طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2270/44-2430

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ختنہ ہوا ہو تو عضو تناسل کے ظاہری حصہ کا دھونا فرض ہے، اس کے اندرونی حصہ میں پانی پہنچانا فرض نہیں ہے۔  اور اگر ختنہ نہیں ہوا ہے تو چمڑے کو اوپر چڑھاکر سپاری کو دھونا ضروری ہے لیکن پیشاب کے راستہ میں  پانی داخل کرنا ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرنے کے بعد آدمیوں کی جگہ علین ہے یا سجین ہے، نیک لوگوں کی روحیں علین میں رہتی ہیں اور بدکاروں کی روحیں سجین میں رہتی ہیں (۱) ان مقررہ جگہوں سے روحوں کی دنیا میں واپسی نہیں ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شہید فی سبیل اللہ شہادت کے قیام و مرتبہ کو دیکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کرتا ہے کہ پھر لڑکر اور شہید ہوکر دوبارہ شہادت کا مرتبہ حاصل کروں؛ لیکن شہید کو بھی دنیا میں دوبارہ واپسی کی اجازت نہیں ملتی، یہ جو گاہے بگاہے کچھ لوگوں کے حالات اور واقعات سننے میں آتے ہیں ان کو اگر جسمانی مرض اور بیماری کی کوئی قسم نہ مان لی جائے، تو ان کا حاصل یہ ہے کہ شیطان جس کو انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑنے تک کی قدت دی گئی ہے وہ بسا اوقات لوگوں کو گمراہ کرنے اور بدعقیدگی میں مبتلا کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے کہ کسی میں سرایت کرگیا اور کسی مشہور بزرگ کے حوالے دینے لگایا کسی پر سوار ہوگیا، اور برے آدمی کا حوالہ دینے لگا، اور پیشین گوئی کرنے لگا، جس سے سادہ لوحوں کو دھوکہ ہوجاتا ہے اور ذہنی خلفشار یا بدعقیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عبد الوہاب صاحب بھی ایسی ہی کوئی بات سن کر یا کوئی چیز دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلاء معلوم ہوتے ہیں، ان کو مذکورہ صورت حال اگر بتلائی جائے تو وہ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اپنی سوچ کی اصلاح کریں گے۔ ایسا سمجھنے والے کے لئے عقیدہ کی تعبیر صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ عقیدہ تو شرعی بنیاد پر ہوتا ہے، جب کہ اس کے لئے کوئی مذہبی اور شرعی بنیاد ہی نہیں؛ بلکہ یہ تو محض سنی سنائی بات ہے جس کو سن کر یا دیکھ کر متعین کرنا چاہئے۔(۱) (۱) {اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا ج فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرٰی إِلٰٓی أَجَلٍ مُّسَمًّی ط إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَأٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ہ۴۲} (سورۃ الزمر: ۴۲) قال: أما علیون فالسماء السابعۃ فیہا أرواح المؤمنین، وأما سجین فالأرض السابعۃ السفلیٰ وأرواح الکفار تحت جسد إبلیس۔ (ابن قیم الجوزي، ’’کتاب الروح، المسألۃ الخامسۃ عشرۃ، فصل: أرواح المؤمنین عند اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ص: ۱۱۹) عن مسروق قال: سألنا عبد اللّٰہ عن أرواح الشہداء؟، ولولا عبد اللّٰہ لم یحدثنا أحد، قال: أرواح الشہداء عند اللّٰہ یوم القیامۃ في حواصل طیر خضر، لہا قنادیل معلقۃ بالعرش، تسرح في الجنۃ شاء ت، ثم ترجع إلی قنادیلہا فیشرف علیہم ربہم فیقول: ألکم حاجۃ؟ تریدون شیئا؟ فیقولون: لا، إلا أن نرجع إلی الدنیا فنقتل مرۃ أخری۔ (عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن: سنن دارمي، ’’کتاب الجہاد: باب أرواح الشہداء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۲۴۵۴) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص246

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اوڑھنا اور لباس جوڑا وغیرہ کی یہ رسم ہندوانی رسم ہے، جو قابل ترک ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص بغیر مخصص مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر: ج ۳، ص
: ۳۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص454

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رات قبرستان میں لائٹیں لگوانے اور کھانا تقسیم کرنے وغیرہ امور کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے؛(۱) تاہم یہ رات فضائل والی رات ہے، اس وجہ سے اپنے گھر پر نفل عبادات میں مشغول رہنا مستحب ہے؛ جب تک بشاشت ہو گھر میں عبادت کریں(۲) ورنہ سوجائیں، خرافات میں وقت ضائع نہ کریں۔

(۱) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستد لہا في الکتاب والسنۃ … ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
(۲) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ص : ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص502

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزمل اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑے کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لے اور مدثر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو آدمی عام لباس کے اوپر سردی وغیرہ سے بچنے کے لئے لپیٹ لیتا ہے۔(۱) حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں کیا خوب فرق ہے۔
{یآ أیہا المزمل} اے کپڑے میں لپٹنے والے، {یا أیہا المدثر} اے لحاف میں لپٹنے والے۔

(۱) {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} یعني الذي ضم علیہ ثیابہ، یعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذلک أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من البیت وقد لیس ثیابہ، فناداہ جبریل علیہ السلام: {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} الذي قد تزمل بالثیاب وقد ضمہا علیہ۔ (أبو الحسن مقاتل بن سلمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ’’سورۃ مزمل:۱‘‘ ج ۴، ص: ۴۷۵)
والتزمیل: اللف في الثوب، ومنہ حدیث قتلی أحد: زملوہم بثیابہم، أي لفوہم فیہا، وفي حدیث السقیفۃ: فإذا رجل مزمل بین ظہرانیہم، أي مغطي مدثر، یعني سعد بن عبادۃ، وقال إمرؤ القیس: کبیر أناس في بجاد مزمل وتزملأ: تلفف بالثوب، وتدثر بہ، کازمل، علی أفعل، ومنہ قولہ تعالی: یا أیہا المزمل، قال أبو إسحاق: أصلہ المتزمل، والتاء تدغم في الزای لقربہا منہا، یقال: تزمل فلان،…  إذا تلفف بثیابہ۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۲۹، ص: ۱۳۸)
وقال الفراء: في قولہ تعالی {یأیہا المدثر} یعني المتدثر بثیابہ إذا نام۔ وفي الحدیث: (کان إذا نزل علیہ الوحي یقول: دثروني دثرون) أي غطوني بما أدفأ بہ۔ وفي حدث الأنصار: (أنتم الشعار والناس الدثار) یعني أنتم الخاصۃ والناس العامۃ (ودثر الشجر) دثورا۔ (أورق) وتشعبت خطرتہ۔
(و) دثر (الرسم) وغیرہ۔ (درس) وعفا بہبوب الریاح علیہ، (کتداثر)، یقال: فلان جدہ عاثر، ورسمہ داثر۔
(و) عن ابن شمیل: دثر (الثوب) دثورا: (اتسخ۔ و) دثر (السیف)، إذا (صدیء، فہو داثر)، وہو البعید العہد بالصقال، وہو مجاز۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۱، ص: ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص53

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی حدیث نظر سے نہیں گذری، ہاں جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق اس طرح کی کچھ احادیث ملتی ہیں۔ بعض اہل جماعت ان روایات کو مروجہ تبلیغ کی جانب منسوب کر لیتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے ثواب میں اضافے کی امید رکھنی چاہئے، لیکن مذکورہ تقابل جہالت ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) عن سہل بن معاذ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الصلاۃ والصیام والذکر یضاعف علی النفقۃ في سبیل اللّٰہ بسبع مائۃ ضعف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب تضعیف الذکر في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۸)
وعن علي وأبي الدرداء وأبي ہریرۃ وأبي أمامۃ وعبد اللّٰہ بن عمر وجابر بن عبد اللّٰہ وعمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہم أجمعین کلہم یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من أرسل نفقۃ في سبیل اللّٰہ وأقام في بیتہ، فلہ بکل درہم سبعمائۃ درہم ومن غزا بنفسہ في سبیل اللّٰہ وأنفق في وجہہ ذلک، فلہ بکل درہم سبعمائۃ ألف درہم۔ ثم تلا ہذہ الآیۃ: {واللَّہُ یُضاعفُ لمنْ یشائُ}۔ رواہ ابن ماجہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجہاد: الفصل الثالث‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص297

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کے ذہن میں بھی آیت قرآنی کے خلاف کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ بلکہ دعاء میں سب شریک ہوجائیں اور جو الفاظ خلوص کے ساتھ زبان سے نکل رہے ہیں سب اس پر آمین کہیں یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔(۱)

(۱) {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہج ۵۵} (سورۃ الأعراف: ۵۵)
قلت ہذا الحدیث وإن کان دالاً علی أفضلیۃ الذکر الخفي لکن قولہ: ’’أربعوا علی أنفسکم‘‘ یدل علی أن النہي عن الجہر والأمر بالإخفاء إنما ہو شفقۃ لا لعدم جواز الجہر أصلاً وکذا حدیث ’’خیر الذکر الخفي‘‘ (ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۶)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریاء والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص390

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مسلمان اپنے تانبے، پیتل، لوہے کے برتن کفارکو عاریۃً یا کرائے پر دے سکتے ہیں۔ اگر غیرمسلم ان برتنوں میںجھٹکا، میتہ یا خنزیر کا گوشت پکائیں، تو برتن دھونے سے پاک ہوجائیں گے، البتہ مٹی کے برتن نہیں دینے چاہئیں، ان میں یہ چیزیں پکنے کے بعد مسلمان کی طبیعت و قلب مطمئن نہ ہو سکے گا۔ اگر چہ دھونے سے یہ بھی پاک ہوجائیں گے۔
فأما إذا علم فأنہ لا یجوز أن یشرب و یأکل منھا قبل الغسل۔ (۱)
و روي عن رسول اللّٰہ ﷺ أنہ سئل عن الشراب في أواني المجوس فقال: ’’إن لم تجدوا منھا بدّا فاغسلوھا ثم اشربوا فیھا‘‘ و إنما أمر بالغسل لأن ذبائحھم میتۃ و أوانیھم قلما تخلوا عن دسومۃ منھا۔ (۲)
یکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل ۔۔۔ و إذا علم حرم ذلک علیہ قبل الغسل۔(۳)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الکراہیہ، الباب الرابع عشر في أھل الذمۃ والأحکام الخ، ج۵، ص:۴۰۱
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، حکم العذرات، والأرواث، ج۱، ص:۲۳۶
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ، کتاب الکراہیۃ، فصل في البیع، ج۸، ص:۳۷۴

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام صاحب پر لازم ہے کہ مسجد کی طرف سے جو ذمہ داری ہے اس کو پورا کریں اس کے ساتھ گھروں پر جاکر ٹیوشن پڑھانے اور اس کی اجرت لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں؛ لہٰذا اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے شرط یہ ہے کوئی غیر شرعی طریقہ نہ ہو، ایسے امام کی اقتداء میں نماز اداء کرنا درست ہے۔(۱)

(۱) قال في الہندیۃ، لو جلس المعلم في المسجد والوراق یکتب فان کان المعلم یعلّم للحسبۃ والوراق یکتب لنفسہ فلا بأس بہ لأنہ قویۃ وإن کان بأجرۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التوانی في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع یضیع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب فی الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۶، ص: ۵۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص51

متفرقات

Ref. No. 2724/45-4242

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے مسابقتی پروگرام میں انتظامیہ کی طرف سے جو قانون شروع میں طے ہوجائے اور اس کی بنیاد پر مساہمین نے حصہ لیا ہو تو ان کے ساتھ وہی معاملہ کیاجائے گا ، مثال کے طور پر اگر پہلے سے طے ہے کہ دونوں پروگرام میں حصہ لینے والے کو بھی صرف ایک ہی انعام دیاجائے گا تو ایک انعام ملے گا اور اگر طے ہو کہ دونوں میں حصہ لینے والے کو دو انعام ملیں گے تو اس کے طابق عمل کرنا چاہئے ۔ حاصل یہ ہے کہ اس کو پہلے ہی طے کرنا چاہئے تاکہ بعد میں نزاع کا باعث نہ ہو۔ المسلمون علی شروطہم (الحدیث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند