ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39/1112

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انشورنس  کا معاملہ مکمل سود ی معاملہ ہے، اور سودی معاملہ کرنا حرام ہے۔ البتہ شریعت میں ضرورت کے مواقع میں گنجائش دی گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کے استعمال کے لئے انشورنس کرانا لازم ہو اور قانونی مجبوری ہو تو ایسی صورت میں انشورنس کرانے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قانونی مجبوری نہ ہو تو پھر انشورنس ضرورت نہیں ہے۔ جیون بیمہ قانونی طور پر لازم نہیں اس لئے حرام ہوگا۔ دوکان کا بیمہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر قانونی مجبوری کے تحت کرایا جائے تو ہی جائز ہوگا ورنہ نہیں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 40/971

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 

 Read the following as much as you can:

رَبِّ اِنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

 May Allah give you full shifa! Ameen

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

روزہ و رمضان

Ref. No. 41/888

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  روزہ فاسد نہیں ہوا، البتہ نماز از سر نو پڑھے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1048

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Corona-virus, by the will of Allah, is epidemic disease which effects one after another. Islam guides in term of such diseases not to travel in the affected areas and suggests the other people to keep away from the affected area.

  مثال الجمع حدیث لاعدوی مع حدیث لایورد ممرض علی مصح۔ وجہ الجمع ان الامراض لاتعدی بطبعھا ولکن جعل اللہ مخالطتھا سببا للاعداء فنفی فی الحدیث الاول مایعتقدہ الجاہلیۃ من العدوی بطبعھا وارشد فی الثانیۃ الی مجانبۃ مایحصل عندہ الضرر عادۃ بقضاء اللہ وقدرہ۔ (شرح النووی علی مسلم 1/35)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

فقہ

Ref. No. 1375/42-780

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اقرار طلاق سے بھی شرعا طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ نیز جس طرح زبان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح تحریر سے یا طلاق نامہ پر برضا دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے تلفظ کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں بیوی پر فقہ حنفی کے مطابق  تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں۔۔ بیوی عدت گزار نے کے بعد اگر نکاح کرنا چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"الاقرار بالطلاق کاذبا یقع بہ قضاءً لا دیانۃً ۔" (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 2/113) ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1499/42-998

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جی ہاں، ایسی بیوہ عورت پر بھی قربانی واجب ہے۔ ایام قربانی میں کسی کے پاس اگر بقدر نصاب مال موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے ہدیہ میں آئے یا صدقہ میں یا بطور میراث ملے۔ اور قربانی کے لئے سال کا گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔ اس لئے اگر بیوہ کوگزشتہ  رمضان میں ساٹھ ہزار روپئے صدقہ کے  موصول ہوئے، اور قربانی کے دن آگئے اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مال اب بھی موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔  

وأما شرائط الوجوب، منہا: الیسار،وہو من لہ مائتا درہم أو عشرون دینارًا أو شيء یبلغ ذلک سوی مسکنہ - - - الی قولہ  - - -  في حاجتہ التی لا یستغني عنہا (هندیة: الباب الاول فی تفسیر الاضحیۃ ورکنھا 5/292) بدائع: فصل فی انواع کیفیۃ الوجوب 5/68)

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان (الفتاوى الهندية (1/ 191)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1766/43-1508

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  

مرغی کی بیٹ ناپاک ہے، اور ماء قلیل میں مرغی کی بیٹ ملنے سے پانی ناپاک ہوجاتاہے۔ اس لئے گھر دھوتے وقت  جس حصہ میں  پانی جمع ہے  اور اس میں مرغی کی بیٹ ملی ہوئی ہے، وہ ناپاک ہے۔ بیٹ ملنے کے بعد گھر کا جو حصہ دھویاگیاہے وہ بھی ناپاک ہے، اس کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔

واما العذرات و خرء الدجاج والبط فنجاستھا غلیظۃ بالاجماع (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، باب الارواث والعذرات 1/235 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1972/44-1914

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  راستہ میں جمع پانی اگر نجاست سے قریب ہو اور اس کے اثرات اس میں نظر آرہے ہوں یا آپ کو یقین ہو کہ یہ ناپاک ہے تو اس کو ناپاک ہی سمجھیں، اگر وہ کپڑے یا بند پر لگ گیا تو ناپاک کردے گا۔ اور اگر پانی کے بارے میں یقین نہیں ہے، اور کوئی ناپاکی بھی پانی میں نظر نہیں آرہی ہے تو اس کو پاک سمجھیں اور کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو  دھونا ضروری نہیں ہے، تاہم دھولینا بہتر ہے۔

"مطلب في العفو عن طين الشارع

(قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.
والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس".(شامی 1/324)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2070/44-2071

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی کریم ﷺ کی جانب کسی واقعہ کی نسبت کسی مستند کتاب کے حوالہ سے ہونی ضروری ہے، اور مذکورہ واقعہ کسی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے اس لئے اس کو بیان کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے،۔ نبی کریم ﷺ کے اعلی اخلاق بیان کرنے کے لئے مستند واقعات کثیر تعداد میں ہیں ان کو ہی بیان کرنا چاہئے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Usury / Insurance

Ref. No. 2144/44-2205

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not permissible to use interest money in toilets or bathrooms. It is not permissible to use interest money in any charitable work. The interest money must be received from bank and given to the poor without any intention of reward.

(رد المحتار: مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، 99/5، ط: سعید)
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
و فیہ ایضاً: (385/6، ط: دار الفکر)
أن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اه

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband