Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مسلمان اپنے تانبے، پیتل، لوہے کے برتن کفارکو عاریۃً یا کرائے پر دے سکتے ہیں۔ اگر غیرمسلم ان برتنوں میںجھٹکا، میتہ یا خنزیر کا گوشت پکائیں، تو برتن دھونے سے پاک ہوجائیں گے، البتہ مٹی کے برتن نہیں دینے چاہئیں، ان میں یہ چیزیں پکنے کے بعد مسلمان کی طبیعت و قلب مطمئن نہ ہو سکے گا۔ اگر چہ دھونے سے یہ بھی پاک ہوجائیں گے۔
فأما إذا علم فأنہ لا یجوز أن یشرب و یأکل منھا قبل الغسل۔ (۱)
و روي عن رسول اللّٰہ ﷺ أنہ سئل عن الشراب في أواني المجوس فقال: ’’إن لم تجدوا منھا بدّا فاغسلوھا ثم اشربوا فیھا‘‘ و إنما أمر بالغسل لأن ذبائحھم میتۃ و أوانیھم قلما تخلوا عن دسومۃ منھا۔ (۲)
یکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل ۔۔۔ و إذا علم حرم ذلک علیہ قبل الغسل۔(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الکراہیہ، الباب الرابع عشر في أھل الذمۃ والأحکام الخ، ج۵، ص:۴۰۱
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، حکم العذرات، والأرواث، ج۱، ص:۲۳۶
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ، کتاب الکراہیۃ، فصل في البیع، ج۸، ص:۳۷۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام صاحب پر لازم ہے کہ مسجد کی طرف سے جو ذمہ داری ہے اس کو پورا کریں اس کے ساتھ گھروں پر جاکر ٹیوشن پڑھانے اور اس کی اجرت لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں؛ لہٰذا اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے شرط یہ ہے کوئی غیر شرعی طریقہ نہ ہو، ایسے امام کی اقتداء میں نماز اداء کرنا درست ہے۔(۱)
(۱) قال في الہندیۃ، لو جلس المعلم في المسجد والوراق یکتب فان کان المعلم یعلّم للحسبۃ والوراق یکتب لنفسہ فلا بأس بہ لأنہ قویۃ وإن کان بأجرۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التوانی في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع یضیع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب فی الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۶، ص: ۵۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص51
متفرقات
Ref. No. 2724/45-4242
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے مسابقتی پروگرام میں انتظامیہ کی طرف سے جو قانون شروع میں طے ہوجائے اور اس کی بنیاد پر مساہمین نے حصہ لیا ہو تو ان کے ساتھ وہی معاملہ کیاجائے گا ، مثال کے طور پر اگر پہلے سے طے ہے کہ دونوں پروگرام میں حصہ لینے والے کو بھی صرف ایک ہی انعام دیاجائے گا تو ایک انعام ملے گا اور اگر طے ہو کہ دونوں میں حصہ لینے والے کو دو انعام ملیں گے تو اس کے طابق عمل کرنا چاہئے ۔ حاصل یہ ہے کہ اس کو پہلے ہی طے کرنا چاہئے تاکہ بعد میں نزاع کا باعث نہ ہو۔ المسلمون علی شروطہم (الحدیث)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہدیہ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگرہدیہ سے مراد یہ ہے کہ ختم قرآن پر تراویح سنانے والے کو کچھ رقم دی جاتی ہے تو وہ اجرت جائز نہیں ہے(۱) ، اگر منشاء سوال مطلق ہدیہ ہے، تو وہ جائز ہے۔(۲)
(۱) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأنہ فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل إلی المستاجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وحر الصدر ولا تحقرن جارۃ لجارتہا ولو بشق فرسن شاۃ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الولاء والہبۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: حث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی التہادي‘‘: ج ۲، ص: ۳۴، رقم: ۲۱۳۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت تو ٹوپی ہے، رنگ کی اس میں تخصیص نہیں ہے، البتہ جو رنگ دوسری قوموں کا شعار ہو اس کو اپنانا درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا، قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ’’من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام قرائۃ لہ‘‘(۱) اور اس پر سب کا اتفاق ہے اگر امام سے سہو ہو جائے تو مقتدی کو بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا پڑ تا ہے۔ اور اگر امام اور مقتدی کی نماز الگ الگ ہوتی ہے تو مقتدی پر سجدہ سہو واجب نہ ہوتا۔ ’’لا صلاۃ لمن یقرأ الخ‘‘ کا حکم منفرد کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں۔(۲) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الإمام ضامن‘‘ اور ضمانت کی تحقیق نہیں ہوتی مگر اتحاد کی صورت میں؛ لہٰذا مقتدی کے لیے قرأۃ خلف الامام کا حکم مطلقاً نہیں خواہ فاتحہ ہو یا دوسری کوئی سورت۔’’من کان لہ إمام فقرائۃ لہ الإمام قرائۃ ومنہا ما قال علیہ الصلاۃ والسلام:۔(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵۔
(۲) وہذا إذا کان إماما أو منفرداً، فأما المقتدي فلا قرائۃ علیہ عندنا۔ (أیضا: ص: ۲۹۴)
(۱) وأما الحدیث فعندنا لا صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً، وصلاۃ المقتدي لیست صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً بل ہي صلاۃ بقراء ۃ، وہي قراء ۃ الإمام، علی أن قراء ۃ الإمام قراء ۃ المقتدي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص240
نکاح و شادی
Ref. No. 2834/45-4452
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سنت ولیمہ کی ادائیگی کے لیے نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ رات گزارنا یا ہمبستری وغیرہ کرنا ضروری نہیں؛ البتہ مسنون وافضل یہ ہے کہ نکاح اور رخصتی کے بعد جب زفاف ہوجائے تو ولیمہ کیا جائے، تاہم اگر کسی نے ایک دن میں نکاح اور ولیمہ کردیا تو ولیمہ کی نفس سنت ادا ہوجائے گی؛ اور اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش کا ولیمہ زفاف سے پہلے فرمایاتھا، نیز نجاشی شاہ حبشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ سے کیا اور لوگوں کو کھانا کھلایا، اور یہ رخصتی سے پہلے ہوا، پس رخصتی سے قبل بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے۔(2) البتہ عام طور ازواج مطہرات کے نکاح میں ولیمہ زفاف کے بعد ہی ہوا ہے، اس لئے اصل سنت یہی ہے کہ ولیمہ زفاف کے بعد ہو۔ (3) نکاح کے فورا بعد زفاف سے پہلے بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے، جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا، تاہم عورت سے ہمبستری یا کم از کم خلوت صحیحہ کے بعد ولیمہ کیاجائے تو یہ افضل ہے۔(4) زید کو چاہئے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے خلوت میں تھوڑی دیر کے لئے ملاقات کرلے اور پھر ولیمہ کا کھانا کھلادے، تو اس سے پورے طور پر سنت ادا ہوجائے گی۔
ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول (فتح الباری، ۹: ۲۸۷)، ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات،۵: ۳۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري".(مشکاۃ المصابیح، (2/278)، الفصل الاول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)
"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبنی بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث :۳۷۴۳)
"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي۲/ ۲۱۰)
"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة"
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم : نفس بارات جائز ہے لیکن اس کا لحاظ ضروری ہے کہ وہ لڑکی والے کے لئے پریشانی کا سبب نہ ہو، جتنے لوگوں کی گنجائش و اجازت ہو اس سے زیادہ نہ ہوں۔ جہیز مانگنا جائز نہیں، اپنی خوشی سے اپنی بچی یا داماد کو کوئی کچھ دیدے تو اس میں حرج نہیں لیکن اس کی بھی نمائش درست نہیں۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 877 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:تصویر کشی کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو کے حفاظتی انتظام کے لئے بدرجہء مجبوری اور بقدر ضرورت اس کی اجازت ہے ۔ لیکن خبروں میں دینا کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں ہے اس لئے اس سے گریز کیا جائے۔ اور اگر مالک اخبار اسی پر مصر ہو اور روزگار خطرہ میں پڑجائے تو جب تک دوسری ملازمت نہ مل جائے ، بادل ناخواستہ اس کی گنجائش ہوگی لیکن پوری دیانت کے ساتھ دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھیں اور جوں ہی کسی متبادل کا انتظام ہوجائے یہ غیرشرعی امور چھوڑدیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند