Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:داڑھی کٹانا یعنی ایک مشت سے کم کرنا، نماز چھوڑ نا، وی سی آر، پکچر وغیرہ دیکھنا یہ افعال موجب فسق ہیں جو شخص ایسے افعال کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد: ہکذا في الذخیرۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وکذا یکرہ أذان الفاسق ولا یعاد أذانہ لحصول المقصود بہ۔ (عالم بن علاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص189
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 329
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی۔(۲)
(۲) وینبغي أن لا تفسد، ووجہہ أنہ لیس بتغیر فاحش لعدم کون اعتقادہ کفراً مع أنہ لا یخرج عن کونہ من القرآن۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۸، دار الکتاب دیوبند)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان صاحب نے آپ کو غلط مسئلہ بتایا اور آپ کا عمل صحیح ہے، عصر سے پہلے چار رکعت یا دورکعت پڑھنا سنت غیر موکدہ ہے۔ فقہاء ا حناف نے اس کو مستحب نمازوں میں شامل کیا ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں روایات کا تذکرہ کیا ہے۔
’’أخرج أبو داود وأحمد وابن خزیمۃ وابن حبان في صحیحیہما والترمذي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: رحم اللّٰہ امرأً صلی قبل العصر أربعا، قال الترمذي: حسن غریب، وأخرج أبو داود عن عاصم بن ضمرۃ عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین ورواہ الترمذي وأحمد فقالا: أربعا بدل رکعتین‘‘(۱)
(قولہ ویستحب أربع قبل العصر) لم یجعل للعصر سنۃ راتبۃ لأنہ لم یذکر في حدیث عائشۃ المار۔ بحر۔ قال في الإمداد: وخیر محمد بن الحسن والقدوري المصلي بین أن یصلي أربعا أو رکعتین قبل العصر لاختلاف الآثار‘‘(۲)
(۱) ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، مکتبہ الاتحاد دیوبند۔)(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر و النوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۲ ، زکریا دیوبند۔)
وندب الأربع قبل العصر أو رکعتان۔ (عبد الرحمن بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۱۰۵، دار البیروتی، دمشق، سوریہ)
أما الأربع قبل العصر فلما رواہ الترمذي وحسنہ عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل العصر أربع رکعات یفصل بینہن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تبعہم من المسلمین والمؤمنین وروی أبو داؤد عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین، فلذا خیرہ في الأصل بین الأربع وبین الرکعتین والأفضل الأربع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص375
اسلامی عقائد
Islamic Creed (Aqaaid)
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 940
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: گردن پر مسح کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، اس باب میں جو احادیث ملتی ہیں ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے، اس لئے احناف کے نزدیک گردن پر مسح کرنا سنت نہیں ہے، ہاں البتہ مستحب ہے؛ کبھی کرلے اور کبھی چھوڑدے، اس کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 1003
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر دوران نماز سترکا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ کھُل جائے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ناف سے لیکر گھٹنے تک پورا ستر ہے جس کا چھپانا فرض ہے، اس کا خیال رکھنانماز کی صحت کے لئے ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 39 / 905
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کی تنخواہ حلال ہے، تاہم کسی دوسری مناسب ملازمت وغیرہ کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 40/999
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، جب تک قرآن پاک بند ہو اسکرین پر کھلاہوا نہ ہو تو اس کا حکم قرآن جیسا نہیں ہوگا، البتہ اگر قرآن اسکرین پر کھلاہوا ہو تو اسکرین کو بلا وضو ہاتھ نہ لگائے اور اس طرح بیت الخلاء میں نہ لے کرجائے۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند