اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:منڈھا کرنا درحقیقت ایک ہندوانہ رسم ہے جس میں شادی سے ایک دن پہلے لڑکے والوں اور لڑکی والوں کی طرف سے نائی جوڑا او رمہندی لے کر ایک دوسرے کی طرف بھیجاجاتا ہے اور اس کی آمدکے اہتمام میں دعوت ہوتی ہے اگر اس طرح کی چیز یں اور رسمیں شامل ہوں تو یہ ناجائز ہے(۱) اور اگر ان رسوم ورواج کے طور پر نہ ہو؛ بلکہ شادی سے پہلے ہی مہمان آجاتے ہیں؛ اس لیے کہ مزید کچھ قریبی رشتہ داروں کی دعوت کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) بارات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، یہ بھی زمانہ قدیم کی رسم ہے جب راستے پر خطر ہوا کرتے تھے اس وقت کی ضرورت تھی جس میں خاندان اورمحلہ کے ایک ایک آدمی شریک ہوتے تھے، اب ایسا کچھ نہیں ہے، بارات کا ثبوت احادیث سے نہیں ہے بس چند لوگ جائیں اور رخصتی لے کر آجائیں، اتنے زیادہ لوگوں کا جانا جس کی وجہ سے لڑکی والوں پر بوجھ پڑ جائے درست نہیں ہے(۳) کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مہذب تہذیب کی بد تہذیبی ہے جس میں کھانے کا احترام مفقود ہو جاتا ہے اور انسان او رحیوان کی تمیز ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ کھڑے ہو کر اور چل پھر کر کھانا درحقیقت جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لیے کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے (۴) ولیمہ مسنون ہے جس میں کوئی تعداد مسنون نہیں ہے اس لیے جس قدر افراد کی دعوت کی جائے ولیمہ ادا ہو جائے گا اس میں غرباء ومساکین کی دعوت ضروری نہیں ہے ہاں ایسے موقع پر غرباء مساکین کو بھی شریک کرنا باعث خیر ہے؛ لیکن ان کی دعوت نہ کرنے کی وجہ سے ولیمہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن اگر وہ غرباء رشتہ دارہوں تو محض ان کی غریبی کی وجہ سے ان کو نظر انداز کردینا ناپسندیدہ عمل ہے۔(۵) ماقبل کے جواب سے وضاحت ہوگئی ہے۔

’’أن جاء عبد الرحمن علیہ أثر صفرۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تزوجت؟، قال: نعم، قال: ومن؟، قال: امرأۃ من الأنصار، قال: کم سقت؟، قال: زنۃ نواۃ من ذہب -أو نواۃ من ذہب-، فقال لہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أولم ولو بشاۃ(۲) عن عبد اللّٰہ بن عمرو، أن رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - قال: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ،(۳) عن أنس، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی أن یشرب الرجل قائما فقیل: الأکل؟ قال: ذاک أشر: ہذا حدیث صحیح۔(۱)

(۱) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
 أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ ولو بشاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۷، رقم: ۵۱۶۸۔
(۳) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادي عشر، مسند عبد اللّٰہ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۶۶۲۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النہي عن الشرب قائماً‘‘: ج ۲، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۷۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص465
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عید مبارک‘‘ لفظ کے ساتھ عید کے دن کسی کو مبارکباد دینا مباح ہے،(۳) اگرچہ اس بارے میں اقوال مختلف ہیں ’’واختلف في قول الرجل لغیرہ یوم العید: تقبل اللّٰہ منا ومنک الخ‘‘(۴)

۳) إن من المستحبات التزین وأن یظہر فرحا وبشاشۃ ویکثر من الصدقۃ حسب طاقتہ وقدرتہ، وزاد في القنیۃ استحباب التختم والتبکیر وہو سرعۃ الانتباہ والابتکار، وہو المسارعۃ إلی المصلی وصلاۃ الغداۃ في مسجد حیہ والخروج إلی المصلی ماشیا والرجوع في طریق آخر والتہنئۃ بقولہ: تقبل اللّٰہ منا ومنکم إلخ۔ (إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)
(۴)حلبي کبیر: ص :۵۷۳


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کی ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو، تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں ہے(۱)۔ اور ان کو تعلیم دینے کے لیے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی شر کا اندیشہ ہو، تو گریز کرنا چاہئے۔

(۱) إذا قال الکافر من أہل العرب أو من أہل الذمۃ علمني القرآن فلا بأس بأن یعلمہ ویفقہہ في الدین قال القاضي علي السغدي إلا أنہ لا یمس المصحف فإن اغتسل ثم مسہ فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۳)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2589/45-4117

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مرحوم کی کل جائداد 12 حصوں میں تقسیم ہوگی، جن میں سے ماں کو دو حصے،  اور دونوں بھائیوں کو  پانچ پانچ حصے ملیں گے،  اور علاتی بہن کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :کتا نجس ہے، اگر اس کے اوپر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو تو وہ اوپر سے پاک ہے، اس لیے اگر کپڑے اس سے لگ جائیں تو پاک ہی رہیں گے ناپاک نہیں ہوں گے۔(۲)

(۲)وقع الکلب في بئر تنجس أصاب فمہ الماء أو لم یصب، ولو ابتل فانتفض فأصاب ثوبا أکثر من الدرھم أفسدہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز، ج۱، ص:۹۸)؛ و أما شعر الحیوان غیر مأکول اللحم المتصل بہ فاتفق الفقھاء علی طھارتہ واستثنیٰ الحنفیۃ الخنزیر۔ (وزارۃ الأوقاف- الکویت، الموسوعۃ الفقہیہ، حکم شعر الحیوان الحي،ج،۲۶، ص:۱۱۱)؛ وإذا نام الکلب علی حصیر المسجد، إن کان یابسا لا یتنجس، و إن کان رطبا ولم یظھر أثر النجاسۃ فکذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص410

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیاطین کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلا جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے اس لیے اگرگھر میں اٹیچ بیت الخلا ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے؛ لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت ا لخلا دعا پڑھ کر جاتے ہیں وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔

’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ قال: (إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: اللہم إني أعوذ بک من  الخبث والخبائث)، فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا،(۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ -عز وجل- {کل شرب محتضر} (سورۃ القمر: ۲۸) أي یصیب منہ صاحبہ۔ مالک عن یحیی بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتی لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن‘‘(۲)
(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’وروینا عن أبي أمامۃ الباہلی، واسمہ صدي بن عجلان عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ حدیث حسن، رواہ أبو داود بإسناد حسن، ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالیٰ: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشيء، کما یقال: تامر، ولابن: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالٰی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا‘‘۔
’’وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء‘‘(۱)
(۳) بیت الخلا کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں؛ اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے؛ لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہو جاتے ہیں۔
(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو، گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی منزل، اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں، اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا، تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ، تو بہتر  ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔
 

(۱) شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲)  ابن عبدالبر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب ا لأذکار للنووي:ج ، ص: ۲۴، رقم: ۶۰۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص119

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر یقینی طور سے معلوم ہے کہ منی ہے، تو غسل ہی کرے پسینہ کی وجہ سے منی سمجھنے لگے تو اس کا علاج نہیں ہے، ویسے اگر شبہ ہو اور معاملہ مشتبہ بھی ہو جائے، تو احتیاطاً غسل کرلے۔(۲)

(۲) و فرض لإنزال مني … ولرؤیۃ مستیقظ لم یتذکر الاحتلام بللاً ولو مذیاً خلافاً لہ(خلافاً لہ) أي لأبي یوسف۔ لہ أن الأصل براء ۃ الذمۃ، فلا یجب إلا بیقین، وھو القیاس، ولھما أن النائم غافل، والمني قد یرق بالھواء، فیصیر مثل المذي، فیجب علیہ احتیاطاً۔ (الحصکفی، مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج ۱، ص:۳۹بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) و إن شک أنہ مني أو مذي،…قال أبویوسف رحمہ اللّٰہ: لا یوجب الغسل حتی تیقن بالاحتلام، و قالارحمھما اللّٰہ: یجب الغسل۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، و مما یتصل بخروج المنی مسائل الاحتلام‘‘ ج۱، ص:۲۸۵مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛ وقولہ : (خرج رؤیۃ السکران والمغمی علیہ المذي) … والفرق أن النوم مظنۃ الاحتلام، فیحال علیہ، ثم یحتمل أنہ مني رق بالھواء أو للغذاء، فاعتبرناہ منیاً، احتیاطاً۔(ابن عابدین، رد المحتار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱۱، ص:۳۰۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص300

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے جو حالات سوال میں مذکور ہیںان سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف وانتشار اور لڑائی وغیرہ پیدا ہوتی ہے، امام صاحب پر لازم ہے کہ اس طرح کے عمل کو ترک کردیں ورنہ اپنا کوئی دوسرا نظم کر لیں امامت کا منصب انتہائی اہم ہے۔ مقتدیوں کو بھی لازم ہے کہ حقائق پر ہی کوئی فیصلہ کریں۔(۲)

(۲) ویکرہ تقدیم العبد والأعرابي والفاسق لأنہ لا یتہم لأمر دینہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰؛ وإبراہیم الحلبي، وحلبی کبیري، ’’ ‘‘: ص: ۳۱۷؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:لوگوں میں نماز کی طرف سے تساہل عام ہوتا جا رہا ہے طلوعِ آفتاب وغیرہ کے اوقات کا پورا خیال نہیں رہتا، اگر طلوعِ آفتاب کے وقت نماز پڑھی جائے، تو وہ نماز ادا نہیں ہوتی جب کہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ میری نماز ادا ہوگئی ہے اس لیے نماز کو فساد سے بچانے کے لیے اس اعلان میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن موسیٰ بن علي عن ابیہ، قال: سمعت عقبۃ بن عامر الجہني یقول ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلي فیہن أو أن نقبر فیہن موتانا حین تطلع بازغۃ حتی ترتفع وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ: کتاب المساجد، ومواضع الصلاۃ: باب الأوقات التي نہي عن الصلاۃ فیہا، ج ۱، ص: ۲۳۵، رقم: ۸۳۱؛ وأحمد بن حنبل في مسند: ج ۴، ص: ۱۵۲، رقم: ۱۷۴۱۵)؛ وعن ابن عمر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قال لا یتحری أحدکم فیصلی عند طلوع الشمس ولا عند غروبہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لاتتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس‘‘ ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۸۵)؛ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا طلع حاجب الشمس فأخرو الصلاۃ حتی ترتفع إذا غاب حاجب الشمس فأخرو الصلاۃ حتی تغیب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلوۃ: باب الصلوۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۸۳)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 65

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کرسیوں پر نماز کے تعلق سے چند باتیں پیش نظر رہنا ضروری ہیں:
(۱) نماز میں قیام،رکوع اور سجدہ فرض ہے، اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہو اور قیام نہ کرے تو فرض کے چھوٹ جانے کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود‘‘(۱)
’’و الثانیۃ من الفرائض القیام ولو صلی الفریضۃ قاعدا مع القدرۃ علی القیام لا تجوز صلاتہ بخلاف النافلۃ علی ما یأتی‘‘(۲)
(۲) اگر تھوڑی دیر قیام پر قادر ہو، مکمل قیام پر قادر نہ ہو تو جتنی دیر قیام پر قادر ہو اتنی دیر قیام کرنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
(۳) اسی طرح اگر کوئی شخص رکوع سجدہ پر قادر ہو اور رکوع سجدہ نہ کرے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’والخامسۃ السجدۃ وہي فریضۃ تتأدي بوضع الجبہۃ علی الأرض أو ما یتصل بہا بشرط الانخفاض الزائد علی نہایۃ الرکوع مع الخروج عن حد القیام‘‘(۱)
(۴) اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے؛ لیکن سجدہ پر قادر نہیں ہے تو اس سے قیام ساقط ہو جاتا ہے۔
’’وإن قدر المریض علی القیام دون الرکوع و السجود أي بحیث لوقام لا یقدر أن یرکع ویسجد لم یلزمہ القیام عندنا بل یجوز أن یؤمي قاعدا وہو أفضل‘‘(۲)
(۵) اگر کوئی شخص بیٹھ کر رکوع سجدہ کرکے نماز پڑھ سکتاہے تو اس کے لیے بیٹھ کر رکوع سجدہ کے ذریعہ نماز پڑھنا ضروری ہوگا، زمین پر سجدہ نہ کرتے ہوئے کرسی پریا زمین پر اشارہ سے سجدہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
’’وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود فإنہ یصلی المکتوبۃ قاعدا برکوع وسجود لا یجزیہ غیر ذلک‘‘(۳)
(۶) اگر رکوع سجدہ پر قدرت نہیں اور زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرسکتا ہے تو تشہد ہی کی حالت میں بیٹھنا ضروری نہیں؛ بلکہ جس ہیئت پر بھی نماز پڑھنا آسان ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہیے۔
معلوم ہوا کہ عام حالات میں کرسی پر نماز پڑھنا یا معمولی عذر کی بنا پر کرسی پر نماز پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی شخص رکوع سجدہ پر قادر نہیں ہے کمر کی تکلیف کی وجہ سے یا گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے، بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہے یا بیٹھنے کے بعد اٹھنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے یا ڈاکٹروں نے زمین پر بیٹھنے سے منع کیا ہے اور وہ عام حالات میں کرسی پر ہی بیٹھتا ہے تو اس کے لیے کرسی پر نماز ادا کرنے کی گنجائش ہوگی۔
مذکورہ تمہیدی گفتگو کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات تحریر کئے جاتے ہیں ۔
(۱) جو شخص رکوع سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے؛ اس لیے کرسی پر نماز پڑھنے والے حضرات کے لیے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے ان کو مکمل نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھنی چاہیے، قیام کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ان کے قیام کرنے کی وجہ سے بسااوقات صف کی ترتیب میں خلل واقع ہوتاہے۔
(۲) جو شخص رکوع سجدہ پر قادر ہے؛ لیکن قیام پر قادر نہیں اس لیے وہ قیام کے وقت کرسی پر بیٹھتاہے اور پھر رکوع سجدہ مکمل کرتا ہے اس کے لیے بہتر ہے کہ بیٹھ کر جس ہیئت پر سہولت ہو نماز پڑھے اور رکوع سجدہ کرے۔ قیام کی حالت میں کرسی پربیٹھنا اور رکوع سجدہ کے وقت رکوع سجدہ کرنے سے اگر چہ نماز ہوجائے گی لیکن متوارث طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے نماز مکروہ ہوگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کو بواسیر کی بیماری تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کھڑے ہوکر نماز پڑھو اور اگر کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھو؛ اس لیے بہتر ہے کہ وہ شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع سجدہ سے نماز پڑھے۔
(۳) اگر کوئی شخص واقعی معذور ہے جس کا بیان اوپر آچکاہے اور وہ مکمل نماز کرسی پر پڑھتا ہے اور رکوع سجدہ اشارہ سے کرتا ہے تو اس کی نماز درست ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۲۔
(۲) أیضاً: ج ۲، ص: ۷۴۔
(۱) أیضاً:  ج ۲، ص: ۱۱۱۔
(۲) أیضاً:  ج ۲، ص: ۸۱۔
(۳) عالم بن العلاء الحنفی، التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۶۶۔
وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶)
عن نافع أن عبد اللّٰہ بن عمر کان یقول إذا لم یستطع المریض السجود أومأ برأسہ إیماء إلی الأرض ولم یرفع إلی جبہتہ شیئاً۔ (أخرجہ أنس بن مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ، باب العمل في جامع الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۵۶)
وفي الحموي فإن رکع جالسا ینبغي أن تحاذی جبہتہ رکبتیہ لیحصل الرکوع اہـ۔ ولعل مرادہ إنحناء الظہر عملا بالحقیقۃ لا أنہ یبالغ فیہ حتی یکون قریبا من السجود۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۹)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 325