اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت میں تنہا تنہا عبادت منقول ہے؛ اس لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا مکروہ ہے؛(۱) البتہ اگر اتفاقاً لوگ تنہا تنہا آکر تعداد مجمع کی ہوجائے، تو مضائقہ نہیں اور اتفاقاً چائے وغیرہ پلا دینے میں بھی حرج نہیں ہے، لیکن ثواب سمجھ کر اس کا رواج بنا لینا جائز نہیں۔

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحیا اللیالي الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۱)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا: … لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز …  وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص503

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو مرد یا عورتیں قرآن پاک پڑھے ہوئے نہیں ہوتے اور قرآن کی محبت وعقیدت کی وجہ سے قرآن کریم کی ہر سطر پر انگلی پھیرتے اور نظر ڈالتے جاتے ہیں اور ہر سطر پر ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھتے جاتے ہیں، اس سے ان کا مقصد قرآن کریم کو ثواب وعقیدت کی نیت سے دیکھنا اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ کر ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھنا سیکھتا رہے جب کہ بعض لوگ یہ عمل لاٹری کا نمبر معلوم کرنے کے لیے کرتے ہیں، ایسا کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔ کتاب ہدایت سے بھی گمراہی ڈھونڈتے ہیں {یضل بہ کثیراً ویہدي بہ کثراً}(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔
والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ)، أي یتردد ویتبلد علیہ لسانہ ویقف في قراء تہ …لعدم مہارتہ، والتعتعۃ في الکلام التردد فیہ من حصرٍ أو عيٍّ، یقال: تعتع لسانہ إذ توقف في الکلام ولم یطعہ لسانہ (وہو) أي القرآن، أي حصولہ أو ترددہ فیہ (علیہ)، أي علی ذلک القاري (شاق)، أي شدید یصیبہ مشقۃ جملۃ حالیۃ (لہ أجران)، أي أجر لقراء تہ أجر لتحمل مشقتہ وہذا تحریض علی تحصیل القراء ۃ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۹، رقم: ۲۱۱۲)

 
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص54

Hajj & Umrah

Ref. No. 2564/45-3919

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It should be noted that as it is preferable for women to perform daily prayers at home in their homeland, in the same way it is preferable for women to pray at their residences (hotels) in Makkah and Madinah without attending congregational daily prayers or Friday prayer. To pray the salah in the hotels, will be rewarded the same as in Haramain. However, when women go to visit the House of Kaba or the Rauza of the Prophet (saws), they can pray in congregation daily prayers or Friday prayer in Haramain. But they must not pray in Muhazat of men. So the question of attending just Friday prayer is meaningless.

عن عبداللہ عن النبی ﷺ قال صلوۃ المراۃ فی بیتھا افضل من صلوتھا فی حجرتھا وصلوتھا فی مخدعھا افضل من صلوتھا فی بیتھا (ابوداؤد ، کتاب الصلوۃ ، باب ماجاء فی خروج النساء ، الرقم 570)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت اپنی دعوت وتبلیغ کے ناکام ہونے کی وجہ سے نہیں کی تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ہجرت فرمائی تھی؛ اس لئے مذکورہ واعظ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فیل ہو گئے تھے، یہ جہالت ہے۔ ایسا کہنا بالکل درست نہیں ہے؛ انہوں نے یہ جملہ دانستہ کہا ہو یا نادانستہ توبہ واستغفار لازم ہے۔(۱)

(۱) وعبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً، اتخذ الناس رؤساً جہالاً فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا: متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتقوا الحدیث عني إلا ما علمتم، فمن کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۵، رقم: ۲۳۲)
وعن ابن سیرین رحمہ اللّٰہ قال: إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم، رواہ مسلم۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۳۷، رقم: ۲۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص298

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کی تلاوت کے دوران غیر قرآن سے کچھ نہ ملایا جائے؛ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے، تو درود نہ پڑھنا چاہئے، تاہم اگر تلاوت کے بعد درود شریف پڑھے، تو درست ہے، بلکہ بہتر ہے اور اگر درود بعد میں بھی نہ پڑھے، تو کوئی حرج نہیں۔
’’ولو قرأ القرآن فمر علی اسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تألیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح ورفع‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۶۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص391

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:آبدست کرتے وقت کپڑوں پر پانی کے قطرے گرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک وہ پانی جو نجاست دھونے اور ناپاک ہونے کے بعد گرتا ہے ، وہ تو ناپاک ہے ایک درہم کی مقدار تک معاف ہے اور اس سے زائد کا دھونا ضروری ہے۔ دوسرا وہ پانی جو نجاست سے مخلوط ہونے سے قبل گر جاتا ہے تو وہ پاک ہے۔
و قال محمد ھو طاھر فان أصاب ذلک الماء ثوبا إن کان ماء الاستنجاء و أصابہ أکثر من قدر الدرھم، لا تجوز فیہ الصلوۃ۔(۱)
(۱) فتاویٰ قاضی خاں ،  کتاب الطہارت، فصل: في الماء المستعمل، ج۱، ص:۱۱


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص445

متفرقات

Ref. No. 2717/45-4219

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فلسطینی مسلمان کے ساتھ ہو رہے ظلم وبربریت انتہائی تکلیف دہ ہے اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے حدیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا گیا ہے اور جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اس لیے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیا کے امن پسند لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے اور جو لوگ دنیا میں امن دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی سعی کر بھی رہے ہیں تاہم اس کی وجہ سے حج وعمرہ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے جن لوگوں میں حج کی استطاعت ہے ان پر حج کرنا فرض ہے اور نہ کرنا گناہ ہے اس لئے اس طرح کے بائیکاٹ کا مطالبہ قطعاً شرعی مطالبہ نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2725/45-4243

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رضاعی باپ نکاح کے سلسلہ میں حقیقی باپ کی طرح ہوتاہے،  اس سے نکاح نہیں ہوسکتاہے اور نہ ہی اس  سے پردہ ہے۔ البتہ گال یا پیشانی کا بوسہ لینے میں احیتاط کرنی چاہئے۔ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نکاح پڑھانے والے امام صاحب کے علم میں نہیں تھا کہ عورت منکوحہ غیر مطلقہ ہے اور اس نے نکاح پڑھا دیا، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا اس کی امامت درست ہے؛ لیکن جب اس کے علم میں آگیا تو اس پر ضروری ہے کہ اس بارے میں اعلان کر دے کہ وہ نکاح صحیح نہیں ہوا؛(۱) مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان دونوں مرد وعورت کو ملنے نہ دیں اور زنا کاری سے بچائیں۔(۲)

(۱) لا یجوز لرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ و کذلک المعتدۃ، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح، القسم السادس: المحرمات التي یتعلق بھا حق الغیر‘‘: ج ۱، ص:۳۴۶؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب النکاح، باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۷۴)
(۲) من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔ (أخرجہ مسلم  في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اتنی چھوٹی تصویر جیسے کہ روپیہ پر ہوتی ہے، اگر الجھن کا سبب بنے، تو کراہت ہے ورنہ نہیں، چشمہ لگا کر نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ولبس ثوب فیہ تماثیل وذي روح وأن یکون فوق رأسہ أو بین یدیہ أو بحذائہ یمنۃ أو یسرۃ أو محل سجودہ تمثال ولو في وسادۃ منصوبۃ لا مفروشۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۶، ۴۱۷)
وقال في الشامیۃ: قولہ ولبس ثوب فیہ تماثیل عدل عن قول غیرہ تصاویر لما في المغرب: الصورۃ عام في ذی الروح وغیرہ والتمثال خاص بمثال ذی الروح، ویأتي أن غیر ذی الروح لا یکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۶، زکریا دیوبند)
وإن کانت الصورۃ علی الإزار أو الستر فمکروہ، ویکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أو لم یصل، أما إذا کانت في یدہ وہو یصلی فلا بأس بہ لأنہ مستور بثیابہ، وکذا لو کان علی خاتمہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۱۲، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص131