نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جب امام محراب میں کھڑا ہوکر نماز پڑھائے، تو قدموں کا کچھ حصہ محراب سے باہر ہونا چاہئے اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر برآمدہ یا صحن میں نماز ہو رہی ہو، تو پوری مسجد برابر ہے اس کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے بس امام اپنی جگہ پر مقتدیوں سے الگ ہو۔(۱)
(۱) وحقیقۃ اختلاف المکان تمنع الجواز فشبہۃ الاختلاف توجب الکراہۃ والمحراب وإن کان من المسجد فصورتہ وہیئتہ اقتضت شبہۃ الاختلاف اہـ ملخصا. قلت: أی لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکانا آخر فأورث الکراہۃ، ولا یخفی حسن ہذا الکلام فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقا، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذی یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ تأمل اہـ (تنبیہ) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
فالحاصل أن مقتضی ظاہر الروایۃ کراہۃ قیامہ في المحراب مطلقا سواء اشتبہ حال الإمام أو لا وسواء کان المحراب من المسجد أم لا وإنما لم یکرہ سجودہ في المحراب إذا کان قدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم في مکان الصلاۃ حتی تشترط طہارتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: تغمیض عینیہ في الصلوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اور موسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن رہتا ہو وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جدا جد ہوں وہاں کے اوقات نماز کے پیش نظر اپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کر لیں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر پانچوں فرض نمازیں ادا کریں۔ مثلاً اگر قریب ترین معتدل علاقے میں نمازِ مغرب نوبجے ہوتی ہے اور عشاء ساڑھے دس بجے تو اِن میں بھی مغرب اور عشاء بالترتیب ۹؍ بجے اور ساڑھے دس بجے پڑھی جائے؛ کیوں کہ اسراء و معراج والی حدیث میں وارد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایک دن اور ایک رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کرواتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دن اور رات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے گویا یہ پچاس نمازیں ہیں‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سورہ کہف کی تلاوت کیا کرو یہ تمہیں دجال سے بچائے گی اس پر صحابہؓ نے پوچھا کہ دجال کتنے دن رہے گا آپ نے فرمایا چالیس دن ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہوگا ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے اس پر صحابہؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تم اندازا لگا کر نماز پڑھنااس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جن علاقوں میں دن اوررات چھ مہینہ کا ہوتاہے وہاں ایک دن کی نماز کافی نہیں ہوگی، بلکہ قریب ترین ممالک کو دیکھ کر نماز کے اوقات طے کئے جائیں گے۔(۱)
ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الدجال، فقال: إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم، وإن یخرج ولست فیکم فامرؤ حجیج نفسہ، واللّٰہ خلیفتی علی کل مسلم، فمن أدرکہ منکم فلیقرأ علیہ بفواتح سورۃ الکہف، فإنہا جوارکم من فتنتہ قلنا: وما لبثہ في الأرض؟ قال: أربعون یوما: یوم کسنۃ، ویوم کشہر، ویوم کجمعۃ، وسائر أیامہ کأیامکم فقلنا: یا رسول اللّٰہ، ہذا الیوم الذي کسنۃ، أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ولیلۃ؟ قال: لا اقدروا لہ قدرہ‘‘(۲)
’’وحاصلہ أنا لا نسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ بل یکفی تقدیرہ کما في أیام الدجال۔ ویحتمل أن المراد بالتقدیر المذکور ہو ما قالہ الشافعیۃ من أنہ یکون وقت العشاء في حقہم بقدر ما یغیب فیہ الشفق في أقرب البلاد إلیہم والمعنی الأول أظہر، کما یظہر لک من کلام الفتح الآتی حیث ألحق ہذہ المسألۃ بمسألۃ أیام الدجال‘‘(۱)

 

(۱) قال الرملي في شرح المنہاج ویجري ذلک فیما لو مکثت الشمس عند قوم مدہ: اھـ۔
قال في إمداد الفتاح قلت: وکذلک یقدر لجمیع الآجال کالصوم والزکاۃ والحج والعدۃ وآجال البیع والسلم والإجارۃ وینظر ابتداء الیوم فیقدر کل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب ما یکون کل یوم من الزیادۃ والنقص کذا في کتب الأئمۃ الشافعیۃ ونحن نقول بمثلہ إذ اصل التقدیر مقول بہ اجماعاً في الصلوات۔ (ابن عـابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ مطلب: في طلوع من مغربہا: ج ۱، ص: ۳۶۵)
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم :باب خروج الدجال‘‘: ج۲، ص: ۵۹۳، رقم: ۴۳۲۱۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب في فاقد وقت العشاء کأہل بلغار‘‘ ج۲، ص: ۱۹۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 60

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تندرست شخص کے لیے نماز کی حالت میں قیام کرنا فرض ہے، اگر آپ بیٹھ کر سواری میں نماز ادا کریں گے تو آپ کی نماز درست نہیں ہوگی؛ نیز موجودہ دور کی بڑی سواری مثلاً: ریل گاڑیوں میں قبلہ رو ہوکر نماز اداء کرنے میں اور قیام کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی عام طور پر نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے ان جگہوں پر تو نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ بس، کار اور بائک وغیرہ میں سفر کے دوران اگر ممکن ہو تو نماز کے وقت ان گاڑیوں کو روک کر کے نماز اداء کرلیں ورنہ بعد میں اداء کریں، ایسے ہی ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ سفر کے بعد نماز ادا کرلی جائے ؛کیوں کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اس لیے اگر تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہیں ہوتی ہے، اور ہوائی جہاز میں قیام ایسے ہی قبلہ کی طرف رخ اور سجدہ وغیرہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے سفر کے بعد فرض اور وتر کی قضاء کریں۔
خلاصہ: مذکورہ صورتوں کے مطابق اگر نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار اور بس کا ڈرائیور بس نہ روکے اور ہوائی جہاز پرواز کر رہا ہو) ادھر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو آپ فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لیں اور جب آپ گاڑی سے اتر جائیں اس کے بعد آپ پر فرض نماز اور وتر کی قضا لازم ہوگی۔
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب البحر الرائق میں لکھا ہے:
’’وفي الخلاصۃ: وفتاوی قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالی لاتجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ ‘‘(۱)
’’(من فرائضہا) … (ومنہا القیام) (في فرض) (لقادر علیہ)، في الشامیۃ تحتہ، (قولہ: القادر علیہ) فلو عجز عنہ حقیقۃ وہو ظاہر أو حکما کما لو حصل لہ بہ ألم شدید أوخاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ الخ‘‘(۱)
’’وفیہ أیضاً: وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضو في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ‘‘(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۲۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص320

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام دونوں کے مخرج سے واقف نہ ہو اور دونوں میں فرق نہ کر سکتا ہو، تو نماز ادا ہو جائے گی، لیکن اگر جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی۔(۲)

(۲) وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص255

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 926

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: دعوی بلا دلیل معتبر نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 949/41-93

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, in this case you have to do Sajda-e Sahw at the end as you have followed your imam in salam by mistake.  

ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الفتاوی الھندیۃ 1/98)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ بعض ناعاقبت اندیش یا فرق ضالہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے واقعات اور کہانیاں گڑھ کے پیش کردیتے ہیں، جو سنہرے نظر آتے ہیں؛ لیکن براہِ راست عقائد پر ان کی زد پڑتی ہے جیسا کہ ایک نصیحت بھی سالہا سال سے چلی آرہی ہے اور لوگ چھپوا چھپوا کر تقسیم کرتے ہیں؛ لیکن وہ ایک یہودی کی ایجاد ہے جس نے مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کے لئے خواب گھڑا۔ سوال میں تحریر کردہ صورت اس سے ملتی جلتی ہے جس پریقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ صورت حال واقعی من گھڑت ہے۔ رہی روٹی سے شفا ہوجانے کی بات تو اس میں بڑا دخل قوت ارادی کو بھی ہوتا ہے، یقین کے ساتھ یہ کہنا کہ یہ روٹی ہی باعث شفا بنی مشکل ہوگا اور شرعی ضابطہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس پر عمل کیا جائے، بلکہ اس کو پھیلنے سے روکا جائے۔(۱

(۱) نیز ایسی باتوں کی اشاعت نہ کی جائے اس سے فتنہ کا اندیشہ ہے اور ہر وہ چیز جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو وہ قابل اشاعت نہیں ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب قائم کیا ہے ’’باب من خص بالعلم قوماً دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا‘‘ اس باب کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کو نقل کیا ہے ’’وقال علي -رضي اللّٰہ عنہ- حدثوا الناس بما یعرفون أتحبون أن یکذب اللّٰہ ورسولہ‘‘ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب من خص بالعلم قوماً دون قوم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴، رقم: ۱۲۷)

وقال العیني: أي کلموا الناس بما یعرفون أي بما یفہمون والمراد کلموہم علي قدر عقولہم وفي کتاب العلم لآدم بن أبي إیاس عن عبد اللّٰہ بن داود عن معروف فما آخرہ ودعوا ما ینکرون أي ما یشتبہ علیہم فہمہ۔

أن یکذب: وذلک لأن الشخص إذا سمع مالا یفہمہ ومالا یتصور إمکانہ یعتقد استحالتہ جہلا فلایصدق وجودہ فإذا أسند إلی اللّٰہ ورسولہ یلزم تکذیبہا۔ (بدر الدین العینی، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب من خص بالعلم قوما دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1991/44-1938

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Reciting the Holy Qur’an, zikr and azkar, nafl prayer or fasting, tawaf, umrah and hajj, sacrifice, and giving charity to the poor and the needy for isale sawab is correct according to the Shariah, and the reward of all these deeds reaches the deceased. Those doing it also get full reward. This is the view of Ahlus Sunnat wal-Jama'at. And there are many hadiths in this regard.

عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما» (سنن أبي داود (4/ 336)

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً". ( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١٢، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

"قال الخطابي: وفیه دلیل علی استحباب تلاوة الکتاب العزیز علی القبور؛ لأنه إذا کان یرجی عن المیت التخفیف بتسبیح الشجر فتلاوة القرآن سورة یٰس يخفف الله عنهم یومئذ". (عمدة القاری علي صحيح البخاري   ، کتاب الوضوء ، باب من الکبائر أن لایستتر من بوله، ٢ / ٥٩٨)

"فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ أَوْ الْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ: أَحَدُهُمَا: عَنْ نَفْسِهِ، وَالْآخَرُ: عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ آمَنَ بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَبِرِسَالَتِهِ» صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرُوِيَ «أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: إنَّ أُمِّي كَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ». وَعَلَيْهِ عَمَلُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ لَدُنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَيْهَا، وَالتَّكْفِينِ، وَالصَّدَقَاتِ، وَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَجَعْلِ ثَوَابِهَا لِلْأَمْوَاتِ، وَلَا امْتِنَاعَ فِي الْعَقْلِ أَيْضًا؛ لِأَنَّ إعْطَاءَ الثَّوَابِ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى إفْضَالٌ مِنْهُ لَا اسْتِحْقَاقَ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَى مَنْ عَمِلَ لِأَجْلِهِ بِجَعْلِ الثَّوَابِ لَهُ، كَمَا لَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ بِإِعْطَاءِ الثَّوَابِ مِنْ غَيْرِ عَمَلٍ رَأْسًا". (البحر الرائق، كتاب الحج، فَصْلٌ نَبَاتَ الْحَرَمِ، ٢ / ٢١٢)

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة". ( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٣/ ٥٩)

"فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء کان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدکم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبو یه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور )

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے تو حسب وضاحت مفسرین و متکلمین اس کے شقی و سعید یعنی جنتی و جہنمی ہونے کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کو مجبور محض کردیا جاتا ہو کہ وہ جو چاہے کرے جہنمی ہی ہوگا اس کا عمل کارآمد نہ ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ جو کام ہوگا اللہ تعالیٰ کو اس کے بارے میں پورا علم ہے کہ بندہ دنیا میں کیا کرے گا۔

اچھے کام کرے گا یا برے کام کرے گا اس کا علم خدا تعالیٰ کو بدرجہ اتم ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اپنی عقل وسمجھ سے برے کام کرے یا بھلے، جنت حاصل کرنے کے لئے عبادت و ریاضت کرے یا جہنم کی طرف لے جانے والے کفر وشرک یا گناہ کا ارتکاب کرے بندہ کو اس میں پورا اختیار ہے وہ جو بھی کرنے کا ارادہ کرے گا اس کو اس کے لئے سہل کردیا جائے گا لیکن بندہ اپنے اختیار سے اچھا برا جوبھی کرے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم پہلے سے ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے ہی لکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں جہل و خطاء کا شائبہ بھی ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے باخبر ہوتے ہوئے جو لکھ دیا ہے وہی ہوگا الحاصل بندہ مجبور محض نہیں یہ معمولی  وضاحت آپ کے سمجھنے کے لیے کردی گئی ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر کے مسئلہ پر بہت زیادہ تفصیل کو پسند نہیں فرمایا ہے اور اگر آپ طالب علم ہیں تو معتبر کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)

۱) سأل (رجل) علي بن أبي طالب، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

وعن سہل بن سعد رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: إن العبد لیعمل عمل أہل النار، وإنہ من أہل الجنۃ، ویعمل عمل أہل الجنۃ، وإنہ من أہل النار، وإنما الأعمال بالخوا تیم، متفق علیہ۔ (أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۰رقم: ۸۳)

وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-، وہو الصادق المصدوق: إن خلق أحدکم یجمع في بطن أمہ أربعین یوما نطفۃ، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یبعث اللّٰہ إلیہ ملکا بأربع کلمات: فیکتب عملہ، وأجلہ، ورزقہ، وشقيّ، أو سعید، ثم ینفخ فیہ الروح، فوالذي لا إلہ غیرہ إن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل النار فیدخلہا۔ وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل الجنۃ فیدخلہا، متفق علیہ۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۸۲)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص190)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بزرگ کے محض قیام پر وہاں ان کا مزار بنا لینا سخت گناہ ہے(۱) اور پھر وہاں پر چڑھاوے، نذر ونیاز وغیرہ بھی سخت گناہ ہیں(۲) البتہ اس جگہ پر جو مسجد ہے اس میں نماز پڑھنا درست ہے، لیکن وہ عام مسجد کی طرح ہے اس میں نماز پڑھنے پر کسی مخصوص ثواب کا استحقاق نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ صرف تین مساجد کی فضیلت حدیث سے ثابت ہے ان کے علاوہ کسی بھی مسجد کی کوئی مخصوص فضیلت نہیں ہے۔

(۱) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
قال الکمال: لا یدفن صغیر ولا کبیر في البیت الذي مات فیہ فإن ذلک خاص بالأنبیاء علیہ السلام بل یدفن في مقابر المسلمین۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۱۲)
(۲) بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کر کے صرف علماء ومشائخ ہی کو قبلۂ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق نہیں کرتے ہیں یہ اصلی مرض یہود ونصاری کا ہے۔ (مفتی محمد شفیع عثمانی، معارف القرآن ، ج:۱، ص: ۳۳۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص373