متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتوں کی توہین کفر ہے اور سوال میں مذکور جملہ فرشتوں کی اہانت پر مشتمل ہے؛ اس لئے اس جملہ سے مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا، اس پر قبول اسلام اور توبہ لازم ہے۔(۱)

(۱) من ہزل بلفظ کفر إرتد وإن لم یعتقد للاستخفاف فہو ککفر العناد۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)

رجل کفر بلسانہ طائعاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافراً ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً،  کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفرا اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلوۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

دار العلوم وقف دیوبند

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 165)

 

Family Matters

Ref. No. 2387/44-3621

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Good manners and mutual sympathy are very important for the strength of the relationship between husband and wife and in-laws. Husband and wife do have rights on each other, but the husband's parents also have the responsibility to treat her like a daughter and be kind to her, and the woman should tolerate everything her mother-in-law says, and do serve the husband's parents. In this way, this house will remain stable and will guarantee the ultimate happiness of both husband and wife.

Therefore, husband and wife should try as much as possible to stay with the parents and serve them, if something hard happens, be patient and hope for reward from Allah. Therefore, it is better for you to remain with your father-in-law for the sake of Allah and to be patient in order to maintain unity in the house. However, if you demand a separate home for you then there will be no sin provided it is not beyond the capacity of the husband.

الدر المختار: (600/3، ط: دار الفکر)
بيت منفرد من دار له غلق زاد في الاختيار والعيني ومرافق ومراده لزوم كنيف ومطبخ وينبغي الإفتاء به.
رد المحتار: (600/3، ط: دار الفکر)
قوله ( وفي البحر عن الخانية ) عبارة الخانية فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لهاأن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها ا ه
قال المصنف في شرحه فهم شيخنا أن قوله ثمة إشارة للدار لا البيت لكن في البزازية أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر
بدائع الصنائع: (23/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أراد الزوج أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأم الزوج وأخته وبنته من غيرها وأقاربه فأبت ذلك؛ عليه أن يسكنها في منزل مفرد؛ لأنهن ربما يؤذينها ويضررن بها في المساكنة وإباؤها دليل الأذى والضرر ولأنه يحتاج إلى أن يجامعها ويعاشرها في أي وقت يتفق ولا يمكنه ذلك إذا كان معهما ثالث حتى لو كان في الدار بيوت ففرغ لها بيتا وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا: إنها ليس لها أن تطالبه ببيت آخر۔

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband
 

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے ’’إن اللّٰہ خلق آدم علی صورتہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یہاں ’’ہ‘‘ ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو، ان کو اپنی صورت کا بنایا ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ ’’ہ‘‘ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے؛ اس لیے کہ ایک روایت میں صورۃ الرحمن بھی ہے۔(۲)
اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔(۱)

(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ، طولہ ستون ذراعا، فلما خلقہ قال إذہب فسلم علی أولئک النفر من الملائکۃ جلوس، فاستمع ما یحیونک،  فإنہا تحیتک وتحیۃ ذریتک۔ فقال: السلام علیکم۔ فقالوا: السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ۔ فزادوہ ورحمۃ اللّٰہ، فکل من یدخل الجنۃ علی صورۃ آدم، فلم یزل الخلق ینقص بعد حتی الآن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإستیذان: باب بدء السلام‘‘: ج ۲، ص: ۹۱۹، رقم: ۱۳۲۸)
 قولہ: (خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ)، والصواب أن الضمیر راجع إلی اللّٰہ تعالی لما في بعض الطرق: (علی صورۃ الرحمن) وإذن أشکل شرحہ۔ فقال القاضي أبو بکر بن العربي: إن المراد من الصورۃ الصفۃ، والمعنی: أن اللّٰہ تعالی خلق آدم علی صفاتہ۔ وتفصیلہ أنہ وضع في بني آدم أنموذا من الصفات الإلہیۃ، ولیس من الکائنات أحد من یکون مظہرا کاملا لتلک الصفات، إلا ہو۔ ألا تری أن صفۃ العلم التی ہي من أخص الصفات لا توجد إلا في الإنسان؟ فإن سائر الحیوانات لیس فیہا إلا قوۃ مخیلۃ۔
وقیل: الغرض من إسناد الصورۃ إلی نفسہ، مجرد التشریف والتکریم، علی ما ینطق بہ النص: {لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقویم} (سورۃ التین: ۴) ولیس المراد منہ: أن للّٰہ تعالی أیضا صورۃ۔ … (علامہ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الاستیذان، باب بدء السلام‘‘: ج ۶، ص: ۱۸۷، رقم: ۶۲۲۷)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الاستیذان: باب بدء الإسلام ج۲، ص:۲۱۹، رقم: ۱۳۲۸

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص99

متفرقات

Ref. No. 2361/45-4129

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ چیزیں محال نہیں ہیں، دعا کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دعاء قبول کرتے ہیں ہاں قبولیت کے اثرات مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں کبھی تو اللہ تعالیٰ بعینہ وہی چیز عطا کرتے ہیں کبھی اس کے متبادل کے طور پر عطا کرتے ہیں اور کبھی اس کو ذخیرہ آخرت بنا دیتے ہیں، اس لیے دعا کا اہتمام کرنا چاہئے اور پوری امت کی مغفرت، نجات اور دنیاوی واخروی فلاح وکامیابی کی دعاء کرنی چاہئے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مصلحت پر موقوف رکھنا چاہئے ہم بندے ہیں ہمارا کام عبدیت اور اطاعت ہے نتیجہ ہمارا کام نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بہشتی زیورمیں لکھاہوا مسئلہ درست ہے، اور اس صورت مذکورہ میں آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔(۱)

(۱)السخلۃ إذا أخرجت من أمھا فتلک الرطوبات طاھرۃ لا ینجس بھا الثوب والماء۔ کذا البیضۃ۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في النجاسۃ و أحکامھا، النوع الثاني من ھنا الفصل في مقدار النجاسۃ‘‘ ج۱،ص:۴۴۳) ؛ و فلو خرج بقیۃ المني بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۰۳، دارالکتاب دیوبند) ؛ و کذا لو خرج منہ بقیۃ المي بعد الغسل قبل النوم أو البول أو المشي الکثیر۔ نہر: أي لا بعدہء۔ لأن النوم والبول والشي یقطع مادۃ الزائل عن مکانہ بشھوۃ فیکون الثاني زائلاً عن مکانہ بلا شھوۃ فلا یجب الغسل اتفاقاً۔ (ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۲۹۷، کذا في إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص305

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے سلسلے میںاصل تویہی ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کیا جائے۔{اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا}(۲)
حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا ’’صلّ الصلاۃ لوقتہا‘‘(۳) نماز کو اپنے وقت میں پڑھو؛ اس لیے اصل تو یہی ہے کہ نماز کو اپنے وقت میں ادا کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری اور عذر ہو، تو احناف کے نزدیک جمع صوری کی اجازت ہے؛ اس لیے طبی عملہ اگر ہر نماز کو اپنے وقت میں پڑھنے میں دشواری محسوس کریں، تو وقتی طور پر جمع بین الصلاتین صوری کرسکتے ہیں اس طور پر ظہر کی نماز آخری وقت میں پڑھیں اور عصر کی نماز ا ول وقت میں، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اول وقت میں پڑھ لیںنماز یں حقیقت میں اپنے اپنے وقت میں ہی پڑھی جائیں گی لیکن جمع کی سی صورت ہوجائے گی۔
’’ولکن حملناہ علی الجمع الصوري حتی لا یعارض الخبر الواحد الاٰیۃ القطعیۃ وہو قولہ تعالیٰ: {حافظواعلی الصلوات} أي أدوہا في أوقاتہا۔۔۔۔۔ وما قلناہ ہو العمل بالآیۃ والخبر وما قالوہ یؤدي إلی ترک العمل بالاٰیۃ‘‘(۱)
 

(۲) سورۃ النساء:۱۰۳۔
(۳)عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال لي  قال رسول اللّٰہ: ’’کیف أنت إذا کانت علیک أمراء یؤخرون الصلاۃ عن وقتہا؟ - أو- یمیتون الصلاۃ عن وقتہا؟‘‘ قال: قلت: فما تأمرني؟ قال: ’’صل الصلاۃ لوقتہا،فإن أدرکتہا معہم، فصل، فإنہا لک نافلۃ‘‘ ولم یذکر خلف عن وقتہا۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ،’’کتاب المساجد    ومواضع الصلاۃ: باب کراہیۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتہا، ج۱، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۴۸)
عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتہا، إلا صلاتین: جمع بین المغرب والعشاء، وصلی الفجر قبل میقاتہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المناسک: باب متی  یصلی الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، رقم:۱۶۲۸، مکتبہ، فیصل، دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الصلاۃ: باب ما جاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸)
(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الجمع في السفر بین المغرب والعشاء‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۱۰۔(شاملہ)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نسبندی کرانا ناجائز و حرام ہے اور نسبندی کرانے والا شخص فاسق و فاجر ہے ایسے شخص کی امامت اور اذان مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ وہ شخص پہلی صف میں نماز پڑھ سکتا ہے اگر ایسا شخص اپنی غلطی پر نادم و پشیمان ہوجائے۔اور سچی توبہ کااعلان کرے تو پھر اس کی امامت واذان وغیرہ کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) ولذاکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ … لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر۔ الخ … وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)
إلا أنا جوزناہا مع الکراہۃ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر وجاہدوا مع کل بر وفاجر رواہ دار قطني۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ، ’’فصل في الإمامۃ‘‘: ص: ۴۴۲، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص193

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: روئی کے باریک گدے جس پر پیشانی ٹک جاتی ہے ایسے  گدوں پر نماز، سجدہ وغیرہ سب درست ہے۔(۲)
(۲) ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وإن لم تستقر، لا!۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ‘‘: الفصل الأول، في فرائض الصلاۃ ومنہا السجود ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 334

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت میں بعد میں شریک ہونے والوں کی نماز نفل ہو جائے گی، فرض اداء نہیں ہوگا اس لیے کہ پہلی نماز سے فرض ساقط ہوگیا دوسری مرتبہ جو جماعت ہوئی اور نماز لوٹائی گئی یہ اس نقصان کی تلافی ہے تو بعد میں آنے والوں نے جو اقتداء کی ہے وہ ایسے امام کی اقتداء ہوئی جو فرض نماز نہیں پڑھ رہا تھا۔(۱)

(۱) ووجب علیہ إعادۃ الصلاۃ تغلیظاً علیہ لجبر نقصہا فتکون مکملۃ، وسقط الفرض بالأولیٰ۔ (أحمد بن محمد الشرنبلالي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۲، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
و لا یصح ۔۔۔۔ اقتداء المفترض بالمتنفل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباس الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث فيبیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، دار الکتاب دیوبند)
والمختار أنہ جابر للأول۔ لأن الفرض لا یتکرر۔ (الحصکفي، الدر المختار علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ،  مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص32

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں نماز کی حالت میں بائیں طرف تھوکنے کی گنجائش ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ اپنے کپڑے میں یا رومال میں تھوک لے۔(۲)
(۲) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي نخامۃً في القبلۃ، فحکہا بیدہ ورئي منہ کراھیۃ أو رئيکراہیتہ لذلک وشدتہ علیہ۔ وقال: إن أحدکم إذا قام في صلاتہ فإنما یناجی ربہ أو ربہ بینہ وبین قبلتہ فلا یبزقن في قبلتہ، ولکن عن یسارہ أو تحت قدمہ۔ ثم أخذ طرف ردائہ فبزق فیہ، و رد بعضہ علی بعض قال: أو یفعل ہکذا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا بدرہ البزاق فلیأخذ بطرف ثوبہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۴۱۷)
عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي نخامۃ في قبلۃ المسجد، فحکہا بحصاۃ، ثم نہی أن یبزق الرجل عن یمینہ أو أمامہ ولکن یبزق عن یسارہ أو تحت قدمہ الیسری۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب النہي عن البصاق في المسجد في الصلاۃ و غیرھا‘‘: ج ۱، ص:۲۰۷، رقم: ۵۴۸)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص141