Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 3116/46-6017
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال کے تعلق سے چند چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے:۔ 1۔ ممبران سے جو فیس ممبرشپ کےنام سے لی جارہی ہے وہ صرف ایک بار کے لئے ہے یا ہر ماہ ان کو یہ فیس جمع کرنی ہوگی؟ 2۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے ممبران کو واوچرس دینے کے لئے آپ فنڈ کہاں سے مہیا کریں گے۔ 3۔ پروموپیکیج کے ممبران کے درمیان جو قرعہ اندازی ہوگی تو نام نکلنے والے کو عمرہ پر بھیجنے کے لئے فنڈ کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ 4۔ اسی طرح بچت ڈائری میں پیسے جمع کرنے والے اپنے پیسے کے مالک ہوں گے اور ان سے کوئی چارج نہیں لیاجائے گا، تو پھر ایک شخص کو مفت میں عمرہ کرنے کے لئے فنڈ کہاں سے آئے گا۔ ان امور کی وضاحت کے بعد ہی سوال پر غور کیاجائے گا ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Family Matters
Ref. No. 3110/46-5085
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ جو کمپنی شروع کرنا چاہتے ہیں، اس میں آپ اپنی ذاتی رقم لگارہے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کے خطرہ کے ساتھ شروع کررہے ہیں، دوسرے افراد کی اس میں کسی طرح کی کوئی شرکت نہیں ہے، اور نہ ہی ان سے کوئی رقم لی گئی ہے ، بلکہ آپ تن تنہا اس کام کو شروع کررہے ہیں تو اس کمپنی کے مالک بھی آپ ہی ہوں گے، اور بعد میں جب موروثی جائداد و کاروبار وغیرہ کی تقسیم ہوگی تو آپ کی کمپنی کے آپ ہی مالک ہوں گے، کسی دوسرے کی اس میں شرکت نہیں ہوگی، اور موروثی جائداد کی تقسیم میں آپ کی کمپنی تقسیم میں نہیں آئے گی۔
حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة." (بدائع الصنائع، کتاب الدعوٰی،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل،6/263،ط:دارالکتب العلمیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3108/46-5084
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کے درختوں کا ضرورت مندوں کی قبروں میں استعمال کرنا جائز ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی غریب کی تجہیز و تکفین کے اخراجات میسر نہ ہوں تو قبرستان کے درختوں کو بیچ کراس کے کفن دفن میں رقم خرچ کرنا بھی درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Travel
Ref. No. 3103/46-5096
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز شروع کرتے وقت قبلہ معلوم کرلینا ضروری ہے، ایک بار جب قبلہ کی جانب نماز شروع کردی تو اب اگر دوران نماز قبلہ بدلنامعلوم ہوجائے تو اپنا رخ بھی ادھر ہی کرلے اور اگر نماز میں قبلہ کا بدلنا معلوم نہیں ہوسکا اور نماز کے بعد چیک کیا تو قبلہ بدل چکا تھا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ نماز درست ہوگئی۔"و إن اشتبهت علیه القبلة ولیس بحضرته من یسأل عنها اجتہد وصلّی کذا في الهدایة فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدها،فإن علم أنه أخطأ بعدما صلى لايعيدها وإن علم وهو في الصلاة استدار إلى القبلة وبنى عليها. كذا في الزاهدي وإذا كان بحضرته من يسأله عنها وهو من أهل المكان عالم بالقبلة فلا يجوز له التحري ،ولو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله وتحرى وصلى فإن أصاب القبلة جاز وإلا فلا." (الھندیۃ، كتاب الصلوة، الفصل الثالث في استقبال القبلة،ج:1،ص:64،ط:دارالفكر)
"وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکه فرض التحري، إلا إذا علم إصابته بعد فراغه فلا یعید اتفاقًا." (شامی، کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،مطلب في ستر العورة۔ج:1،ص:435،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3102/46-5097
In the name of Allah the most Gracious het most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a husband and wife have a disagreement, and the husband has not explicitly or implicitly issued a divorce, they remain legally married, and the marriage is still valid. Merely living apart for several years does not constitute a divorce. However, if the husband has issued a divorce or made any indication with the intention of divorce, please provide clear details in writing before asking the question again.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 3101/46-5093
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے پورے ہوش و حواس کے ساتھ طلاق کے الفاظ اداکرنا ضروری ہوتاہے ؛ محض وہم سے یا وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اور نیند کی حالت میں طلاق کے الفاظ اگر نکل جائیں تو بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لہذا نیند کی حالت میں طلاق کے وہم اور وسوسہ سے بدرجہ اولی طلاق واقع نہ ہوگی۔
لا یقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ․․․ والنائم لانتفاء الإرادة إلخ․ (درمختار)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3099/46-5098
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر قرض لینا یاد ہے اور کس سے کیاتھا یہ بھی یاد ہے تو قرضخواہ کو ادھار کی رقم واپس کرنا ضروری ہے لیکن اگر یہ یاد نہیں کہ قرض کس سے لیا تھا یعنی قرض خواہ معلوم ہی نہیں ہےیا ایسے راستہ چلتے شخص سے قرض لیا جس سے کسی بھی طرح رابطہ کرنا اور قرض ادا کرنا ممکن نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں قرض کے بقدر رقم صدقہ کردینا ضروری ہے۔ اگرقرض لینا ہی یاد نہیں ہے تو اس پر آخرت میں مواخذہ بھی نہیں ہوگا، البتہ یہ نیت ضرور رکھے کہ جب یاد آئےگا تو ادا کردوں گا۔
اسی طرح اگر دوکاندار کو یاد نہیں ہے کہ ادھار سامان کون لے گیا تھا اور مقروض کون ہے تو ایسی صورت میں مقروض اس رقم کے صدقہ کی نیت کرسکتاہے، یا قرض خواہ کو ہبہ کرنے کی نیت کرلے تو بھی درست ہے۔
لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة. ۔ ۔ ۔ ۔ (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم". (شامی، کتاب اللقطة، مطلب فيمن عليه ديون ومظالم جهل أربابها، ج:4، ص:283، ط:ایچ ایم سعید)
"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسًا واستحسانًا ...هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي". (الھندیۃ، الباب الرابع في هبة الدين ممن عليه الدين، ج:4، ص:384، ط: رشيديه)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3106/46-5095
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں اس وقت تک نمازوں کی قضا کرتا رہے جب تک کہ اسے یقین یا غالب گمان نہ ہوجائے کہ ساری قضا نمازیں ذمہ سے اتر گئیں ۔ جس قدر اندازہ ہو اس سے کچھ نمازیں زیادہ ہی پڑھے تاکہ کوئی نماز ذمہ میں باقی نہ رہ جائے اور اطمینان ہوجائے۔
"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء." )حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح ص:447،كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:دارالكتب العلمية(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fasting & Ramazan
Ref. No. 3107/46-5094
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ا گر بالغ ہونا یاد نہیں ہے اور جب سے اس کو محسوس ہوا کہ اب بالغ ہوچکاہے تو اس نے روزہ رکھنا شروع کردیا، تو جو سال گزرگئے اور روزے واجب ہونے کا شک ہے تو ان سالوں کے روزے اس پر فرض نہیں ہیں۔ اور اگر غالب گمان یہ ہوکہ کچھ روزے اور نمازیں ضرور قضا ہوئی ہیں تو جس تعداد پر ظنِ غالب ہوجائے،اسی حساب سے دونوں چیزوں کی قضا کرنا شروع کردے،اور جب وہ تعداد پوری ہوجائے،تو قضا کرنا بند کردے۔
"وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها تسع سنين هو المختار...قوله: وأدنى مدته أي مدة البلوغ والضمير في له للغلام وفي لها للجارية."
(ألدرالمختار ص:154،ج:6،کتاب الحجر،فصل بلوغ الغلام بالاحتلام،ط:سعيد)
"هي فرض عين على كل مكلف...وتاركها عمدا مجانة أي تكاسلا فاسق." (ألدرالمختار، ص:357،ج:1،کتاب الصلاة،ط:سعيد)
"لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا، ولا يضره عكس الترتيب لسقوطه بكثرة الفوائت." (ألدرالمختار، ص:76،ج:2،کتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:سعيد)
"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء." (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح" ص:447،كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:دارالكتب العلمية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندFiqh
Ref. No. 3111/46-5086
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1،2) ہونٹوں سے اجڑنے والی چمڑی اگر بالکل خشک ہو کہ اس میں کوئی تری نہ ہو تو وہ پاک ہے خواہ چمڑے کو اجاڑنے میں درد ہو یا نہ ہو، اوراگر یہ پانی میں گرجائے تو پانی بھی پاک ہی رہے گا۔ اور اگر چمڑی کے ساتھ رطوبت ہو تو پھر ایسی صورت میں وہ چمڑی ناپاک ہوگی، اور یہ رطوبت کم ہو یا زیادہ ہو پانی میں گرنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا اگر ماء قلیل ہو۔
"قال الولوالجي - رحمه الله - جلد الإنسان إذا وقع في الإناء أو قشره إن كان قليلا مثل ما يتناثر من شقوق الرجل وما أشبهه لا تفسد وإن كان كثيرا تفسد ومقدار الظفر كثير؛ لأن هذه من جملة لحم الآدمي ولو وقع الظفر في الماء لا يفسده اهـ. قال قاضي خان جلد الآدمي أو لحمه إذا وقع في الماء إن كان مقدار الظفر يفسده، وإن كان دونه لا يفسده." (تبیین الحقائق، كتاب الطهارة، ماء البئر إذا وقعت فيه نجاسة، ج:1، ص:27، ط:دار الكتاب الإسلامي)
"(قوله: جلدة الآدمي إذا وقعت في الماء القليل إلخ) قال ابن أمير حاج وإن كان دونه لا يفسده صرح به غير واحد من أعيان المشايخ ومنهم من عبر بأنه إن كان كثيرا أفسده وإن كان قليلا لا يفسده وأفاد أن الكثير ما كان مقدار الظفر وأن القليل ما دونه، ثم في محيط الشيخ رضي الدين تعليلا لفساد الماء بالكثير؛ لأن هذا من جملة لحم الآدمي، وقد بان من الحي فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الاحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة وفيه قبل هذا قال محمد عصب الميتة وجلدها إذا يبس فوقع في الماء لا يفسده؛ لأن باليبس زالت عنه الرطوبة النجسة." (البحر الرائق، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:جلدة آدمي إذا وقعت في الماء القليل، ج:1، ص:243، ط:دار الكتاب الإسلامي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند