Frequently Asked Questions
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 41/1079
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور چاندی سے بنے ہوئے کسی سامان کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا چاندی کی سلائی استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ وَقَالَ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ: يُكْرَهُ وَمُرَادُهُ التَّحْرِيمُ وَيَسْتَوِي فِيهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ لِعُمُومِ النَّهْيِ، وَكَذَلِكَ الْأَكْلُ بِمِلْعَقَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالِاكْتِحَالُ بِمِيلِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَكَذَا مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ كَالْمُكْحُلَةِ وَالْمِرْآةِ وَغَيْرِهِمَا لِمَا ذَكَرْنَا. (فتح القدیر 10/6)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 947/41-91
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے اندر مہر شرط ہے، اگر عورت نے مہر نہ لینے کی شرط لگائی ہو توبھی نکاح صحیح ہوگا اور بعدنکاح شوہر کے ذمہ مہر مثل واجب ہوگا۔شرط فاسد سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
(والنكاح) بأن قال تزوجتك على أن لا يكون لك مهر يصح النكاح ويفسد الشرط ويجب مهر المثل كما عرف في موضعه (البحرالرائق 6/203) (وَإِنْ تَزَوَّجَ مُسْلِمٌ عَلَى خَمْرٍ أَوْ خِنْزِيرٍ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا) ؛ لِأَنَّ شَرْطَ قَبُولِ الْخَمْرِ شَرْطٌ فَاسِدٌ فَيَصِحُّ النِّكَاحُ وَيَلْغُو الشَّرْطُ، بِخِلَافِ الْبَيْعِ؛ لِأَنَّهُ يَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ لَكِنْ لَمْ تَصِحَّ التَّسْمِيَةُ لِمَا أَنَّ الْمُسَمَّى لَيْسَ بِمَالٍ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِ فَوَجَبَ مَهْرُ الْمِثْلِ. (العنایۃ شرح الھدایۃ 3/358)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
Ref. No. 1050/41-209
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is duty of every citizen to abide by the rules of the country as strictly as possible. So they should avoid slaughtering cows whilst other options are available. When other animals can be slaughtered in Qurbani, slaughtering cow and consequently poisoning the country environment is against Islamic norms and etiquettes.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
اسلامی عقائد
Ref. No. 1988/44-1935
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مروجہ تمام بینک سودی نظام پرقائم ہیں، اور شریعت میں سودی حسابات کے تمام کام حرام ہیں، اس لئے بینک میں سودی لین دین سے متعلق جملہ امور ناجائز ہیں ۔ تاہم اگر کوئی پہلے سے بینک میں ملازمت پر ہے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ دوسری ملازمت کی تلاش بھی کرتارہے۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة:278، 279] {وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}[المائدة:2]
’’عن جابر رضي الله عنه، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء».‘‘ (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:دار احیاء التراث-بیروت) (مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:243، ط:قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2270/44-2431
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پلاٹ خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت تھی تو پھر اس کی وجہ سے وہ پلاٹ ایک تجارتی سامان ہے، لہذا تجارتی سامان کی موجودگی میں جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپئے ہیں، اس کو زکوۃ کی رقم دینا درست نہیں ہے، اور اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی تو اب بعد میں بیچنے کی نیت کرنے سے وہ سامان ِ تجارت نہیں بنے گا ، لہذا عورت کو اس پلاٹ کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں کہاجائے گا اس لئے اس کو زکوۃ دینا جائز ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان پر ہیں اور سب فرشتے اس کے لیے نماز پڑھتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کی نماز کیسی ہوتی ہے؟ تو اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا سلام فرمادیجئے اور بتلادیجئے کہ آسمان دنیا کے فرشتے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہیں گے اور بس ’’سبحان ذي الملک والملکوت‘‘ پڑھتے رہیں گے اور دوسرے آسمان والے فرشتے رکوع میں رہیں گے اور ’’سبحان ذي العزۃ والجبروت‘‘ پڑھتے رہیں گے اور تیسرے آسمان کے فرشتے حالت قیام میں رہیں گے اور کہتے رہیں گے ’’سبحان الحي الذي لایموت‘‘(۱)
(۱) علاء الدین بن حسام الدین، الہندي، کنزالعمال، ’’کتاب العظمۃ: من قسم الأفعال‘‘: ج ۱۰،ص: ۱۶۵، رقم: ۲۹۸۱۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص256
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:منڈھا کرنا درحقیقت ایک ہندوانہ رسم ہے جس میں شادی سے ایک دن پہلے لڑکے والوں اور لڑکی والوں کی طرف سے نائی جوڑا او رمہندی لے کر ایک دوسرے کی طرف بھیجاجاتا ہے اور اس کی آمدکے اہتمام میں دعوت ہوتی ہے اگر اس طرح کی چیز یں اور رسمیں شامل ہوں تو یہ ناجائز ہے(۱) اور اگر ان رسوم ورواج کے طور پر نہ ہو؛ بلکہ شادی سے پہلے ہی مہمان آجاتے ہیں؛ اس لیے کہ مزید کچھ قریبی رشتہ داروں کی دعوت کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) بارات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، یہ بھی زمانہ قدیم کی رسم ہے جب راستے پر خطر ہوا کرتے تھے اس وقت کی ضرورت تھی جس میں خاندان اورمحلہ کے ایک ایک آدمی شریک ہوتے تھے، اب ایسا کچھ نہیں ہے، بارات کا ثبوت احادیث سے نہیں ہے بس چند لوگ جائیں اور رخصتی لے کر آجائیں، اتنے زیادہ لوگوں کا جانا جس کی وجہ سے لڑکی والوں پر بوجھ پڑ جائے درست نہیں ہے(۳) کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مہذب تہذیب کی بد تہذیبی ہے جس میں کھانے کا احترام مفقود ہو جاتا ہے اور انسان او رحیوان کی تمیز ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ کھڑے ہو کر اور چل پھر کر کھانا درحقیقت جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لیے کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے (۴) ولیمہ مسنون ہے جس میں کوئی تعداد مسنون نہیں ہے اس لیے جس قدر افراد کی دعوت کی جائے ولیمہ ادا ہو جائے گا اس میں غرباء ومساکین کی دعوت ضروری نہیں ہے ہاں ایسے موقع پر غرباء مساکین کو بھی شریک کرنا باعث خیر ہے؛ لیکن ان کی دعوت نہ کرنے کی وجہ سے ولیمہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن اگر وہ غرباء رشتہ دارہوں تو محض ان کی غریبی کی وجہ سے ان کو نظر انداز کردینا ناپسندیدہ عمل ہے۔(۵) ماقبل کے جواب سے وضاحت ہوگئی ہے۔
’’أن جاء عبد الرحمن علیہ أثر صفرۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تزوجت؟، قال: نعم، قال: ومن؟، قال: امرأۃ من الأنصار، قال: کم سقت؟، قال: زنۃ نواۃ من ذہب -أو نواۃ من ذہب-، فقال لہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أولم ولو بشاۃ(۲) عن عبد اللّٰہ بن عمرو، أن رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - قال: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ،(۳) عن أنس، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی أن یشرب الرجل قائما فقیل: الأکل؟ قال: ذاک أشر: ہذا حدیث صحیح۔(۱)
(۱) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ ولو بشاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۷، رقم: ۵۱۶۸۔
(۳) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادي عشر، مسند عبد اللّٰہ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۶۶۲۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النہي عن الشرب قائماً‘‘: ج ۲، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۷۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص465
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عید مبارک‘‘ لفظ کے ساتھ عید کے دن کسی کو مبارکباد دینا مباح ہے،(۳) اگرچہ اس بارے میں اقوال مختلف ہیں ’’واختلف في قول الرجل لغیرہ یوم العید: تقبل اللّٰہ منا ومنک الخ‘‘(۴)
۳) إن من المستحبات التزین وأن یظہر فرحا وبشاشۃ ویکثر من الصدقۃ حسب طاقتہ وقدرتہ، وزاد في القنیۃ استحباب التختم والتبکیر وہو سرعۃ الانتباہ والابتکار، وہو المسارعۃ إلی المصلی وصلاۃ الغداۃ في مسجد حیہ والخروج إلی المصلی ماشیا والرجوع في طریق آخر والتہنئۃ بقولہ: تقبل اللّٰہ منا ومنکم إلخ۔ (إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)
(۴)حلبي کبیر: ص :۵۷۳
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کی ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو، تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں ہے(۱)۔ اور ان کو تعلیم دینے کے لیے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی شر کا اندیشہ ہو، تو گریز کرنا چاہئے۔
(۱) إذا قال الکافر من أہل العرب أو من أہل الذمۃ علمني القرآن فلا بأس بأن یعلمہ ویفقہہ في الدین قال القاضي علي السغدي إلا أنہ لا یمس المصحف فإن اغتسل ثم مسہ فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56