Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہدیہ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگرہدیہ سے مراد یہ ہے کہ ختم قرآن پر تراویح سنانے والے کو کچھ رقم دی جاتی ہے تو وہ اجرت جائز نہیں ہے(۱) ، اگر منشاء سوال مطلق ہدیہ ہے، تو وہ جائز ہے۔(۲)
(۱) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأنہ فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل إلی المستاجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وحر الصدر ولا تحقرن جارۃ لجارتہا ولو بشق فرسن شاۃ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الولاء والہبۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: حث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی التہادي‘‘: ج ۲، ص: ۳۴، رقم: ۲۱۳۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت تو ٹوپی ہے، رنگ کی اس میں تخصیص نہیں ہے، البتہ جو رنگ دوسری قوموں کا شعار ہو اس کو اپنانا درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا، قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ’’من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام قرائۃ لہ‘‘(۱) اور اس پر سب کا اتفاق ہے اگر امام سے سہو ہو جائے تو مقتدی کو بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا پڑ تا ہے۔ اور اگر امام اور مقتدی کی نماز الگ الگ ہوتی ہے تو مقتدی پر سجدہ سہو واجب نہ ہوتا۔ ’’لا صلاۃ لمن یقرأ الخ‘‘ کا حکم منفرد کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں۔(۲) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الإمام ضامن‘‘ اور ضمانت کی تحقیق نہیں ہوتی مگر اتحاد کی صورت میں؛ لہٰذا مقتدی کے لیے قرأۃ خلف الامام کا حکم مطلقاً نہیں خواہ فاتحہ ہو یا دوسری کوئی سورت۔’’من کان لہ إمام فقرائۃ لہ الإمام قرائۃ ومنہا ما قال علیہ الصلاۃ والسلام:۔(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵۔
(۲) وہذا إذا کان إماما أو منفرداً، فأما المقتدي فلا قرائۃ علیہ عندنا۔ (أیضا: ص: ۲۹۴)
(۱) وأما الحدیث فعندنا لا صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً، وصلاۃ المقتدي لیست صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً بل ہي صلاۃ بقراء ۃ، وہي قراء ۃ الإمام، علی أن قراء ۃ الإمام قراء ۃ المقتدي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص240
نکاح و شادی
Ref. No. 2834/45-4452
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سنت ولیمہ کی ادائیگی کے لیے نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ رات گزارنا یا ہمبستری وغیرہ کرنا ضروری نہیں؛ البتہ مسنون وافضل یہ ہے کہ نکاح اور رخصتی کے بعد جب زفاف ہوجائے تو ولیمہ کیا جائے، تاہم اگر کسی نے ایک دن میں نکاح اور ولیمہ کردیا تو ولیمہ کی نفس سنت ادا ہوجائے گی؛ اور اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش کا ولیمہ زفاف سے پہلے فرمایاتھا، نیز نجاشی شاہ حبشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ سے کیا اور لوگوں کو کھانا کھلایا، اور یہ رخصتی سے پہلے ہوا، پس رخصتی سے قبل بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے۔(2) البتہ عام طور ازواج مطہرات کے نکاح میں ولیمہ زفاف کے بعد ہی ہوا ہے، اس لئے اصل سنت یہی ہے کہ ولیمہ زفاف کے بعد ہو۔ (3) نکاح کے فورا بعد زفاف سے پہلے بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے، جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا، تاہم عورت سے ہمبستری یا کم از کم خلوت صحیحہ کے بعد ولیمہ کیاجائے تو یہ افضل ہے۔(4) زید کو چاہئے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے خلوت میں تھوڑی دیر کے لئے ملاقات کرلے اور پھر ولیمہ کا کھانا کھلادے، تو اس سے پورے طور پر سنت ادا ہوجائے گی۔
ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول (فتح الباری، ۹: ۲۸۷)، ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات،۵: ۳۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري".(مشکاۃ المصابیح، (2/278)، الفصل الاول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)
"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبنی بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث :۳۷۴۳)
"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي۲/ ۲۱۰)
"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة"
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم : نفس بارات جائز ہے لیکن اس کا لحاظ ضروری ہے کہ وہ لڑکی والے کے لئے پریشانی کا سبب نہ ہو، جتنے لوگوں کی گنجائش و اجازت ہو اس سے زیادہ نہ ہوں۔ جہیز مانگنا جائز نہیں، اپنی خوشی سے اپنی بچی یا داماد کو کوئی کچھ دیدے تو اس میں حرج نہیں لیکن اس کی بھی نمائش درست نہیں۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 877 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:تصویر کشی کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو کے حفاظتی انتظام کے لئے بدرجہء مجبوری اور بقدر ضرورت اس کی اجازت ہے ۔ لیکن خبروں میں دینا کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں ہے اس لئے اس سے گریز کیا جائے۔ اور اگر مالک اخبار اسی پر مصر ہو اور روزگار خطرہ میں پڑجائے تو جب تک دوسری ملازمت نہ مل جائے ، بادل ناخواستہ اس کی گنجائش ہوگی لیکن پوری دیانت کے ساتھ دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھیں اور جوں ہی کسی متبادل کا انتظام ہوجائے یہ غیرشرعی امور چھوڑدیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Manners & Behaviours
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39/1112
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انشورنس کا معاملہ مکمل سود ی معاملہ ہے، اور سودی معاملہ کرنا حرام ہے۔ البتہ شریعت میں ضرورت کے مواقع میں گنجائش دی گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کے استعمال کے لئے انشورنس کرانا لازم ہو اور قانونی مجبوری ہو تو ایسی صورت میں انشورنس کرانے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قانونی مجبوری نہ ہو تو پھر انشورنس ضرورت نہیں ہے۔ جیون بیمہ قانونی طور پر لازم نہیں اس لئے حرام ہوگا۔ دوکان کا بیمہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر قانونی مجبوری کے تحت کرایا جائے تو ہی جائز ہوگا ورنہ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 40/971
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Read the following as much as you can:
رَبِّ اِنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
May Allah give you full shifa! Ameen
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
روزہ و رمضان
Ref. No. 41/888
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ فاسد نہیں ہوا، البتہ نماز از سر نو پڑھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند