Divorce & Separation

Ref. No. 3074/46-4925

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہرنے بیوی سے تنگ آکر اس طرح کا جملہ محض جان چھڑانے کے لئے بولا ہے ، اس سے بیوی کو  ماں کے ساتھ کسی چیز میں تشبیہ دینا یا طلاق دینا یا ظہار وغیرہ کی نیت نہیں ہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور رشتہ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  اور اس سے ظہار بھی نہیں ہوگا، تاہم اس طرح کا جملہ بیوی کے لئے بولنا یعنی بیوی کو ماں کہنا ناپسندیدہ ہے ، اس لئے شوہر کو چاہئے کہ  آئندہ اس طرح کا لفظ استعمال کرنے سے  اجتناب کرے۔

وإن نوى بأنت علي مثل أمي) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه" (قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه". (الدر المختار مع رد المحتار (3 / 470)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3073/46-4924

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حدیث شریف میں مندرجہ درج ذیل  دعا موجود ہے، اس مسنون دعا کا کثرت کے ساتھ اہتمام کریں ان شاء اللہ ، اللہ تعالی آسانیاں پیدا کریں گے: "اَللّهمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ البَرصِ وَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ مِنْ سَيْئِ الأسْقَامِ". 

نیز مندرجہ ذیل آیاتِ شفاء ہر روز صبح پڑھ کر ایک بوتل  پانی پر دم کرکے دن بھر مریض  کو پلائیں، اس سے بھی افاقہ ہوگا ان شاء اللہ۔

 "وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ. يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ. وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ. يَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُه‘ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ. وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا. وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ. قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَآءٌ".(اعمال قرآنی،ص:29،ط:دار الاشاعت کراچی )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3072/46-4923

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پنجوقتہ نماز باجماعت کی پابندی سب سے پہلے ضروری ہے، اسی سے گناہوں اور  فحاشی کے کاموں سے نجات حاصل ہوگی۔ نیز آخرت کی فکر اور جہنم کا تصوربھی گناہوں سے اجتناب میں  بہت مؤثر ہے۔ ہر وقت اور خاص طور پر گناہ کے وقت  یہ دھیان میں رہے کہ اللہ تعالی ہم کو اس حالت میں بھی دیکھ رہاہے ، یہ خیال جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اللہ کا خوف پیدا ہوگا اور گناہوں سے بچنے میں کافی مدد ملے گی۔ یقینا اللہ تعالی کا عذاب سخت ترین  ہے اور کس حالت میں موت آجائے کسی کو نہیں معلوم، اس لئے ہر وقت  اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گناہ کی حالت میں  موت آجائے تو اللہ  کو کیا منھ دکھائیں  گے۔  بہتر ہوگا کہ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرلی جائے اور بری صحبتوں سے مکمل اجتناب کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 3071/46-4929

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The bleeding that started from July 22 to 29 was menstruation. The blood spot that was seen from August 8 to 18 was Istihazah because at least fifteen days of purity are required between two menstruations. During the days of Istihaza, it is obligatory to make up for the missed prayers. Later on, the bleeding that appeared again on August 28 as per the habit of the woman was menstruation.

أقل الطهر) بين الحيضتين أو النفاس والحيض (خمسة عشر يومًا) ولياليها إجماعًا (ولا حد لأكثره)".الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 285(

"فالأصل عند أبي يوسف وهو قول أبي حنيفة الآخر على ما في المبسوط أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لا يصير فاصلا بل يجعل كالدم المتوالي؛ لأنه لا يصلح للفصل بين الحيضتين فلا يصلح للفصل بين الدمين." (البحر الرائق،كتاب الطهارة،باب الحيض،216/1،ط:دار الکتب الإسلامي)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Business & employment

Ref. No. 3070/46-4981

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1:۔ مذکورہ معاملہ میں بہت سارے مفاسد پائے جارہے ہیں، اس لئے اس طرح  اجارہ کا معاملہ کرنا  درست نہیں ہے۔  یا تو پورے طور پر ہر چیز میں شرکت کا معاملہ کیاجائے اور نفع و نقصان میں دونوں شریک ہوں یا پھر عمرو کو اجیر رکھ کر کام کرایا جائے اور اس کو متعینہ اجرت دی جائے، تبھی معاملہ درست  ہوسکتاہے۔ 2:۔ گائے کے دودھ کو اجرت کے طور پر متعین کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ گائے کتنا دودھ دے گی  معلوم نہیں ہے اس لئے اجرت مجہول ہے، اور ہوسکتاہے کہ بالکل بھی دودھ نہ دے تو اجیر کو کچھ بھی اجرت نہیں ملے گی ۔ اس لئے یہ  معاملہ جائز  نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.   No.  3069/46-4922

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ قبر میں نیک اور برے ہمسایہ کا اثر دوسرے مردوں تک پہنچتا ہے۔ "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کو نیک لوگوں کی  قبروں کے درمیان دفن کرو، اس واسطے کہ مردوں کو برے ہمسائے سے تکلیف پہنچتی ہے، جیسے زندوں کو برے ہمسایہ سے تکلیف پہنچتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارا کوئی مر جائے تو اس کو اچھا کفن دو اور جلدی لے جاؤ، اور قبر گہری تیار کرو، ،اور برے ہمسایہ سے اس کو دور رکھو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آخرت میں بھی نیک ہمسایہ سے نفع ہوتا ہے؟ آپ نے پوچھا دنیا میں نفع ہوتا ہے، سب نے عرض کیا : ہاں ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اسی طرح آخرت میں بھی ہوتا ہے۔"

 نیک ہمسایہ کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کرنا یا عذاب دور کردینا یہ اللہ تعالی کا فعل ہے،  کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی کے عذاب میں کمی کردے یا کسی سےعذاب دور کردے یہ اختیار کسی کو حاصل نہیں ۔  اس سلسلہ میں کسی پیر ،  ولی یا نبی کو خود مختارسمجھنا عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔

تاہم جس کی برائیاں ظاہر ہوں اس کو نیک لوگوں کے درمیان دفن  کرنے سے نیک لوگوں کو تکلیف ہوگی، اس لئے ایسے شخص کی تدفین نیک لوگوں سے  دورکرنی چاہئے۔

"وأخرج أبو نعيم، وابن مندة ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ ادفنوا موتاكم وسط قوم صالحين، فإن الميت يتأذى بجار السوء ، كما يتأذى الحى بجار السوء .۔۔واخرج ابن عساكر في تاريخ دمشق ، بسند ضعيف ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله ﷺ : ادفنوا موتاكم في وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجار السوء  ..""وأخرج الماليني عن ابن عباس عن النبي الا الله قال : إذا مات لأحد كم ا لميت ، فأحسنوا كفته، وعجلوه بإنجا زوصيته وأعمقوا له في قبره ، وجنبوه الجار السوء ، قيل يا رسول الله !وهل ينفع  الجار الصالح في الاخرة:قال هل ينفع في الدنيا،قال: نعم، قال:كذالك ينفع في الاخرة..." (شرح الصدور بشرح حال المونى والقبور ،با ب دفن العبد في الأرض التى خلق منها ،ص: 133۔۔۔ 135، ط: المكتبة التوفيقية)

قال علماؤنا: ويستحب لك ـ رحمك الله ـ أن تقصد بميتك قبور الصالحين.ومدافن أهل الخير.فندفنه معهم، وتنزله بإزائهم، وتسكنه في جوارهم، تبركا بهم، وتوسلاً إلى الله عز وجل بقربهم، وأن تجتنب به قبور من سواهم، ممن يخاف التأذي بمجاورته، والتألم بمشاهدة حاله حسب ما جاء في الحديث."(التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة،لشمس الدين القرطبي (ت ٦٧١)، ص:٣١٥،  ط:دار المنهاج)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3063/46-4895

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی نے شوہر سے خلع کا مطالبہ کیا اور شوہر نے اس کو منظور کرلیا توخلع درست ہوگیا اور عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ خلع کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جس طرح طلاق کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے اور جس طرح فون پر طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح فون پر خلع بھی صحیح ہوجاتاہے۔

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No. 3067/46-4931

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In this regard, you had better refer to Hafiz Ibne Hazm's book Ismat e Anbiyya translated by Hidayatullah Nadwi, and Risala Bayyinat by Allama Syed Muhammad Yusuf Banuri, as well as Darul Uloom's online Fatwa No. 40922. And also you can show it to your brother. Everyone should refrain from discussing the disputes of the Prophets and Companions. This is the tact of Ahle Sunnat wal Jamaat.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Fiqh

Ref. No. 3061/46-4896

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فضائل اعمال ایک معتبر کتاب ہے، اور پانچ منٹ کا مدرسہ بھی معتبر ہے، دونوں کتابیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہی لکھی گئی ہیں، دونوں میں قرآن و حدیث ہی کی باتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں کتابوں میں سے کوئی بھی تعلیم کے لئے منتخب کی جاسکتی ہے، اور کونسی کتاب زیر تعلیم ہو اس سلسلہ میں امام صاحب کو اختیار دیدینا چاہئے ورنہ ہر شخص اپنے حساب سے کتابیں لائے گا اور امام کو اپنی مطلوبہ کتاب پڑھنے کا مکلف کرے گا اور اس طرح مسجدکا نظم و نسق ایک مذا ق بن جائے گا۔ مقتدیوں پر لازم ہے  کہ وہ کتاب کی باتوں پر توجہ دیں اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو عمل پر لانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں، اوراختلافی چیزوں میں ہرگز نہ پڑھیں۔ مسجد میں مختلف مزاج و مذاق کے لوگ آتے ہیں اور ہر ایک کی رعایت کرنا امام صاحب کے بس میں نہیں ہے، اس لئے کتاب کا انتخاب امام کے سپرد کردیا جائے، شاید  اسی میں خیرہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3063/46-4895

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The wife demanded khula from her husband and husband accepted it, so the khula with one Talaq e Bain did happen. It is not necessary to have a witness for Khula, just as it is not necessary to have a witness for divorce, and just as divorce takes place over the phone, Khula is also valid over the phone.

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband