Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگربدن خشک کر کے وہی کپڑے پہن لیے اور کپڑوں کی ناپاکی بدن پر نہیں لگی ہے، تو بدن ناپاک نہیں ہوا اور اگر گیلے بدن پر وہ ناپاک کپڑے پہن لیے، تو ظاہر ہے کہ بدن پر ناپاکی لگ ہی گئی ہوگی، اس لیے بدن کے اس حصہ کو دھولے۔(۱)
(۱) نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس، و إلا لا۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء‘‘ج ۱، ص:۵۶۰) ؛ وإذا نام الرجل علی فراش فأصابہ مني و یبس، فعرق الرجل وابتل الفراش من عرقہ۔ إن لم یظھر أثر البلل في بدنہ لا ینجس، و إن کان العرق کثیراً حتی ابتل الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسدہ، فظھر أثرہ في جسدہ، یتنجس بدنہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، و مما یتصل بذلک مسائل‘‘ ج۱، ص:۱۰۲) ؛ ولو ابتلّ فراش أو تراب نجسان من عرق نائم أو بلل قدم، و ظھر أثر النجاسۃ في البدن والقدم تنجسا، و إلا فلا۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘ ج۱،ص:۵۳، مکتبۃ عکاظ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت ایک اہم ذمہ داری ہے ’’الإمام ضامن‘‘ ہر کس وناکس کو امام بنانا درست نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرء ہم لکتاب اللّٰہ فإن کانوا في القرآۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ فإن کانوا في السنۃ سواء فأقدہم ہجرۃ فإن کانوا في الجہرۃ سواء فأقدمہم إسلاما ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ ولا یقعد في بیتہ علی تکرمتہ إلا بإذنہ‘‘(۱) ’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم أصبحہم أي أسمحہم وجہا ثم أکثر ہم حسبا ثم الأنظف ثوباً ثم الأکبر رأساً الخ‘‘(۲)
اگر بستی یا محلہ میں کوئی عالم یا نماز کے ضروری مسائل سے واقف شخص موجود ہے، تو اس کو امام بنایا جائے اور اگر مذکورہ نمبر دار کے علاوہ کوئی صحیح قرآن پڑھنا نہیں جانتا، تو اس نمبر دار کو بھی امام بنانا درست ہے۔
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶؛ وأخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۶؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۵۵؛ وأخرجہ نسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ، من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۰)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: فجر کا وقت طلوع آفتاب یعنی سورج کا کنارہ ظاہر ہونے پر ختم ہوتا ہے، اس سے پہلے باقی رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کا وقت مساجد میں لگے ٹائم ٹیبل میں عموماً موجود ہوتا ہے، اس سے مدد لے سکتے ہیں۔(۱)
(۱)وقت الفجر: من الصبح الصادق وہو البیاض المنتشر في الأفق إلی طلوع الشمس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)؛ وآخرہ (إلی قبیل طلوع الشمس) لقولہ علیہ السلام وقت صلاۃ الفجر ما لم یطلع قرن الشمس الأول۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وآخر وقت الفجر حین تطلع الشمس فإذا طلعت الشمس خرج وقت الفجر۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، في المواقیت‘‘: ج ۲، ص: ۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 67
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:داڑھی کٹانا یعنی ایک مشت سے کم کرنا، نماز چھوڑ نا، وی سی آر، پکچر وغیرہ دیکھنا یہ افعال موجب فسق ہیں جو شخص ایسے افعال کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد: ہکذا في الذخیرۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وکذا یکرہ أذان الفاسق ولا یعاد أذانہ لحصول المقصود بہ۔ (عالم بن علاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص189
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 329
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی۔(۲)
(۲) وینبغي أن لا تفسد، ووجہہ أنہ لیس بتغیر فاحش لعدم کون اعتقادہ کفراً مع أنہ لا یخرج عن کونہ من القرآن۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۸، دار الکتاب دیوبند)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان صاحب نے آپ کو غلط مسئلہ بتایا اور آپ کا عمل صحیح ہے، عصر سے پہلے چار رکعت یا دورکعت پڑھنا سنت غیر موکدہ ہے۔ فقہاء ا حناف نے اس کو مستحب نمازوں میں شامل کیا ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں روایات کا تذکرہ کیا ہے۔
’’أخرج أبو داود وأحمد وابن خزیمۃ وابن حبان في صحیحیہما والترمذي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: رحم اللّٰہ امرأً صلی قبل العصر أربعا، قال الترمذي: حسن غریب، وأخرج أبو داود عن عاصم بن ضمرۃ عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین ورواہ الترمذي وأحمد فقالا: أربعا بدل رکعتین‘‘(۱)
(قولہ ویستحب أربع قبل العصر) لم یجعل للعصر سنۃ راتبۃ لأنہ لم یذکر في حدیث عائشۃ المار۔ بحر۔ قال في الإمداد: وخیر محمد بن الحسن والقدوري المصلي بین أن یصلي أربعا أو رکعتین قبل العصر لاختلاف الآثار‘‘(۲)
(۱) ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، مکتبہ الاتحاد دیوبند۔)(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر و النوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۲ ، زکریا دیوبند۔)
وندب الأربع قبل العصر أو رکعتان۔ (عبد الرحمن بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۱۰۵، دار البیروتی، دمشق، سوریہ)
أما الأربع قبل العصر فلما رواہ الترمذي وحسنہ عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل العصر أربع رکعات یفصل بینہن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تبعہم من المسلمین والمؤمنین وروی أبو داؤد عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین، فلذا خیرہ في الأصل بین الأربع وبین الرکعتین والأفضل الأربع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص375
اسلامی عقائد
Islamic Creed (Aqaaid)
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 940
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: گردن پر مسح کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، اس باب میں جو احادیث ملتی ہیں ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے، اس لئے احناف کے نزدیک گردن پر مسح کرنا سنت نہیں ہے، ہاں البتہ مستحب ہے؛ کبھی کرلے اور کبھی چھوڑدے، اس کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند