Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ شخص ٹی وی پر فلم دیکھتا ہے، گانا سنتا ہے اور مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار ہے ایسے شخص سے اذان نہ پڑھوائی جائے اور اگر ٹی وی پر اصلاحی وغیر مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار نہیں ہے۔ بہر صورت اس کی دی ہوئی اذان درست ہے اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔(۲)
(۲) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اقتداء درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ہر رکن میں امام کی اقتداء ہو۔ مذکورہ صورت میں ایک رکن میں بالکل ہی اقتداء نہیں پائی گئی اس لیے نماز درست نہیں ہوئی وہ نماز دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔(۱)
(۱) الکلمۃ الزائدۃ إن غیرت المعنیٰ ووجدت في القرآن … أو لم یوجد … تفسد صلاتہ بلا خلاف، وإن لم تغیر المعنی۔ٰ فإن کانت فيالقرآن نحو أن یقرا {إن اللّٰہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً} لا تفسد بالإجماع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
(قولہ ولو زاد کلمۃ) اعلم أن الکلمۃ الزائدۃ إما أن تکون في القرآن أو لا، و علی کل، إما أن تغیر أولا، فإن غیرت أفسدت مطلقاً … وإن لم تغیر فإن کان في القرآن … لم تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہ، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص261
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنن مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے درود شریف اور دعاء نہ پڑھے۔(۱)
(۱) ولا یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الأولی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا) ولو صلی ناسیًا فعلیہ السہو، وقیل: لا، شمني (ولایستفتح إذا قام إلی الثالثۃ منہا) لأنہا لتأکدہا أشبہت الفریضۃ (وفيالبواقي من ذوات الأربع یصلي علی النبي) صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ویستفتح) ویتعوذ ولو نذرا، لأن کل شفع صلاۃ۔
قولہ: ولا یصلي إلخ) أقول: قال في البحر في باب صفۃ الصلاۃ: إن ماذکر مسلم فیما قبل الظہر، لما صرحوا بہ من أنہ لا تبطل شفعۃ الشفیع بالانتقال إلی الشفع الثاني منہا، ولو أفسدہا قضی أربعاً، والأربع قبل الجمعۃ بمنزلتہا۔ وأما الأربع بعد الجمعۃ فغیر مسلم فإنہا کغیرہا من السنن، فإنہم لم یثبتوا لہا تلک الأحکام المذکورۃ ۱ہـ ومثلہ في الحلیۃ، وہذا مؤید لما بحثہ الشرنبلالي من جوازہا بتسلیمتین لعذر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
ولا یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الاولٰی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا ولو صلی ناسیا فعلیہ السہو وقیل لا شمني … وفي البواقي من ذوات الأربع یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسلم اھـ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص377
متفرقات
Ref. No. 938
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر عورت نکاح پڑھائے تو نکاح درست و منعقد ہوگا، تاہم مردوں کے ہوتے ہوئے یہ کام انہیں کے سپرد رہے تو بہتر ہے، اور یہی توارث امت ہے، دیگر امور میں اصطلاحی طور پر قاضی بننا عائلی مسائل میں اس کی گنجائش ہے، اہم امور حدود و قصاص اور دیت وغیرہ میں درست نہیں ہے، شامی کے باب التحکیم میں اس کی پوری تفصیل کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1083
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
It is a hadith that a true dream is one of the 46 parts of (knowledge of) prophethood. Mulla Ali Qari states:
قِيلَ مَعْنَاهُ أَنَّ الرُّؤْيَا جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ عِلْمِ النُّبُوَّةِ، وَالنُّبُوَّةُ غَيْرُ بَاقِيَةٍ وَعِلْمُهَا بَاقٍ، وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - " «ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ» " (مرقاۃ المفاتیح 7/2913) وَقِيلَ: إِنَّمَا قَصَرَ الْأَجْزَاءَ عَلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ ; لِأَنَّ زَمَانَ الْوَحْيِ كَانَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً. وَكَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، وَذَلِكَ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ سِنِيِّ الْوَحْيِ، وَنِسْبَةُ ذَلِكَ إِلَى سَائِرِهَا نِسْبَةُ جُزْءٍ إِلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا. (مرقاۃ المفاتیح 7/2913)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Miscellaneous
Ref. No. 1052/41-241
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
Then answer to your question is as follows:
The correct method is either to shave the entire head or cut the hair of the whole head evenly. Cutting some hair short and leaving some hair long is a wrong way. Likewise, it is against the Sunnah to shave a portion of the head and leave another portion long. There is a stern warning in the Hadith for those who do so. Clipping all the hair and leaving the front portion long as fashion is also not permissible as it is today’s fashion.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 1264/42-608
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ جس مقصد کے لئے جمع کیا گیا ہے اسی مقصد میں صرف ہوناضروری ہے، کسی دوسرے مصرف میں لگانے کے لئے چندہ دینے والوں سے اجازت لینا ضروری ہے، اس کے بعد مسجد اور مدرسہ میں بھی اس کو لگانا جائز ہے، کسی بھی رفاہی کام میں اس کو لگایا جاسکتاہے، اور کسی دوسرے اجتماع کے لئے بھی اس کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1511/42-991
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے دنوں میں گوشت غریبوں تک پہنچ جانا چاہئے تاکہ سب کو عید کی خوشیاں نصیب ہوں۔ تاہم اگر کوئی خاص وجہ ہو، مثلا گوشت کی فراوانی ہر جگہ ہو اور اندیشہ ہو کہ لوگ گوشت کی بے حرمتی کریں گے اور ادھر ادھر بھینک دیں گے، اور پھر اس مقصد سے گوشت کو روک لیا جائے کہ دو تین دن بعد لوگوں کو کھلادیاجائے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم بہت زیادہ دن اسٹور کرنے سے گوشت کی غذائیت متاثر ہوجاتی ہے، اس لئے زیادہ دنوں تک نہ رکھا جائے۔ اور بلا کسی وجہ خاص کے بھی اسٹور نہ کیا جائے۔ تاہم تین دن بعد کھانے اور کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قال النبي صلی علیہ السلام: ونہیتکم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث فأمسکوا ما بدأ لکم وفي المرقاة: قال الطیبي: نہاہم أن یأکلوا ما بقي من لحوم أضاحیہم فوق ثلاث لیالٍ وأوجب علیہم التصدق بہ فرخص لہ الإمساک ما شاوٴوا (مرقاة: ۴/۱۱۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1610/43-1177
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں حکما ماں کے درجہ میں ہوتی ہے،سوتیلی ماں سے نکاح کرنا بنص قرآنی حرام ہے، اور اس سے زنا انتہائی قبیح عمل ہے، اور چونکہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اس لئے بشرط صحت سوال صورتِ مسئولہ میں دوسری بیوی زانی کے والد (اپنےشوہر) پر حرام ہوگئی؛ اب اس سے دوبارہ کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے۔البتہ اس سے پہلی بیوی کے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا وہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی۔
{وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاۗءَ سَبِيْلًا}[النساء:22{ "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه(البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 100)
قوله: وحرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا ورضاعًا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها". (شامی، رد المحتار3/32)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند