نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک مغرب سے قبل نفل پڑھنا مکروہ اس وجہ سے ہے کہ مغرب میں تعجیل کا حکم ہے؛ لیکن جب کہ آپ کے یہاں تاخیر ہوتی ہی ہے، تو آپ بھی دو رکعت نفل ادا کرسکتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ ثلٰثاً لمن شاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کم بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، نعیمیہ دیوبند)
فرجحت الحنفیۃ أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنۃ، وکرہوا التنفل قبلہا، لأن فعل المباح والمستحب إذا أفضیٰ إلی الإخلال بالسنۃ یکون مکروہاً، ولا یخفیٰ أن العامۃ لو اعتادوا صلاۃ رکعتین قبل المغرب لیخلون بالسنۃ حتما، ویؤخرون المغرب عن وقتہا قطعاً، وأما تو تنفل أحد من الخواص قبلہا ولم یخل بسنۃ التعجیل فلا یلام علیہ ،لأنہ قد أتی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم‘‘۔
فحاصل الجواب أن التنفل قبل المغرب مباح في نفسہ، وإنما قلنا بکراہتہ نظراً إلی العوارض، فالکراہۃ عارضۃ، ولا منافاۃ بینہما۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأوقات المکروہۃ‘‘: ج۲، ص: ۶۹، اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص374

Travel

Ref. No. 1175 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the actual fare is 5 rupees, then you don’t have to do anything more. It is the mistake of conductor that he gave you ticket of 7 rupees. But if the actual fare is 7 rupees, then you have to pay him 2 rupees more. If it is not possible to pay him, then you should give 2 rupees in charity.  And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 932 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر نیت اپنے مال کی زکوۃ نکالنے کی ہے، تو دوسرے کا نام لکھوانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، زکوۃ ادا ہوجائے گی اور ثواب اسی کو ملے گا جس نے اپنی زکوۃ اداکی ہے۔ والد مرحوم کو بھی  اگر  ثواب پہنچائے تواس میں  کوئی حرج نہیں ہے۔ والد مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے نفلی صدقہ بھی کرتا رہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/998

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ  اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/1004

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احد کی دال پر تنوین ہے اور تنوین میں  نون ساکن ہوتا ہے اور ساکن کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اس کو اگلے حرف سے ملانا ہو تو اس ساکن پر کسرہ پڑھاجاتا ہے(الساکن اذا حرک حرک بالکسر)۔  اس لئے احدُنِ اللہ پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نماز درست  ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 946/41-88

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسکول ، کالج ،مدارس یا کمپنی میں جو لوگ مستقل ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں وہ اصطلاح میں اجیر خاص کہلاتے ہیں، جب تک ادارہ یا کمپنی کی طرف سے تنخواہ نہ دینےیا اجارہ کے سلسلے میں کسی نئے اصول کی کوئی وضاحت نہ کردی جائے وہ اپنی ملازمت پر باقی ہیں ،اجیر خاص وقت کا پابند ہوتا ہے،وقت گزرنے پروہ تنخواہ کا مستحق ہوجاتا ہے خواہ ا س وقت میں اس سے کام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔لاک ڈاؤن میں جو ملازمین اپنے ادارے سے وابستہ تھے اور کام پر جاناچاہتے تھے ؛لیکن ملکی قانون کی بنا پر خود ادارے یا کمپنی نے ان سے کام نہیں لیا ہے جب کہ بعض ملازمین ادارے میں حاضر تھے یا اپنے گھروں میں تھے لیکن کام پر آنا چاہتے تھے تو بظاہر ملازمین کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی ہے اس لیے ملازمین اپنی تنخواہ کے مستحق ہوں گے۔
تاہم یہاں ایک سوال بہت اہم ہے جو ادارے اور کمپنیوں کی طرف سے تنخواہ نہ دینے کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تو ہم کہاں سے دیں گے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ملازمین، ملازمت کے باقی ہونے کی وجہ سے تنخواہ کے مستحق ہیں اورادارہ نے صراحت کے ساتھ ملازمت کا معاملہ ختم نہیں کیا ہے اس لیے وہ عرف کے مطابق ملازمت پر باقی مانے جائیں گے  ظاہر ہے کہ کمپنی یا ادارہ ان کو برطرف بھی نہیں کرسکتا ہے اس لیے کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعدادارہ اور کمپنی کو ان ملازمین کی ضرورت ہوگی چوںکہ ملازمین ادارہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بغیر ادارے کا کوئی بھی عمل بحال نہیں ہوسکتاہے اس لیے ایسا کیا جاسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں جو ادارے مکمل تنخواہ دے سکتے ہیں وہ مکمل دیں اور جو مکمل نہیں دے سکتے ہیں جزوی تنخواہ دے سکتے ہیں وہ فی الحال اتنی دے دیں اور باقی سہولت ہونے کے بعد دے دیں ،یافی الحال کچھ بھی نہیں دے سکتے ہیں تو کچھ بھی نہ دیں لیکن جب مدرسہ یا اسکول بحال ہوجائے تو گزشتہ مہینوں کی تنخواہ قسط وار حسب سہولت اداکردی جائے ۔
ملازمین کے سلسلے میں حدیث میں بڑی اہم ہدایات دی گئی ہیں ، ہمیں وہ پیش نظر رہنی چاہئیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ملازم تمہارے بھائی  ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہےپس جو تم کھاؤ وہ انہیں بھی کھلاؤ اور جو تم پہنو وہ انہیں بھی پہناؤ ان پر طاقت سے زیادہ کا بوجھ مت ڈالو،اور اگر اس کی ضرورت ہی پڑ جائے تو ان کا تعاون کرو۔حاصل یہ ہے کہ کمپنی یا ادارے کا ملازمین کو موجودہ حالات میں مکمل برطرف کردینا ،یا بالکل تنخواہ نہ دینا ،شرعا اور اخلاقا درست نہیں ہے ۔ملازمین کا تعاون ہی کیا جانا چاہیے اوراگر کسی مجبوری کی بناء پرملازم کے لیے کوئی نیا ضابطہ طے کرنا پڑے تو جس وقت نئے ضابطہ کی اطلاع دی گئی اس وقت سے ملازم نئے ضابطہ کا پابند ہوگا۔

 قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم، فأطعموهم مما تأكلون، وألبسوهم مما تلبسون، ولا تكلفوهم ما يعنيهم (1)، فإن كلفتموهم فأعينوهم"(سنن ابن ماجہ٤/٦٤٨)(والأجير الخاص) - ويسمى أجير واحدٍ أيضا - هو (الذي) يعمل لواحد عملا موقتا بالتخصيص، ومن أحكامه أنه (يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة) المعقود عليها (وإن لم يعمل) وذلك (كمن استؤجر شهراً للخدمة أو لرعي الغنم) ؛ لأن المعقود عليه تسليم نفسه، لا عمله،(اللباب شرح الكتاب 2/94) الاجير يستحق الاجرة اذا كان في مدة الاجارة حاضرا للعمل و لا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له ان يمنع عن العمل واذا منع لا يستحق الاجرة ومعني كونه حاضرا للعمل ان يسلم نفسه للعمل و يكون قادرا في حال تمكنه من ايفاء ذلك العمل (دررالحكام شرح مجلة الاحكام " مادة 470،ا/٣٨٧)الاجیر الخاص من یستحق  الاجرۃ بتسلیم النفس و بمضی المدۃ و لایشترط العمل فی حقہ لاستحقاق  الاجرۃ۔ (تاتارخانیۃ١٥/٢٨١)
 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 1096/42-276

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The minimum amount of Mahr is 10 Dirhams. But the Mahr amount is often negotiated between the parents or guardians of the bride and groom. If the Mahr is excessive to the groom, he or his guardians can talk to bride’s guardian and set the amount which is easily payable for the groom. If the Mahr is set by the mutual concern of both parties, the groom should pay the Mahr to his bride at earliest. The Mahrshould not be set so high for the sake of fame that it becomes difficult for the groom to pay.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 1604/43-1158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح منعقد ہونے کے لئے ایجاب و قبول ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول نہیں پایا گیا۔ صرف عورتوں کا آپس میں بات کرنا اور کچھ لوگوں کا نکاح کی بات سن لینا کافی نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا نکاح کردے تو بھی ان کی اجازت ضروری ہے جو یہاں مفقود ہے۔ اس لئے  صورت بالا میں نکاح منعقد نہیں ہوا۔

(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك (و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال (شامی، کتاب النکاح 3/9)

فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - -  وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹائی عیسائیوں کے مذہبی شعار کی حیثیت سے وجود میں آئی تھی پھر عیسائی اس کو پوری دنیا میں عام کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بلا تفریقِ مذہب اکثریت نے اس کااستعمال شروع کردیا، ہوتے ہوتے وہ ایک فیشن بن گیا، آج بہت سے ٹائی لگانے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کس کی ایجاد اور کس کا شعار ہے؛ لہٰذا ٹائی کے استعمال کرنے والوں کے احوال وکوائف سے ٹائی کا حکم مختلف ومتعدد ہو جاتا ہے۔

(۱) کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ یہ عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اور جس عقیدہ کی بناپر انہوں نے اس کو شعار بنایا اس عقیدہ کو بھی یہ شخص درست سمجھتا ہے اور اسی کے اثبات کے طور پر یہ شخص ٹائی استعمال کرتا ہے تو یہ شخص خارج از اسلام ہے۔

(۲) کوئی شخص یہ سمجھے کہ یہ آج بھی عیسائیوں کا شیوہ ہے اور ان کی مشابہت کو باعث فخر سمجھ کر اس کو استعمال کرتا ہے ایسا شخص کراہت تحریمی کا مرتکب ہے۔

(۳) کوئی شخص یہ جانے کہ یہ ان کا شعار تھا؛ لیکن اب ان کے شعار کے ساتھ مخصوص نہیں رہا؛ بلکہ ایک فیشن ہے اور صرف فیشن کے طور پر استعمال کرے، ان کے عقیدے سے بیزار ہو، تو جائز ہے لیکن ترک اولیٰ ہے۔

(۴) کوئی شخص یہ نہ جانے کہ یہ کس کا شعار تھا؟ کیوں تھا؟ بس دیکھا دیکھی ویسے ہی استعمال کرتا ہے، تو اس کے لئے اس کا استعمال جائز ہے؛ لیکن خلاف اولیٰ ہے، پس بہتر یہ ہے کہ اس کا استعمال ترک کردے۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من تشبّہ بقومٍ فہو منہم) رواہ أحمد، وأبوداود۔

(وعنہ): أي عن ابن عمر (قال: قال رسول اللہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- (من تشبّہ بقومٍ): أي من شبَّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف،  والصلحاء الأبرار (فہو منہم): أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہذا عامٌ في الخلق والخُلُق والشعارِ، ولما کان الشعارُ أظہر في التشبہ ذکِرَ في ہذ الباب قلت: بل الشعار ہو المراد بالتشبُّہ لا غیر فإنَّ الخُلْق الصوري لا یتصوّرُ في التشبّہ، والخلق المعنويِّ لا یقال في التشبُّہِ بل ہو التخلُّقُ، ہذا وقد حکي حکایۃ غریبۃً ولطیفۃً عجیبۃً، وہي أنَّہُ لما اغرق اللّٰہ -سبحانہُ- فرعونَ وأٓلہ لم یغرق مسخرتہُ الذي کان یحاکي بسیدنا موسیٰ -علیہ الصلاۃ والسلام- في لبسہ وکلامہ ومقالاتہ، فیضحک فرعون وقومُہُ من حرکاتہ وسکناتہ؛ فتضرع موسیٰ إلي ربہ: یا ربِّ! ہذا کان یؤذي أکثر من بقیۃ آلِ فرعون، فقال الرَّبُّ تعالیٰ: ما أغرقنا؛ فإنہ کان لابساً مثل لباسِک، والحبیبُ لا یعذبُ من کان علی صورۃ الحبیب، فانظر من کا متشبہاً بأہل الحق علی قصد الباطل حصل لہ نجاۃ صوریَّۃٌ، وربما أدت إلی النجاۃِ المعنویۃ، فکیف بمن تشبَّہُ بأنبیائہ و أولیائہِ علی قصدِ التشرف  والتعظیم۔ (ملا علي قاري،  مرقاۃ المصابیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۲۲۲، رقم: ۴۳۴۷)

 

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 177/43-1518

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن لوگوں نےدھوکہ دیا اور تکلیف دی ان کے لئے  بد دعا  کرنے سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کردیں  اور تکلیف پر صبر کریں۔ تکلیف پر صبر کرنا ان سے انتقام لینے کا بہترین ہتھیار ہے ۔ تاہم اگر آئندہ دوبارہ تکلیف پہونچنے کا اندیشہ ہو تو ان سے  بات چیت کم رکھیں اور احتیاط برتیں ، تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ آپ کو ہمت دے۔

فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل ولاتستعجل لھم (سورۃ الاحقاف 35)

وافوض امری الی اللہ  ان اللہ بصیر بالعباد (سورۃ الغافر 44)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند