Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1606/43-1202
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت نہیں کرسکتاہے۔ کیوں امامت کے شراءط میں سے ہے کہ اما م کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جبکہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔ اس لئے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں۔ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیرمعذورمقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لئے آپ کو اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی وجہ سے ہوجائے گی، البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب و استنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔
قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278)
(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)
وكذا لايصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسة.
قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز لأن الإمام صاحب عذرين والمؤتم صاحب عذر واحد اهـومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اهـ". (شامی (1/ 578)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اس شخص پر توبہ اور استغفار لازم ہے، اس کلمہ کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا۔
’’وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ مؤمن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار الرجوع عن ذلک۔ (۱) قال رجل: یا رب أین ستم مبسند۔ قال بعضہم: یکفر والأصح أنہ لا یکفر الخ‘‘۔ (۲)
لیکن ایسے الفاظ کا استعمال کرنا غلط ہے، پریشانی کی حالت میں بھی صبر کے دامن کو تھامے رکھنا ایک مؤمن کی شان ہے؛ لہٰذا احتیاط کے طور پر تجدید نکاح بھی کر لینا چاہئے۔
’’وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح، وفي الشامي:
وتجدید النکاح أي احتیاطاً کما في الفصول العمادیۃ الخ‘‘ (۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
(۲) أیضاً: ’’منہا ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷۔
اسلامی عقائد
Ref. No. 1982/44-1926
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سوال میں ذکر کردہ جملے کفریہ جملے ہیں، اس لئے عورت پر تجدید ایمان و تجدید نکاح ضروری ہے ۔ بندوں پر لازم ہے کہ مشکلات اور مصائب میں مزید اللہ کی جانب متوجہ ہوں۔ مگر اس عورت نے اللہ پر الزام لگاکر مسئلہ کو اور سنگین بنادیا ۔ دنیا دارالاسباب ہے اور بندوں کو ایک گونہ اختیار دیاگیاہے ، اگر کوئی چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ لے تو اسباب کے درجہ میں ہاتھ کٹ جائے گا، اس میں اللہ پر الزام لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال ان کفریہ جملوں کی وجہ سے تجدید ایمان و تجدید نکاح لازم ہوگیا، اور توبہ کرے کہ آئندہ پھر کبھی ایسی بات زبان پر نہیں لائے گی۔ اللہ ہم سب کا ناصر ومددگار ہو۔
قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ". (شامی 4/ 224)
’’وفي الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمداً لكنه لم يعتقد الكفر، قال بعض أصحابنا: لايكفر؛ لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر، وهو الصحيح عندي؛ لأنه استخف بدينه (البحرالرائق19/488)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے انسان کے بارے میں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ فلاں انسان کب برا کام کرے گا کب نیکی کرے گا کب توبہ کرے گا کس عمل پر اس کو اچھا بدلہ دینا ہے اور کس پر اس کو سزا دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر بات ازل ہی سے ہے، اللہ
تعالیٰ نے ہر انسان کے ہر عمل کو اپنے علم کی وجہ سے پہلے ہی لکھ دیا ہے اب وہ جو بھی کرے گا وہ اس لکھے ہوئے کے مطابق کرے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو لکھے ہوئے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے میں وہ آزاد ہے جو چاہے اپنے اختیار سے کرے؛ لیکن جو بھی وہ عمل کرے گا وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ اس کو لکھ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ خالد نے مثلاً کل اپنے اختیار سے سفر کیا اخبار والوں کو اس کا سفر معلوم ہوگیا انہوں نے اخبارات میں شائع کردیا کہ کل خالد سفر کرے گا انہوں نے اپنے علم کی وجہ سے لکھ دیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ کہ کل خالد جو سفر کرے گا وہ اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے مجبور ہوکر کرے گا سفر اس کا اپنے اختیار سے ہوگا البتہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سفر نہیں بھی ہوسکتا اخبارات کی خبر خلاف واقعہ ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ ان کے علم کی کمی ہے۔ ان کو حادثہ کا ہونا یا نہ ہونا معلوم نہیں اس لئے وہ اس کی خبر نہیں دے سکتے اللہ تعالیٰ کو وہ حادثہ بھی معلوم ہے بہر حال تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہئے نیز مسئلہ ذرا باریک ہے۔ اور غور طلب ہے۔ اور سمجھنے کا ہے اس لئے اس میں زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں {مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِيْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَاط} (۱) دوسری جگہ ہے: {إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍہ۴۹} (۲)
(۱) سورۃ الحدید: ۲۲۔
(۲) سورۃ القمر: ۴۹۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 1 ص 188)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں پر اگر بتی جلانا یا پھول ڈالنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اس لیے بدعت کہا جائے گا جو قابل ترک ہے، دفن کرنے کے بعد قبر پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں ہے کہ اس میں اشتباہ ضرور ہے۔
اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعاء ہی کرنی ہو تو قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کی جائے۔(۱)
(۱) فما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت وغیرہا وینقل إلی ضرائح الأولیاء تقربا إلیہم فحرام بإجماع المسلمین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۱)
ویستحب …… بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فقد یثبت أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ أول سورۃ البقرۃ عند رأس میت وآخرہا عند رجلیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہر فاطمی مقرر کرنا مستحب؛ بلکہ مسنون اور باعث خیر وبرکت ہے،(۱) جن لوگوں نے مہر فاطمی مقرر کیا ہو، ان کا بائکاٹ یہ کہہ کر کرنا کہ ہمارے مقرر کردہ ضابطوں کے خلاف ہے اور برادری کے خلاف کیا ہے، یہ بہت ہی غلط ہے، ایسا کرنے والے ظالم اور سخت گنہگار ہیں ان کو اپنا ضابطہ ہی ایسا مقرر کرنا چاہئے تھا، جو کہ شریعت کے مطابق ہو اور شریعت میں اس کی نظیر موجود ہو ایسا عرف ورواج جو شرعی اصولوں سے ٹکراتا ہو قابل رد اور قابل ترک ہے۔ البتہ اگر اتنی وسعت نہ ہو تو مہر اس سے کم حسب حیثیت مقرر کر لیا جائے؛ لیکن برادرانہ طور پر عرف نہ بنایا جائے۔(۲)
(۱) یستحب کون الصداق خمسمائۃ درہم۔ (النووي، شرح المسلم، ’’کتاب النکاح: باب الصداق، وجواز کونہ تعلیم قرآن‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۷)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دار العلوم وقف دیوبندج1 ص461
طلاق و تفریق
Ref. No. 2557/45-3911
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے جب پہلی بار لکھا 'طلاق' تو اس سے ایک طلاق واقع ہوئی، پھر اس نے لکھا 'اب یہی باقی تھا ۔ ۔ طلاق' تو اگر اس سے تاکید مراد تھی تو اس کی بات قبول کی جائے گی اور اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی، پھر جب عورت نے نہ آنے کی بات کہی تو اس نے کہا'نہیں تو جا طلاق' تو اس سے اب دوسری طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، عدت کے اندر شوہر رجعت کرسکتاہے، نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر شوہر نے آئندہ ایک طلاق دی تو عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ درج ذیل اشیاء سے استنجا کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: ہڈی کھانے کی چیزیں، لید اور تمام ناپاک چیزیں اور وہ ڈھیلا یاپتھر جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو یعنی ناپاک ہو، پختہ اینٹ، شیشہ، کوئلہ، چونا، لوہا، چاندی، سونا وغیرہ اور ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست کو صاف نہ کریں، جیسے: سرکہ وغیرہ یا ایسی چیزیں جن کو جانور وغیرہ کھاتے ہوں، جیسے: بھوسہ اور گھاس وغیرہ،یا ایسی چیزیں جو قیمت والی ہوں، چاہے قیمت تھوڑی ہو یا زیادہ، جیسے: کپڑا،یعنی ایسا کپڑا جس کو اگر استنجا کے بعد دھویا جائے، تو اس کی قیمت میں کمی آجائے، جیسے: ریشم وغیرہ کا کپڑا، ان سے استنجا کر نا درست نہیں ہے۔ مزید تفصیلات فتاویٰ ہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔(۱)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تسنجو بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد اخوانکم من الجن‘‘(۲)
اسی طرح آدمی کے اجزاء، جیسے: بال، ہڈی، گوشت، مسجد کی چٹائی یا کوڑا یا جھاڑو ،درختوں کے پتے، کاغذ چاہے لکھا ہو یا سادہ، زمزم کا پانی، بغیر اجازت دوسرے کے مال سے چاہے وہ پانی ہو یا کپڑا یا کوئی اور چیز، روئی اور تمام ایسی چیزیں جن سے انسان یا جانور نفع اٹھائیں،ایسی تمام چیزوں سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر: (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۳)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ، قالت: قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۴) ’’إن لماء زمزم حرمۃ فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مج في دلو زمزم ثم أمر بإفراغہ في بئر زمزم، فعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: جاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلیٰ زمزم فنزعنا لہ دلواً، فشرب ثم مج فیہا، ثم أفرغناہازمزم، ثم قال: لولا أن تغلبوا علیہالنزعت بیدي‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک، قال: کان أبو ذر یحدث أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فرج عن سقف بیتي وأنا بمکۃ، فنزل جبریل علیہ السلام ففرج صدري، ثم غسلہ بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذہب ممتلئ حکمۃ وإیمانا، فأفرغہ في صدري، ثم أطبقہ، ثم أخذ بیدي، فعرج بي إلی السماء الدنیا، فلما جئت إلی السماء الدنیا، قال جبریل: لخازن السماء افتح، قال: من ہذا؟ قال ہذا جبریل۔۔۔۔۔۔الخ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا، باب کراہیۃ الاستنجاء بالیمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’ما یجوز بہ الاستنجاء و ما لا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
(۴) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الخامس ‘‘: ج ۵، ص: ۴۶۷۔(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۳۴۹۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص113
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خون نکلنے اور بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ لیکن احناف کے نزدیک اگر اتنا خون بدن سے نکلے کہ وہ بہہ جائے یا بہہ سکے تو وہ ناقض وضو ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل حدیث شریف ہے: ’’أنہ علیہ الصلاۃ قاء فلم یتوضأ‘‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو نہیں کیا، اس سے معلوم ہوا کہ سبیلین کے علاوہ سے اگر کوئی چیز نکلے، تو وہ ناقض وضو نہیں ہے۔ احناف کی دلیل دوسری حدیث ہے: ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ (۲) کہ بہنے والا خون ناقض وضو ہے، احناف کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو حدیث دلیل کے طور پر پیش کی ہے، وہ غیر معروف ہے(۳)
اور اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے، تو اس کا مفہوم دوسری روایات کے سامنے رکھتے ہوئے یہ ہے کہ ’’من قاء أو رعف في صلاتہ فلینصرف ولیتوضأ ولیبن علی صلاتہ ما لم یتکلم‘‘ (۱) کہ اگر نماز میں کسی کو قے یا نکسیر آجائے، تو وہ وضو کر کے آئے اور بنا کر لے شرط یہ ہے کہ اس نے کلام؛ یعنی: نماز کے منافی کوئی دیگر کام نہ کیا ہو؛ اس حدیث میں واضح ہو گیا کہ اگر نکسیر، یعنی: غیر سبیلین سے خون نکلنا ناقض وضو نہ ہوتا، تو نماز چھوڑ کر وضو کرنے کے لیے جانے کا حکم نہ دیا جاتا۔ احناف کی تیسری دلیل یہ ہے کہ بدن سے نجاست کا نکلنا زوال طہارت کے لیے مؤثر ہے اور خون نجاست ہے: ’’وأما الفرع فیہ فہو الخارج من غیر السبیلین وذلک، لأن علمائنا اعتبروا فاستنبطوا أن الخارج من السبیلین کان حدثا لکونہ نجساً خارجاً من بدن الإنسان من قولہ تعالیٰ: {أو جاء أحد منکم من الغائط} (الآیۃ) وہونص معلوم بذلک الوصف لظہور أثرہ في جنس الحکم المعلل بہ وہو إنتقاض الطہارۃ بخروج دم الحیض والنفاس، و وجدوا مثل ذلک في الخارج من غیر السبیلین فعدوا الحکم الأول إلیہ۔
(۲) و أما حدیث ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ فرواہ الدار قطنی من طرق ضعیفۃ، و رواہ ابن عدي في الکامل من أخری، و قال: لا نعرفہ إلا من حدیث أحمد بن فروخ، وھو ممن لا یحتج بحدیثہ؛ ولکنہ یکتب؛ فإن الناس مع ضعفہ قد احتملوا حدیثہ اھـ لکن قال ابن أي حاتم في کتاب العلل، قد کتبنا عنہ، و محلہ عندنا الصدق۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۴۰-۴۱)؛ و قال ابن حجر في الدرایۃ: حدیث ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ الدار قطنی من حدیث تمیم الداري و فیہ ضعف و انقطاع، ومن حدیث زید بن ثابت أخرجہ ابن عدي في ترجمۃ أحمد بن الفرج۔ (المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الطھارۃ ج ۱، ص:۲۲)
(۳)قال ابن الھمامؒ: أما حدیث ’’أنہ علیہ السلام قاء، فلم یتوضأ‘‘ فلم یعرف (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات‘‘، ج ۱، ص:۴۰)؛ وقال ابن حجرؒ في الدرایۃ في تخریج احادیث الہدایہ: حدیث کتاب الطہارات ’’أن النبي ﷺ قاء، فلم یتوضأ‘‘ لم أجدہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج ۱، ص:۲۲)
(۱)حدیث ’’من قاء أو رعف في صلاتہ الخ رواہ ابن ماجہ من حدیث عائشۃؓ بلفظ: ’’من أصابہ قئ أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف، فلیتوضأ ثم لیبن علی صلاتہ، وھو في ذلک مالا یتکلم۔ و أخرجہ الدار قطني نحوہ، و في إسنادہ اسماعیل بن عیاش، و روایتہ من غیر الشامیین ضعیفۃ، و ھذا منھا۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ج ۱، ص:۲۲)؛ و أما حدیث ’’من قاء أو رعف الخ فرواہ ابن ماجہ عن اسماعیل بن عیاش عن إبن جریح عن ابن أبي ملیکۃ عن عائشۃ قالت: قال ﷺ: من أصابہ قيء أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلاتہ وھو في ذلک لایتکلم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص224
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: زوجہ اگر شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تو شوہر پر لازم ہے کہ اس کے لیے الگ مکان کا انتظام کرے خواہ پورا مکان الگ ہو یا صحن ایک ہو کمرہ الگ ہو(۱) اس مقصد کے لیے اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ آمدنی کی خاطر (وقف بورڈ) میں ملازمت کرنا اور تعویذ و عملیات کی اجرت لینا جائز اور درست ہے۔ شرط یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا نہ لے۔
(۱) وکذا تجب لہا السکنی في بیت خال عن أہلہ لأنہا تتضرر بمشارکۃ غیرہا فیہ لأنہا لاتأمن علی متاعہا ویمنعہا ذلک من المباشرۃ مع زوجہا ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلک لأنہا رضیت بانتقاص حقہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في مسکن الزوجۃ‘‘ ج ۵، ص: ۳۲۰، زکریا)
قال العینی کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم، فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الائمۃ الأربعۃ: وفیہ جواز أخذ الأجرۃ، قال محمد في المؤطأ: لا بأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داؤد في سننہ، ’’کتاب الطب، باب الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص84