ہے اس لیے اگر خطبہ کوئی اور شخص پڑھے اور امامت کوئی اور کرے تو نماز درست ہوجائے گی۔ نابالغ کے خطبہ جمعہ کے سلسلے میں حضرات اہل علم کا اختلاف ہے اور صحیح قول کے مطابق نابالغ کا خطبہ جمعہ درست ہے تاہم بہتر ہے کہ بالغ کو ہی خطیب بنایا جائے تاکہ نماز متفق علیہ طورپر صحیح ہو اور کسی اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔’’(لاینبغي أن یصلي غیر الخطیب) لأنہما کشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلی بالغ جاز) ہو المختار قولہ: (لأنہما) أي الخطبۃ والصلاۃ کشيء واحد، لکونہما شرطا ومشروطا ولا تحقق للمشروط بدون شرطہ فالمناسب أن یکون فاعلہما واحدا قولہ: (ہو المختار) وفي الحجۃ أنہ لا یجوز، في فتاوی العصر فإن الخطیب یشترط فیہ أن یصلح للإمامۃ، وفي الظہیریۃ لو خطب صبي اختلف المشایخ فیہ، والخلاف في صبي یعقل، والأکثر علی الجواز‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۹، ۴۰۔(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۹، ۴۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 113
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت خطبہ جمعہ سنت پڑھنا ممنوع ہے اور اگر پہلے سے پڑھ رہا ہو اور اذان و خطبہ شروع ہوجائے تو دو رکعت پر سلام پھیردے اور اگر دو سے زائد پڑھ چکا ہے تو چاروں رکعت پوری کرے۔(۲)(۲) (إذا خرج الإمام) من الحجرۃ إن کان، وإلا فقیامہ للصعود … (فلا صلاۃ ولا کلام) إلیٰ تمامہا … (وکل ما حرم في الصلاۃ حرم فیہا) أي في الخطبۃ، فیحرم أکل وشرب وکلام ولو تسبیحاً۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۴، ۳۵)وإذا خرج الإمام فلا صلاۃ، ولا کلام وقالا: لابأس إذا خرج الإمام قبل أن یخطب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 112
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ جائز نہیں ہے؛ بلکہ کتب فقہ میں ہے کہ اس وقت درود شریف دل ہی دل میں پڑھ لے زبان سے نہ پڑھے۔(۱)(۱) قولہ: (ولا کلام) … وکذلک إذا ذکر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یجوز أن یصلوا علیہ بالجہر؛ بل بالقلب، وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۵)إذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام إلی تمامہا … (وکل ما حرم في الصلاۃ حرم فیہا) أي في الخطبۃ … فیحرم أکل وشرب وکلام ولو تسبیحاً أو رد سلام أو أمر بمعروف؛ بل یجب علیہ أن یستمع ویسکت۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۴، ۳۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 112
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: الوداعی خطبہ پڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے، کوئی بھی خطبہ پڑھا جا سکتا ہے، الوداعی خطبہ اگر ضروری نہ سمجھا جائے تو اس کو بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس کا کوئی اہتمام نہ کیا جائے؛ کیوں کہ اس کے اہتمام والتزام کو علماء نے بدعت اور مکروہ لکھا ہے۔(۱)(۱) من أحدث فيأمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (خطیب تبریزي، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘بیروت: المکتبۃ الاسلامیہ، ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)البدعۃ: طریقۃ في الدین مخترعۃ، تضاہي الشرعیۃ، یقصد بالسلوک علیہا ما یقصد بالطریقۃ الشرعیۃ، … ومنہا: التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ، کالتزام صیام یوم النصف من شعبان وقیام لیلتہ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، الموافقات، دار ابن القیم، السعودیۃ،ج ۱، ص: ۷۰، ۷۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 110