Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
نکاح و شادی
Ref. No. 1603/43-1159
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، ان الفا ظ سے وسوسہ ختم کرنے کی نیت تھی اور طلاق کے لئے کوئی لفظ استعمال نہیں بھی کیا گیا، محض طلاق کا خیال آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وقوع طلاق کے لئے صریح الفاظ یا کنائی الفاظ کے ساتھ طلاق کی نیت ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں نہ تو طلاق صریح ہے نہ کنائی ، اور نہ کسی طرح کی طلاق کی نیت۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری: "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مذکورہ فی السوال باتیں صحیح اور سچ ہیں تو مذکورہ شخص فاسق فاجر ہے قطعی طور پر لائق اتباع نہیں ہے۔ جیسی رواداری سوال میں مذکور ہے اسلام میں ایسی رواداری کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اور اگر اس نے واقعۃً غیر اللہ کے سامنے سرجھکایا اور اس کو سجدہ کیا تو پھر وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے۔ تجدید ایمان اور تجدید نکاح اس پر لازم ہے۔ (۱)
(۱) ویکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علي رأسہ علي الصحیح إلا لضرورۃ دفع الحرِّ والبرد وبشد الزنار في وسطہ إلا إذا فعل ذلک خدیعۃً في الحرب وطلیعۃ المسلمین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنوع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
ومن ہزل بلفظ کفر إرتد و إن لم یعتقد للاستخفاف فہو ککفر العناد۔
قولہ (من ہزل بلفظ کفر) أي تکلم بہ باختیارہ غیر قاصد معناہ، وہذا لا ینافي مأمر من أن الإیمان ہو التصدیق فقط أو مع الإقرار: لأن التصدیق وإن کان موجوداً حقیقۃ لکنہ زائل حکما: لأن الشارع جعل بعض المعاصي إمارۃ علي عدم وجودہ کالہزل المذکور، وکما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورۃ فإنہ یکفر وإن کان مصدقاً: لأن ذلک في حکم التکذیب کما أفادہ في شرح العقائد، وأشار إلي ذلک بقولہ: للاستخفاف، فإن فعل ذلک استخفافاً واستہانۃ بالدین فہو أمارۃ عدم التصدیق۔(ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)
قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر، یدل علی الکفر فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ ابن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)
حج و عمرہ
Ref. No. 2065/44-2061
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Taking usurious loans is absolutely forbidden. The prophet of Allah (saws) has cursed the one who takes usury, gives usury, writes usury and bears witness to it. (Mishkat: 244) Usury based transactions are completely forbidden; these things should not be taken lightly. There can be a scope for taking a loan only in a very dire need when there is no any other way. If need is not severe, then this loan is not permissible for you. In this case, it is not appropriate to perform Umrah with this amount.
It is also not permissible to take a usurious loan by pledging jewelry. If one is compelled to take loan in his severe need while he dislikes it, then he should not be blamed for it.
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]
’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے بعد مصافحہ کا رواج مکروہ ہے، اس لیے کہ اس کو لازم اور ضروری سمجھ لیا حالاںکہ صحابہ کرامؓ نے نماز کے بعد مصافحہ کبھی نہیں کیا ہے اور کراہت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ کے خلاف ہے،نیز ابن حجر شافعیؒ فرماتے ہیں کہ لوگ پنجگانہ نماز کے بعد مصافحہ کرتے ہیں، وہ مکروہ ہے، شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن الحاج مکی رحمۃ اللہ علیہ کتاب ’’المدخل‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں نے نماز پنجگانہ اور صلوٰۃ العیدین کے بعد مصافحہ کا جو طریقہ ایجاد کیا ہے اس سے لوگوں کو منع کرے کہ یہ بدعت ہے۔(۱) شریعت میں مصافحہ کسی مسلم سے ملاقات کرتے وقت ہے نہ کہ نمازوں کے بعد۔ لہٰذا شریعت نے جو محل مقرر کیا ہے اسی جگہ اس کو بجالائیں اور مصلحت کے خلاف کرنے کو روکیں۔(۲)
’’أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم، ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض إلخ۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ: أنہا بدعۃ مکروہۃ، لا أصل لہا في الشرع۔ وقال ابن الحاج: إنہا من البدع، وموضع المصافحۃ في الشرع، إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلوات إلخ‘‘۔(۳)
’’و أما في غیر حال الملاقات مثل کونھا عقیب صلوٰۃ الجمعۃ والعیدین کذا ھو العادۃ في زماننا فالحدیث ساکت عنہ فیبقی بلا دلیل وقد تقرر في موضعہ أن مالا دلیل علیہ فھو مردود، ولا یجوز التقلید فیہ‘‘۔(۴)
(۱) وقد یکون جماعۃ یتلاقون من غیر مصافحۃ ویتصاحبون بالکلام ومذاکرۃ العلم وغیرہ مدۃ مدیدۃ، ثم إذا صلوا یتصافحون، فأین ہذا من السنۃ المشروعۃ، ولہذا صرح بعض علمائنا …بقیہبأنہا مکروہۃ حینئذ، وأنہا من البدع المذمومۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب، باب المصافحۃ والمعانقۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۴، رقم: ۴۶۷۷)
(۲) عن أنس رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا تلاقوا تصافحوا الخ۔ (المعجم الأوسط: ج ۱، ص: ۴۱، رقم: ۹۷)
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸۔
(۴) مجالس الأبرار ضمیمہ،ص: ۲۰۸
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص512
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2493/45-3803
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز جمعہ سے قبل اگر چندہ کیاجائے تو زیادہ بہتر ہے، دعا سے پہلے چندہ شروع کرکے دعا کے لئے لوگوں کو زبردستی روکنا درست عمل نہیں ہے، اس کو ترک کردینا چاہئے۔ نمازوں کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہے، اس لئے نماز کے بعد متصلا دعا (یاسنت وغیرہ) مشغول ہونا بہتر ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت الحارث نے ایک بکری کے گوشت میں زہر ملاکر غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوشت پیش کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے اٹھا کر کچھ گوشت منہ میں ڈالا، مگر معلوم ہوگیا، بعض روایات سے معلوم ہوا کہ گوشت نے کہہ دیا کہ میرے اندر زہر ملا ہوا ہے،(۱) تو آپ نے اس کو تھوک دیا، اس واقعہ کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔(۲)
(۱) کان جابر بن عبد اللّٰہ یحدث أن یہودیۃ من أہل خیبر سمت شاۃ مصلیۃ، ثم أہدتہا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الذراع فأکل منہا وأکل رہط من أصحابہ معہ، ثم قال لہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ارفعوا أیدیکم وأرسل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الیہودیۃ فدعاہا، فقال لہا: أسممت ہذہ الشاۃ قالت الیہودیۃ: من أخبرک قال: أخبرتني ہذہ في یدي للذراع، قالت: نعم، قال: فما أردت إلی ذلک قالت: قلت: إن کان نبیا فلن یضرہ وإن لم یکن نبیا استرحنا منہ، فعفا عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یعاقبہا وتوفي بعض أصحابہ الذین أکلوا من الشاۃ، واحتجم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی کاہلہ من أجل الذي أکل من الشاۃ حجمہ أبو ہند بالقرن والشفرۃ وہو مولی لبني بیاضۃ من الأنصار۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب الدیات، باب في من سقی رجلاً سماء‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۰رقم: ۴۵۱۰)
(۲) أبوالبرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۲۷۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص196
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی تعلیم و تربیت کے لئے اور اسلامی فکر پیدا کرنے کے لئے کوئی کتاب متعین نہیں ہے۔ علماء دین و متقدمین حضرات جس کتاب کو مفید سمجھیں اس کو پڑھنا چاہئے کسی ایک ہی کتاب پر اصرار بھی درست نہیں ہے۔ نیز وقت کی تعیین بھی اکثر نمازیوں کا خیال رکھتے ہوئے کی جائے صورت مسئولہ میں ایک عالم تفسیر بیان کرتے ہیں جس کے مہتمم بالشان ہونے سے کسی کو انکار نہیں ہے اور عالم دین خود اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے جس وقت میں پہلے سے تفسیر ہوتی ہے اس میں رخنہ اندازی اور اختلافات بالکل درست نہیں کسی دوسرے وقت تبلیغی نصاب اور کبھی کوئی دیگر کتاب پڑھنی چاہئے۔(۱)
(۱) عن محمد بن کعب القرطبي قال: سمعت ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قرأ حرفاً من کتاب اللّٰہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرۃ أمثالہا أما اني لا أقول: {الم} (البقرۃ: ۱) حرفٌ، ولکن ألفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیمٌ حرفٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب فمن قرأ حرفا من القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۹۱۰)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ، ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)
عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲، رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘:، رقم: ۵۰۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص317
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کے شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھنی چاہیے۔(۱) کپڑا اتارنے اور غسل خانہ میں داخل ہونے سے پہلے نجاست دور کرنے کے بعد، ورنہ صرف دل میں پڑھے اور زبان کو حرکت نہ دے، اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت کی خاطر۔(۲)
(۱) و سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب، و آدابہ کآدابہ قولہ: کسنن الوضوء أي من البدائۃ بالنیۃ والتسمیۃ والسواک الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۱) ؛ و في رد المحتار و قیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ۔(ابن عابدین، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷،؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ ج۱،ص:۱۸مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲ ) إلاحال انکشاف الخ۔ الظاھر أن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ، إن کان في غیر المکان المعد لقضاء الحاجۃ۔ و إلا فقبل دخولہ۔ فلو نسي فیھا سمی بغلبہ، ولا یحرک لسانہ تعظیما لاسم اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص303
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احناف کے یہاں نمازوں میں اوقاتِ مستحبہ کے سلسلے میں تاخیر یا تعجیل مطلقاً نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نماز فجر وقتِ اسفار میں پڑھنا افضل ہے؛ جب کہ ظہر کی نماز کے سلسلے میں کچھ تفصیلات ہیں۔ احناف کے نزدیک گرمیوں کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر کرنا اور سردیوں کے موسم میں تعجیل کر کے پڑھنا افضل ہے۔ عصر کی نماز گرمی اور سردی دونوں موسم میں تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے؛ ہاں عصر کی نماز میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ سورج کا رنگ متغیر اور زرد ہو جائے، مغرب کی نماز میں ہمیشہ تعجیل افضل ہے۔ عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کر کے ادا کرنا حنفیہ کے نزدیک افضل ہے، تاہم آسمان اگر ابر آلود ہو، تو اس صورت میں عصر اور عشاء دونوں نمازوں کو مقدم یعنی تعجیل کر کے اور باقی نمازوں کو تاخیر کر کے پڑھنا افضل ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:
’’(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم بہ) ہو المختار بحیث یرتل أربعین آیۃ ثم یعیدہ بطہارۃ لو فسد۔ وقیل یؤخر جدا؛ لأن الفساد موہوم (إلا لحاج بمزدلفۃ) فالتغلیس أفضل کمرأۃ مطلقا۔ وفي غیر الفجر الأفضل لہا انتظار فراغ الجماعۃ (وتأخیر ظہر الصیف) بحیث یمشي في الظل (مطلقا) کذا في المجمع وغیرہ: أي بلا اشتراط، (و) تأخیر (عصر) صیفا وشتاء توسعۃ للنوافل (ما لم یتغیر ذکاء) بأن لا تحار العین فیہا في الأصح (و) تأخیر (عشاء إلی ثلث اللیل والمستحب تعجیل ظہر شتاء) یلحق بہ الربیع، وبالصیف الخریف (و) تعجیل (عصر وعشاء یوم غیم، و) (وتأخیر غیرہما فیہ)‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴-۲۹، مکتبہ زکریا، دیوبند۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 69