Marriage (Nikah)

Ref. No. 1095/42-277

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

One can spend according to their ability and status. It is reprehensible to spend too much amount on loans only for the sake of fame. However, due to the high expenditure of a few people, this thing becomes common in the society, and people look at these arrangements in every marriage, and if one cannot manage due to lack of means, it would be a disgrace in the society. And then people are forced to go under debt and manage according to society. So spending the least is convenient to all types of people. The marriage conducted with simplicity is source of more blessings.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

بدعات و منکرات

Ref. No. 1609/43-1315

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

الجواب وباللہ التوفیق:۔ بزرگان دین،و اولیائے کرام اور دیگر نیک وپرہیزگار بندوں کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا کرنے کی گنجائش ہے ۔  مثلاً یوں کہے: اے اللہ! اپنے اولیا کے طفیل یا فلاں بزرگ کے طفیل میری دعا قبول فرما،  اس طرح وسیلہ سے دعا کی جاسکتی ہے، البتہ  کسی خاص نام کے ساتھ دعا میں وسیلہ اسی کو بنایاجائے جس کے بارے میں عنداللہ مقبولیت کا یقین ہو۔  عنداللہ مقبولیت کسی  کے سلسلہ میں معلوم نہیں ، اس لئے مطلقا دعا کی جائے کہ یا اللہ اپنے بزرگ اور پرہیزگار بندوں کے طفیل میری فلاں ضرورت پوری فرما وغیرہ۔ بہرحال  صورت مسئولہ میں  اس طرح نام کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا درست  نہیں؛اس سے احتراز کیا جائے۔ کسی کی عقیدت میں غلو کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ جاری رکھاگیا تو اندیشہ ہے کہ آئندہ چل کر وسیلہ  درمیان سے ساقط ہوجائے اور براہ راست اسی بزرگ سے دعا کی جانے لگے اور اسی کو مشکل کشا سمجھاجانے لگے جیسا کہ بیشتر مزارات کی تاریخ بہت افسوس ناک ہے۔

وبعد هذا كله أنا لا أرى بأسا في التوسل إلى الله تعالى بجاه النبي صلّى الله عليه وسلّم عند الله تعالى حيا وميتا - - - - إلهي أتوسل بجاه نبيك صلّى الله عليه وسلّم أن تقضي لي حاجتي، إلهي اجعل محبتك له وسيلة في قضاء حاجتي، ولا فرق بين هذا وقولك: إلهي أتوسل برحمتك أن تفعل كذا إذ معناه أيضا إلهي اجعل رحمتك وسيلة في فعل كذا، ۔ ۔ ۔ أن التوسل بجاه غير النبي صلّى الله عليه وسلّم لا بأس به أيضا إن كان المتوسل بجاهه مما علم أن له جاها عند الله تعالى كالمقطوع بصلاحه وولايته، وأما من لا قطع في حقه بذلك فلا يتوسل بجاهه لما فيه من الحكم الضمني على الله تعالى بما لم يعلم تحققه منه عز شأنه،(تفسیر الآلوسی – روح المعانی سورۃ المائدۃ 27 3/297)

وأما التوسل بالصالحین فمنہ ما ثبت فی الصحیح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي اللہ عنہ․ وقال عمر رضی اللہ عنہ: اللہم إنا نتوسل إلیْک بعم نبینا (فتاوی رشیدیہ 142)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کے کلام میں صراحت ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال ایمان واسلام کا ہو، تو ایک احتمال کو ترجیح دی جائے گی، اگر کسی درجہ میں بھی اسلام کا پہلو سامنے رہے، تو اس کو ہی اختیار کیا جائے، حدیث شریف سے بھی اس کی نزاکت معلوم ہوتی ہے کہ کفر ایسی چیز ہے، اگر کسی نے کسی کو کافر کہہ دیا، تو یا تو وہ کافر ہے، جس کو کافر کہا گیا ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے، تو یہ کفر قائل کی طرف لوٹ جائے گا؛ اس لئے کسی کو کافر کہنے سے قبل خود اسی سے اس کے عقیدے کی وضاحت طلب کر لینی بہتر ہے۔ (۱)

عن عبد اللّٰہ بن دینار أنہ سمع ابن عمر -رضي اللّٰہ عنہما- یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما إمرئ قال لأخیہ: یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال و إلا رجعت علیہ: (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۶۰)

قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لاعباً کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ کما صرّحَ بہ في الخانیۃ، و من تکلم بہا مُخطِئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عامداً عالماً کفر عند الکلِّ، ومن تکلم بہا اختیاراً جاہلاً بأنہا کفرٌ ففیہ اختلافٌ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

Miscellaneous

Ref. No. 1994/44-1941

If the children can learn the following dua they should do and read this dua as often as possible. And you too can recite it and pray for them. The dua is:

الَّلهُمَّ مَتِّعْنا بأسْمَاعِناَ، وأبْصَارناَ، وِقُوّتِنا مَا أحييْتَنَا، واجْعَلْهُ الوَارِثَ منَّا

O Allah, grant us the benefit of our ears, our eyes, and our physical strength as long as You keep us alive, and continue to do so after us.

وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قَلَّمَا كَانَ رسول الله ﷺ يَقُومُ مِنْ مَجْلس حَتَّى يَدعُوَ بهؤلاَءِ الَّدعَوَاتِ الَّلهمَّ اقْسِم لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا تحُولُ بِه بَيْنَنَا وبَينَ مَعاصيك، وَمِنْ طَاعَتِكَ ماتُبَلِّغُنَا بِه جَنَّتَكَ، ومِنَ اْليَقيٍن ماتُهِوِّنُ بِه عَلَيْنا مَصَائِبَ الدُّنيَا، الَّلهُمَّ مَتِّعْنا بأسْمَاعِناَ، وأبْصَارناَ، وِقُوّتِنا مَا أحييْتَنَا، واجْعَلْهُ الوَارِثَ منَّا، وِاجعَل ثَأرَنَا عَلى مَنْ ظَلَمَنَا، وانْصُرْنا عَلى مَنْ عادَانَا، وَلا تَجْعلْ مُصِيَبتَنا فِي دينَنا، وَلا تَجْعلِ الدُّنْيَا أكبَرَ همِّنا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمٍنَا، وَلا تُسَلِّط عَلَيَنَا مَنْ لاَ يْرْحَمُناَ (رواه الترمذي، وقال: حديث حسن. الرقم 3502)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2208/44-2327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر عضو کے سرے پر قطرہ نہ ہو، تو نالی میں تری موجود ہونے سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتاہے، اس لئے اگر عضو کے سرے پر پیشاب نہ ہو تونالی کو دباکر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ آپ نے استبراء ایک بار کرلیا ہے۔ تاہم اگر دباکر دیکھا اور اندر کی رطوبت نالی کے سرے پر باہر آگئی تو وضو جاتارہا۔ اس لئے آپ معذور شمار نہیں ہوں گے اور امامت کرنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 135):

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة.

 (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لاينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ط".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 148):

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لاينقض، وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا.

 (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عالياً عن رأس الإحليل أو مساوياً له: أي ما كان خارجاً من رأسه زائداً عليه أو محاذياً لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلاً عن رأس الإحليل أي غائباً فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر.الذي في داخل القصبة (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لاينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلاً فلا نقض"

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:معتبر کتب تفاسیر میں متعدد اقوال منقول ہیں، ابلیس دوبارہ جنت میں داخل نہیں ہوا؛ بلکہ ابلیس نے باہر ہی رہتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسے ڈالے، شیطان اس طرح وسوسے ڈالنے پر قادر ہے، جس کی وجہ سے کھانے کا عمل سرزد ہوا، ایک قول یہ بھی ہے کہ سانپ کے منھ میں بیٹھ کر گیا اور سانپ مور کی ٹانگوں میں لپٹ گیا اس طرح اندر داخل ہوا اور ایک قول یہ ہے کہ اندر داخل نہیں ہوا، جنت کے کنارے پر آدم وحوا سے اس نے باہر سے بات کی یہی قول قوی معلوم ہوتا ہے۔(۱)

(۱) إن إبلیس أراد أن یدخل الجنۃ لیوسوس آدم وحواء فمنعتہ الخزنۃ فأتتہ الحیۃ وکانت صدیقۃ لإبلیس (وکانت من أحسن الدواب لہا أربع قوائم کقوائم البعیر وکانت من خزان الجنۃ)، فسألہا إبلیس أن تدخلہ في فمہا فأدخلتہ فمرت بہ علی الخزنۃ وہم لا یعلمون فأدخلتہ الجنۃ، … وقال الحسن: إنما رأہما علی باب الجنۃ لأنہما کانا یخرجان منہا۔ (أبو محمد حسین بن مسعود البغوي، تفسیر البغوي، سورۃ البقرہ: ۳۶، ج ۱، ص: ۱۰۵؛ التفسیر المظہري: ۳۶؛ ج ۱، ص: ۶۶)
دخل الجنۃ في فم الحیۃ وہي ذات أربع کا لبختیۃ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ البقرہ: ۳۶‘‘؛ ج ۱، ص: ۲۱۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص259

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کا ختم عبادت ہے، اور بڑی نیکی ہے، اس پر جس قدر خوشی ہو اچھی بات ہے ختم قرآن، بچہ پیدا ہونے اسی طرح عیدین کی خوشیوں کے مواقع پر شادی کرلی جائے اور ایک ہی تقریب میں دوسری تقریب کو بھی شامل کر دیا جائے، تو اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے؛ اس لئے جائز ودرست ہے، دعوت کرنے اور دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) وفي روایۃ لابن عدي، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: ’’تہادوا الطعام بینکم، فإن ذلک توسعۃ لأرزاقکم‘‘ وروي الطبراني عن أم حکیم بنت وداع: ’’تہادوا، فإن الہدیۃ تضعف الحب وتذہب بغوائل الصدور‘‘۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب: باب المصافحۃ والمعانقۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۸، ص: ۵۰۶، رقم: ۴۶۹۳)
وإجابۃ کل داع مستحبۃ لہذا الخبر، ولأن فیہ جبر قلب الداعي، وتطییب قلبہ، وقد دعي أحمد إلی ختان، فأجاب وأکل۔ فأما الدعوۃ في حق فاعلہا، فلیست لہا فضیلۃ تختص بہا؛ لعدم ورود الشرع بہا، ولکن ہي بمنزلۃ الدعوۃ لغیر سبب حادث، فإذا قصد فاعلہا شکر نعمۃ اللّٰہ علیہ، وإطعام إخوانہ، وبذل طعامہ، فلہ أجر ذلک، إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۸، ص: ۱۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص511

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم سے اوپر بیٹھنا یا کھڑا ہونا، عذر کی وجہ سے ہو تو درست ہے اور اگر بلا عذر ہو، تو قرآن کے احترام کے خلاف ہے۔ دانستہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)

(۱) مد الرجلین إلی جانب المصحف إن لم یکن بحذائہ لا یکرہ وکذا لو کان المصحف معلقا في الوتد وہو قد مد الرجل إلی ذلک الجانب لا یکرہ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد، والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۳)
رجل وضع رجلہ علی المصحف إن کان علی وجہ الاستخفاف یکفر وإلا فلا، کذا في الغرائب۔ (’’أیضاً:‘‘)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص59
 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب غسل دینے کا ارادہ کیا تو حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف ہوا کہ کپڑے اتارے جائیں یا نہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے سب پر نیند طاری فرما دی اس میں کسی کہنے والے نے کہا کہ غسل مع کپڑوں کے دیا جائے، تو صحابہ نے مع کپڑوں کے غسل دیا اور پھر تین سوتی کپڑوں میںکفن دیا گیا۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، تقول: لما أراد واغسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالوا: واللّٰہ ما ندري أنجرد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ثیابہ کما نجرد موتانا أم نغسلہ وعلیہ ثیابہ، فلما اختلفوا ألقی اللّٰہ علیہم النوم حتی ما منہم رجل إلاوذقنہ في صدرہ، ثم کلمہم من ناحیۃ البیت لا یدرون من ہو أن اغسلوا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثیابہ، فقاموا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ  فغسلوہ وعلیہ قمیصہ یصبون الماء فوق القمیص ویدلکونہ بالقمیص دون أیدیہم وکانت عائشۃ تقول: لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما غسلہ إلا نسائہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب ستر المیت‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، رقم: ۳۱۴۱؛ أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۶۰۳)

فتاوی دارالعلوم قف دیوبند ج2ص195

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعوت و تبلیغ کے متعدد و مختلف طریقے ہیں جو زمانہ اور احوال سے مختلف ہوتے رہتے ہیں دعوت و تبلیغ کے ہر گوشہ میں کام ہونا مطلوب ہے۔ وہ مختلف طریقے یہ ہیں کہ کوئی درس و تدریس میں مصروف ہے کوئی وعظ و تقریر میں کوئی نصیحت میں اور کوئی دین کی معمولی باتوں کی سمجھ رکھتا ہے اسی اعتبار سے اپنے کسی بھائی کو سمجھاتا اور نماز روزہ سکھاتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس اعتبار سے تمام علماء دعوت و تبلیغ کے کام میں مشغول ہیں اور مدارس سے یہ کام اعلیٰ پیمانہ پر ہو رہا ہے تبلیغ ہر شخص پر لازم ہے اس کو تبلیغی جماعت کے مروجہ طریقے میں محدود کردینا صحیح نہیں ہے۔ اور نہ ہی علماء اور مدارس پر اعتراض درست ہے۔ (۱)

(۱) فالفرض ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۴، ص: ۳۴۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاری، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ما ذکر عن بني إسرائل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۱۹۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص316