Hadith & Sunnah

Ref. No. 934

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The Sunnah of the Prophet Muhammad (saws) of two types; Sunnat-e Muakkadah (which the Prophet did persistently) and Sunnat-e Ghair-Muakkadah (which the prophet did but did not do persistently).

Sunnat-e Muakkadah brings a great deal of reward. Hence, it is a sin to abandon the sunnat e muakkadah for no reason. While leaving the sunnat e Ghair muakkadah is not a sin. But the one who neglects this suunah is missing out on a great reward. Acting upon sunnat Ghair Muakkadah is also a virtuous deed, one should follow it too. For detail you had better study the book “Talimul Islam”.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1004

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ظہر کا وقت شروع ہونے سے قبل سنت موکدہ معتبر نہیں ، وقت ہونے کے بعد ہی ادا کی جائے۔ کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھیں یا جمعہ کے بعد ان سنتوں کو پڑھ لیں،  اس کی گنجائش ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1049/41-210

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زیرناف اور بغلوں کی صفائی  اور ناخن کاٹنا امور فطرت میں سے ہیں۔ ہر ہفتہ اس کا اہتمام کرنا مستحب  ہے اور چالیس دن کے اندر کرنا  مسنون  ہے، اور چالیس دن سے زیادہ باقی رکھنا مکروہ تحریمی اور گناہ کا موجب ہے۔  عشرہ  ذی الحجہ میں قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے بال وناخن وغیرہ نہ کاٹنا صرف مستحب ہے لیکن وہ بھی  اس شرط کے ساتھ  کہ غیرضروری بالوں کی صفائی کے چالیس دن نہ پورے ہوئے  ہوں۔ لہذا جو شخص  عشرہ ذی الحجہ شروع ہونے سے قبل  کسی بھی وجہ سے زیر ناف اور بغلوں کی صفائی  نہیں کرسکا اور چالیس دن گزرچکے ہیں تو  اس  کو چاہئے  کہ  اب صفائی کرلے؛ مزید تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔   

عن ام سلمۃ رضی اللہ عنہاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :اذادخل العشرواراد بعضکم ان یضحی فلایمسن من شعرہ شیئا وفی روایۃ فلایأخذن شعراولایقلمن ظفراوفی روایۃ من رأی ھلال ذی الحجۃ واراد ان یضحی فلایأخذن من شعرہ ولامن اظفارہ ۔رواہ مسلم۔

ویستحب حلق عانۃ وتنظیف بدنہ بالاغتسال فی کل اسبوع مرۃ والأفضل یوم الجمعۃ وجازفی کل خمسۃ عشر وکرہ ترکہ وراء الأربعین مجتبی۔ (ردالمحتار 5/261)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1262/42-605

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں والدین کی کل جائداد  کو آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر ترکہ میں کل اٹھائیس لاکھ  روپئے ہی صرف ہیں تو اس طرح تقسیم کریں کہ ہر ایک بیٹے کو سات لاکھ روپئے اور ہر ایک بیٹی کو تین لاکھ پچاس ہزار روپئے دیدئے جائیں۔ جس بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اس کا حصہ  (سات لاکھ) اس کی بیوی اور اولاد میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم بیٹے کے حصہ میں سے آٹھواں حصہ اس کی بیوی کودینے کے بعد  بقیہ مال اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کریں  کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1605/43-1157

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور شخص طلاق کا انکار کررہاہے، اور طلاق کے وسوسہ کو ختم کرنے کے لئے کہتاہے کہ میں بھلا طلاق کیسے دے سکتاہوں یعنی نہیں دے سکتا، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کا خیال آنا وقوع طلا ق کے لئے کافی نہیں ہے۔  وقوع طلاق کے لئے صریح یا کنائی الفاظ  کا زبان سے ادا کرنا  ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ  کنائیہ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں  طلاق واقع ہوتی ہے۔  صورت مسئولہ میں آپ نے طلاق  کے بارے میں ایک جملہ خود سے کہا جو طلاق کا انکارکرنے کے لئے تھا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ جب آپ صراحت سے طلاق کا انکار کررہے ہیں تو طلاق کیونکر واقع ہوگی۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔  

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2152/44-2223

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرکمپنی کا کاروبار  درست ہے تو اس طرح فیصدی کے اعتبار سے نفع کی تقسیم جائز ہے اور اس میں پیسے لگاکر نفع کمانا بھی جائز ہوگا۔ البتہ اگر صورت یہ ہو کہ جتنا پیسہ آپ نے دیا اس کا وہ ہر ماہ آپ کو ٪35 فیصد لوٹاتی ہے خواہ تجارت میں اس کا نفع ہو یا نقصان ، تو ایسی صورت میں اس میں پیسے لگانا  اور نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا ۔ 

ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح۔۔۔۔لفساده فلعله لا يربح إلا هذا القدر۔(الهداية،كتاب المضاربةج3ص263)

ویشترط ایضافي المضاربةان يكون نصيب كل منهما من الربح معلوما عند العقد ؛لان الربح هو المعقود عليه ،و جهالته توجب فساد العقد ۔(فتح القدير ،كتاب المضاربةج7ص421)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2285/44-3450

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ نے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں تعارض کو ظاہر کیا ہے، آپ کے لئے ضروری تھا کہ دونوں فتاوی کو بھی ساتھ  میں منسلک کرتے، تاکہ دونوں فتاوی کو پڑھ کر فیصلہ کرنے میں سہولت ہوتی۔ جہاں تک سوال کاتعلق ہے تو طلاق کے باب میں حضرات فقہاء نے بیوی کی طرف اضافت کو ضروری قراردیاہے، اضافت چاہے حقیقی ہو یا معنوی ہو، یعنی بیوی  کی طرف نسبت صراحتا ہو یا کنایۃ ہو یا اقتضاء ہو، کسی طرح بھی قرائن سے اضافت الی الزوجۃ متعین ہوجائے، تو طلاق واقع  ہوجائے گی، لیکن اگر کسی طرح بھی زوجہ کی طرف  نسبت نہ ہو، اور نہ ہی عرف و عادت کے مطابق  زوجہ کی طرف نسبت کافی ہو، تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں دلائل حسب ذیل ہیں: لترکہ الاضافۃ ای المعنویۃ فانھا الشرط والخطاب من الاضافۃ المعنویۃ کذا الاشارۃ نحو ھذہ طالق وکذا نحو امرئتی طالق وزینب طالق – اقول وماذکرہ الشارح من التعلیل اصلہ لصاحب البحر آخذا من البزازیۃ فی الایمان قال لھا: لاتخرجی من الدار الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لایقع لعدم حلفہ  بطلاقھا ویحتمل الحلف بطلاق غیرھافالقول لہ۔ (ردالمحتار 3/268)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جن بصورت انسان آجائے اور حاکم یا قاضی کو بالکل اس کا علم نہ ہوسکے کہ یہ جن ہے، اور قاضی اس کی شہادت پر فیصلہ کردے، تو قاضی علم نہ ہونے کی وجہ سے معذور ہوگا، ماخوذ نہ ہوگا۔ اور فیصلہ اس کا نافذ ہوگا۔ (۲)
البتہ اگر کسی طرح اس کا جن ہونا محقق ہوجائے، تو پھر اس کی شہادت شرعاً مقبول نہ ہوگی۔ (۳)
(۲) والطریق فیما یرجع إلی حقوق العباد المحضۃ عبارۃ عن الدعوی والحجۃ وہي أما البینۃ أو الإقرار أو الیمین أو النکول عنہ أو القسامۃ أو علم القاضي إلخ۔ (ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب القضاء، مطلب: الحکم الفعلي‘‘: ج ۸، ص: ۲۳)
(۳) {وَاسْتَشْہِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج فَإِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ} (سورۃ البقرہ: ۲۸۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص255

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دفن میت کے بعد اذان دینے کا ثبوت نہیں ہے، یہ عمل بدعت ہے؛ لہٰذا تخفیف عذاب کا سوال ہی نہیں ہے۔(۱)

(۱) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ لما ہو المعتاد الآن وقد صرح ابن حجر في فتاواہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱؛ کذا في البحر الرائق: ج ۲، ص: ۲۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص376

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب کا لال خط کو رسم قرار دینا اور اس میں شرکت نہ کرنا بالکل درست ہے، لال خط محض ایک رسم ہے جس کو ترک کردینا لازم ہے۔(۱)

(۱) سرخ خط کا التزام درست نہیں، تاریخ کی اطلاع ضروری ہے۔ (کتاب المفتی، ’’باب البدعات والرسومات‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹)
فکم من مباح یصیر بالإلتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکنوي، سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص464