متفرقات

Ref.  No.  3086/46-4968

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مریض کو اپنے مرض کے مطابق دوائیاں لینے میں کوئی حرج نہیں ہےآپ کسی ماہر طبیب سے رابطہ کریں اور ان کی ہدایات کے مطابق علاج کریں، اور اس سلسلہ میں بیوی کو مطلع کرنا ضروری نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3083/46-4976

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی جائداد اس کے ورثہ میں شرعی اعتبارسے تقسیم کرنا لازم ہے، ہر ایک کو شریعت نے جوحق دیا ہے اس تک حق کا پہنچانا فرض ہے، کسی کے حق پر قبضہ کرنا یا کسی کا حق دبالینا شرعی طور پر حرام ہے۔ جو لوگ دوسروں کے مال و اسباب پر ناجائز قبضہ کریں گے ان سے حقوق العباد میں خرد برد کرنے کی بناء پر قیامت میں سخت بازپرس ہوگی۔ دنیا میں قانونی کارروائی کرکے آپ اپنا حق حاصل کرسکتے ہیں۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں دوکان گھر اور کاروباری زمین  میں تمام ورثہ کا حق ہے جس کو 72 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، چودہ چودہ حصے  ہر ایک بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 3082/46-4975

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  میت کی وفات کے وقت جو ورثہ موجود تھے، ان کو وراثت میں حصہ ملے گا اور میت کے انتقال سے پہلے جن کا انتقال ہوگیا ان کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اور ایک بیوی کے درمیان کل ترکہ تقسیم ہوگا۔ مرحوم (سسر) کا کل ترکہ 40 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے پانچ حصے، موجود بیوی کو، 14 چودہ حصے دونوں بیویوں سے ہر ایک بیٹے کو  ملیں گے، اور 7 حصے مرحومہ بیٹی کا حق ہیں جو باپ کے انتقال کے وقت با حیات تھی اور یہ سات حصے اس کی اولاد اور شرعی ورثہ میں حسب ضابطہ تقسیم ہوں گے۔  مرحومہ بیٹی کے ورثاء کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3077/46-4947

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جس عورت کو جو زمین بطور مہر کے دی گئی ہے، اور جس عورت کو جورقم بطور مہر دی گئی وہ خاص اس کی ملکیت ہے، اس میں کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی، لہذا راجہ بیگم اور نسیمہ کو ان کے سسر نے اپنے بیٹوں کی طرف سے بطور مہر جو زمین دی ہے یا حنیفہ اور فاطمہ کو جو رقم دی ہے  وہ ان کی اپنی ملکیت ہے، اس میں کسی بھی وارث کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔ راجہ بیگم اور نسیمہ کو جو زمین  مہر میں دی گئی ان کو منہا کرکے اسی طرح حنیفہ اور فاطمہ کو جو رقم دی گئی  ان کو منہا کرکے ہی وراثت کی تقسیم ہوگی۔ راجہ بیگم اور نسیمہ کا دعوی کہ مہر پر ان کا ہی حق ہے، درست ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 3078/46-4948

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناپاکی کی حالت میں نماز اداکرنا جائز نہیں ہے، یہ گناہ کبیرہ ہے، اس لئے  غسل کرکے ہی نماز کی قضاء کی جائے گی۔ اگر کسی نے ایسی حالت میں نماز اداکی ہے تو اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔ تاہم اگر کوئی تنگئ وقت کی بناء پر تیمم کرکے نماز پڑھے تو گناہ نہیں لیکن بعد میں اس نماز کی قضاء  بہرحال ضروری ہوگی۔

قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب كما في الخانية۔۔۔(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة۔۔۔لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافرا۔۔۔(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وأن الإكفار رواية النوادر وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل۔۔۔أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرا عند الكل تأمل۔ (رد المحتار على الدر المختار، كتاب الطهارة، ج:1، ص:185)

قال الحلبی فالاحوط ان یتیمم ویصلی ثم یعید(قوله: قال الحلبي): اي البرهان الحلبي في شرحه علي المنية، وذكر مثله العلامة ابن امير الحاج الحلبي في الحلية شرح المنية، حيث ذكر فروعاً عن المشايخ، ثم قال: ماحاصله: ولعل هذا من هؤلاء المشايخ اختيار لقول زفر؛ لقوة دليله، وهو ان التيمم انما شرع للحاجة الی اداء الصلاة في الوقت فيتيمم عند خوف فوته … فينبغي العمل به احتياطاً، ولاسيما كلام ابن الهمام يميل الی ترجيح قول زفر كماعلمته، بل قدعلمت من كلام القنية انه رواية عن مشايخنا الثلاثة ونظیر ھذا مسالہ الضیف الذی خاف ریبہ فانھم قالو یصلی ثم یعید“ (درمختار مع ردالمحتار ،باب التیمم، جلد1 ،صفحہ 434،دار المعرفۃ ،بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref.  No.  3079/46-4949

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس وقت سے کنویں کی  ناپاکی کا علم ہوا اس وقت سے ہی اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا، اس لئے  ناپاکی کا علم ہونے سے پہلے  جو کپڑے  اس کنویں کے پانی سے دھلے گئے وہ سب پاک شمار ہوں گے۔ البتہ اگر نجاست گرنے کا وقت یقینی طور پر معلوم ہوجائے  تو پھر اس وقت سے اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا ۔اوراس ناپاک پانی سے وضو یا غسل کرکے، یا اس سے کپڑے دھو کرجتنی نمازیں پڑھی ہیں ان کا اعادہ بھی ضروری  ہوگا ۔

فلا نحكم بنجاسته بالشك على الأصل المعهود إن ‌اليقين ‌لا ‌يزول بالشك." (بدائع الصنائع، كتاب الطهارة ،فصل في بيان المقدار الذي يصير الماء نجساّ،ج :1 ،ص :73 ،ط:رشيدية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3076/46-4927

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، طلاق کے معاملہ میں مذاق اور دھمکی کا اعتبار نہیں ہوتاہے، صریح طلاق سے بہرصورت  طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق اور طلاخ کا فرق بھی قابل اعتناء نہیں ہے۔ اور دوبار دیتاہوں دیتاہوں کہنے سے تاکید ہوئی کوئی مزید طلاق واقع نہیں ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے، اگر عدت کے دوران شوہر رجعت کرلے تو نکاح باقی رہے گا، اور اگر عدت گزرگئی  تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا، تاہم اس کا بھی خیال رہے کہ شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3075/46-4926

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خیال رہے کہ  مردوعورت کا ایک ہی مجلس میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرنا نکاح کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے۔ نکاح میں خطبہ ہونا ضروری نہیں ہے البتہ مسنون ہے ۔ صورت مسئولہ میں  جب نکاح عورت کے پاس پڑھایاجائے گا تو صرف عورت کی طرف سے ایجاب بغیر قبول کے  ہوگا، اور جب لڑکے کا نکاح ہوگا تو وہ بھی  قبول بغیر ایجاب کے ہوگا،   تو ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کی شرط نہیں پائی گئی، اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ ہاں اگر لڑکی کسی کو اپنا وکیل بنادے اور وہ لڑکے کی موجودگی میں یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح تم سے کردیا اور لڑکا قبول کرلے تو اب نکاح درست ہوجائے گا۔ کیونکہ وکیل کی طرف سے ایجاب اور لڑکے کی طرف سے قبول دونوں چیزیں ایک ہی  مجلس میں پائی گئیں۔  

ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)

ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Divorce & Separation

Ref. No. 3074/46-4925

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہرنے بیوی سے تنگ آکر اس طرح کا جملہ محض جان چھڑانے کے لئے بولا ہے ، اس سے بیوی کو  ماں کے ساتھ کسی چیز میں تشبیہ دینا یا طلاق دینا یا ظہار وغیرہ کی نیت نہیں ہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور رشتہ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  اور اس سے ظہار بھی نہیں ہوگا، تاہم اس طرح کا جملہ بیوی کے لئے بولنا یعنی بیوی کو ماں کہنا ناپسندیدہ ہے ، اس لئے شوہر کو چاہئے کہ  آئندہ اس طرح کا لفظ استعمال کرنے سے  اجتناب کرے۔

وإن نوى بأنت علي مثل أمي) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه" (قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه". (الدر المختار مع رد المحتار (3 / 470)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3073/46-4924

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حدیث شریف میں مندرجہ درج ذیل  دعا موجود ہے، اس مسنون دعا کا کثرت کے ساتھ اہتمام کریں ان شاء اللہ ، اللہ تعالی آسانیاں پیدا کریں گے: "اَللّهمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ البَرصِ وَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ مِنْ سَيْئِ الأسْقَامِ". 

نیز مندرجہ ذیل آیاتِ شفاء ہر روز صبح پڑھ کر ایک بوتل  پانی پر دم کرکے دن بھر مریض  کو پلائیں، اس سے بھی افاقہ ہوگا ان شاء اللہ۔

 "وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ. يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ. وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ. يَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُه‘ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ. وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا. وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ. قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَآءٌ".(اعمال قرآنی،ص:29،ط:دار الاشاعت کراچی )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند