Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:یہ وقت بہت معمولی ہوتا ہے آیا اور گیا اس کو قرار نہیں ہے اس لیے احتیاطاً پانچ منٹ کافی ہیں۔(۲)
(۲) ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل وفي ہذا القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ فلعل المراد إنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان أو المراد بالنہار الشرعي وہو من أول طلوع الصبح إلی غروب الشمس وعلی ہذا یکون نصف النہار قبل الزوال بزمان یعتد بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت: ج ۲، ص:۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا واجب نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس کو سنن زوائد میں شمار کیا ہے۔ صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمامؒ اس کے سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں اگر احیانا و اتفاقاً چھوٹ جائے تو گنہ گار نہیں؛ لیکن بار بار ایسا کرنا یقیناً باعثِ گناہ ہے۔
’’وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ أي قبلہا في الخلاصۃ إن اعتاد ترکہ أثم قولہ في الخلاصۃ والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیاناً‘‘(۱)
(۱) وکذلک إذا صلی الفریضۃ بالعذر علی دابۃ والنافلۃ بغیر عذر فلہ أن یصلی إلی أي جہۃ توجہ: کذا فی منیۃ المصلي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص317
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بھول کر پڑھا، تو نماز بھی ہوگئی گنہگار بھی نہیں ہوا اور اگر جان کر پڑھا، تو نماز فاسد ہوگئی اور گنہگار ہوگا۔(۱)
(۱) وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن، والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جریٰ علی لسانہ أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار، ہکذا في الوجیز، للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254
متفرقات
Ref. No. 38 / 1026
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ذہیب کے معنی علم کی روشنی والا/سنہرا وغیرہ کے معلوم ہوئے ہیں ، اور ارحان غیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی حاکم کے ہیں اور ایران میں ایک جگہ کا نام ارہان ہےجس جگہ کی طرف نسبت کرکے نام رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 39 / 902
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the court sends a notice on behalf of husband, the talaq will take place as per the wordings of the notice. Wife will observe iddah of three menstruations and the husband will have to pay maintenance of the iddah period.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 41/1003
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Performing two Rakats of Tahajjud in one unit is better. صلوۃ اللیل مثنی مثنی
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 950/41-92
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک میں جتنی رقم موجود ہے ، وہ اور اس کے علاوہ جو بھی جائداد والد نے چھوڑی ہے، اس میں تمام اولاد کا حق ہے۔ کل مال کا آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کے لئے ہے اور باقی جائداد اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1038/41-266
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خاتون کے شوہر کی کل جائداد کواولاً 48/حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے 6/حصے خاتون یعنی بیوی کو ملیں گے، آٹھ آٹھ حصے ماں باپ میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ اور ہر ایک بیٹے کو 13 حصے ملیں گے۔ پھر جو کچھ باپ کو ملا ہے اس کو اس کی جائداد میں شامل کرکے کل جائداد کو اس کی اولاد میں تقسیم کریں گے ، اس طور پر کہ مرحوم سسرکی بیوی (خاتون کی ساس) کو آٹھ میں سے ایک حصہ ملے گا، اور باقی سات حصے اس کی اولاد میں لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ دے کر تقسیم کریں گے۔ اولاد کی موجودگی میں بھائیوں کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔ نیز انتقال کے وقت جو کچھ آدمی کی ملکیت میں ہے بینک میں موجود رقم ہو یاسونا چاندی اور زمین وغیرہ ہو سب وراثت میں تقسیم ہوگا۔ البتہ شوہر کے انتقال کے بعد جو سرکار ی کی طرف سے بیوی کو ملتا ہے اس پر بیوی کا حق ہے اس کو شوہر کی وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1153/42-390
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
After all, she was muslim if she didn’t do anything that is obviously kufr. Her aqeeda was not based on kufr. If the case is so, she should be buried according to Islamic norms.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1509/42-988
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے جانور کو سجانے و سنوارنے میں آج کل خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے یقینا اس میں پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع ہے۔ اور اس میں فخرومباہات ، ریاکاری اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنے کی کوشش بھی ہے، اس لئے اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ البتہ اس سے قربانی پر فرق نہیں آئے گا، قربانی درست ہوگی اور گوشت کھانا بھی درست ہوگا۔ نیز اگر صرف جانور کے احترام کے طور پر اظہارِخوشی کے لئے پھولوں کا ایک معمولی سا ہار ڈال دیا جائے تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے گرچہ اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۲؍۵۵۹ رقم: ۴۰۳۱ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۲؍۳۷۵)
قال القاري: أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ، وکذا في مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۸؍۲۵۵ رقم: ۴۳۴۷ رشیدیۃ، وکذا في فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۱۱؍۵۷۴۳ رقم: ۸۵۹۳ نزار مصطفیٰ الباز ریاض( البحث الثانی: النہي عن خاتم الحدید وغیرہ مخصوص بالخاتم أو شامل لسائر الحلي، منہا فلم أر نصا فیہ في کلام الفقہاء إلا أن الحدیث وکلام الفقہاء یرشد أن إلی عدم الاختصاص لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مالي أری علیک حلیۃ أہل النار؟ وقال: مالي أری منک ریح الأصنام، فدل ذٰلک علی أنہ غیر مخصوص بالخاتم؛ بل یشمل کل حلیۃ من الحدید أو الشبہ النحاس والصفر الخ۔ (إعلاء السنن، کتاب الحظر والإباحۃ / باب خاتم الحدید وغیرہ ۱۷؍۳۳۰ المکتبۃ الإمدادیۃ مکۃ المکرمۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند