نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2357/44-3555

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں،  اور سنت میں کمی یا زیادتی کراہت کا باعث ہے۔لقمہ ملنے پر امام کوقیام کے لئے  دوبارہ تکبیر نہیں کہنی چاہئے تھی، البتہ  مقتدیوں کی رعایت میں  چونکہ امام نے ایسا کیا ہے، اس لئے نماز درست ہوگئی۔

 (وجهر الامام بالتكبير) بقدر حاجته للاعلام بالدخول والانتقال”(شامی ج ۱ ص ۴۷۵/المکتبة الاسلامية)

ولایجب السجود إلا بترک واجب - إلی قولہ - ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلوۃ العید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۲۶)

ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساءۃ لو عامدا ۔(الدر المختار، ۱/۳۱۸)

وثانی عشرہا التکبیرات التي یؤتی بہا فی خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع منہ والنہوض من السجود أو القعود إلی القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہی مشتملۃٌ علی ست سنن کما تری۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۸۳)

"ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الهدایة“ قال الطحاوي: وهو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط". (الھندیۃ کتاب الصلوۃ1/ 131، ط: دار الکتب العلمیة )

وفي مجمع الأنہر: والتبکیر سنة کذا في أکثر الکتب / مجمع الأنہر ۱ص۱۴۹۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2495/45-3803

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اچھے اور دینی اشعار سننے کی گنجائش ہے، لیکن جو شاعر ایسے مخلوط اشعار کہتاہو، اس کے اشعار سننے سے گریز کرنا چاہئے، بار بار غلط یا کفریہ اشعار کان پر پڑیں یہ مناسب نہیں ہے۔ اپنے ایمان کے ساتھ اپنے دل و دماغ کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2320/45-4128

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلے میں آپ کسی کتب خانہ سے رابطہ کرلیں یا دیوبند کے کسی مکتبہ کی فہرست کتب دیکھ لیں کتابوں کے نام مع مصنف کے مل جائیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جائز اور درست ہے، ذکراللہ، تسبیح اور درود شریف کے لیے وضو کی ضرورت نہیں؛ البتہ حالت جنابت میں احتیاط یہ ہے کہ جلد غسل کرلے اور پاکی کی حالت میں ذکر کرے۔(۲)

(۲)ولابأس لحائض و جنب بقراء ۃ أدعیۃ و مسھا و حملھا، و ذکر اللّٰہ تعالی و تسبیح۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ ج۱، ص:۴۸۲) ولا یکرہ لہ قراء ۃ دعاء القنوت في ظاھر مذہب أصحابنا رحمھم اللہ تعالیٰ: لأنہ لیس بقرآن، … و في الکبری وعلیہ الفتویٰ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الغسل بما یتصل بھذا الفصل بیان أحکام الجنابۃ‘‘ج۱،ص:۲۹۱) ؛ وإلا أن لا یقصد بما دون الآیۃ القراء ۃ، مثل أن یقول: الحمد للّٰہ یرید الشکر، أو بسم اللّٰہ عند الأکل وغیرہ فإنہ لا بأس بہ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدعاء، المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، و منھا حرمۃ قراء ۃ القرآن‘‘ج۱،ص:۹۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص304

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے اور جس طرح عام دنوں میں زوال کا وقت ہوتا ہے اسی طرح جمعہ میں بھی زوال کا وقت ہوتاہے اور جمعہ کے دن بھی زوال (نصف النہار) کے وقت نماز مکروہ ہے۔ روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن زوال کے بعد نماز پڑھتے تھے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں اس پر اجماع نقل کیاہے کہ جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
’’وأجمع الفقہاء علی أن وقت الجمعۃ بعد زوال الشمس إلا ما روي عن مجاہد أنہ قال: جائز أن تصلي الجمعۃ في وقت صلاۃ العید؛ لأنہا صلاۃ عید‘‘(۲)
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز زوال کے بعد ہی پڑھتے تھے اور جن روایتوں سے زوال کے سے پہلے پڑھنے کا وہم ہوتا ہے اس کا جواب بھی انہوں نے دیا ہے۔
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس فیہ إشعار بمواظبتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی صلاۃ الجمعۃ إذا زالت الشمس، وأما روایۃ حمید التي بعد ہذا عن أنس رضي اللّٰہ عنہ کنا نبکر بالجمعۃ ونقیل بعد الجمعۃ فظاہرہ أنہم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النہار لکن طریق الجمع أولی من  دعوی التعارض وقد تقرر فیما تقدم أن التبکیر یطلق علی فعل الشیء في أول وقتہ أو تقدیمہ علی غیرہ وہو المراد ہنا والمعنی أنہم کانوا یبدوؤن بالصلاۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتہم في صلاۃ الظہر في الحر‘‘(۱)
 

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما جاء في وقت الجمعۃ، إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن بطال أبو الحسن علي بن خلق بن عبد الملک، شرح صحیح البخاري لابن بطال، ’’باب ما جاء في وقت الجمعۃ إذا زالت‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷۔(شاملہ)
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الجمعۃ:باب وقت الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۵،۴۷۷، مکتبہ، شیخ الہند، دیوبند۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 72

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دونوں مسائل میں مذکورہ شخص کی اذان مکروہ ہے، اگر دوسرا شخص باشرع موجود ہو تواسی کو اذان واقامت کے لیے متعین کرنا چاہیے۔
’’یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔
وأذان امرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص192

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: امام سے پہلے رکوع، سجدہ وغیرہ میں جانا مکروہ ہے؛ لیکن اگر اس کے بعد امام رکوع وسجدہ میں گیا اور دونوں کی شرکت اس رکن میں پائی گئی تو نماز درست ہوجائے گی اور اگر شرکت ہی نہیں پائی گئی تو مقتدی کی نماز فاسد ہوگی اور اس پر اعادہ لازم ہوگا۔
’’لو رکع قبل الإمام فلحقہ إمامہ فیہ صح رکوعہ وکرہ تحریما وإلا لا یجزیہ‘‘(۱)
عدم سماع کے عذر کی وجہ سے اگر مقتدی نے امام سے پہلے سلام پھیر دیا تو نماز بلا کراہت درست ہے۔
’’ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ … قولہ ولو أتمہ الخ‘‘
’’أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسـلام أو کلام أو قیـام جاز: أي صحت صلاتہ (حصولہ بعد تمام الأرکان، لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ، لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قراء ۃ التشہد وقد حصل، وإنما کرہ للمؤتم  ذلک لترکہ متابعۃ الإمام بلا عذر بہ فلو بہ، کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج۲، ص: ۲۴۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 333

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو چاہئے کہ کھڑے ہوتے ہی پہلی دو رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ ضم کرے۔(۱)

(۱) ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشہد بینہما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط ولا یقعد قبلہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
ولو أدرک رکعۃ من الرباعیۃ فعلیہ أن یقضي رکعۃ یقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ، ویتشہد ویقضي رکعۃ أخریٰ کذلک، ولا یتشہد، وفي الثالثۃ بالخیار، والقراء ۃ أفضل، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نجاست نہ لگی ہو اور اس سے نماز میں کوئی خلل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم احترام قبلہ کے خلاف ہے، اس لیے بہتر ہے کہ چپل بائیں جانب رکھ کر نماز پڑھیں۔ (۱)
(۱) ولو خلع نعلیہ وقام علیہما، جاز، سواء کان ما یلي الأرض منہ نجساً أو طاہراً۔ إذا کان ما یلي القدم طاہراً، والآجرّ إذا کان أحد وجہیہما نجساً، فقام علی الوجہ الطاہر وصلی جاز مفروشۃ کانت أو موضوعۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 6ص 140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں چوں کہ معنی فاسد ہورہا ہے ؛اس لیے نماز فاسد ہوگئی اس کا اعادہ ضروری ہے، قرأت میں خطاء فاحش کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس میں تین آیت کے پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
’’و إن تغیر المعنی نحو أن یقرأ: إن الأبرار لفي جحیم، و إن الفجار لفي نعیم؛ فأکثر المشائخ علی أنہا تفسد وہو الصحیح‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:’’ کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند۔)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرًا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262