Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی، اس سے معنی میں بھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، چند الفاظ کے چھوٹ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔(۱)
(۱) فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنیٰ کثیراً وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنیٰ عندہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)
فالعبرۃ في عدمہ الفساد عدم تغیر المعنیٰ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲، مکتبہ الاتحاد دیوبند)
وإن ترک کلمۃ من آیۃ فإن لم تغیر المعنیٰ مثل: وجزاء سیئۃ مثلہا بترک سیئۃ الثانیۃ لا تفسد، وإن غیرت مثل فمالہم یؤمنون بترک لا، فإنہ یفسد عند العامۃ؛ وقیل لا، والصحیح الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶،زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص256
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 971 الف
الجواب
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جب تک ہوا نکلنے کا یقین نہ ہو صرف شک اور وہم ہوتے رہنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسکی پرواہ نہ کریں۔ جب یقین ہو تو وضو کرلیا کریں اور بادی کا علاج کرائیں اور ریاح پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کریں ۔ ہاں اگر واقعی ریاح خارج ہوتی ہے اور نماز کا کوئی وقت کامل ایسا گذرگیا جس میں باوضو فرض نماز پڑھنا ممکن نہیں ہوا تو پھر آپ معذور ہیں، وقت ہوجانے پر وضو کرلیں، اور جتنی نمازیں چاہیں اس وقت میں پڑھیں، اور آپ معذور اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ایک نماز کا کامل وقت اس عذر سے خالی نہ گذر جائے۔ ولایصیر معذورا حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملا لیس فیہ انقطاع بقدر الوضوء والصلوۃ۔ نور الایضاح ص51
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 927
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایجاب و قبول ایک بار کافی ہے؛ تین بار کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قبول ہے، منظور ہے، قبول کیا، وغیرہ کوئی بھی جملہ جس سے قبول کرنا معلوم ہوتا ہو کہا جاسکتا ہے، نکاح ہوجائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 39/1080
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Your wudhu is not broken unless the vaginal discharge appears on the outer part of vagina. If you merely feel any discharge during namaz and you are not sure then continue your namaz and check after namaz if there is any spot. If there is nothing then you have nothing to do but if you find any spot on body or cloths then wash the smeared area and repeat the wudhu and namaz.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 41/1002
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ان کو پالنے کا طریقہ معلوم ہے اور مناسب انتظام کرسکتے ہیں تو پالنے کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 948/41-89
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت حیض میں نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، البتہ جب تک عورت حالت حیض میں رہے گی، شوہر کے لئے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ لڑکی والوں کو نکاح کا دن متعین کرنے سے قبل گھر کی عورتوں سے اس سلسلہ میں اندازہ معلوم کرلینا چاہئے۔
وأما نحو الحيض والنفاس والإحرام والظهار قبل التكفير فهو مانع من حل الوطء لا من محلية العقد فافهم. (الدرالمختار ج3/ص4)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1990/44-1937
بسم اللہ الرحمن الرحیم: نماز کے شرائط میں سے وقت کا ہونا بھی ہے۔ اور نمازی کو نماز شروع کرنے سے پہلے وقت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ لیکن گاؤں میں لوگ اس سلسلہ میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ، اس لئے اس طرح کا اعلان کرنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور کسی دن اعلان نہ ہونے پر ہنگامہ برپا نہ کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2276/44-2432
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی، ہاں، اس سلسلہ میں صریح احادیث موجود ہیں کہ مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں ایک لاکھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 1406)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ
و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 1413)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا رُزَيْقٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَلْهَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ .
فتح الملھم: (باب فضل الصلاۃ بمسجدي مكۃ و المدينۃ، 301/6، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی) لاحتمال ان حديث الاقل قبل حديث الاكثر ثم تفضل الله بالاکثر شيئا بعد شيء ويحتمل ان يكون تفاوت الاعداد لتفاوت الاحوال۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور خیر القرون سے اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر یا حضرت خدیجہ، حضرت زینب دختر رسول کی قبروں پر یا حضرات صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر یا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبروں پر پھول چڑھائے ہوں ان میں تو عشق ومحبت حقیقی اور جبلّی تھی، وہ ثواب اور خیر کے کاموں میں سبقت بھی کرنے والے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے قبروں پر پھول نہیں چڑھائے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کھجور کی دو ٹہنیاں گاڑدی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پھول ڈالے جاسکتے ہیں، اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ امت کو بھی قبر پرکھجور کی ٹہنی ہی گاڑنی چاہئے جو حدیث سے ثابت ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جن کی قبروں پر کھجور کی ٹہنیاں گاڑی گئی اس میں ان دونوں میتوں کو عذاب ہو رہا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں: ’’إني مررت بقبرین یعذبان فأحببت بشفاعتي أن یرفہ ذاک عنہما مادام الغصنان رطبین‘‘(۱) کہ میں دو قبروں کے پاس سے گزرا ان دونوں میتوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کے ذریعہ یہ پسند کیا کہ جب تک ٹہنیاں تر رہیں ان دونوں سے عذاب کی کمی ہو۔
اس صحیح روایت سے بصراحت معلوم ہوا کہ عذاب ہلکے ہونے کا اصل سبب آپ کی شفاعت تھی، ٹہنیاں تو صرف ایک علامت کے طورپر تھیں۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ عذاب کے ہلکے ہونے کا اصل سبب ٹہنیوں کا سبز ہونا تھا، اور یہی چیز پھولوں میں بھی پائی جاتی ہے، تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوسکتا ہے کہ جن کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہو، جیسے گنہگار اور فاسق وفاجر لوگوں کی قبروں پر سبز شاخیں کھجور کی گاڑی جائیں، اولیاء اللہ کی قبروں کے ساتھ یہ معاملہ (نعوذ باللہ) رکھنے والوں کا کیا یہ عقیدہ ہوسکتا ہے؟ ہم تو اہل اللہ کو جنتی سمجھتے ہیں جو جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے معطر ہیں۔(۲)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الزہد والرقاق، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ أبي الیسر‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۹، رقم: ۳۰۱۳۔
(۲) إعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو باطل وحرامٌ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصوم: باب ما یلزم الوفاء بہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۳)
قبر پر پھول چڑھانا نادرست ہے۔ (فتاوی رشیدیہ: ص: ۲۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص374
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر یا اسی طرح دیگر کسی تقریب کے موقع پر پھولوں کا ہار ڈالنے کی گنجائش ہے کہ اس سے خوشی کا اظہار مقصود ہوتا ہے؛ نیز یہ کسی قوم کا تہذیبی شعار نہیں ہے ہاں اس میں اسراف فضول خرچی اور ریا ونمود سے پرہیز کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کو لازم وضروری سمجھنا غلط ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب ما جاء في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹)
قال القاري: أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم، أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ (بذل المجہود، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص463