اسلامی عقائد

Ref. No. 1872/43-1722

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زید سودی کاروبار کرتاہے یقینا یہ بڑے افسوس کی بات ہے، البتہ زید کے سودی پیسے سے اپنے بیٹے کو سعودی بھیجنے کی وجہ سے بیٹے کی کمائی حرام کی نہیں ہوگی، اس لئے اگر زید اپنے بیٹے کی حلال  رقم  سے قربانی کے جانور میں  میں شراکت داری کرے تو اس کے  ساتھ شراکت کی گنجائش ہوگی۔ نیزجو کچھ زید کے بیٹے کے سعودی جانے میں خرچ ہوا، بیٹے کو چاہئے کہ اسی قدر رقم بلانیت ثواب صدقہ کردے۔ زید کو بھی چاہئے کہ اپنے اس عمل سے جلد توبہ کرے۔

"وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".  (الھندیۃ ۵ / ۳۰۴، رشیدیہ)

و فی الخانیۃ امراۃ زوجھا فی ارض الجور اذا اکلت من طعامہ ولم یکن عینہ غصبا او اشتری طعاما او کسوۃ من مال اصلہ لیس بطیب فھی فی سعۃ من ذلک والاثم علی الزوج۔ (شامی، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع 9/554 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2049/44-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امداد سے مراد  شفاعت بھی ہوسکتی ہے، تاہم عوام کو ایسے اشعار سے احتراز ہی بہتر ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بڑی اچھی بات ہے؛ لیکن لازم نہ سمجھیں۔ (۱)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)
وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحیا اللیالي الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۱)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا: لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز ……  وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص499

اسلامی عقائد

Ref. No. 2608/45-4118

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    ایک فرد کا انتظام کرنے پر کمپنی نے آپ کے لئے پانچ ڈالر کی اجرت طے کی ہے، آپ اپنی محنت سے جتنے افراد لائیں گے پانچ ڈالر فی نفر کے حساب سے آپ کو اجرت ملے گی ،  اس اجرت کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز اگرکمپنی  کسی موقع پر کوئی انعامی رقم دیوے  تو اس میں بھی کوئی  گناہ نہیں ہے، کیونکہ آپ نے اپنی محنت کا عوض وصول کیا ہے۔

جو دوسرا مسئلہ آپ نے پوچھا ہے وہ واضح نہیں ہے ۔ تیرہ سو روپئے آپ کو کہاں لگانے پڑتے ہیں اور کیوں، اس کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ پھر ٹیم بنانے کی کیا شکل ہے؟۔ اس مسئلہ کو بالتفصیل دوبارہ لکھ کر ارسال  کریں۔

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم." (فتاوٰی شامی، مطلب في أجرة الدلال،63/6، ط: سعيد)

وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه۔ (رد المحتار على الدر المختار ، كتاب الاجارة ،  باب ضمان الاجير ، 9/87)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر وہ نابینا شخص ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں لکھا گیا ہے تو ان کی امامت بلاشبہ درست اور جائز ہے خود اس شخص کو چاہیے کہ پاکی وناپاکی کا خوب خیال رکھے۔(۲)

(۲) والکراہۃ في حقہم لما ذکر من النقائص، فلو عدمت بأن کان الأعرابي أفضل من الحضري، والعبد من الحر  وولد الزنا من ولد الرشدۃ والأعمی من البصیر زالت الکراہۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۶، ص: ۲۱۱)
کرہ إمامۃ … الأعمی لأنہ لا یتوقی النجاسۃ ولا یہتدی إلی القبلۃ بنفسہ ولا یقدر علی استیعاب الوضوء غالباً الخ۔ (الزیلعي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ والحدث في الصلاۃ: ج۱، ص: ۳۴۵)

…وکرہ إمامۃ العبد والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلۃ وصون ثیابہ عن الدنس، إن لم یوجد، أفضل منہ فلا کراہۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص48

نماز / جمعہ و عیدین
کیا زبان سے نیت کرنی ضروری ہے؟ (۵۳)سوال: حضرت مفتی صاحب: سوال یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ادا کرنے سے پہلے قضا نماز پڑھنے کی نیت تھی، لیکن تکبیر کہتے وقت کوئی نیت زبان سے نہیں کی، تکبیر کے بعد خیال آیا کہ میں نے تو تکبیر کے وقت کسی نماز کی نیت نہیں کی ہے، تو تکبیر سے قبل نماز شروع کرنے سے پہلے کی جو نیت تھی وہ نیت معتبر ہوگی یا نہیں؟ ایسے ہی اگر کوئی شخص سنت نماز میں قضا نماز کی نیت کرے تو کیا وہ قضاء نماز کی نیت کر سکتا ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘ فقط: والسلام المستفتی: محمد شمشیر الاسلام، مراد آباد

Fiqh

Ref. No. 2785/45-4351

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

A Muslim woman is not allowed to get her body waxed by a non- muslim woman. In such cases, she should do it by her own hands as much as possible or seek help from her husband only. She should avoid taking help of strangers in this regard.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام یا غیر امام کو ایسی فضول حرکتوں سے اجتناب کرنا چاہیے اس سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے اور ایسا عمل کبھی عمل کثیر بن جاتا ہے اور نماز کے فساد کی نوبت آ جاتی ہے، لہٰذا ایسے عبث فعل سے امام اور مصلیوں کو بچنا چاہیے۔ تاہم اگر رکوع یا سجدے سے اٹھتے وقت بدن سے چپکے ہوئے دامن کو ایک ہاتھ سے درست کر لیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
’’ویکرہ أیضاً: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود أو یدہ فیہا وہو مکفوف کما إذا دخل وہو مشمر الکم أوالذیل وأن یرفعہ‘‘(۲)

(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ وبجسدہ للنہي إلا لحاجۃ، قولہ وعبثہ ہو فعل لغرض غیر صحیح، قال في النہایۃ: وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلا بأس بہ۔ (الحکصفي و ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا دیوبند)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ۔ ولا بأس بأن ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و فیما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۰۳، دار الکتاب دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص128

اسلامی عقائد

Ref. No. 1319/42-695

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہر یہ سوال لاعلمی کی بنا پر کیا جاتا ہے ، اور آج سائنس کی ترقی نے ان سوالات کے عقلی اور عام فہم جوابات فراہم کردیے ہیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا(بقرۃ: 29) وہی اللہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب کا سب تمہارے لیے ہیں۔ایک جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وسخر لکم مافی السموات و مافی الارض جمعیا منہ (جاثیۃ: 13)اور اللہ تعالی نے اپنی طرف سے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لیے کام میں لگادیا ۔مذکورہ آیات سے معلوم ہوتاہے کہ زمین اور آسمان کے علاوہ ان دونوں میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے اور کائنات کی یہ تمام چیزیں انسانوں کےنفع کے لیے ہیں یہ اور بات ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نفع حسی اور عام ہے اور وہ دنیاوی اعتبارسے قابل حیثیت سمجھی جاتی ہیں اوربعض چیزیں ایسی ہیں کہ بظاہر نفع بخش نہیں بلکہ بہت ضرر رساں ہیں لیکن فی الحقیقت وہ بھي انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں مثلا زہریلے سانپ ، بچھو وغیرہ کہنے کو تو نہایت خطرناک مخلوق ہیں مگر انسان ان ہی کے طفیل زہریلے جراثیم سے محفوظ ہے ، حکمت خداوندی کے مطابق مختلف مقاصد کے پیش نظر ماحول میں جو زہریلے اثرات پیدا ہوتے ہیں یہ زہریلے جانور ان اثرات کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اگر یہ جانور نہ ہوتو انسان زہریلے اور ہلاکت خیز جراثیم سے تباہ و برباد ہوجائے ۔

اسی طرح سیاروں کا بھي حال ہے ، جدید سائنس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ چاند کرۂ ارض سے قریبی سیارہ ہے جو لگتا ہے کہ ہم سے نہایت قریب ہمارے سروں پر ایک چھوٹی سی ٹکیہ کی مانند معلق ہے ۔سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ چاند ہم سے ڈھائی لاکھ میل سے کم دور نہیں ، اس طرح اس وسیع و عریض زمین سے چاند کے حجم کا موازنہ کیا جائے تو وہ زمین سے 50 گنا بڑا ہے ۔سورج کے بارے میں سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ کرۂ ارض سے 13لاکھ گنا بڑا اورزمین سے تقریباً 149,6 ملین کلو میٹر دور ہے ۔ سورج ہی کی طرح بلکہ اس سے کئی گنا بڑے اور سورج سے بے انتہا بلندی پر بے شمار کواکب اﷲ کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں ۔ اُفق پر ٹمٹمانے والے ستارے اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں ۔علم ِفلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام ساحل پر ریت کی جتنی کنکریاں ہیں اُس سے زیادہ آسمان کی بلندی پر ستاروں کی تعداد ہے ۔ بظاہر انسان اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ یہ سیارے بے مقصد ہیں جب کہ ایک بدیہی بات ہے کہ ایک سمجھدار انسان کوئی کام یا کوئی چیز بلا مقصد  کے تیار نہیں کرتاتو احکم الحاکمین اور کائنات کا بنانے والا کیوں کر ان سیاروں کو بلا مقصد کے پیدا کرے گا ، مثال کے طور پر چاند بھي ایک سیارہ ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے و بالنجم ہم یہتدون اور اللہ نے ستارے بنائے جن کے ذریعہ وہ راستہ تلاش کرتے ہیں ۔اس طرح قرآن کریم نے ستاروں کی تخلیق کا مقصد راستوں کی دریافت ، آسمان کی زینت اور شیاطین کے مارنے کا آلہ قرار دیا یہ سب صرف بطور نمونہ اور مثال کے بیان کیے ہیں ورنہ حقیقت میں ان چیزوں کی تخلیق کا مقصد اللہ رب العزت کی کبریائی ، عظمت اور اللہ کی کاریگری میں غور کرنا ہے ۔قرآن کریم میں اس طرح کے دلائل کثرت سے موجود ہیں : ( هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ . إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ ) يونس/5-6

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 38 / 929

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی  اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند