Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کہنا یا عقیدہ رکھنا حرام ہے، ایسا شخص ایمان سے خارج ہوجاتاہے، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، ایسے شخص پر توبہ اور تجدید ایمان لازم ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کرنے کی ان کے اندرقطعا استطاعت نہیں ہے۔ اور اگر عقیدہ درست ہو؛ لیکن زبان سے یوں ہی کہہ دیا تو بھی گناہ ہے، لیکن ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ (۲)
(۱) الرجل إذا ابتلیٰ بمصیبات متنوعۃ فقال: أخذت مالي وأخذت ولدي وأخذت کذا وکذا فماذا تفعل وما بقي لم تفلعہ وما أشبہ ہذا من الألفاظ فقد کفر، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، قبیل ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶)
تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
روزہ و رمضان
Ref. No. 1882/43-1750
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو روزہ چھوٹ گیاہے اس کی قضا لازم ہوگی، اور اب انڈیا میں موجود ہیں تو انڈیا کے حساب سے روزہ مکمل کرنا ہوگا، گرچہ روزہ تیس سے زیادہ ہوجائے۔ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (سورۃ البقرۃ 185)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قضاء کے معنی فیصلہ کرنا، ادا کرنا، اور انجام دینا ہے۔ اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کار خانۂ قدرت وجود میں لایا گیا، قدر اور تقدیر کے معنی ہیں اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے (۱) جن امور کا اللہ تعالیٰ ازل میں فیصلہ کر چکا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم لگ چکا اسی کو شریعت میں قضاء وقدر سے بھی تعبیر کرتے ہیں، تقدیر کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ اب تک ہوا ہے اور آئندہ ہونے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اندازے اور فیصلۂ ازل کے مطابق ہے، ہر چیز اسی کے ارادہ اور حکم کے تحت وقوع پزیر ہوتی ہے، اس کی مرضی ومشیت کے خلاف ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ہے، ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، نیز قضاء وقدر میں فرق یہ ہے کہ احکام اجمالیہ کلیہ جو ازل میں ہیں وہ قضاء ہے اوراحکام جزئیہ تفصیلہ ہیں جو کلی کے موافق ہوں وہ قدر ہے، قضاء اور قدر ’’سر من أسرار اللّٰہ‘‘ میں سے ہیں جس کی پوری حقیقت کی اطلاع نہ کسی مقرب فرشتہ کو دی گئی اور نہ کسی نبی اور رسول کو؛ اس لئے اس میں زیادہ بحث ومباحثہ اور غور وفکر کرنا عام آدمی کے لئے درست نہیں، حدیث پاک میں اس پر بحث ومباحثہ کرنے سے سخت ممانعت آئی ہے۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم ألا تنازعوا فیہ‘‘(۲)
جہاں تک قرآن وحدیث میں اجمالاً مذکور ہے اسی پر ایمان لانا چاہئے کما حقہ اس کو سمجھنا انسانی طاقت وعقل سے باہر ہے، اسی کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا: جب ایک سائل نے
ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔
’’سأل (رجل) علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ، وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال‘‘(۱) لہٰذا اس کے بارے میں بحث ومباحثہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔
۱) راغب أصفھاني، المفردات: ج۱، ص:۶۰۴، ۷۰۴
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء من التشدید في الخوض في القدر، باب منہ‘‘: ج ۴، ص:
۴۴۳رقم: ۲۱۳۴)
(۳) أیضاً:، رقم: ۲۱۳۳۔
۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹۔
وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (أیضاً:، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ عرس اور مذکورہ سوال کا حکم تو عدم جواز ہی کا ہے اور اس کی اتباع نہیں کرنی چاہئے، منکرات پر عمل کرنا باعث گناہ ہے اور بعض صورتوں میں وہ منکرات میں شمار ہوتا ہے۔(۱) ایسے مجامع کی رونق کے لیے شرکت کر نے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام صاحب اگر دل سے برا جانتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور وہ شرکت کے لیے مجبور ہیں تو ان کے پیچھے پڑھی گئی نماز بلاشبہ ادا ہوگئی امامت کو صورت مسئول عنہا میں ناجائز کہنا درست نہ ہوگا؛ لیکن ان کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اصلاح کی سعی کرتے رہیں مناسب وقت میں لوگوں کو سمجھاتے رہیں اور منکرات پر عمل کرنے کی دنیاء و آخرت میں ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جو کہ باعث فتنہ و فساد بن جائے اور نفرت کا اضافہ ہوجائے کہ اصل حکم سے ہی اعراض کرنے لگیں (جیسا کہ ہوتا ہے کہ نمازی آپ کی حق بات کو نہیں مانتے) تو اس طریقہ سے اسلام کا راستہ محدود ہوجاتا ہے اس لئے اس سے احتراز ہی کرنا ہوگا۔ نیز امام صاحب کے عقائد اگر اسلام کے خلاف اور کفریہ ہوں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے اور جن کے اعمال فسقیہ ہوں ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ دل سے ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعمال سے ہی باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔(۱)
(۱) {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (سورۃ المائدہ: ۲)
(وفاسق وأعمیٰ) ونحوہ الأعشي، نہر، (إلا أن یکون) أي غیر الفاسق (أعلم القوم) فہو أولی (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ، وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ: إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وہي اعتقاد إلخ) عزاہ ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸ - ۳۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا کام کرنے کے متعدد طریقے ہیں نیز ایک ہی جماعت ہر ہر شعبہ میں کام کرے ایسا ہونا بھی مشکل ہے، کوئی کسی شعبہ میں کام کرتا ہے تو کوئی دوسرے شعبہ میں کام کرتا ہے حتی الوسع اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرتے رہنا چاہئے باقی تفصیلات کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاۃ شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)
وذلک الإیمان باللّٰہ، وصفاتہ، وحدوث ما دونہ، وبملائکتہ، وکتبہ، ورسلہ، والقدر، وبالیوم الآخر، والحبّ في اللّٰہ، والبغض فیہ، ومحبّۃ النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلم واعتقاد تعظیمہ، وفیہ الصّلاۃ علیہ، واتّباع سنّتہ، والإخلاص وفیہ ترک الریاء، والنّفاق، والتوبۃ، والخوف، والرجاء، والشکر، والوفاء، والصبر، والرضا بالقضاء، والحیاء، والتوکّل، والرحمۃ، والتواضع، وفیہ توقیر الکبیر، ورحمۃ الصغیر، وترک الکبر، والعجب، وترک الحسد والحقد، وترک الغضب، والنطق بالتوحید، وتلاوۃ القرآن، وتعلم العلم وتعلیمہ، والدعاء، والذکرالخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۷۰؍ ۷۱، رقم: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص313
بدعات و منکرات
الجواب:بقدر ضرورت شرعی علم سیکھنا ضروری ہے یعنی فرض، واجب، عقائد وعبادات سے مطلع ہونا ضروری ہے اور ایسے ہی حلال وحرام کا ضروری علم بھی ہونا چاہئے تاکہ اس کے مطابق عمل کیا جا سکے۔ (۱)
(۱) تزکیۃ الأخلاق من أہم الأمور عند القوم …… ولا یتیسر ذلک إلا بالمجاہدۃ علی ید شیخ کامل قد جاہد نفسہ وخالف ہواہ …… إلی …… ومن ظن من نفسہ أنہ یظفر بذلک بمجرد العلم ودرس الکتب فقد ضل ضلالاً بعیداً فکما أن العلم بالتعلم من العلماء کذلک الخلق بالتخلق علی ید العرفاء فالخلق الحسن صفۃ سید المرسلین الخ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۵۳، ۳۵۴؛ ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۲)
وإذا عرفت ذلک فاعلم أن التصوف شعبۃ من الفقۃ لکون الفقہ عبارۃ عن معرفۃ النفس ما لہا وما علیہا کما حکی عن أبي حنفیفۃ رحمہ اللّٰہ ولا یخفی أن معرفۃ طریق القرب إلی اللّٰہ علماً وعملاً داخل في ذلک بل ہو الفقہ في الحقیقۃ والفقیہ ہو المتقرب إلی اللّٰہ بعلمہ وعملہ لا العالم بالأحکام والدلائل فقط۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۸ - ۴۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص405
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا میں صرف پانی پر اکتفاء کرنا یا صرف پتھر سے پوچھنا (جب کہ نجاست درہم کی مقدار سے زائد نہ ہو) تو دونوں صورتیں جائز ہیں؛ البتہ بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے، نیز فقہاء نے افضل طریقہ لکھا ہے کہ پہلے پتھر یا اس جیسی چیزوں سے نجاست کو پوچھنا چاہئے، پھر پانی سے دھو نا چاہئے، مذکورہ صورت صفائی ستھرائی اور پاکی میں اضافہ کا ذریعہ ہے، ایسے ہی کشف ستر کا خطرہ نہ ہو تو استنجا بالماء افضل ہے اور اگر کشف ستر کا خطرہ ہو تو استنجا بالاحجار کرنا چاہئے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’والاستنجاء بالماء أفضل إن أمکنہ ذلک من غیرکشف العورۃ و إن احتاج إلی کشف العورۃ یستنجی بالحجر ولا یستنجی بالماء کذا فی فتاویٰ قاضیخان‘‘(۱)
’’ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء‘‘(۲)
’’عن أبي سعید عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من اکتحل فلیوتر من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج ومن استجمر فلیوتر، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج، ومن أکل فما تخلل فلیلفظ وما لاک بلسانہ فلیبتلع من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج، ومن أتی الغائط فلیستتر فإن لم یجد إلا أن یجمع کثیبا من رمل فلیستدبرہ فإن الشیطان یلعب بمقاعد بني آدم، من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج‘‘(۱)
’’عن عطاء بن أبي میمونۃ قال سمعت أنسا یقول:کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأتي الخلاء فأتبعہ أنا وغلام من الأنصار بإداوۃ من ماء، فیستنجي بہا‘‘(۲)
’’عن أبي أیوب وجابر بن عبد اللّٰہ وأنس بن مالک الأنصاریین عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذہ الآیۃ {فیہ رجال یحبون أن یتطہروا واللّٰہ یحب المتطہرین} فقال: یا معشر الأنصار إن اللّٰہ تعالی قد أثنی علیکم خیرا في الطہور فما طہورکم ہذا۔ قالوا یا رسول اللّٰہ نتوضأ للصلاۃ ونغتسل من الجنابۃ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہل مع ذلک من غیرہ۔ قالوا لا غیر أن أحدنا إذا خرج من الغائط أحب أن یستنجي بالماء۔ فقال: ہو ذاک فعلیکموہ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث: في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۸۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستتار في الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۹، رقم: ۳۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۵۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳) أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص111
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ کان میںروئی رکھ دیتے ہیںاور روئی میں تری محسوس ہوتی ہے، تو روئی میں لگے اس پانی کا اندازہ کیا جائے اگر وہ اتنا ہو کہ روئی نہ رکھی جائے، تو بہہ پڑے؛ اس قدر پانی کا نکلنا ناقض وضو ہے اور اگر تری کی مقدار اس سے کم ہے، یعنی: اگر روئی نہ رکھیں،تو بھی سیلان نہ پایا جائے؛ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے کہ بظاہر اس میں سیلان نہیں ہے، اگر آپ ہاتھ نہ لے جاتے، تو وہ خود بخو د نہ بہتا۔ ’’ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظہور، وفي غیرہما عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا، کما لو سال في باطن عین أو جرح أو ذکر ولم یخرج، وکدمع وعرق إلا عرق مدمن الخمر فناقض -تحتہ في الشامی- وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا وثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف، فإن کان بحیث لو ترکہ سال نقض وإنما یعرف ہذا بالاجتہاد وغالب الظن، وکذا لو ألقی علیہ رمادا أو ترابا ثم ظہر ثانیا فتربہ ثم وثم فإنہ یجمع۔ قالوا: وإنما یجمع إذا کان في مجلس واحد مرۃ بعد أخری، فلو في مجالس فلا، تاتارخانیۃ، ومثلہ في البحر‘‘۔
أقول: وعلیہ فما یخرج من الجرح الذي ینز دائما ولیس فیہ قوۃ السیلان ولکنہ إذا ترک یتقوی باجتماعہ ویسیل عن محلہ، فإذا نشفہ أو ربطہ بخرقۃ وصار کلما خرج منہ شيء تشربتہ الخرقۃ ینظر، إن کان ما تشربتہ الخرقۃ في ذلک المجلس شیئا فشیئا بحیث لو ترک واجتمع أسال بنفسہ نقض، وإلا لا، ولا یجمع ما في مجلس إلی ما في مجلس آخر، وفي ذلک توسعۃ عظیمۃ لأصحاب القروح ولصاحب کي الحمصۃ‘‘(۱)
(۱)ابن عابدین ، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲-۲۶۳
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص223
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عصر و عشاء سے قبل سنتیں غیر مؤکدہ ہیں جن کے پڑھنے پر ثواب ہوتا ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)
(۱) ترکہ لا یوجب إساء ۃ ولا عتاباً کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵)
وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۱۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قبرستان موقوفہ ہے، تو اس کا یہ تصرف ناجائز ہے وہ اور اس کی مدد کرنے والے گناہ گار ہیں اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۲)
(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص209