نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوگئی نماز کا اعادہ ضروری ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر معنی فاسد ہورہا ہے اور اس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ خطاء فاحش ہے۔ آیت میں جنتیوں کا تذکرہ چل رہا کہ جنتی جنت میں نہ تو لغو باتیں سنیں گے او رنہ ہی جھوٹ اس کی جگہ جہنمیوں کا مضمون بیان ہوگیا کہ جنتی جنت میں نہ تو کسی ٹھنڈک کا مزا چکھیں گے او رنہ ہی پینے کی کسی چیز کا؛ بلکہ حمیم اور غساق یعنی گرم پانی اور لہو پینے کو ملے گا۔
’’إن غیرت المعنی ووجدت في القرآن نحو أن یقرأ: والذین آمنوا و کفروا باللّٰہ ورسلہ أولئک ہم الصدیقون۔ أو لم یوجد نحو أن یقرأ {إنما نملي لہم لیزدادوا إثما وجمالا تفسد صلاتہ بلاخلاف‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
وإن کان مثلہ فيالقرآن والمعنیٰ أيمعنیٰ اللفظ الذي قرأہ بعید من معنی اللفظ المراد ولم یکن معنی اللفظ المراد متغیراً باللفظ المقر وتغیراً فاحشاً تفسد أیضاً عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو الأحوط۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص263

روزہ و رمضان

Ref. No. 997 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مطلقاً خون نکلنے سے روزہ  نہیں  ٹوٹ جاتا بلکہ اتنا خون نکل جائے کہ جس سے کمزوری پیداہوجائے تو روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ آدمی اپنی مرضی سے خون نکلوائے۔  لیکن اگر کسی چوٹ وغیرہ سے خود ہی نکل جائے تو کوئی کراہت نہیں۔ وکرہ للصائم۔۔۔ وما ظن انہ یضعفہ کالفصد والحجامۃ (نورالایضاح ص 147)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔صورت مسئولہ میں شوہر صرف دوطلاق کا اقرار کرتا ہے ، حافظ افضل صاحب کہتے ہیں کہ چار مرتبہ طلاق دی ۔ حافظ افضل صاحب اکیلے ہیں اور شوہر چار طلاق کا منکر ہے، شوہر کے مقابلہ اکیلے شخص کا قول معتبر نہیں  ہے، اس لئے صرف فقہ حنفی کے مطابق دو طلاق رجعی واقع ہوئیں، البتہ شوہر کو چاہئے کہ بالکل سچ بولے ، مسئلہ حلت وحرمت کا ہے ، احتیاط سے کام لیا جائے۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39/1144

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کیا ضروری ہے کہ پولس وہاں تک نہ پہنچ سکے، اور ایسا کرنے میں کچھ اور لوگ بھی مجرم قرار پاسکتے ہیں، اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم اگر انتظامیہ سے ہی صلح کرکے میت کو پوسٹ مارٹم سے بچانے کی کوشش کیجائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1084

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

A Hadith with the same wordings was not found, but the theme is approved through various narrations that the prophet Yusuf (as) was given half of the beauty and the prophet Mohammad (saws) was given all of it. It is narrated by hazrat Anas (ra) that Allah has created all prophets beautiful and your prophet (Mohammad) was the most beautiful.

قال ابن القیم فی بدائع الفوائد : قول النبي صلى الله عليه وسلم عن يوسف "أوتى شطر الحسن " قالت طائفة المراد منه أن يوسف أوتي شطر الحسن الذي أوتيه محمد فالنبي صلى الله عليه وسلم بلغ الغاية في الحسن ويوسف بلغ شطر تلك الغاية قالوا ويحقق ذلك ما رواه الترمذي من حديث قتادة عن أنس قال: "ما بعث الله نبيا إلا حسن الوجه حسن الصوت وكان نبيكم أحسنهم وجها وأحسنهم صوتا" (بدائع الفوائد 3/206)۔ (قد أعطي شطر الحسن) ، قال المظهر أي: نصف الحسن. أقول: وهو محتمل أن يكون المعنى نصف جنس الحسن مطلقا، أو نصف حسن جميع أهل زمانه. وقيل بعضه لأن الشطر كما يراد به نصف الشيء قد يراد به بعضه مطلقا. أقول: لكنه لا يلائمه مقام المدح وإن اقتصر عليه بعض الشراح، اللهم إلا أن يراد به بعض زائد على حسن غيره، وهو إما مطلق فيحمل على زيادة الحسن الصوري دون الملاحة المعنوية لئلا يشكل نبينا - صلى الله عليه وسلم - وإما مقيد بنسبة أهل زمانه وهو الأظهر / وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرين، وهو من مشايخنا المعتبرين: أنه - صلى الله عليه وسلم - كان أحسن من يوسف عليه السلام إذ لم ينقل أن صورته كان يقع من ضوئها على جدران ما يصير كالمرآة يحكي ما يقابله، وقد حكي عن صورة نبينا - صلى الله عليه وسلم - لكن الله تعالى ستر عن أصحابه كثيرا من ذلك الجمال الباهر، فإنه لو برز لهم لم يطيقوا النظر إليه كما قاله بعض المحققين، وأما جمال يوسف عليه السلام فلم يستر منه شيء اهـ. (مرقاۃ المفاتیح، باب فی المعراج، 9/3766)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1055/41-238

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔    ایسا ہونا ممکن ہے اگر اللہ چاہے۔ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالی کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے گرچہ اب تک اس کا کبھی ظہور نہ ہوا ہو۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 1267/42-639

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جن روزوں میں صراحت کے  ساتھ تسلسل کی شرط ہے کہ ان  میں دوماہ لگاتار روزے رکھنے ہیں، ان میں اگر درمیان میں کوئی روزہ فاسد ہوگیا تو وجہ کوئی بھی ، اب دوبارہ از سر نو ہی روزہ رکھنا ہوگا۔شھرین متتابعین کے نص صریح کی بناء پر پہلے کے روزے  شمار میں نہیں آئیں گے۔  الا یہ کہ شرعی عذر ہو مثلا عیدالاضحی کے ایام درمیان  میں آگئے، یا عورت کو حیض آگیا۔

وکذا کل صوم شرط فیہ التتابع فان افطر بعذر الخ او بغیرہ الخ استانف الصوم (شامی باب الکفارۃ 2/800)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1512/42-990

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی جانب سے کی جانے والی قربانی کا بھی وہی حکم ہے جو عام قربانی کا ہے۔ لہذا اس کا گوشت بھی اہل خانہ ، رشتہ دار اور غریب ومالدار سب لوگ کھاسکتے ہیں۔ سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ 

قال (ويأكل من لحم الأضحية ويطعم الأغنياء والفقراء ويدخر) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي فكلوامنها وادخروا» ومتى جاز أكله وهو غني جاز أن يؤكله غنيا (فتح القدیر للکمال، کتاب الاضحیۃ 9/517)

فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة.  (وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر وشرائطہ 5/81)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ضروریات دین اور قرآن کریم واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تواتر سے باجماع امت ثابت شدہ چیزوں اور احکام کا منکر عقیدۃً ہو وہ بلا شبہ کافر و مرتد ہے۔ شرعاً وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے؛ لہٰذا مذکورہ فی السوال شخص بشرط صحت سوال اسلام سے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں خارج اور کافر ہے

إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن أو خطئ أو سخر بآیۃ منہ کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ۵۰۷)

إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘ أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور ان جیسے جملوں میں کہیں تو اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے اور کہیں دین کی توہین ہے اور لوازمات دین پر عقیدہ کا انکار ہے(۳) اور ان چیزوں سے ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اور نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے اس لئے تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے(۱) ورنہ وہی حکم ہوگا جو لگایا گیا ہے۔ یہ مسائل صحیح ہیں اگر کہیں دشواری پیش آئے تو کسی اچھے عالم سے سمجھ لیا جائے۔

(۳) وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

رجل کفر بلسانہ طائفاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

() تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃالزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۷)