Frequently Asked Questions
فقہ
Ref. No. 1262/42-605
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں والدین کی کل جائداد کو آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر ترکہ میں کل اٹھائیس لاکھ روپئے ہی صرف ہیں تو اس طرح تقسیم کریں کہ ہر ایک بیٹے کو سات لاکھ روپئے اور ہر ایک بیٹی کو تین لاکھ پچاس ہزار روپئے دیدئے جائیں۔ جس بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اس کا حصہ (سات لاکھ) اس کی بیوی اور اولاد میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم بیٹے کے حصہ میں سے آٹھواں حصہ اس کی بیوی کودینے کے بعد بقیہ مال اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کریں کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1605/43-1157
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور شخص طلاق کا انکار کررہاہے، اور طلاق کے وسوسہ کو ختم کرنے کے لئے کہتاہے کہ میں بھلا طلاق کیسے دے سکتاہوں یعنی نہیں دے سکتا، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کا خیال آنا وقوع طلا ق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے صریح یا کنائی الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ کنائیہ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں آپ نے طلاق کے بارے میں ایک جملہ خود سے کہا جو طلاق کا انکارکرنے کے لئے تھا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ جب آپ صراحت سے طلاق کا انکار کررہے ہیں تو طلاق کیونکر واقع ہوگی۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری: "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2152/44-2223
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرکمپنی کا کاروبار درست ہے تو اس طرح فیصدی کے اعتبار سے نفع کی تقسیم جائز ہے اور اس میں پیسے لگاکر نفع کمانا بھی جائز ہوگا۔ البتہ اگر صورت یہ ہو کہ جتنا پیسہ آپ نے دیا اس کا وہ ہر ماہ آپ کو ٪35 فیصد لوٹاتی ہے خواہ تجارت میں اس کا نفع ہو یا نقصان ، تو ایسی صورت میں اس میں پیسے لگانا اور نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا ۔
ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح۔۔۔۔لفساده فلعله لا يربح إلا هذا القدر۔(الهداية،كتاب المضاربةج3ص263)
ویشترط ایضافي المضاربةان يكون نصيب كل منهما من الربح معلوما عند العقد ؛لان الربح هو المعقود عليه ،و جهالته توجب فساد العقد ۔(فتح القدير ،كتاب المضاربةج7ص421)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2285/44-3450
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں تعارض کو ظاہر کیا ہے، آپ کے لئے ضروری تھا کہ دونوں فتاوی کو بھی ساتھ میں منسلک کرتے، تاکہ دونوں فتاوی کو پڑھ کر فیصلہ کرنے میں سہولت ہوتی۔ جہاں تک سوال کاتعلق ہے تو طلاق کے باب میں حضرات فقہاء نے بیوی کی طرف اضافت کو ضروری قراردیاہے، اضافت چاہے حقیقی ہو یا معنوی ہو، یعنی بیوی کی طرف نسبت صراحتا ہو یا کنایۃ ہو یا اقتضاء ہو، کسی طرح بھی قرائن سے اضافت الی الزوجۃ متعین ہوجائے، تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر کسی طرح بھی زوجہ کی طرف نسبت نہ ہو، اور نہ ہی عرف و عادت کے مطابق زوجہ کی طرف نسبت کافی ہو، تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں دلائل حسب ذیل ہیں: لترکہ الاضافۃ ای المعنویۃ فانھا الشرط والخطاب من الاضافۃ المعنویۃ کذا الاشارۃ نحو ھذہ طالق وکذا نحو امرئتی طالق وزینب طالق – اقول وماذکرہ الشارح من التعلیل اصلہ لصاحب البحر آخذا من البزازیۃ فی الایمان قال لھا: لاتخرجی من الدار الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لایقع لعدم حلفہ بطلاقھا ویحتمل الحلف بطلاق غیرھافالقول لہ۔ (ردالمحتار 3/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جن بصورت انسان آجائے اور حاکم یا قاضی کو بالکل اس کا علم نہ ہوسکے کہ یہ جن ہے، اور قاضی اس کی شہادت پر فیصلہ کردے، تو قاضی علم نہ ہونے کی وجہ سے معذور ہوگا، ماخوذ نہ ہوگا۔ اور فیصلہ اس کا نافذ ہوگا۔ (۲)
البتہ اگر کسی طرح اس کا جن ہونا محقق ہوجائے، تو پھر اس کی شہادت شرعاً مقبول نہ ہوگی۔ (۳)
(۲) والطریق فیما یرجع إلی حقوق العباد المحضۃ عبارۃ عن الدعوی والحجۃ وہي أما البینۃ أو الإقرار أو الیمین أو النکول عنہ أو القسامۃ أو علم القاضي إلخ۔ (ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب القضاء، مطلب: الحکم الفعلي‘‘: ج ۸، ص: ۲۳)
(۳) {وَاسْتَشْہِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج فَإِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ} (سورۃ البقرہ: ۲۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص255
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دفن میت کے بعد اذان دینے کا ثبوت نہیں ہے، یہ عمل بدعت ہے؛ لہٰذا تخفیف عذاب کا سوال ہی نہیں ہے۔(۱)
(۱) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ لما ہو المعتاد الآن وقد صرح ابن حجر في فتاواہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱؛ کذا في البحر الرائق: ج ۲، ص: ۲۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص376
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب کا لال خط کو رسم قرار دینا اور اس میں شرکت نہ کرنا بالکل درست ہے، لال خط محض ایک رسم ہے جس کو ترک کردینا لازم ہے۔(۱)
(۱) سرخ خط کا التزام درست نہیں، تاریخ کی اطلاع ضروری ہے۔ (کتاب المفتی، ’’باب البدعات والرسومات‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹)
فکم من مباح یصیر بالإلتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکنوي، سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص464
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تو کوئی عذر نہیں ہے کہ عربی پڑھنی نہیں آتی، ویسے رغبت قرآن کے لیے اردو کاترجمہ پڑھا جاسکتا ہے۔ عربی، عربی ہے، اس کا ترجمہ، ترجمہ ہے، ترجمہ پڑھنے کا ثواب تو ہے؛ لیکن عربی کا قرآن پڑھنے کے برابر تو نہیں اس لیے اصل قرآن سیکھنا چاہئے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔
والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ)، أي یتردد ویتبلد علیہ لسانہ ویقف في قراء تہ لعدم مہارتہ، والتعتعۃ في الکلام التردد فیہ من حصرٍ أو عيٍّ، یقال: تعتع لسانہ إذ توقف في الکلام ولم یطعہ لسانہ (وہو) أي القرآن، أي حصولہ أو ترددہ فیہ (علیہ)، أي علی ذالک القاري (شاق)، أي شدید یصیبہ مشقۃ جملۃ حالیۃ (لہ أجران)، أي أجر لقراء تہ أجر لتحمل مشقتہ وہذا تحریض علی تحصیل القراء ۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۹، رقم: ۲۱۱۲)
{إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَہ۲ } (سورۃ یوسف: ۲)
فلا یکون الفارسي قرآناً فلا یخرج بہ عن عہد الأمر، ولأن القرآن معجزٌ، والإعجاز من حیث اللفظ یزول بزوال النظم العربي فلا یکون الفارسي قرآنا لانعدام الإعجاز۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما أرکانہا خمسۃ: منہا القیام‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص55
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جس طرح بڑے آدمی کا پیشاب ناپاک ہے، اسی طرح چھوٹے بچے کا پیشاب بھی ناپاک ہے، خواہ وہ بچہ دودھ ہی کیوں نہ پیتا ہو؛ کپڑے یا برتن وغیرہ پر لگ جائے، تو اس کو پاک کرنا ضروری ہے ،اس میں لاپر واہی نہ کی جائے۔(۱)
(۱)عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: أتی رسول اللّٰہ ﷺ بصبي یرضع، فبال في حجرہ، فدعا بماء، فصبہ علیہ و في روایۃ فدعا بماء فرشہ علیہ۔(أخرجہ مسلم، في صحیحہ، باب حکم بول الطفل الرضیع و کیفیۃ غسلہ، ج۱، ص:۱۳۹)؛ ولو من صغیر لم یطعم، أي لم یأکل فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طھارۃ بولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱، ص:۵۲۳)، وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ أکلا أولا۔ (وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ۔ الکویت، الموسوعۃ الفقھیہ، ما یعتبر نجساً وما لا یعتبر، ج۴۰، ص:۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:آج کل عام طور پر بڑے شہروں میں نیوز پیپر وغیرہ کا استنجا کے لیے استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ان چیزوں کو استنجا کے لیے استعمال کرنا نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ صاحب البحر الرائق نے لکھا ہے: لکھے ہوئے کاغذ سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’والورق قیل: إنہ ورق الکتابۃ وقیل إنہ ورق الشجر وأي ذلک کان فإنہ مکروہ‘‘(۱)
اس لیے کہ کاغذ ایک گراں قدر چیز ہے جو علوم وفنون کی امین اور خود اسلام اور اس کی تعلیمات کے لئے بلند پایہ محافظ ہے، اس کی اس عظمت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایسے معمولی اور کمتر کاموں کے لیے اس کا استعمال نہ ہو اور اس کو نجاستوں میں ملوث ہونے سے بچایا جائے؛ البتہ مجبوری کی حالت اس سے مستثنیٰ ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کراہت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ لکتابۃ العلم‘‘(۲)
اس لیے کہ وہ چکنا ہوتا ہے (جس سے نجاست کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے) اور قیمتی ہوتا ہے، نیز آلۂ علم ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام بھی ہے۔
اس کی تائید ان فقہاء کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جو مطلق کاغذ کے اس مقصد کے لئے استعمال کو مکروہ نہیں کہتے، بلکہ ایسے کاغذ کے استعمال سے منع کرتے ہیں جس میں حدیث وفقہ سے متعلق کچھ لکھا ہوا ہو، مشہور فقیہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے:
’’ولا یجوز الاستنجاء بمالہ حرمۃ کشيء کتب فیہ فقہ أو حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۳)
قابل احترام چیزیں مثلاً ایسی چیز کہ جس میں فقہ اور حدیث کی عبارتیں درج ہوں، ان سے استنجا کرنا جائز نہیں۔
علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں:
’’لا یجوز بما کتب علیہ شيء من العلم کالحدیث والفقہ‘‘ (۴)
البتہ ایسے کاغذ جو خاص استنجا کے مقصد کے لیے ہی تیار کئے جاتے ہیں اور وہ کاغذ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ان پر کچھ لکھا جائے، تو ان جیسے کاغذوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۳) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔
(۳) ابن قدامۃ، المغني، ’’فصل استجمر بحجر ثم غسلہ أو کسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۳۔
(۱)خالد سیف اللہ رحمانی، جدیدفقہی مسائل: ج ۱، ص: ۸۵۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص117