Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم سے اوپر بیٹھنا یا کھڑا ہونا، عذر کی وجہ سے ہو تو درست ہے اور اگر بلا عذر ہو، تو قرآن کے احترام کے خلاف ہے۔ دانستہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)
(۱) مد الرجلین إلی جانب المصحف إن لم یکن بحذائہ لا یکرہ وکذا لو کان المصحف معلقا في الوتد وہو قد مد الرجل إلی ذلک الجانب لا یکرہ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد، والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۳)
رجل وضع رجلہ علی المصحف إن کان علی وجہ الاستخفاف یکفر وإلا فلا، کذا في الغرائب۔ (’’أیضاً:‘‘)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص59
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب غسل دینے کا ارادہ کیا تو حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف ہوا کہ کپڑے اتارے جائیں یا نہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے سب پر نیند طاری فرما دی اس میں کسی کہنے والے نے کہا کہ غسل مع کپڑوں کے دیا جائے، تو صحابہ نے مع کپڑوں کے غسل دیا اور پھر تین سوتی کپڑوں میںکفن دیا گیا۔ (۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، تقول: لما أراد واغسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالوا: واللّٰہ ما ندري أنجرد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ثیابہ کما نجرد موتانا أم نغسلہ وعلیہ ثیابہ، فلما اختلفوا ألقی اللّٰہ علیہم النوم حتی ما منہم رجل إلاوذقنہ في صدرہ، ثم کلمہم من ناحیۃ البیت لا یدرون من ہو أن اغسلوا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثیابہ، فقاموا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ فغسلوہ وعلیہ قمیصہ یصبون الماء فوق القمیص ویدلکونہ بالقمیص دون أیدیہم وکانت عائشۃ تقول: لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما غسلہ إلا نسائہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب ستر المیت‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، رقم: ۳۱۴۱؛ أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۶۰۳)
فتاوی دارالعلوم قف دیوبند ج2ص195
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعوت و تبلیغ کے متعدد و مختلف طریقے ہیں جو زمانہ اور احوال سے مختلف ہوتے رہتے ہیں دعوت و تبلیغ کے ہر گوشہ میں کام ہونا مطلوب ہے۔ وہ مختلف طریقے یہ ہیں کہ کوئی درس و تدریس میں مصروف ہے کوئی وعظ و تقریر میں کوئی نصیحت میں اور کوئی دین کی معمولی باتوں کی سمجھ رکھتا ہے اسی اعتبار سے اپنے کسی بھائی کو سمجھاتا اور نماز روزہ سکھاتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس اعتبار سے تمام علماء دعوت و تبلیغ کے کام میں مشغول ہیں اور مدارس سے یہ کام اعلیٰ پیمانہ پر ہو رہا ہے تبلیغ ہر شخص پر لازم ہے اس کو تبلیغی جماعت کے مروجہ طریقے میں محدود کردینا صحیح نہیں ہے۔ اور نہ ہی علماء اور مدارس پر اعتراض درست ہے۔ (۱)
(۱) فالفرض ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۴، ص: ۳۴۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاری، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ما ذکر عن بني إسرائل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۱۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص316
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کپڑا اتنا باریک ہے کہ وہ جماع کی لذت سے مانع نہیں ہے، تو غسل واجب ہے اور اگر کپڑا موٹا ہو جو جماع کی لذت سے مانع ہو اور منی نہ نکلے، تو غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن احتیاطاً غسل کرنا بہتر ہے اور اگر منی نکل جائے تو بہرصورت غسل واجب ہوگا۔(۲)
(۲) أولج حشفتہ أو قدرھا ملفوفۃ بخرقۃ، إن وجد لذۃ الجماع وجب الغسل، و إلا لا علی الأصح، والأحوط الوجوب (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۳۰۳) ؛ وقولہ: إلا لا أي مالم ینزل۔ (ایضاً) ولو لفّ علی ذکرہ خرقۃ، …و أولج ولم ینزل، قال بعضھم یجب الغسل، و قال بعضھم: لا یجب، والأصح: إن کانت الخرقۃ رقیقۃ بحیث یجد حرارۃ الفرج واللذۃ، وجب الغسل، و إلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجھین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل، الفصل الثالث: فی المعانی الموجبۃ للغسل، السبب الثاني: الإیلاج‘‘ج۱، ص:۶۷) ؛ و عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا … و إیلاج بخرقۃ مانعۃ من وجود اللذۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’فصل عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا‘‘ج۱،ص:۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص302
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2720/45-4464
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو رقم مرحوم کی زندگی میں واجب الاداء ہو یا مرحوم کے مرنے کے بعد میت کے ورثاء کو بحق مرحوم دیاجائے اس میں شرعی وراثت جاری ہوگی، اور اگر مرحوم کے انتقال کے بعد یہ رقم سرکار ، مرحوم کی بیوی کو یا کسی بھی وارث کو بطور امداد دیتی ہے تو وہ رقم خاص اسی کے لئے ہوگی جس کے نام سے وہ رقم جاری ہوگی؛ اس میں وراثت کا حکم نافذ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عصر کی نماز کا وقت احناف کے مفتی بہ قول کے مطابق مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے؛ البتہ صاحبین کے نزدیک مثل اول کے بعد شروع ہو جاتا ہے، اگرچہ صاحبین کا قول مفتی بہ نہیں ہے تاہم ضرورت وحاجت کی وجہ سے اگر عصر کی نماز مثل اول میں پڑھ لے تو نماز درست ہو جاتی ہے، اس لیے کہ بعض مشائخ نے اس پر فتویٰ دیا ہے۔ حرمین کا مسئلہ خاص فضیلت کا حامل ہے، اس لیے حرمین میں عصر کی نماز جماعت کے ساتھ مثل اول پر ہی پڑھنی چاہئے جماعت ترک کر کے مثلین پر انفرادی یا اجتماعی طور پر پڑھنا مناسب نہیں ہے۔(۱)
(۱) ووقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في ’’شرح المجمع‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وأما أول وقت العصر فعلی الإختلاف الذي ذکرنا في آخر وقت الظہر حتی روي عن أبي یوسف أنہ قال: خالفت أبا حنیفۃ في وقت العصر، فقلت: أولہ إذا زاد الظل علی قامۃ اعتماداً علی الآثار التي جائت وآخرہ حین تغرب الشمس عندنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکان، معرفۃ الزوال ووقت العصر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 68
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فاسق کی اذان، اقامت اور امامت مکروہ تحریمی ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الإستقامۃ ولعل المراد بہ مـن یرتکب الکبائر‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب وأذان إمرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالماً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب، ج ۲، ص: ۶۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوٰی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 331
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ قصداً ’’دال‘‘ ہی پڑھتا ہے، تو نماز نہیں ہوگی لیکن اگر وہ مخرج سے نکالنے اور ادا کرنے کی سعی کرتا ہے، لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ ’’دال‘‘ ادا ہوئی تو اس صورت میں مفتی بہ قول کی رو سے نماز ہو جائے گی۔(۱)
(۱) وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشائخ قال أکثرہم لا تفسد صلاتہ: ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص260
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنن غیر مؤکدہ ہوں یا نوافل اور مستحبات ہوں جب چار رکعت کی نیت باندھی جائے تو دوسری رکعت کے بعد تیسری میں کھڑے ہوکر ثناء نہیں پڑھی جائے گی؛ بلکہ آہستہ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور سورۃ پڑھے۔(۱)
(۱) وأما صفۃ القرائۃ فیہا فالقراء ۃ في السنن في الرکعات کلہا فرض؛ لأن السنۃ تطوع الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ المسنونۃ وبیان ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۹، زکریا دیوبند)
الأصح أنہ لا یصلي ولا یستفتح في سنۃ الظہر والجمعۃ، وکون کل شفع صلاۃ علی حدۃ لیس مطرداً في کل الأحکام، ولذا لو ترک القعدۃ الأولیٰ لا تفسد … فیقال ہنا أیضاً: لا یصلی ولا یستفتح ولا یتعوذ لوقوعہ في وسط الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: قولہم کل شفع من النفل صلاۃ لیس مطرداً‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص376