تجارت و ملازمت

Ref. No. 1777/43-1524

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں بہتر تو یہ تھا کہ زمین کا کچھ نہ کچھ کرایہ طے کرلیا جاتا اور پھر عمل اور خرچہ میں دونوں برابر کے شریک ہوتے تاکہ آئندہ چل کر کوئی نزاع پیدا نہ ہو، لیکن جبکہ مالک زمین خود اپنا حق ساقط کرنے پر رضامند ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اور مذکورہ کاروبار درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1993/44-1940

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بچی کو بتادیاجائے کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک وضو نہ کرے، اگر اس طرح شک و شبہہ میں وضو کرتی رہے گی تو اس کا وہم بڑھتاجائے اور بعد میں اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔  نیز ' لاحول ولا قوۃ الا باللہ' کثرت سے پڑھتی رہے اور  'یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک' بھی پڑھتے رہنا مفید ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2060/44-2054

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یا کسی سے تلاوت سنتے وقت معانی میں غور وفکر کرتے ہوئے رونا پسندیدہ عمل ہے۔ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اور صحابہ کرام سے تلاوت قران کے وقت رونا ثابت ہے۔

 (( اقرأ عليَّ القرآن ،فقلت یا رسول اللہ  أ أقرَأُ علیک وعلیک أنزل ، قال : إنی أحب أن أسمعہ من غیری فقرات علیہ سورۃ النساء حتی إذا جئت إلی ہذہ الآیۃ:{ فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلیٰ ہٰؤلا  ِٔشَہِیْدَاً   (النساء ۴۱)قال : حسبک الآن،فالتفت إلیہ فإذاعیناہ تذرفان ))۔

(رواہ البخاری (۴۵۸۲)کتاب التفسیر/ باب فکیف إذا جئنا من کلأمۃ بشہید… ومسلم(۸۰۰)کتاب صلاۃ المسافرین /باب فضل استماع القرآن)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی مسلمان قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کردے، تو وہ مرتد ہے، جس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اگر وہ اسی انکار پر رہے، تو اس کو لازماً قتل کردیا جائے، لیکن اس سزا کے نفاذ کے لئے اسلامی حکومت واقتدار شرط ہے، جو یہاں پر موجود نہیں؛ اس لئے یہ سزا یہاں پر نہیں دی جاتی، یہاں پر ضروری ہے کہ اس کو سمجھایا جائے اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے، اگر اس کے باوجود وہ نہ مانے، تو اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں، جذبات میں کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی اقدام نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم فی الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، في شرح الملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

 فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب إحباط العمل کما في المرتد۔ (أیضاً:، ’’الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

 من جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقۃ الأکبر، ’’فصل: فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۹)

 

دار العلوم وقف دیوبند

 

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 166)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2282/44-3437

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھپکلی کی بیٹ نجاست غلیظہ ہے، لہذا اگر  چھپکلی کی بیٹ ماء قلیل میں گرجائے تو وہ پانی ناپاک  ہوجائے گا، اور اگر کسی شخص کے بدن یا کپڑوں پر لگ جائے تو اسے دھونا ضروری  ہوگا۔

واشار بالروث والخثي الي نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور.  (البحر الرائق : ( 242/2، ط:دار الكتاب الاسلامي)

 (وخرء) كل لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج)... (وروث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور.
(
قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها ولانصراف الإطلاق إليها كما يأتي. (الدر المختار مع رد المحتار: (320/1، ط: دار الفكر
)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصنف عبد الرزاق کے حوالہ سے یہ حدیث لکھی ہے، مگر مصنف عبد الزاق میں موجود نہیں ہے، اس لیے علماء نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔(۱)
’’ومنہا ما ذکرہ العجلوني في کشف الخفا (ج ۱، ص: ۲۶۵)، قال: روي عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقہ اللّٰہ قبل الأشیاء؟ قال: یا جابر إن اللّٰہ تعالیٰ خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء، ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا ملک ... الحدیث بطولہ۔ وہذا لم نقف علیہ في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق‘‘(۲)

(۱) وفي الدر أیضا عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول إن أول شیء خلق اللّٰہ القلم ثم النون الخ …… أخرجہ الحکیم الترمذي ہذا وروي أن أول ما خلق اللّٰہ العقل وأن أول ما خلق اللّٰہ نوري وأن أول ما خلق اللّٰہ روحي وأن أول ما خلق اللّٰہ العرش والأولیۃ من الأمور الإضافیۃ، فیؤول أن کل واحد مما ذکر خلق قبل ما ہو من جنسہ، فالقلم خلق قبل جنس الأقلام، ونورہ قبل الأنوار وإلا فقد ثبت أن العرش قبل خلق السموات والأرض فتطلق الأولیۃ علی کل واحد بشرط التقیید، فیقال: أول المعاني کذا وأول الأنوار کذا، ومنہ قولہ: أول ما خلق اللّٰہ نوري وفي روایۃ روحي ومعناہما واحد فإن الأرواح نورانیۃ أي أول ما خلق اللّٰہ من الأرواح روحي، رواہ الترمذي وقال ہذا حدیث غریب إسنادا أي لا متنا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۹۴)
(۲) أبوسعید عبدالملک، شرف المصطفی: ج ۱، ص: ۳۰۷؛ و نور الدین برھان الحلبي، السیرۃ الحلبیۃ:ج ۱، ص: ۲۱۴؛ و إسماعیل بن محمد، کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء: ج ۱، ص: ۳۰۲۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص101

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ جب تک احتلام کا یقین نہ ہوجائے آپ پر غسل واجب نہیں۔ صرف وضو کریں اور نماز پڑھیں، وسوسوں کو جگہ نہ دیں۔ بہتر ہوگا کہ اس بیماری  کے علاج کے لیے آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔(۱)

(۱) في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا(ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ ج۱،ص:۵۱۵) ؛ خلاصۂ بحث : یہ کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقض وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (اشرف علی تھانوی، إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ج۱،ص:۳۵۰) ؛ ومن أیقن بالطہارۃ و شک في الحدث فھو علی طہارۃ۔ ومن أیقن الحدث و شک في الطھارۃ فھو علی الحدث۔ (سراج الدین أبو محمد، الفتاوی السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۳۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص306

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان شعائر اسلام میں ہے، اذان کے ذریعہ آدمی دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے، ڈرامہ اور سیریل دیکھنے والا شرعاً فاسق ہے اور فاسق کا اذان دینا درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات‘‘(۱)
’’وینبغي أن لا یصح أذان الفاسق بالنسبۃ إلی قبول خبرہ والاعتماد علیہ أي لأنہ لا یقبل قولہ في الأمور الدینیۃ‘‘(۲)
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم‘‘(۳)
’’وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ کذا في النہایۃ‘‘(۴)
’’ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۵)

(۱) أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۲۰۰۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱، ۶۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۵۹۰۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰۔    (۵)  أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص194

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدے میں صرف پیر کا انگوٹھا زمین پر رکھے رہنے سے نماز ادا ہو جائے گی، صرف انگوٹھا رکھنا اور دوسری انگلیوں کو اٹھائے رکھنا خلاف سنت ہے؛ اس لیے مکروہ ہے، سنت یہ ہے کہ کہ دونوں قدموں کی انگلیاں زمین پر لگی رہیں اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب ہو۔

’’لأن وضع اصبع واحدۃ منہما یکفی و أفاد أنہ لو لم یضع شیئاً من القدمین لم یصح السجود‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ:  بحث الرکوع والسجو‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۵۔
ولو سجد ولم یضع قدمیہ علی الأرض لا یجوز، ولو وضع إحداہما جاز مع الکراہۃ إن کان بغیر عذر … وضع القدم بوضع أصابعہ وإن وضع أصبعاً واحدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 335

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں مسبوق بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہوگا ہاں جب امام سجدہ سہو کے لیے سلام پھیرے گا اس میں مسبوق امام کی متابعت نہیں کرے گا۔(۱)

(۱) ثالثہا: أنہ لو قام إلی قضاء ما سبق بہ، وعلی الإمام سجدتا سہو قبل أن یدخل معہ، کان علیہ أں یعود فیسجد معہ ما لم یقید بسجدۃ، فإن لم یعد حتی سجد، وعلیہ أن یسجد في آخر صلاتہ … ومنہا أنہ یتابع الإمام في السہو ولا یتابعہ في التسلیم والتکبیر والتلبیۃ، فإن تابعہ في التسلیم والتلبیۃ فسدت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، زکریا دیوبند)
ولو قام لقضاء ما سبق بہ وسجد إمامہ لسہو تابعہ فیہ إن لم یقید الرکعۃ بسجدۃ فإن لم یتابعہ سجد في آخر صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃالطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في ما یفعلہ المقتدي الخ‘‘: ص: ۳۰۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص33