اسلامی عقائد

Ref. No. 2487/45-3781

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حساب و کتاب رسید کے ذریعہ ہوتاہے،  اس لئے مدرس یا سفیر نےجو رسید کاٹ دی ہے  اس کا حساب دینا ہوگا، اگر اس نے ادھار رسید کاٹی ہے تو کچھ مزید مہلت لے لے اور انتظامیہ کو چاہئے کہ مہلت دے دے ، اور اگر مہلت کے بعد بھی پیسے وصول نہیں ہوئے تو مدرس و سفیر کی ذمہ داری ہوگی کہ بینہ کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ یہ پیسے وصول نہیں ہوئے ہیں، اور اگر مدرس وسفیر کے پاس کوئی بینہ نہیں ہے تو مدرسہ کو رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور غریب کہا ہے، اسی طرح حاکم اور ذہبی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ امام نووی نے اذکار میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔(۱)

(۱) أبو الحسن عبید اللّٰہ المبارکفوري، مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح: ج ۷، ص: ۳۴۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98

متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد کا نام عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ (۱) (۱) أشرف علي التھانوي، أشرف السوانح، ’’الفصل الأول، السیرۃ الذاتیۃ، اسمہ ونسبہ‘‘: ص:۲۱۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص190

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر وہ کبھی کبھی بطور تعلیم ایسا کرتے ہیں تاکہ جن کو یاد نہ ہو ان کو یاد ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں اور اس کا التزام کرتے ہیں، تو بدعت اور قابل ترک ہے؛ اس لئے بہتر یہ ہے کہ الگ الگ دعا کی جائے۔(۲)

(۲) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا یحیی بن سعید، حدثنا ثور بن یزید، حدثنا خالد بن معدان، عن أبي أمامۃ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رفعت المائدۃ من بین یدیہ، یقول: الحمد للّٰہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مودع ولا مستغنی عنہ ربنا، ہذا حدیث حسن صحیح۔ (رقم: ۳۴۵۶)… حدثنا أبو سعید الأشج قال: حدثنا حفص بن غیاث، وأبو خالد الأحمر، عن حجاج ابن أرطاۃ، عن رباح بن عبیدۃ قال حفص: عن ابن أخي أبي سعید، وقال أبو خالد: عن مولی لأبي سعید عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین۔ (رقم: ۳۴۵۷)
حدثنا محمد بن إسمعیل قال: حدثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقرئ، قال: حدثنا سعید بن أبي أیوب قال: حدثني أبو مرحوم، عن سہل بن معاذ بن أنس، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طعاما، فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حول مني ولا قوۃ، غفر لہ ما تقدم من ذنبہ، ہذا حدیث حسن غریب، وأبو مرحوم اسمہ: عبد الرحیم بن میمون۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۴، رقم: ۳۴۵۸)
حدثني محمد بن المثنی العنزي، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبۃ، عن یزید بن خمیر، عن عبد اللّٰہ بن بسر، قال: نزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي، قال: فقربنا إلیہ طعاما ووطبۃ، فأکل منہا، ثم أتي بتمر فکان یأکلہ ویلقي النوی بین إصبعیہ، ویجمع السبابۃ والوسطی، قال شعبۃ: ہو ظني وہو فیہ إن شاء اللّٰہ إلقاء النوی بین الإصبعین، ثم أتي بشراب فشربہ، ثم ناولہ الذي عن یمینہ، قال: فقال أبي: وأخذ بلجام دابتہ، ادع اللّٰہ لنا، فقال: اللہم، بارک لہم في ما رزقتہم، واغفر لہم وارحمہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب الاستحباب وضع النوی خارج التمر‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰، رقم: ۲۰۴۲)
وفیہ استحباب طلب الدعاء من الفاضل ودعاء الضیف بتوسعۃ الرزق والمغفرۃ والرحمۃ وقد جمع صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذا الدعاء خیرات الدنیا والآخرۃ واللّٰہ أعلم۔ (النووي، شرح النووي علی مسلم، ’’کتاب الأشربۃ، ’’باب استحباب وضع النوی خارج التمر‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص387

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث اور جزئیات فقہیہ میں تصریح کی گئی ہے کہ امام کو نمازیوں کی رعایت ضروری ہے(۱) اور جس امام کی وجہ سے نمازی پریشانی میں مبتلا ہو جائیں، توایسا امام چوں کہ ہدایت نبوی کے خلاف کا مرتکب ہوتا ہے؛ اس لیے وہ قابل عزل ہوگا اور سوال میں لکھی ہوئی وجہ ایسی شرعی وجہ ہے کہ اس پر امام کو معزول کیا جا سکتا ہے۔(۲)

(۱) في الصحیحین إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن فیہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ: مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي‘‘: ۲، ص: ۳۰۴، زکریا دیوبند)
(۲) ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔
لحدیث أبي داؤد لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص45

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2740/45-4263

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مغرب میں تین رکعتیں فرض ہیں ، جب امام نے دو ہی رکعتیں پڑھائیں تو  مغرب کی فرض نماز ہوئی ہی نہیں یعنی نمازیوں کے ذمہ سے فرضیت بھی ساقط نہیں ہوئی ، اس لئے یہ نماز باطل ہوگئی ، اور دوسری نماز ہی درست ہوئی ، لہذا دوسری جماعت میں شریک ہونے والوں کی نماز درست ہوگئی، اور ان سے اعادہ کروانے کی ضرورت نہیں تھی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: زنا فحش کام ہے، ناجائز و حرام ہے، اس کو چھوڑنا اور توبہ واستغفار لازم ہے نماز وغیرہ مذکورہ شخص کی ادا ہوجاتی ہے۔(۲)
(۲) قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۷۰} (سورۃ الفرقان: ۷۰)
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنـب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰؛  و ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کـتـاب الإیمان: باب الإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱، رقم: ۱۵۹)
واتفقوا علی أن التوبۃ من جیمع المعاصي واجبۃ وأنہا واجبۃ علی الفور، ولا یجوز تأخیرہا، سواء کانت المعصیۃ صغیرۃ أو کبیرۃ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التحریم:۶۶‘‘: ج ۱۴، ص: ۱۵۹
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کان بني آدم خطاء، وخیر الخطائین التوابـون۔ أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳۔

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 45

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تہجد کی نماز نفل ہے جس کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے تاہم اگر سنت کہہ کر پڑھ لی تو وہ بھی درست ہے۔ مطلق نیت ہی کافی ہے۔(۱)

(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ … لنفل وسنۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘: ج ۲، ص: ۹۴)
قال الشامي: لأن السنۃ ما واظب علیہا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في محل مخصوص فإذا أوقعہا المصلي فیہ نفذ فعل الفعل المسمی سنۃ والنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن ینوی السنۃ بل الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ وتمام تحقیقہ في الفتح۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے فوراً بعد دعا ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت میں خاص اثر رکھتا ہے، چندہ کی وجہ سے اس فضیلت کو گنوانا درست نہیں ،چندہ دعا کے بعد کرنا چاہئے ہاں اتفاقاً ایسا کبھی ہوجائے تو حرج نہیں۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبات‘‘(۲)
’’حدثنا محمد بن أبي یحي قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأي رجلاً رافعاً یدیہ بد عوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا، قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹، رقم:۳۴۹۹۔
(۱)الطبراني، المعجم الکبیر، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي عن ابن الزبیر: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص447

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز درست ہو جاتی ہے، لیکن سنت طریقہ یہ ہے کامل اور صاف طور پر ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کہے ورنہ سنت کو ترک کرنے والا ہوگا، البتہ اگر وہ ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاف ہے۔(۱)

(۱) قولہ: ہو السنۃ) قال في البحر، وہو علی وجہ الأکمل أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ مرتین، فإن قال: السلام علیکم أو السلام أو سلام علیکم أو علیکم السلام أجزأہ و کان تارکاً للسنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۱، زکریا دیوبند)
وفي القنیۃ: ہو الأصح ہکذا في شرح النقایۃ للشیخ أبي المکارم ویقول السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ ، و آدابھا و کیفیتھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴، زکریا دیوبند)
ثم یسلم عن یمینہ مع الإمام فیقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وعن یسارہ کذلک۔ (شیخ زادہ إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴، بیروت، لبنان)
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان یسلم عن یمینہ وعن یسارہ: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في التسلیم في الصلاۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۵، رقم۲۹۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص124