Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب و باللہ التوفیق : مذکورہ حلال جانوروں کا جھوٹا پاک ہے، اس سے وضوء جائز اور درست ہے اور اس کو پینا درست ہے۔(۱)
(۱) و أما سؤر ما یؤکل لحمہ فلأنہ متولد من لحم طاھر فأخذ حکمہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۲۳)، و سؤر الآدمي وما یؤکل لحمہ طاھر لأن المختلط بہ اللعاب و قد تولد من لحم طاھر فیکون طاھرا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل في الآسار وغیرہا،ج۱، ص:۱۱۲)؛ إن السؤر یعتبر بلحم مسئرہ فإن کان لحم مسئرہ طاھرا فسؤرہ طاھر، أو نجسا فنجس، أو مکروھا فمکروہ، أو مشکوکا فمشکوک۔(ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ٹوائلٹ پیپر کا استعمال جائز ہے، اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے اور پانی نہ بھی استعمال کیا جائے تو بھی ٹوائلٹ پیپر سے استنجا کے بعد نماز صحیح ہوجائے گی؛ البتہ اگر نجاست اپنے مخرج سے ایک درہم سے زائد تجاوز کر گئی ہو، تو پانی کا استعمال ضروری ہوگا، صرف پیپر کا استعمال کافی نہ ہوگا۔
’’یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والجلد وما أشبہہا … ثم الاستنجاء بالأحجار إنما یجوز إذا اقتصرت النجاسۃ علی موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعہا بأن جاوزت الشرج اجمعوا علی أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسۃ إذا کانت أکثر من قدر الدرہم یفترض غسلہا بالماء‘‘(۱)
’’کان عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا بال قال: ناولني شیئا أستنجی بہ قال: فأناولہ العود والحجر أو یأتي حائطا یتمسح بہ أو یمسہ الأرض ولم یکن یغسلہ۔ وہذا أصح‘‘(۲)
’’(ویجب) أي یفرض غسلہ (إن جاوز المخرج نجس)‘‘ (۳)
نیز جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی وغیرہ سے استنجا کرنے کے سلسلے میں ایک ضابطہ یاد رکھیں کہ: استنجا کرنا ہر ایسی چیز سے درست ہے جس میں نجاست کو دور کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ قابل احترام بھی نہ ہو، پھر عام طور پر نجاست کو دور کرنے کے لئے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں یا استعمال کئے جاتے ہیں، پہلا: یہ کہ نجاست کو بہا دے اور دوسرا نجاست کو جذب کرلے اگر مارکیٹ میں موجود جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی میں نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے، تو شریعت مطہرہ نے ان سے اور ان جیسی چیزوں سے استنجا کرنے کی اجازت دی ہے اور استعمال کرنے کو جائز لکھا ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ الکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان قالعا للنجاسۃ غیر متقوم‘‘(۴)
’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۱)
’’فعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ، قالت: قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ماورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۴۰۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۴) نجم الحسن أمروہوي، نجم الفتاوی: ج ۲، ص:۱۴۹، ۱۵۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما یجوز بہ الاستنجاء بہ ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص115
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان مذکورہ صورتوں میں آنکھوں میں پانی نکل آئے یا بغیر درد اور تکلیف کے کسی طرح سے آنکھوں سے پانی نکل آئے، تو ان صورتوں میں وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ وضو باقی رہتا ہے، البتہ آنکھ دکھنی آئی ہو یا کوئی درد یا تکلیف ہو، جس کی وجہ سے چکنا پانی یا پیپ نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے:
’’کما لا ینقض لو خرج من أذنہ ونحوہا کعینہ وثدیہ قیح ونحوہ کصدید وماء سرۃ وعین لا بوجع، و إن خرج بہ أي بوجع نقض؛ لأنہ دلیل الجرح فدمع من بعینہ رمد أو عمش ناقض الخ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذھبہ،‘‘ ج۱، ص:۲۷۹)، و في المنیۃ عن محمدؒ إذا کان في عینہ رمد و تسیل الدموع منھا آمرہ بالوضوء لوقت کل صلوۃ؛ لأني أخاف أن یکون ما یسیل منھا صدیدا فیکون صاحب عذر الخ۔ (أحمد بن محمد الطحاوي، حاشیۃ الطحاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل نواقض الوضوء،‘‘ ص:۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص227
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور پورے بدن پر پانی بہانا فرض ہے، وضو کے فرائض اس میں خود بخود ادا ہو جاتے ہیں اور غسل سے پہلے وضو کرنا مسنون ہے، فرض نہیں ہے۔ لہٰذا اس غسل سے نماز اور تلاوت وغیرہ کرنا درست ہے۔(۱)
(۱)عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا أن النبي ﷺ کان لا یتوضأ بعد الغسل (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في الوضو بعد الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۰) ؛ و یقول القاضي و في العارضۃ: لم یختلف أحد من العلماء في أن الوضوء داخل في الغسل۔ (محمد یوسف بن محمد، معارف السنن، ’’باب ما جاء إذا التقی الختانان وجب الغسل‘‘ ج ۱، ص:۳۶۸مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند) أخرج الطبراني في الأوسط: عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من توضأ بعد الغسل فلیس منا: والظاھر أن عدم استحبابہ لو بقی فتوضأ إلی فراغ الغسل۔ فلو أحدث قبلہ ینبغي إعادتہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ )
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص299
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے امام صاحب خشوع وخضوع کی وجہ سے اور ذہنی انتشار سے حفاظت کی غرض سے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھاتے ہیں تو یہ مکروہ نہیں ہے، تاہم بغیر کسی عذر اور ضرورت کے نماز میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا اور پڑھانا دونوں مکروہ ہے۔
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید حلیۃ وبحر‘‘(۲)
(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قام أحدکم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔ قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھا لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ در۔ أو قصد قطع النظر عن الأغیار والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم، قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلوۃ، بیان مایستحب ومایکرہ في الصلوۃ‘‘: ج۱، ص:۵۰۷۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلوۃ، ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص87
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ آخری صف میں یا جہاں کنارے پر جگہ ہو وہاں نماز ادا کریں ان شاء اللہ ان کو جماعت اور صف اول کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول وبہ أخذ أبوحنیفۃؒ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 417
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:مختار مذہب یہ ہے کہ تہجد کا وقت نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے خواہ اس سے پہلے سویا ہو یا نہ سویا ہو (سونا شرط نہیں ہے) ہاں سونے کے بعد اٹھ کر پڑھنا بہتر ہے۔(۱)
(۱) عن الحجاج بن عمرو المازني قال: أیحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ تلک کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ الطبراني، في معجمہ: ج ۸، ص: ۲۹۲، رقم: ۸۶۷۰)(شاملہ)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 63
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض وواجبات اور فجر کی سنتوں میں قیام فرض ہے، دیگر سنتوں اور نوافل میں قیام فرض نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی شدید تکلیف یا مجبوری ہو جس کی وجہ سے آدمی کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو فرائض، واجبات اور سنت فجر میں قیام اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے۔(۳) لہٰذا اگر نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جائیں تو درست ہوجاتے ہیں(۴) البتہ کھڑے ہونے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیٹھ کر نوافل سے آدھا ثواب ملتا ہے۔(۵)
(۳) منہا القیام في فرض وملحق بہ کنذر وسنۃ فجر في الأصح لقادر علیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص: ۱۳۱)
(۴) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعدا لامضطجعا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، بحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳)
(۵) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قاعدا فلہ نصف أجر القائم۔ ( مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب القصد في العمل، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰، رقم: ۱۲۴۹)
وکذا في ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص322
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں معنی میں تغیر فاحش ہونے کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہوگئی ہے۔(۱)
(۱) فالعبرۃ في عدم الفساد عدم تغیر المعنی (ابن الھمام، فتح القدیر’’باب صفۃ الصلا‘‘: ج۱، ص: ۳۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1014 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صور ت مسئولہ کے متعلق فتاوی محمودیہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
"جو غلطی منافی صلوۃ ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر معنی بکڑنے سے نماز فاسد ہوگئی تھی تو اس لفظ کا صحیح طور پر اعادہ کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوئی، بلکہ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ عالمگیری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صحیح ہوجائے گی۔ ہمارے اکابر اس کو نفل وتراویح وغیرہ پر حمل کرتے ہیں۔ وسط کلمہ پر سانس توڑنے سے خواہ تشہد وغیرہ میں معنی صحیح رہیں یا بگڑیں سب کا ایک حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ ج 11 ص206 مطبوعہ مکتبہ محمودیہ میرٹھ2009ء)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند