بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی تعلیم و تربیت کے لئے اور اسلامی فکر پیدا کرنے کے لئے کوئی کتاب متعین نہیں ہے۔ علماء دین و متقدمین حضرات جس کتاب کو مفید سمجھیں اس کو پڑھنا چاہئے کسی ایک ہی کتاب پر اصرار بھی درست نہیں ہے۔ نیز وقت کی تعیین بھی اکثر نمازیوں کا خیال رکھتے ہوئے کی جائے صورت مسئولہ میں ایک عالم تفسیر بیان کرتے ہیں جس کے مہتمم بالشان ہونے سے کسی کو انکار نہیں ہے اور عالم دین خود اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے جس وقت میں پہلے سے تفسیر ہوتی ہے اس میں رخنہ اندازی اور اختلافات بالکل درست نہیں کسی دوسرے وقت تبلیغی نصاب اور کبھی کوئی دیگر کتاب پڑھنی چاہئے۔(۱)

(۱) عن محمد بن کعب القرطبي قال: سمعت ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قرأ حرفاً من کتاب اللّٰہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرۃ أمثالہا أما اني لا أقول: {الم} (البقرۃ: ۱) حرفٌ، ولکن ألفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیمٌ حرفٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب فمن قرأ حرفا من القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۹۱۰)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ، ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)
عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲، رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘:، رقم: ۵۰۲۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص317

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کے شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھنی چاہیے۔(۱) کپڑا اتارنے اور غسل خانہ میں داخل ہونے سے پہلے نجاست دور کرنے کے بعد، ورنہ صرف دل میں پڑھے اور زبان کو حرکت نہ دے، اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت کی خاطر۔(۲)

(۱) و سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب، و آدابہ کآدابہ قولہ: کسنن الوضوء أي من البدائۃ بالنیۃ والتسمیۃ والسواک الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۱)  ؛ و في رد المحتار و قیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ۔(ابن عابدین، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷،؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ ج۱،ص:۱۸مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲ ) إلاحال انکشاف الخ۔ الظاھر أن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ، إن کان في غیر المکان المعد لقضاء الحاجۃ۔ و إلا فقبل دخولہ۔ فلو نسي فیھا سمی بغلبہ، ولا یحرک لسانہ تعظیما لاسم اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص303

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احناف کے یہاں نمازوں میں اوقاتِ مستحبہ  کے سلسلے میں تاخیر یا تعجیل مطلقاً نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نماز فجر وقتِ اسفار میں پڑھنا افضل ہے؛ جب کہ ظہر کی نماز کے سلسلے میں کچھ تفصیلات ہیں۔ احناف کے نزدیک گرمیوں کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر کرنا اور سردیوں کے موسم میں تعجیل کر کے پڑھنا افضل ہے۔ عصر کی نماز گرمی اور سردی دونوں موسم میں تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے؛ ہاں عصر کی نماز میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ سورج کا رنگ متغیر اور زرد ہو جائے، مغرب کی نماز میں ہمیشہ تعجیل افضل ہے۔ عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کر کے ادا کرنا حنفیہ کے نزدیک افضل ہے، تاہم آسمان اگر ابر آلود ہو، تو اس صورت میں عصر اور عشاء دونوں نمازوں کو مقدم یعنی تعجیل کر کے اور باقی نمازوں کو تاخیر کر کے پڑھنا افضل ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:
’’(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم بہ) ہو المختار بحیث یرتل أربعین آیۃ ثم یعیدہ بطہارۃ لو فسد۔ وقیل یؤخر جدا؛ لأن الفساد موہوم (إلا لحاج بمزدلفۃ) فالتغلیس أفضل کمرأۃ مطلقا۔ وفي غیر الفجر الأفضل لہا انتظار فراغ الجماعۃ (وتأخیر ظہر الصیف) بحیث یمشي في الظل (مطلقا) کذا في المجمع وغیرہ: أي بلا اشتراط، (و) تأخیر (عصر) صیفا وشتاء توسعۃ للنوافل (ما لم یتغیر ذکاء) بأن لا تحار العین فیہا في الأصح (و) تأخیر (عشاء إلی ثلث اللیل  والمستحب تعجیل ظہر شتاء) یلحق بہ الربیع، وبالصیف الخریف (و) تعجیل (عصر وعشاء یوم غیم، و) (وتأخیر غیرہما فیہ)‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴-۲۹، مکتبہ زکریا، دیوبند۔
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 69

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ شخص ٹی وی پر فلم دیکھتا ہے، گانا سنتا ہے اور مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار ہے ایسے شخص سے اذان نہ پڑھوائی جائے اور اگر ٹی وی پر اصلاحی وغیر مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار نہیں ہے۔ بہر صورت اس کی دی ہوئی اذان درست ہے اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔(۲)

(۲)  ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اقتداء درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ہر رکن میں امام کی اقتداء ہو۔ مذکورہ صورت میں ایک رکن میں بالکل ہی اقتداء نہیں پائی گئی اس لیے نماز درست نہیں ہوئی وہ نماز دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) وإن رفع المقتدي رأسہ من السجدۃ الثانیۃ قبل أن یضع الإمام جبہتہ علی الأرض لایجوز وکان علیہ إعادۃ تلک السجدۃ ولو لم یعد تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند)
بقي من المفسدات … ومسابقۃ المؤتم برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ کأن رکع ورفع رأسہ قبل إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم مع الإمام۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: مطلب في المشی في الصلاۃ، ج ۲، ص: ۳۹۱، ۳۹۲)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔(۱)

(۱) الکلمۃ الزائدۃ إن غیرت المعنیٰ ووجدت في القرآن … أو لم یوجد … تفسد صلاتہ بلا خلاف، وإن لم تغیر المعنی۔ٰ فإن کانت فيالقرآن نحو أن یقرا {إن اللّٰہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً} لا تفسد بالإجماع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
(قولہ ولو زاد کلمۃ) اعلم أن الکلمۃ الزائدۃ إما أن تکون في القرآن أو لا، و علی کل، إما أن تغیر أولا، فإن غیرت أفسدت مطلقاً … وإن لم تغیر فإن کان في القرآن … لم تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہ، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص261

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنن مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے درود شریف اور دعاء نہ پڑھے۔(۱)

(۱) ولا یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الأولی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا) ولو صلی ناسیًا فعلیہ السہو، وقیل: لا، شمني (ولایستفتح إذا قام إلی الثالثۃ منہا) لأنہا لتأکدہا أشبہت الفریضۃ (وفيالبواقي من ذوات الأربع یصلي علی النبي) صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ویستفتح) ویتعوذ ولو نذرا،  لأن کل شفع صلاۃ۔
قولہ: ولا یصلي إلخ) أقول: قال في البحر في باب صفۃ الصلاۃ: إن ماذکر مسلم فیما قبل الظہر، لما صرحوا بہ من أنہ لا تبطل شفعۃ الشفیع بالانتقال إلی الشفع الثاني منہا، ولو أفسدہا قضی أربعاً، والأربع قبل الجمعۃ بمنزلتہا۔ وأما الأربع بعد الجمعۃ فغیر مسلم فإنہا کغیرہا من السنن، فإنہم لم یثبتوا لہا تلک الأحکام المذکورۃ ۱ہـ ومثلہ في الحلیۃ، وہذا مؤید لما بحثہ الشرنبلالي من جوازہا بتسلیمتین لعذر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
ولا یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الاولٰی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا ولو صلی ناسیا فعلیہ السہو وقیل لا شمني … وفي البواقي من ذوات الأربع یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسلم اھـ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص377

متفرقات

Ref. No. 938

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر عورت نکاح پڑھائے تو نکاح درست و منعقد ہوگا، تاہم مردوں کے ہوتے  ہوئے  یہ کام انہیں کے سپرد رہے تو بہتر ہے، اور یہی توارث امت ہے، دیگر امور میں اصطلاحی طور پر قاضی بننا عائلی مسائل میں اس کی گنجائش ہے، اہم امور حدود و قصاص اور دیت وغیرہ میں درست نہیں ہے، شامی کے باب التحکیم میں اس کی پوری تفصیل  کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔   واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1083

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is a hadith that a true dream is one of the 46 parts of (knowledge of) prophethood. Mulla Ali Qari states:

قِيلَ مَعْنَاهُ أَنَّ الرُّؤْيَا جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ عِلْمِ النُّبُوَّةِ، وَالنُّبُوَّةُ غَيْرُ بَاقِيَةٍ وَعِلْمُهَا بَاقٍ، وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - " «ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ» " (مرقاۃ المفاتیح 7/2913) وَقِيلَ: إِنَّمَا قَصَرَ الْأَجْزَاءَ عَلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ ; لِأَنَّ زَمَانَ الْوَحْيِ كَانَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً. وَكَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، وَذَلِكَ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ سِنِيِّ الْوَحْيِ، وَنِسْبَةُ ذَلِكَ إِلَى سَائِرِهَا نِسْبَةُ جُزْءٍ إِلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا. (مرقاۃ المفاتیح 7/2913)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

Miscellaneous

Ref. No. 1052/41-241

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

Then answer to your question is as follows:

The correct method is either to shave the entire head or cut the hair of the whole head evenly. Cutting some hair short and leaving some hair long is a wrong way. Likewise, it is against the Sunnah to shave a portion of the head and leave another portion long. There is a stern warning in the Hadith for those who do so. Clipping all the hair and leaving the front portion long as fashion is also not permissible as it is today’s fashion.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband