قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس خط کا تذکرہ فرمایا ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ بلقیس کے نام لکھا تھا، اس خط کے شروع میں  حضرت سلیمان علیہ السلام نے لکھا فرمایا ’’إنہ من سلیمان وإنہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ (۱)  معلوم ہوا کہ ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ اپنے ان ہی الفاظ کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے بھی پہلے سے جاری ہے۔
 نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مقدس نازل ہوا تو ’’بسم اللّٰہ‘‘ سے اور پہلی وحی بھی ’’إقرأ بسم ربک الذي خلق‘‘(۲) ہے، اس میں بھی ’’بسم اللّٰہ‘‘ ہے، مگر ان مشہور الفاظ کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی کسی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلی وحی میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے الفاظ نازل ہوئے ہو سکتا ہے کہ فصل ما بین السورتین کے لیے اس کو پڑھے جانے کا حکم ہوا یا جب دوسری سورت نازل ہوئی، تو فصل کے لئے علیحدہ نازل ہوئی اتنا متعین ہے۔ کہ ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پہلے ہی سے ان ہی الفاظ کے ساتھ رائج تھی اور ذبح کی دعاء اس وقت سے رائج ہے، جب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے کے لئے گلے پر چھری رکھی اور چلائی تھی، پھر ان کی جگہ دنبہ ذبح فرمایا۔ گویا قربانی ہر قوم میں رہی، مگر اس طریقہ رائج کے موافق نہ تھی۔(۳)

(۱) سورۃ النحل: ۳۰۔
(۲) سورۃ العلق:۱۔
(۳) وقال الشعبي: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکتب في بدء الأمر علی رسم قریش باسمک اللہم حتی نزلت، {وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْھَا بِسْمِ اللّٰہِ مَجْراؔھَا} (سورۃ الہود: ۴۱) فکتب باسم اللّٰہ حتی نزلت {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ أَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَط} (سورۃ الإسراء: ۱۱۰) فکتب بسم اللّٰہ الرحمن حتی نزلت آیۃ {اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِہلا ۳۰} (سورۃ النمل: ۳۰)۔ (أبو محمد حسین البغوي، تفسیر بغوي، ’’سورۃ الفاتحہ‘‘: ج ۱، ص:
۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ جماعت سے نہیں پڑھی گئی؛ بلکہ علیحدہ علیحدہ پڑھی گئی، چونکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے آخری وقت میں معلوم کیا تھا کہ آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب غسل وکفن سے فارغ ہوجاؤ، تو میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جانا اور اول اہل بیت کے مرد نماز جنازہ پڑھیں گے، پھر ان کی عورتیں نماز جنازہ پڑھیں گی، پھر تم اور دیگر لوگ، ہم نے عرض کیا کہ قبر میں کون اتارے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت اور ان کے ساتھ ملائکہ ہوں گے۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: لما أرادوا أن یحفروا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم بعثوا إلی أبي عبیدۃ بن الجراح وکان یضرح کضریح أہل مکۃ۔ وبعثوا إلی أبي طلحۃ۔ وکان ہو الذي یحفر لأہل المدینۃ۔ وکان یلحد۔ فبعثوا إلیہما رسولین۔ فقالوا: اللہم خر لرسولک۔ فوجدوا أبا طلحۃ۔ فجيء بہ۔ ولم یوجد أبو عبیدۃ۔ فلحد لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔
قال: فلما فرغوا من جہازہ یوم الثلاثاء وضع علی سریرہ في بیتہ۔ ثم دخل الناس علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أرسالا۔ یصلون علیہ۔ حتی إذا فرغوا أدخلوا النساء۔ حتی إذا فرغوا أدخلوا الصبیان۔ ولم یؤم الناس علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أحد۔
 لقد اختلف المسلمون في المکان الذي یحفر لہ۔ فقال قائلون یدفن في مسجدہ۔ وقال قائلون یدفن مع أصحابہ۔ فقال أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول: ما قبض نبي إلا دفن حیث یقبض۔ قال: فرفعوا فراش رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم الذي توفی علیہ۔ فحفروا لہ ثم دفن صلی اللّٰہ علیہ و سلم وسط اللیل من لیلۃ الأربعاء۔ ونزل في حفرتہ علي بن أبي طالب والفضل بن العباس وقثم أخوہ وشقران مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ وقال أوس بن خولی وہو أبو لیلی لعلي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ: أنشدک اللّٰہ وحظنا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ قال لہ علي: أنزل۔ وکان شقران مولاہ أخذ قطیفۃ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یلبسہا۔ فدفنہا في القبر وقال: واللّٰہ لا یلبسہا أحد بعدک أبدا۔ فدفنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰، رقم: ۱۶۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص193

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کون سی جماعت دین کا کتنا اور کس اہمیت کا کام انجام دے رہی ہے اس سلسلہ میں رجحانات مختلف ہیں، مدارس میں قرآن کریم کی تفسیر، قرآن، حدیث، اصول، فقہ، فتاویٰ اور ان کے مبادیات، ان کے لئے موقوف علیہ نحو و صرف میں تبحر کی تعلیم دی جاتی ہے جس پر دین کی بنیاد قائم ہے اور پھر اس کی تبلیغ و اشاعت کا کام ہوتا ہے ہر زمانے میں اس کام کے کرنے والے موجود رہے ہیں، پس عوام کو مدارس کی تنقیص اور عیوب نکالنا نیز اس طرح کے مسائل میں پڑکر وقت ضائع کرنا درست نہیں ہے اس سے تخریبی ذہن تیار ہوتا ہے جو مذموم اور باعث فساد ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین۔ (أخرجہ الترمذي، فی صحیحہ، ’’أبواب العلم، باب إذا أراد اللّٰہ شر بعبد خیراً فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (’’أیضاً‘‘: باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۱۰)
وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قضاء حاجت کے وقت بیت الخلا یا کھلے میدانوں میں یا جنگلوں میں آپس میں باتیں کرنا انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بد تہذیبی کی بات ہے کہ دو افراد برہنہ ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں، یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔ امام ابن ماجہؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں‘‘۔

’’عن أبي سعید الخدري أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یتناجی إثنان علی غائطہما، ینظر واحد منہما إلی عورۃ صاحبہ، فإن اللّٰہ عز وجل یمقت علی ذلک‘‘(۱)
لہٰذا بیت الخلا میں بات چیت کرنے سے احتراز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ بیت الخلا میں باتیں کرنا شرعاً مکروہ ہے؛ البتہ اگر انتہائی ناگزیر ہو تو مختصر کلام کیا جا سکتا ہے، نیز آج کل بیت الخلا اور غسل خانہ ایک ساتھ اٹیچ ہوتا ہے جہاں رفع حاجت کے علاوہ غسل، وضو، کپڑے دھونا وغیرہ جیسے کام ہوتے ہیں ایسے اٹیچ باتھ روم میں صرف رفع حاجت اور ننگے ہونے کے وقت گفتگو ممنوع ہے دیگر کاموں کے دوران گفتگو کرنا ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ الموسوعۃ الفقہیہ میں مذکورہ ہے:
’’الکلام حال قضاء الحاجۃ وفي الخلاء‘‘ ’’ذہب جمہور الفقہاء من الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ إلی کراہۃ الکلام أثناء قضاء الحاجۃ وفي الخلاء، ولا یتکلم إلا لضرورۃ بأن رأی ضریراً یقع في بئر، أو حیۃ أو غیرہا تقصد إنساناً أو غیرہ من المحترمات فلا کراہۃ في الکلام في ہذہ المواضع‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا: باب النہي عن الاجتماع علی الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۹، رقم: ۲۴۲۔
(۲) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’الکلام حال قضاء الحاجۃ وفي الخلاء‘‘: ج ۳۵، ص: ۱۱۳۔وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، کویت

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص122

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں (جب کہ اس کو ظلماً قتل کردیا گیا) مرنے والا شہید ہے، اسے غسل نہ دیا جائے؛ بلکہ غسل کے بغیر نمازِ جناز پڑھ کر دفنا دیا جائے۔(۱)

(۱) ’’الشھید‘‘ اسم لکل مسلم طاھر مکلّف عند أبي حنیفۃؒ قُتل ظلماً، إما مع أھل الحرب أو مع أھل البغي أو مع قطاع الطریق (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’فصل في الأسباب المسقطۃ لغسل المیت‘‘ ۳؍۱۷ مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛ و أو قتلہ مسلم ظلماً، ولم یجب بقتلہ دیۃ، فیکفن و یصلی علیہ، ولایغسل و یدفن بدمہ و ثیابہ۔ (الحصکفي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’باب الشہید‘‘ ج۱، ص:۲۷۸) ؛ و کذا یکون شھیداً لو قتلہ باغ أو حربي أو قاطع طریق … و یصلی علیہ بلا غسل، و یدفن بدمہ و ثیابہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد،’’ باب الشہید‘‘ج ۳، ص:۱۶۰-۱۶۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی امامت درست ہے، تاہم ختنہ کرانا سنت اور شعائر میں سے ہے۔
’’عن أبي أیوب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أربع من سنن المرسلین الحیاء ویروی الختان، والتعطر، والسواک، والنکاح‘‘ (۱) والختان سنۃ وہو من شعائر الإسلام وخصائصہ فلو اجتمع أہل بلدۃ علی ترکہ حاربہم الإمام‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في فصل التراویح‘‘: ج۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۱۰۸۰۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، مسائل شتی‘‘: ج۹، ص: ۵۲۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سورج طلوع کے وقت کوئی بھی نماز ادا نہیں ہوتی، اس لیے قضاء بھی اس وقت پڑھنی جائز نہیں۔(۲)

(۲) ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أدائہ عند الغروب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في الأوقات التی لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ثلاثۃ أوقات لا یصح فیہا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولہا أي الأوقات المکروہۃ أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۸۵-۱۸۶، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)؛ ثلاثۃ یکرہ فیہا التطوع والفرض وذلک عند طلوع الشمس ووقت الزوال وعند غروب الشمس إلا عصر یومہ فإنہا لا یکرہ عند غروب الشمس۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، المواقیت، نوع آخر: في بیان الأوقات التی یکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳-۱۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 66

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب سے کہا جائے کہ وہ مذکورہ لڑکے سے اذان نہ دلوایا کریں اور اگرامام کی حرکتیں خود ہی خلاف شرع ہوں جن کی بنا پر نمازیوں کو پریشانی اور انتشار ہوتا ہو تو ایسے امام کوعلیحدہ کر دینا چاہیے۔
اور متولی کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ امام کی اعانت یا حمایت کرے۔(۱)

(۱) ویکرہ (أذان الفاسق) ہو الخارج عن أمر الشرع بأرتکاب کبیرۃ: کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ: کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص188

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بغیر کسی عذرِ شرعی کے جب تک آپ کے جسم میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت وقوت ہے، آپ کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں خواہ آپ سفر میں ہوں یا حضر میں، سواری پر سوار ہوں یا زمین پر۔ ہر صورت میں تندرستی کی حالت میں قیام کرنا لازم ہے؛ نیز کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شریعت مطہرہ میں اس لیے ضروری ہے کہ نماز میں قیام کرنا ارکانِ نماز میں سے ہے اور اگر کوئی شخص نماز کے ارکانوں میں سے کوئی رکن چھوڑ دے یا چھوٹ جائے، تو اس صورت میں نماز ادا نہیں ہوتی ہے، بغیر عذر کے قیام کو ترک کرنے پر فرض ساقط نہیں ہوتا بلکہ بدستور اس کی ادائیگی ذمہ میں بر قرار رہتی ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے:
’’من فرائضھا التي لا تصح بدونھا التحریمۃ والخ ومنھا القیام الخ في فرض و ملحق بہ الخ لقادر علیہ‘‘(۱)
’’ومنہا القیام وہو فرض في صلاۃ الفرض والوتر، ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ والسراج الوہاج‘‘(۱)
’’وأیضاً: الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض  و سنۃ، و واجب، ففي الأول أمکنہ التدارک بالقضاء یقضی وإلا فسدت صلاتہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۲۸، ۱۳۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
(۲) أیضًا: ’’الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 328

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ قرأت قدر مایجوز بہ الصلاۃ ہو چکی تھی؛ لیکن اس سے آگے کی قرأت میں ایسی غلطی کی ہو جس سے معنیٰ بدل گئے ہوں کہ کفر کی حد تک ترجمہ ہو جائے تو نماز فاسد ہوگئی اور اعادہ واجب ہوگا۔(۱)

(۱) والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جیمع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳، زکریا دیوبند؛ و إبراھیم الحلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، دار الکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259