Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3143/46-6044
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بلاعذرنچلی منزل کو خالی چھوڑکر اوپر کی منزل میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، کیونکہ دوسری منزل پر جماعت مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث عمل کے خلاف ہے، نیز نچلی منزل کا خالی رہنا احترامِ مسجد کے بھی خلاف ہے۔ نماز نچلی منزل میں ہی جماعت سے پڑھی جائے پھر نچلی منزل جب پُر ہوجائے تو دوسری منزل پر مقتدی حضرات چلے جائیں۔ البتہ اگرکوئی عذر ہو مثلا نچلی منزل میں صفائی وغیرہ کا کام چل رہاہو تو دوسری منزل میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اور مقتدی کچھ نیچے کچھ اوپر کی منزلوں میں اقتداکریں تو اس کی گنجائش ہے۔ جب تک ایک منزل مکمل طور سے پُر نہ ہوجائے دوسری منزل میں نہیں جانا چاہئے۔ اور صفوں کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
’’الصعود على سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب‘‘. (الھندیۃ ٥/ ٣٢٢، ط: رشيدية)
’’و كذا الصعود علي سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بجماعة فوق السطح، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، و أما شدة الحر فلأنها لاتوجب الضرورة ط، و إنما يحصل به زيادة المشقة و بها يزداد الأجر. كله من المحيط و غيره‘‘(نصاب الاحتساب، الباب الخامس عشر في ما يحتسب في المسجد، ص: ٣٢، قلمي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3142/46-6034
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بے معنی سا لفظ ہے، اس لئے بہتر ہے کہ کوئی اچھے معنی والا لفظ دیکھ کر نام رکھاجائے۔ اور نام رکھنے کے معاملہ میں صحابہ اور بزرگان دین کے ناموں کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ نام میں جدت پیداکرنے کے لئے مہمل الفاظ کا انتخاب بالکل غیرمناسب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3141/46-6041
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی کمپنی کا کاروبار اور اس میں سرمایہ کاری کا طریقہ شریعت کے مطابق ہے یعنی جس میوچول فنڈ میں منیجر حلال کمپنی میں پیسہ لگاتا ہے،نفع و نقصان میں شرکاء شریک ہوتے ہیں ، اور نفع کو فی صد کے حساب سے تقسیم کیاجاتاہے ، نیز بینک میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی ہے تو اس میں پیسہ لگانا جائز ہے۔ اب یہ تمام تفصیلات کا علم پہلے حاصل کرلیں پھر پیسے لگائیں، آگر آپ نے تحقیق کئے بغیر پیسے لگادئے تو اب تحقیق کریں اگر اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق سرمایہ کاری درست ہو تو اس کا فائدہ استعمال کرنا بھی درست ہوگا، ورنہ اپنی رقم لے کر فائدہ کی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No. 3153/46-6030
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The prohibition of gambling and interest (usury) is clearly established in the Quran and Hadith, and all the dealings based on gambling and interest are haram and unlawful. Medical health insurance often contains elements of gambling or interest, which is why it is generally considered impermissible under Sharia. If a medical issue arises within a specified period, the insured receives money with interest; conversely, if no disease develops, the deposited amount is not refunded, thus it also falls under the definition of gambling.
However, if a company deems health insurance compulsory, employees may only utilize medical benefits to the extent of the amount collected through the insurance. Getting more than this amount would not be permissible. In cases of financial hardship or lack of resources for treatment, there is some allowance based on necessity.
This raises the question of what Muslims should do in such situations. The answer is that the community organizations should establish a structured plan for medical assistance and raise a fund to support vulnerable Muslims facing serious health issues. In India, for example, numerous schools, spiritual centers, and charitable organizations operate on public donations, contributing significantly to community welfare. A similar fund can be raised specifically for medical assistance to benefit the poor.
Additionally, the aid of the government should be sought. For programs or medical cards through which the government allocates funds for treatment, it is advisable to consult with experts to get maximum benefit.
And Allah knows best
Darul Uloom Waqf Deoband
Divorce & Separation
Ref. No. 3136/46-6042
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
(In Islam, Nikah (marriage) is considered a sacred bond, and Islam emphasizes its stability by encouraging mutual love, affection, and fulfillment of each other's rights. However, if for some reasons, there is discord between the husband and wife, the elders of both families should first attempt to reconcile, as divorce is regarded as a disliked act in Islam, and its unnecessary use is not appropriate.
If there is no way for reconciliation and there is a fear of discord and conflict, then Islam permits separating with one explicit divorce (Talaq). After one divorce, if they wish to reunite, they can do so during the Iddah (waiting period) through reconciliation or after the Iddah by remarrying.
Issuing three divorces at once is considered a sin in Islamic law and is also a punishable offense under the country's legal system.)
In our common usage, the word "Azad" (free) is clearly used to mean divorce. Therefore, even without the intention, one revocable divorce (Talaq-e-Raj'i) has taken place. The husband then gave a second divorce and reconciled, and later gave a third conditional divorce which was fulfilled. As a result, all three irrevocable divorces (Talaq-e-Mughallazah) have occurred, making it forbidden and sinful for both of you to continue living together, and the Nikah (marriage) is also prohibited.
Now, the woman is all the way free, and after completing her Iddah (waiting period), she may marry another man if she wishes to do so.
And Allah knows best
Darul Ifta
darul Uloom Waqf Deoband
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 3135/46-6032
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت مطہرہ نے زکوٰۃ کے مصارف متعین کردیئے ہیں، ان مصارف کے علاوہ کسی دوسری جگہ زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی۔ زکوۃ میں تملیک ضروری ہے یعنی زکوۃ دینے والوں پر لازم ہے کہ زکوۃ کسی مستحق شخص کی ملکیت میں دیں، بلا تملیک مال کو کسی غریب پر خرچ کردینے سے بھی زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے، نیز زکوۃ کی رقم براہ راست رفاہی کاموں میں بھی استعمال نہیں کی جاسکتی ہے۔ لہذا سیاسی پارٹی کے عام چندہ میں زکوۃ کی رقم دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ہاں اگرکوئی سیاسی آدمی زکوۃ کی رقم جمع کرکے فقراء و مساکین اورمستحق بیواؤں میں تملیک کے طور پر تقسیم کرے تو اس کی گنجائش ہے۔ اس سلسلہ میں لوگوں میں بیداری لائی جائے کہ سیاسی جماعت کے عام چندہ میں زکوۃ کی رقم نہ دیں، ورنہ زکوۃ ادانہیں ہوگی۔
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى ." (الفتاوي الهندية، ص: 170، ج:1،کتاب الزکاۃ،ألباب الأول،ط:دار الفكر،بيروت)
"وَ لَايَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَا يُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَلَا يُشْتَرَى بِهَا عَبْدٌ يُعْتَقُ، وَلَا يَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ كَذَا فِي الْكَافِي." (الھندیۃ، كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٨، ط: ظار الفكر)
"وَ لَا يَخْرُجُ عَنْ الْعُهْدَةِ بِالْعَزْلِ بَلْ بِالْأَدَاءِ لِلْفُقَرَاءِ." (شامي، كتاب الزكوة، ٢ / ٢٧٠، ط: دار الفكر)
"وَ يُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الصَّرْفُ (تَمْلِيكًا) لَا إبَاحَةً كَمَا مَرَّ." (شامي، كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة و العشر، ٢ / ٣٤٤، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندطلاق و تفریق
Ref. No. 3134/46-6014
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں دوسرا مسلمان مرتد نہیں ہوا، اس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم جو زبردستی زبان سے کہلوانا چاہتے ہو حالانکہ زبانی کلمہ پڑھنا ضروری نہیں اور جو پہلے سے مسلمان ہو اس کے لئے زبان سے سب کے سامنے کلمہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ کہنے والے کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ میں مسلمان ہی نہیں ہوں۔سیاق و سباق سے گرچہ ایمان سے خارج نہیں ہوا تاہم شوہر پر لازم ہے کہ وہ توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لیے ایسے الفاظ کہنے سے سخت اجتناب کرے۔
رجل ضرب امرأته فقالت المرأة: لست بمسلم، فقال الرجل: هب أني لست بمسلم، قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى: لا يصير كافرا بذلك، فقد حكي عن بعض أصحابنا أن رجلا لو قيل له :ألست بمسلم؟ فقال: لا ،لايكون ذلك كفرا ؛لأن قول الناس: لیس بمسلم معناہ: أن أفعالہ لیست من أفعال المسلمین. وقال الشیخ الامام الزاهد رحمه الله تعالی: اذا لم یکن ذلك کفرا عند بعض الناس فقوله: هب أني لست بمسلم أبعد من ذلك. (الفتاوی الخانیة: (کتاب السیر، باب ما یکون کفرا من المسلم وما لا یکون، 425/3، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3133/46-6013
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کےامور امام صاحب یا متولی صاحب ہی طے کریں، ہر شخص کی رائے پر عمل ممکن نہیں ہے۔ جنتریوں میں جو ایک دو منٹ کا فرق ہوتاہے وہ احتیاط کا ہوتاہے، کسی جنتری میں اصل وقت لکھاہوتاہے اور کسی میں دو یا تین منٹ کی احتیاط رکھ کر وقت لکھاجاتاہے، اس لئے جو جنتری کے وقت پر اذان دیدے وہ بھی درست ہے اور جو دو تین منٹ کے احتیاط پر عمل کرے وہ بھی ٹھیک ہے۔ اس لئے کوئی شخص بھی اپنی ذاتی رائے سے امام و متولی کو پریشان کرکے فسادپیدا نہ کرے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ متولی یا مسجد کمیٹی کے مشورہ سے امور طے کرلیا کریں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندمتفرقات
Ref. No. 3132/46-6012
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے موقع پر قانون کا سہارا لینا اور قانونی کارروائی کرنی چاہئے ، نیز نبی کریم ﷺ کے اوصاف کو لوگوں میں بیان کرنا چاہئے۔ مثبت طریقہ پر کام کرنے سے زیادہ فائدہ ہوتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 3128/46-6006
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not your duty to verify whether the headmaster has the authority to grant leave or the basis on which he made the announcement. As you are under the headmaster's supervision, his decision regarding leave should be followed. Once leave is announced, you are not required to attend the school, and you will not be held accountable. Your salary will still be considered legitimate.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband