نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں سیدھا کھڑا ہونا واجب ہے، اگر دوسرے نمازی سے کندھا یا ٹخنہ ملانے کی سعی کریں گے، تو سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہوگا؛ پس اس قدر مل کر کھڑا ہونا چاہئے کہ خلل درمیان میں نہ ہو۔(۲)
(۲) (قولہ ومنہا القیام) یشمل التام منہ وہو الانتصاب مع الاعتدال وغیر التام وہو الانحناء القلیل بحیث لا تنال یداہ رکبتیہ، وقولہ بحیث إلخ صادق بالصورتین أفادہ ط۔ ویکرہ القیام علی أحد القدمین فی الصلاۃ بلا عذر، وینبغی أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسی إنہ کان یفعلہ کذا في الکبری۔ وما روی أنہم ألصقوا الکعاب بالکعاب أرید بہا الجماعۃ أی قام کل واحد بجانب الآخر کذا في فتاوی سمرقند، ولو قام علی أصابع رجلیہ أو عقبیہ بلا عذر یجوز، وقیل لا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص:۱۳۱)
وقال ﷺ: استووا تستوی قلوبکم وتماسوا تراحموا، وقال ﷺ: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات للشیطان من وصل صفا وصلہ اللہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 415

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عیدین کی نماز میں تاخیر کرنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: بارش یا کسی اور عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز میں ایک دن تاخیر ہو جائے تو دوسرے دن ادا کر لینا جائز ہے اس کے بعد ادا نہیں کر سکتے جب کہ بقر عید کی نماز اگر دوسرے دن ادا نہ کر سکے تو تیسرے دن بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(وتؤخر بعذر) کمطر (إلی الزوال من الغد فقط)‘‘(۱)
’’وتؤخر صلاۃ عید الفطر بعذر کأن غم الہلال وشہدوا بعد الزوال أو صلوہا في غیم فظہر أنہا کانت بعد الزوال فتؤخر إلی الغد فقط لأن الأصل فیہا أن لا تقضی کالجمعۃ إلا أنا ترکناہ بما روینا من أنہ علیہ السلام أخرہا إلی الغد بعذر … الخ‘‘(۲)
وفیہ أیضاً:
’’وتؤخر صلاۃ عید الأضحی بعذر لنفي الکراہۃ وبلا عـذر مع الکراہۃ لمخالفۃ المأثور إلی ثلاثۃ أیام‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لایبقی بعد موتہ، ج ۳، ص: ۵۹۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۶۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۸۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 59

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) شرعی عذر کی بنا پر اگر کوئی شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے قیام کے وقت کھڑا ہونا بھی جائز ہے اور چوں کہ اشارہ سے رکوع، سجدہ کرنے والے شخض سے قیام کا فرض ساقط ہو جاتا ہے اس لیے ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر یا مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود فلو قدر علیہ دون السجود ندب إیماؤہ قاعدا أي لقربہ من السجود و جاز إیماؤہ قائما کما في البحر‘‘(۱)
(۲) جو حضرات شرعی عذر کی بناء پر کرسی پر نماز پڑھیں تو کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس کے پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کی ایڑیوں کے برابر ہوں تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان معذورین کا کندھا دیگر نمازیوں کے کندھے کے برابر میں ہو؛ کیوں کہ حدیث میں صف بندی اور اقامت صفوف کی بڑی تاکید آئی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقیموا الصفوف وحاذوا  بین المناکب و الأعناق‘‘(۱)
(۳) کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص صف کے کسی بھی حصہ میں نماز پڑھ سکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ وہ صف کے کنارے پرنماز پڑھے تاکہ درمیان میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صف میں ٹیڑھا پن اور معمولی خلا سا جو پیدا ہوجاتا ہے وہ نہ ہو اور صف سیدھی معلوم ہو ۔
(۴) ایسے شخص کو صف کے کنارے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے، ہاں صف کی درستگی کے لیے ان کو بہتر انداز میں سمجھا کر صف کے کنارے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، ۱۳۲۔
(۱) محمد بن المالکي، جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد، ’’النوع الثاني في تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۵، ص: ۶۰۹، رقم: ۳۸۶۶۔
قال حدثنا أنس رضي اللّٰہ عنہ أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: راصوّا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق۔ (أخرجہ النسائي   في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: حث الإمام علی رصّ الصفوف والمقاربۃ بینہا‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۸۱۵)
إن کان ذلک الموضوع یصح السجود علیہ کان سجودا وإلا فإیماء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج۲، ص: ۵۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص318

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: لفظ ’’بالساہرہ‘‘ کی جگہ ’’بالساحرہ‘‘ قصداً پڑھا جس سے تغیر فاحش لازم آ گیا اور قرآن پاک میں کسی جگہ موجود بھی نہیں ہے؛ اس لیے نماز نہ ہوگی اس کا اعادہ ضروری ہوگا۔
’’قال في الخانیۃ والخلاصۃ : الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنیٰ، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم: لا تفسد‘‘(۱)

(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ:  تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶۔
الأصل فیہ أي في الزلل والخطاء أنہ إن لم یکن مثلہ أي مثل ذلک اللفظ في القرآن والمعنیٰ أي الحال في أن معنی ذلک اللفظ بعید من معنی لفظ القرآن متغیر معنی لفظ القرآن بہ تغیراً فاحشاً قویاً بحیث لا مناسبۃ بین المعنیین أصلا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المستملي في منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254

The Holy Qur’an & Interpretation

Ref. No. 1129 Alif

 

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

For reciting, listening and memorizing the Holy Quran, it is allowed to download it and keep it in a mobile which is free from songs etc. please note that when the verses of the Quran appear on the screen you must not touch it without wuzu (taharah). The Holy Quran must be fully respected.  

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 38 / 1051

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  زکوۃ کی رقم مستحقین ِ زکوۃ کی ملک میں دینی ضروری ہے،  جب تک مستحقین کی ملکیت میں رقم دے کر ان کو بااختیار نہ بنادیا جائے، اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ لہذا فلاحی اداروں کے لئے لازم ہے کہ وہ رقم کی حیثیت لازمی طور پر معلوم کرلیں ؛ اگر زکوۃ کی رقم  ہے تو اس کو کسی مستحق کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، اس کو رفاہی کاموں میں براہ راست استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر نفلی صدقہ ہے   تو بلاتملیک اس کو رفاہی کاموں میں اور علاج و معالجہ وغیرہ تمام امور میں استعمال کرنا جائز ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر کسی مستحق کی ملکیت میں دینا بھی درست ہے، مگر ایسی چیز خریدنا جائز نہیں  جو کسی ایک مستحق کی ملکیت میں نہ آئے، لہذا ایمبولنس کی گاڑی وغیرہ زکوۃ کی رقم سے خریدنا جائز نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 39/1106

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ہی سے غیر حاجی لوگوں کواپنی قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے   بال و ناخن وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے۔ لیکن حاجیوں کے لئے ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ساتویں ذی الحجہ کو احرام باندھنے سے پہلےتک کاٹ سکتے ہیں؛ حاجیوں کے لئے احرام کے بعد کاٹنا ممنوع ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 951/41-90

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں بھی نماز درست ہوجاتی ہے، لیکن اگر کوئی عذر نہ ہو تو مسجد میں جماعت سے ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ لاک ڈاؤن میں ابھی مسجدیں پورے طور پر نہیں کھلی ہیں، اور کرونا نامی وبا کے خطرات اب بھی ہیں، اس لئے اگر کوئی احتیاط برتتے ہوئے گھر میں نماز پڑھے تو گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1164/42-389

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی مصلحت سے دوسرے کے نام رجسٹری کرادینے سے وہ شخص مالک نہیں ہوجاتاہے۔ بلکہ ہبہ کرکے اس کو قبضہ کرادیا جائے تب ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ محض رجسٹری  سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ تاہم اس کا خیال رہے کہ اگر والد کا انتقال ہوگیا ہے اور جن کے نام رجسٹری ہے وہ ملکیت کا دعوی کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مالک بنادیا تھا تو ظاہر ہے ان کا ہی قول معتبر ہوگا۔ البتہ اگر وہ ملکیت کے دعوی میں غلط  ہوں  گے  تو اس کا گناہ ان کو خود ہوگا اور بروز حشر ان کے لئے یہ وبال جان ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1510/42-989

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح دعا مانگنا  جس میں اپنے زمانہ کے تمام لوگوں کی ہدایت  مراد ہو، ثابت اوردرست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن  اس طرح کی دعاء سے یہ مراد لینا کہ از اول تا آخر سب کو ہدایت ملے تو یہ نصوص کے خلاف ہے؛  ایسی دعا غیرمشروع ہے ۔   

"إن الله تعالى لم يبعثني طعانا ولا لعانا، ولكن بعثني داعية ورحمة، اللهم اهد قومي فإنهم لا يعلمون" (شعب الایمان، فصل فی بیان النبی ﷺ 3/45) والأولى أن يدعى لكل حي بالهداية (فتح الباری لابن حجر، باب اذا القی علی ظھر المصلی قذر 1/352) قال تعالى: فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ {هود:105}، وقال تعالى: وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {هود:119}، وقال تعالى: فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ {الشورى:7}، وقال تعالى: وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {السجدة:13)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند