قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تو کوئی عذر نہیں ہے کہ عربی پڑھنی نہیں آتی، ویسے رغبت قرآن کے لیے اردو کاترجمہ پڑھا جاسکتا ہے۔ عربی، عربی ہے، اس کا ترجمہ، ترجمہ ہے، ترجمہ پڑھنے کا ثواب تو ہے؛ لیکن عربی کا قرآن پڑھنے کے برابر تو نہیں اس لیے اصل قرآن سیکھنا چاہئے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔
والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ)، أي یتردد ویتبلد علیہ لسانہ ویقف في قراء تہ لعدم مہارتہ، والتعتعۃ في الکلام التردد فیہ من حصرٍ أو عيٍّ، یقال: تعتع لسانہ إذ توقف في الکلام ولم یطعہ لسانہ (وہو) أي القرآن، أي حصولہ أو ترددہ فیہ (علیہ)، أي علی ذالک القاري (شاق)، أي شدید یصیبہ مشقۃ جملۃ حالیۃ (لہ أجران)، أي أجر لقراء تہ أجر لتحمل مشقتہ وہذا تحریض علی تحصیل القراء ۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۹، رقم: ۲۱۱۲)
{إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَہ۲  } (سورۃ یوسف: ۲)
فلا یکون الفارسي قرآناً فلا یخرج بہ عن عہد الأمر، ولأن القرآن معجزٌ، والإعجاز من حیث اللفظ یزول بزوال النظم العربي فلا یکون الفارسي قرآنا لانعدام الإعجاز۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما أرکانہا خمسۃ: منہا القیام‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص55

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: جس طرح بڑے آدمی کا پیشاب ناپاک ہے، اسی طرح چھوٹے بچے کا پیشاب بھی ناپاک ہے، خواہ وہ بچہ دودھ ہی کیوں نہ پیتا ہو؛ کپڑے یا برتن وغیرہ پر لگ جائے، تو اس کو پاک کرنا ضروری ہے ،اس میں لاپر واہی نہ کی جائے۔(۱)

(۱)عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: أتی رسول اللّٰہ ﷺ بصبي یرضع، فبال في حجرہ، فدعا بماء، فصبہ علیہ و في روایۃ فدعا بماء فرشہ علیہ۔(أخرجہ مسلم، في صحیحہ، باب حکم بول الطفل الرضیع و کیفیۃ غسلہ، ج۱، ص:۱۳۹)؛ ولو من صغیر لم یطعم، أي لم یأکل فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طھارۃ بولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱، ص:۵۲۳)، وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ أکلا أولا۔ (وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ۔ الکویت، الموسوعۃ الفقھیہ، ما یعتبر نجساً وما لا یعتبر، ج۴۰، ص:۷۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:آج کل عام طور پر بڑے شہروں میں نیوز پیپر وغیرہ کا استنجا کے لیے استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ان چیزوں کو استنجا کے لیے استعمال کرنا نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ صاحب البحر الرائق نے لکھا ہے: لکھے ہوئے کاغذ سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔

’’والورق قیل: إنہ ورق الکتابۃ وقیل إنہ ورق الشجر وأي ذلک کان فإنہ مکروہ‘‘(۱)
اس لیے کہ کاغذ ایک گراں قدر چیز ہے جو علوم وفنون کی امین اور خود اسلام اور اس کی تعلیمات کے لئے بلند پایہ محافظ ہے، اس کی اس عظمت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایسے معمولی اور کمتر کاموں کے لیے اس کا استعمال نہ ہو اور اس کو نجاستوں میں ملوث ہونے سے بچایا جائے؛ البتہ  مجبوری کی حالت اس سے مستثنیٰ ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کراہت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ لکتابۃ العلم‘‘(۲)
اس لیے کہ وہ چکنا ہوتا ہے (جس سے نجاست کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے) اور قیمتی ہوتا ہے، نیز آلۂ علم ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام بھی ہے۔
اس کی تائید ان فقہاء کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جو مطلق کاغذ کے اس مقصد کے لئے استعمال کو مکروہ نہیں کہتے، بلکہ ایسے کاغذ کے استعمال سے منع کرتے ہیں جس میں حدیث وفقہ سے متعلق کچھ لکھا ہوا ہو، مشہور فقیہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے:
’’ولا یجوز الاستنجاء بمالہ حرمۃ کشيء کتب فیہ فقہ أو حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۳)
قابل احترام چیزیں مثلاً ایسی چیز کہ جس میں فقہ اور حدیث کی عبارتیں درج ہوں، ان سے استنجا کرنا جائز نہیں۔
 علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں:
’’لا یجوز بما کتب علیہ شيء من العلم کالحدیث والفقہ‘‘ (۴)

البتہ ایسے کاغذ جو خاص استنجا کے مقصد کے لیے ہی تیار کئے جاتے ہیں اور وہ کاغذ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ان پر کچھ لکھا جائے، تو ان جیسے کاغذوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۳) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔
(۳) ابن قدامۃ، المغني، ’’فصل استجمر بحجر ثم غسلہ أو کسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۳۔
(۱)
خالد سیف اللہ رحمانی، جدیدفقہی مسائل: ج ۱، ص: ۸۵۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص117

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کی حالت میںگرمی کے دانے کو کھجلایا اس سے اگر پانی نکل کر بہہ جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نمازبھی فاسد ہو جائے گی دوبارہ وضو کرنا لازم ہوگا۔ کما قال ابن نجیم في البحر: و أما الخارج من غیر السبیلین فناقض بشرط أن یصل إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر- کذا قالوا و مرادہم أن یتجاوز إلی موضع تجب طہارتہ۔(۲)و إن قشرت نفطۃ و سال منہا ماء أو صدید أو غیرہ۔ إن سال عن رأس الجرح نقض۔ و إن لم یسل لا ینقض۔ (۳)

(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۳
(۳)جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ،  الفصل الخامس في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۶۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص228

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب کپڑے سے نجاست کو دھو دیا، تو کپڑا پاک ہو گیا اور بدن سے بھی نجاست کو دھو دیا، تو بدن کی جگہ بھی پاک ہوگئی۔ اب اگر وہی کپڑا پہن کر غسل شرعی طریقہ پر پورا کر لیا، تو اس کا غسل ہو گیا، اور پاکی بھی حاصل ہو گئی۔(۱)

(۱) امداد الاحکام میں ہے: احتلام ہونے پر تمام کپڑے ناپاک نہیں ہوتے؛ بلکہ جس کپڑے پر جتنی دور تک منی کا اثرمعلوم ہو وہ کپڑا اسی قدر ناپاک ہوتا ہے، باقی سب پاک ہیں۔ (امداد الاحکام) ’’فصل في النجاسۃ و أحکام التطھیر‘‘ ج۱، ص:۳۹۲) ؛ وأن عائشۃ قالت: کنت أفرک المني من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ فیصلی فیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب المنی یصیب الثوب، ج۱، ص:۵۳،رقم:۳۷۲،  مکتبۃ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص300

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آپ نے سہواً جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ہے جنابت کی حالت میں نماز پڑھانا اور پڑھنا دونوں ناجائز اور سخت گناہ کا کام ہے  البتہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے لا علمی میں حالتِ جنابت میں نماز پڑھائی ہے؛ اس لیے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم اس پر توبہ اور استغفار کریں، امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے خطا اور نسیان کی وجہ سے ان شاء اللہ مواخذہ نہیں ہوگا۔
’’وعن ابن عباس أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ قد تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ‘‘(۱)
نیز حالت جنابت میں پڑھائی گئی نماز دوبارہ ادا کریں امام اور مقتدیوں کے لیے نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے آپ کسی نماز میں اعلان کردیں کہ فلاں دن کی فلاں نماز میں جو حضرات شریک ہوئے تھے وہ اپنی نماز کا اعادہ کر لیں کسی وجہ سے وہ نماز نہیں ہوئی ان شاء اللہ اس کے بعد آپ بری الذمہ ہیں؛ لیکن آئندہ آپ اپنے منصب اور پاکی اور ناپاکی کا خاص خیال رکھیں آپ کی وجہ سے عوام ذہنی تناؤ اور کوئی خلجان میں مبتلا نہ ہوں۔
’’وفي کفر من صلی بغیر طہارۃ … مع العمد خلف في الروایات یسطر۔ (قولہ: کما في الخانیۃ) حیث قال بعد ذکرہ الخلاف في مسألۃ الصلاۃ بلا طہارۃ وأن الإکفار روایۃ النوادر۔ وفي ظاہر الروایۃ لا یکون کفرا، وإنما اختلفوا إذا صلی لا علی وجہ الاستخفاف بالدین، فإن کان علی وجہ الاستخفاف ینبغي أن یکون کفرا عند الکل‘‘
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) وکذا کل مفسد في رأی مقتد (بطلت فیلزم إعادتہا)؛ لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃً وفساداً (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو رکن۔ وہل علیہم إعادتہا إن عدلاً، نعم، وإلا ندبت، وقیل: لا لفسقہ باعترافہ؛ ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ؛ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام وأجبر علیہ (بالقدر الممکن) بلسانہ أو (بکتاب أو رسول علی الأصح) لو معینین وإلا لایلزمہ، بحر عن المعراج۔ وصحح في مجمع الفتاوی عدمہ مطلقاً؛ لکونہ عن خطأ معفو عنہ، لکن الشروح مرجحۃ علی الفتاوی‘‘(۲)
’’قلت: وبہ ظہر أن تعمد الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر کصلاتہ لغیر القبلۃ أو مع ثوب نجس، وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ، وفي سیر الوہبانیۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الطلاق، باب طلاق الکرہ والناس‘‘: ص:۱۴۵، رقم: ۲۰۴۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص88


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:فجر کی نماز غلس میں پڑھے یا اسفار میں پڑھے دونوں جائز ہیں؛ البتہ احناف کے نزدیک اسفار میں جماعت افضل ہے؛ اس لیے کہ اس وقت میں جماعت میں کثرت ہوتی ہے اور رمضان کے ماہ میں چوں کہ لوگ اذان کے فوراً بعد آ جاتے ہیں؛ اس لیے کثرت جماعت کی وجہ سے غلس میں احناف کے نزدیک بھی افضل ہوگی۔(۱)

(۱) ’’یستحب الإسفار‘‘ و ھو التأخیر للإضائۃ بالفجر بحیث لو ظہر فسادہا أعادہا بقرائۃ مسنونۃ قبل طلوع الشمس لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ:  باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰)
والإسفار بصلاۃ الفجر أفضل من التغلیس بہا في السفر والحضر والصیف والشتاء في حق جمیع الناس إلا في حق الحاج بمزدلفۃ فإن التغلیس بہا أفضل في حقہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: کتاب الصلاۃ: الأوقات المستحبۃ، ج ۱، ص: ۳۲۲)
فلو اجتمع الناس الیوم أیضا في التغلیس لقلنا بہ أیضا: کما في مبسوط السرخسي في باب التیمم أنہ یستحب التغلیس في الفجر والتعجیل في الظہر إذا اجتمع الناس۔ (الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 64

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اگر تنہا تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہ ہوگی، نیز گاڑی میں قبلہ رخ رہنا بھی ممکن نہیں ہے، لہٰذا گاڑی رکوا کر اتر کر نماز ادا کی جائے، اگر کسی نے چلتی کار، وین وغیرہ میں فرض نماز ادا کرلی تو نماز درست نہ ہوگی؛ بلکہ اعادہ لازم ہوگا۔

’’بس‘‘ کے بارے میںتفصیل یہ ہے کہ اگر شہر سے باہر لمبا سفر ہو اور بس ڈرائیور کہنے کے باوجود بس نہ روکے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو، تو دیکھا جائے گا کہ اگر بس کے اندر قبلہ رُخ ہوکر قیام رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو اس طرح نماز ادا کرے۔ (چنانچہ اگر بس قبلہ رخ چل رہی ہو یا مخالف سمت جارہی ہو اور سیٹوں کے درمیان فاصلہ ہو تو قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اور اگر بس میں مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار وغیرہ کا ڈرائیور گاڑی نہ روکے) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی قضا کرلے۔

’’وفي الخلاصۃ: وفتاویٰ قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالیٰ لا تجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸، زکریا دیوبند۔
قولہ: وخوف فوت الوقت وقیل یتیمم لخوف فوت الوقت، قال الحلبي، والأحوط أنہ یتیمم ویصلي بہ ویعید ذکرہ السید۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ص: ۱۱۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائما بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضوء فيالوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 323

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی، اس سے معنی میں بھی کوئی تغیر فاحش پیدا نہیں ہوا۔(۲)

(۲) ومنہا ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنیٰ کثیراً وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنیٰ عندہما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257

 

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 995 Alif

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

Among husband and wife, whoever is the owner of Nisab i.e. 87.479 gram of gold or 612.360 gram of silver or cash equivalant to 612.36, Zakat becomes obligatory upon his / her wealth. If your wife owns the nisab then zakat is wajib on her and she must pay it. It is not husband’s duty to pay zakat of wife’s wealth. Nevertheless if husband, with wife’s permission, pays the zakat on behalf of his wife, it will suffice.

(And Allah knows best)

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband