Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 1604/43-1158
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح منعقد ہونے کے لئے ایجاب و قبول ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول نہیں پایا گیا۔ صرف عورتوں کا آپس میں بات کرنا اور کچھ لوگوں کا نکاح کی بات سن لینا کافی نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا نکاح کردے تو بھی ان کی اجازت ضروری ہے جو یہاں مفقود ہے۔ اس لئے صورت بالا میں نکاح منعقد نہیں ہوا۔
(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك (و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال (شامی، کتاب النکاح 3/9)
فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - - وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹائی عیسائیوں کے مذہبی شعار کی حیثیت سے وجود میں آئی تھی پھر عیسائی اس کو پوری دنیا میں عام کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بلا تفریقِ مذہب اکثریت نے اس کااستعمال شروع کردیا، ہوتے ہوتے وہ ایک فیشن بن گیا، آج بہت سے ٹائی لگانے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کس کی ایجاد اور کس کا شعار ہے؛ لہٰذا ٹائی کے استعمال کرنے والوں کے احوال وکوائف سے ٹائی کا حکم مختلف ومتعدد ہو جاتا ہے۔
(۱) کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ یہ عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اور جس عقیدہ کی بناپر انہوں نے اس کو شعار بنایا اس عقیدہ کو بھی یہ شخص درست سمجھتا ہے اور اسی کے اثبات کے طور پر یہ شخص ٹائی استعمال کرتا ہے تو یہ شخص خارج از اسلام ہے۔
(۲) کوئی شخص یہ سمجھے کہ یہ آج بھی عیسائیوں کا شیوہ ہے اور ان کی مشابہت کو باعث فخر سمجھ کر اس کو استعمال کرتا ہے ایسا شخص کراہت تحریمی کا مرتکب ہے۔
(۳) کوئی شخص یہ جانے کہ یہ ان کا شعار تھا؛ لیکن اب ان کے شعار کے ساتھ مخصوص نہیں رہا؛ بلکہ ایک فیشن ہے اور صرف فیشن کے طور پر استعمال کرے، ان کے عقیدے سے بیزار ہو، تو جائز ہے لیکن ترک اولیٰ ہے۔
(۴) کوئی شخص یہ نہ جانے کہ یہ کس کا شعار تھا؟ کیوں تھا؟ بس دیکھا دیکھی ویسے ہی استعمال کرتا ہے، تو اس کے لئے اس کا استعمال جائز ہے؛ لیکن خلاف اولیٰ ہے، پس بہتر یہ ہے کہ اس کا استعمال ترک کردے۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من تشبّہ بقومٍ فہو منہم) رواہ أحمد، وأبوداود۔
(وعنہ): أي عن ابن عمر (قال: قال رسول اللہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- (من تشبّہ بقومٍ): أي من شبَّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف، والصلحاء الأبرار (فہو منہم): أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہذا عامٌ في الخلق والخُلُق والشعارِ، ولما کان الشعارُ أظہر في التشبہ ذکِرَ في ہذ الباب قلت: بل الشعار ہو المراد بالتشبُّہ لا غیر فإنَّ الخُلْق الصوري لا یتصوّرُ في التشبّہ، والخلق المعنويِّ لا یقال في التشبُّہِ بل ہو التخلُّقُ، ہذا وقد حکي حکایۃ غریبۃً ولطیفۃً عجیبۃً، وہي أنَّہُ لما اغرق اللّٰہ -سبحانہُ- فرعونَ وأٓلہ لم یغرق مسخرتہُ الذي کان یحاکي بسیدنا موسیٰ -علیہ الصلاۃ والسلام- في لبسہ وکلامہ ومقالاتہ، فیضحک فرعون وقومُہُ من حرکاتہ وسکناتہ؛ فتضرع موسیٰ إلي ربہ: یا ربِّ! ہذا کان یؤذي أکثر من بقیۃ آلِ فرعون، فقال الرَّبُّ تعالیٰ: ما أغرقنا؛ فإنہ کان لابساً مثل لباسِک، والحبیبُ لا یعذبُ من کان علی صورۃ الحبیب، فانظر من کا متشبہاً بأہل الحق علی قصد الباطل حصل لہ نجاۃ صوریَّۃٌ، وربما أدت إلی النجاۃِ المعنویۃ، فکیف بمن تشبَّہُ بأنبیائہ و أولیائہِ علی قصدِ التشرف والتعظیم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المصابیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۲۲۲، رقم: ۴۳۴۷)
آداب و اخلاق
Ref. No. 177/43-1518
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن لوگوں نےدھوکہ دیا اور تکلیف دی ان کے لئے بد دعا کرنے سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کردیں اور تکلیف پر صبر کریں۔ تکلیف پر صبر کرنا ان سے انتقام لینے کا بہترین ہتھیار ہے ۔ تاہم اگر آئندہ دوبارہ تکلیف پہونچنے کا اندیشہ ہو تو ان سے بات چیت کم رکھیں اور احتیاط برتیں ، تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ آپ کو ہمت دے۔
فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل ولاتستعجل لھم (سورۃ الاحقاف 35)
وافوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد (سورۃ الغافر 44)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1987/44-1934
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر امام صاحب صحیح ہیں اور ان کا کوئی عمل خلاف شریعت نہیں ہے تو دوچار لوگوں کی ناراضگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اکثر نمازی اور متولی راضی ہیں تو امام صاحب کو مسجد سے نکالنے کا مطالبہ کرنے والے فسادی لوگ ہیں، ان کو فساد سے روکا جائے۔ مسجد میں فساد پھیلانا گناہ عظیم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2278/44-2429
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کے کل ترکہ 12430000 میں سے مرنے والے کی زوجہ کو 1553750 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 3625416.67 روپئے، اور ہر ایک بیٹی کو 1812708.33 روپئے ملیں گے۔
تخریج حسب ذیل ہے:
میت :۔ مسئلہ 8 تصحیح 48 -----------------------------------------------12430000 ترکہ
زوجہ----------- ابن --------------- ابن -------- بنت ---------- بنت
1 -----7-----
6 14 14 7 7
1553750 3625416.67 3625416.67 1812708.33 1812708.33
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عیدالفطر کے دن میٹھی چیز کھانا مستحب ہے۔ خواہ کوئی بھی چیز ہو چھوارے ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اس کا درجہ صرف استحباب کا ہے جب کہ سوئیوں کا استحباب بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر ان کو بھی ثواب سمجھا جائے اور لازم سمجھا جائے، تو بدعت ہوگا؛ لیکن ہمارے علاقے میں اس کو بالکل لازم نہیں سمجھا جاتا، بلکہ امر مباح سمجھا جاتا ہے؛ اس لیے اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یغد ویوم الفطر حتی یأکل تمراتٍ۔ وقال مرجَّأ بن رجائٍ حدثني عبید اللّٰہ قال: حدثني أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویأکلہن وتراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العیدین: باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۹۵۳)
ویستحب کون ذلک المطعوم حلواً۔ (ابن نجیم، بحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص510
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کا وہ کلام ہے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا، اس کی تلاوت وقت نزول سے ہی کی جاتی ہے، وہ اس درجہ تواتر کو پہونچا ہوا ہے کہ اس کی کسی آیت یا حرف کے بارے میں یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن کا حصہ ہے یا نہیں، لاکھوں حفاظ اس کی تلاوت کرنے والے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے؛ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الٰہی کے بغیر دین کی کوئی بات نہیں بتاتے تھے، لیکن حدیث کی تلاوت نہیں کی جاتی اور احادیث کچھ متواتر ہیں، کچھ مشہور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا کلام ہم تک تواتر کے ساتھ نہیں پہونچا؛ اس لیے اس میں سند بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو قرآن وحی متلو اور حدیث وحی غیر متلو کا نام اور مذہب اسلام کا اصل مدار یہ ہی دو چیزیں ہیں۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ النساء: ۱۱۳‘‘ ، ج ۲، ص: ۵۴۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص58
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب فرمایا۔(۱)
(۱) وقد اتفق الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم علی بیعۃ الصدیق في ذلک الوقت حتی علي ابن أبي طالب والزبیر بن العوام رضي اللّٰہ عنہما۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ’’خلافۃ أبي بکر صدیق‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۹) حدثني عبید اللّٰہ بن عمر القواریدي حدثنا عبد الأعلی بن عبد الأعلی حدثنا أبو داود بن أبي ہند عن أبي نصرۃ قال: لما اجتمع الناس علی أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ، فقال: مالي لا أری علیاً، فقال فذہب رجل من الأنصار فجاء وابہ، فقال لہ یا علي قلت: ابن عم رسول اللّٰہ وفتن رسول اللّٰہ، فقال علي رضي اللّٰہ عنہ: لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللّٰہ أبسط یدک فبسط یدہ فبایعہ، قال أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ: مالي لا أری الزبیر، قال: فذہب رجال من الأنصار فجاء وا بہ، فقال: یا زبیر! قلت ابن عمۃ رسول اللّٰہ وحواري رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الزبیر: لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللّٰہ أبسط یدک فلبسط یدہ فبایعہ۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: لما مات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أدخل الرجال فصلوا علیہ بغیر إمام أرسالاً حتی فرغوا، ثم دخل النساء فصلین علیہ ثم أدخل الصبیان فصلوا علیہ، ثم أدخل العبید فصلوا علیہ أرسالاً، لم یؤمہم علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحد۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ’’فصل في کیفیۃ الصلاۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۵، ص: ۳۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص194
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرکام میں اعتدال مطلوب ہے، کسی نیک کام اور عبادت میں جو اعتدال سے تجاوز ہو وہ درست نہیں۔ درس و تدریس وغیرہ امور بھی دین کی اہم اور بنیادی ضروریات ہیں؛ بلکہ عام مروجہ تبلیغ کا سرچشمہ ہیں(۱) اور مروجہ تبلیغ کی افادیت بھی مسلم ہے۔(۲) اور ضرورت ہر طبقہ و ہر درجہ کی ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام پوری زندگی پر محیط ہے۔ اور اس کے متعدد شعبہ جات ہیں۔ ہر شعبہ میں کام کی ضرورت ہے اور جو شخص ایک شعبہ میں کام کر رہا ہے اور دوسرے شعبہ کا شخص اس کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا تو اس کو اپنے شعبہ کے فرائض کی انجام دہی کو مقدم رکھنا چاہئے ’’لکل مقام مقال ولکل عمل رجال‘‘۔
تبلیغ جماعت میں چند افراد ایسے ہیں جن میں ضرورت سے زیادہ شدت ہے اور وہ مدارس کی ضرورت تک کا بھی انکار کردیتے ہیں، ایسے افراد کی باتوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فریضہ کو انجام دیا جائے کہ ہر جماعت کا ہر فرد اعتدال پسند اور معتدل مزاج نہیں ہوتا، حسب موقع درس وتدریس تقریر وتحریر اور مروجہ تبلیغ وغیرہ کے ذریعہ دین کی خدمات کو انجام دیتے رہنا چاہئے، عام حالات میں صرف مستحبات پر عمل کرنے کیلئے والدین کی رضا کے خلاف چلنا بھی اچھا نہیں ہے، مدرسین علماء واہل علم ان امور کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے رہیں۔
(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء: ألأول العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ج ۵، ص: ۳۵۳)
(۲) من دل علی خیر فلہ مثل أجر فاعلہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314