نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا مصلی اور جائے نماز جس پر خانہ کعبہ کی تصویر پرنٹ ہو یا نقش ہو اس پر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے۔ اگر اس سے خشوع و خضوع متاثر ہو، تو ایسے مصلی پر نماز پڑھنے سے احتراز بہتر ہے، ایسے مصلی میں بسااوقات خشوع فوت ہونے کا امکان ہے؛ اس لیے مصلی سادے ہونے چاہئیں۔ حدیث سے بھی اس طرف اشارہ ملتاہے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منقش چادر میں نماز پڑھی پھر آپ نے وہ چادر ابوجہم کو دینے کا حکم دے دیا۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی في خمیصۃ لہا أعلام، فنظر إلی أعلامھا نظرۃ، فلما انصرف قال: إذہبوا بخمیصتي ہذہ إلی أبي جہم، وائتوني بأنبجانیّۃ أبي جہم؛ فإنہا ألہتنی آنفا عن صلاتي‘‘(۱)
 فتاویٰ عثمانی میں لکھا ہے: ’’جا نمازوں پر فی نفسہ کسی بھی قسم کا نقش پسندیدہ نہیں؛ لیکن اگر کسی جانماز پر حرمین شریفین میں سے کسی کی تصویر اس طرح بنی ہوئی ہے کہ وہ پاؤں کے نیچے نہیں آتی تو اس میں بھی اہانت کا کوئی پہلو نہیں؛ البتہ موضع سجود میں بیت اللہ کے سوا کسی اور چیز کی تصویر بالخصوص روضۂ اقدس کی شبیہ میں چوں کہ ایہام خلافِ مقصود کا ہوسکتا ہے؛ اس لیے اس سے احتراز مناسب معلوم ہوتا ہے‘‘۔(۲)
(۱) معلوم ہوا کہ اس طرح کے مصلی سے احتراز ہی بہتر ہے۔
(۲) ایسے مصلی جس پر خانہ کعبہ وغیرہ کی تصویر ہو اس پر پاؤں رکھناخلاف احتیاطہے۔
(۳) ایسے مصلی کو بچھانے اور اس پر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن حضرات فقہاء نے لکھاہے کہ جو مصلیٰ نماز کے لیے مختص ہو بہتر ہے کہ جب تک نماز کے لیے استعمال ہو اس کو کسی دوسرے کام میں استعمال میں نہ لایا جائے؛ اس لیے اس پر بلاضرورت بیٹھنا خلاف اولیٰ کہلائے گا۔(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا صلی في ثوب لہ أعلام و نظر إلی علمھا‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم:۳۷۳۔
ویستنبط منہ کراہیۃ کل ما یشغل عن الصلاۃ من الأصباغ والنقوش ونحو ہا۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري بشرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا صلی في ثوب الخ‘‘: ج ۱، ص:۶۰۷
(۲) مفتي تقي عثماني،  فتاوی عثماني: ج ۱، ص: ۱۵۔
(۳) قولہ أو لغیر ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس لہ رواہ الشیخان ولا فرق في الشجر بین المثمر وغیرہ خلافاً لمجاہد،  قولہ لأنہا لا تعبد، أي ہذہ المذکورات وحینئذ فلا یحصل التشبہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۸، زکریا دیوبند)
صح فرض ونفل فیہا وکذا فوقہا وإن لم یتخذ سترۃ لکنہ مکروہ لإسائۃ الأدب باستعلائہ علیہا۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ في الکعبۃ‘‘: ص: ۱۰۰، المکتبۃ الاسعدی، سہارنپور)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص142


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز صحیح ہوگئی اعادے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ ایسی غلطی کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو غلطی ہوتی ہی نہیں اور احساس غلطی کا سننے والے کو ہوتا ہے اس لیے اس سے پرہیز مشکل ہے پس نماز صحیح ہوگئی ہر امام قاری نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو من ثمرہ إذا أثمر واستحصد، تعالیٰ جد ربنا، انفرجت بدل، انفجرت، أیاب بدل أواب لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا وکذا لو کرر کلمۃ؛ وصحح الباقاني الفساد إن غیر المعنی نحو رب رب العالمین للإضافۃ کما لو بدل کلمۃ بکلمۃ وغیر المعنی نحو: إن الفجار لفي جنات؛ وتمامہ في المطولات، وإن غیر أفسد مثل: وزرابیب مکان، زرابي مبثوثۃ، ومثانین مکان مثاني، وکذا، {والقرآن الحکیم} (یٰس: ۲) و {إنک لمن المرسلین} (یٰس:۳) بزیادۃ الواو تفسد اہـ أي لأنہ جعل جواب القسم قسما کما في الخانیۃ، لکن في المنیۃ: وینبغي أن لا تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴-۳۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص264

Divorce & Separation

Ref. No. 969 Alif

In the Name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

As per the case mentioned above, your wife is divorced with three mughallazah talaqs (irreversible talaqs). By giving talaq in clear-cut words, talaq takes place without intention as well. According to shariah, ignorance is not considered an excuse, talaq takes place in all cases whether you know the ruling or not. Therefore, you cannot live as husband and wife without a valid halalah.

And Allah Knows Best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Usury / Insurance

Ref. No. 39/1148

 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is allowable to do so, since it is not based on interest.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 857/41-000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Since you commenced your journey without the intention of travelling ‘Safar Distance’ (48 miles), you will be regarded ‘Muqeem’ not a ‘Musafir’. Hence you have to pray full salah (4 rakat). However, when you start your journey back to your home town (with the intention of travelling 76 miles) you will be Musafir and have to perform Qasr salah (2 instead of 4 rakats). 

(من خرج من عمارة موضع إقامته) (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر، (قوله قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا ح. (شامی 2/122)

لا يصح القصر إلا إذا نوى السفر، فنية السفر شرط لصحة القصر باتفاق، ولكن يشترط لنية السفر أمران: أحدهما: أن ينوي قطع تلك المسافة بتمامها من أول سفره، فلو خرج هائماً على وجهه لا يدري أين يتوجه لا يقصر، ولو طاف الأرض كلها، لأنه لم يقصد قطع المسافة۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/429)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf deoband

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1056/41-237

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  مالدار آدمی ایسا کرسکتا ہے۔ قربانی  کی نیت سے بکرا خریدنے سے مالدار پر وہی بکرا لازم نہیں ہوتا ہے، تاہم ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

دوسرے کے پیسوں کو اس کی اجازت کے بعد اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ بلااجازت جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1524/43-1014

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ذکر اللہ میں اصل یہ ہے کہ سری ہو اور انفرادی ہو، مذکورہ بالا ذکر بھی انفرادی طور پر ہونا چاہئے، اجتماعی ذکر سے بچنا چاہئے۔  البتہ پیرطریقت اپنے مریدین کی اصلاح کے لئے اس طرح کی مجلس ذکر کے لئے منعقد کرسکتاہے۔اس طرح کا ذکرکارِ ثواب سمجھ کر کرنے کے بجائے  اصلاحِ نفس کی غرض سے روح کے علاج کے لئے ہی ہوناچاہئے۔ دوکان و مکان کی خیروبرکت کے لئے یہ عمل درست  نہیں اور نام نمود اور ریاکا شائبہ ہے اور دیگر لوگوں کو اس طریقہ کار سے پریشانی لاحق ہونے اورمتنفر ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے اس رواج کو ختم کرنا چاہئے۔دوکان و مکان میں خیروبرکت کے حصول کے لئے  قرآن کریم کی تلاوت کافی ہے۔ اہل خانہ تلاوت کا اہتمام کریں تو زیادہ مفید ثابت ہو اورزیادہ  برکتیں نازل ہوں۔ مزید تسلی کے لئے اس موضوع سے متعلق کتاب ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ مؤلفہ مولانا سرفراز احمد خان صفدر مدظلہ"  وغیرہ کا مطالعہ شایدمفید ثابت ہوگا۔

  اجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ فی المساجد وغیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم او مصل او قاری"  الخ (شامی 1/66) ان رفع الصوت بالذکر حين ينصرف الناس من المکتوبة کان علی عهد نبی صلی الله عليه وآله وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا بذلک إذا سمعته. (مسلم شریف 1/410 الرقم: 583)

ان الجهر أفضل لأنه اکثر عملاً ولتعدی فائدته، الی السامعين ويوقط قلب الذاکر فيجمع همه الی الفکر و يصرف سمعه و بطرد النوم ويزيد انشاط. (شامی 1/660)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1995/44-1942

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انشورنس ایک سودی معاملہ ہے،   بلاکسی مجبوری کے انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔  اس لئے اگر سرکاری طور پر کوئی انشورنس لازم ہے یا انشورنس نہ لینے کی صورت میں اپنی حلال کمائی خطرہ میں پڑسکتی ہے تو ایسی شرعی مجبوریوں میں انشورنس کرانے کی اجازت ہے۔ آپ کو جو مسئلہ درپیش ہو، اس کو کسی ماہر مفتی کے سامنے رکھ کر اس کے  حدود و قیود  کو سمجھ لیں ۔

﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ (المائدة: 90)

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»". (صحیح مسلم 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر (مصنف ابن ابی شیبہ (4/483، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ" (فتاوی شامی .(6 / 403 ، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قانون قدرت ہے کہ انبیاء کی جماعت سخت ترین امتحانوں میں بھی مبتلا کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی بھی اقسام ہیں، ہر بنی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’عن مصعب بن سعد عن أبیہ قال: قلت یا رسول اللّٰہ: أي الناس أشد بلائً؟ قال: الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔(۱) اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کے دل میں یوسف علیہ السلام کی مافوق العادت محبت ڈالدی، یوسف علیہ السلام کو دردناک طریقے سے ان سے جدا کیا گیا، مفسرین لکھتے ہیں: کہ یعقوب علیہ السلام نہ کسی مخلوق کے سامنے حرف شکایت زبان پر لاتے تھے، نہ کسی سے انتقام لیتے، نہ غصہ کرتے، نہ غم کی بات منہ سے نکلتی، انتہائی غم اور تکلیف کے باوجود ادائے فرض وحقوق میں کوئی خلا نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا فراق یوسف میں روتا تھا، اس سے زیادہ خدا کے حضور میں گڑ گڑا تے تھے۔ اسی درد میں یہ کلمات زبان سے ادا ہوئے۔ {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (۲)، اس کی تفسیر میں موضح القرآن میں لکھا ہے۔ کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے دیے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور پھر فرمایا: {وَأَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَہ۸۶} (۳) اور جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے؛ لہٰذا یعقوب علیہ السلام کے ان الفاظ کو جو کہ قرآن پاک میں بیان کیے۔ اپنے مضمون کے استدلال میں ذکر کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ آپ ترجمہ سے واقف نہیں، حدیث وتفسیر پر بھی آپ کی نظر نہیں۔ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح کی آسائش وآرام دیا تھا اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، تو جیسے نعمت میں شاکر تھے، بلاء ومصیبت میں بھی شکر گزار رہے۔ اور کسی سے شکوہ نہ کیا اللہ ہی سے ان الفاظ میں اظہار عاجزی کے ساتھ دعا کی {إِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ }(۴) اس لئے آپ کا اس واقعہ کو بھی استدلال میں یا اپنی بات کی تقویت میں لانا آپ کی لاعلمی کا پتہ دیتا ہے۔ جب نوح علیہ السلام نے سیکڑوں سال قوم کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر نہ آئی اور بالکل مایوس ہوگئے اور اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ بتلادیا گیا کہ جو ایمان لاچکے ان کے سوا کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیںلائے گا، تو کفر اور نافرمانوں کے مٹانے کے لئے اللہ سے التجا کرنی چاہئے تھی کہ قوم میں کفر نہ پھیلے، بلکہ مٹ جائے۔

قرآن پاک میں ہے۔ {وأُوْحِيَ إِلٰی نُوْحٍ أَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ  أٰمَنَ فَلاَ  تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہجصلے۳۶  } (۱)

ترجمہ: اور وحی بھیجی گئی نوح کے پاس کہ جو ایمان لاچکے ہیں (ان کے سوا) کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا، سو جوکچھ یہ کر رہے ہیں اس پر غم مت کرو۔ {وَاصْنَعِ  الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا}(۲) (اور ہمارے حکم سے) کشتی تیار کرلو {وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج إِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَہ۳۷}(۳) اور مجھ سے کافروں کے بارے میں کوئی گفتگو مت کرنا، وہ سب غرق کیے جائیں گے، تو نوح علیہ السلام نے جو کچھ کیا اور کہا وہ حکم خداوندی کے تحت تھا اور سفارش اور قوم کے لئے دعا کرنے سے روک دیا گیا تھا، تو مذکورہ انبیاء علیہم السلام نے جو کچھ کہا اور کیا وہ سب رضائے الٰہی اور اس کے حکم کے تحت تھا، وہ صبر وتحمل کا پیکر اور دوسروں کے لئے عملی نمونہ تھے۔

آپ کی تحریر سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ مذکورہ عالم کو انبیاء علیہم السلام پر فوقیت دے رہے ہیں۔ اگر آپ کے کلام اور تحریر میں تاویل کی گنجائش نہ ہوتی، تو جو احباب آپ کے کہہ رہے ہیں صحیح ہو جاتا۔

لیکن یہ ضرور کہا جائے گا۔ کہ آپ کا طرز تحریر غلط اور بالکل غلط ہے؛ بلکہ اس کو جرء ت جاہلانہ اور عامیانہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چاپلوسی پر مبنی ہے جوکہ شرعاً ممنوع ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔(۴)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 169-171)

 

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2281/44-3436

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر مرغی  کے ذبح کے وقت نکلنے والا خون  گوشت پر  نہیں لگاہوا تھا  اور کوئی نجاست بھی نہیں لگی تھی تو اس کا گوشت پاک ہے، اس کو بغیر دھوئے پکانا بھی جائز ہے۔  اور اگر خون لگاہوا تھا اور اسی حالت میں پکادیا تو سب ناپاک ہوگیا، اب وہ سالن یا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔

وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن  المحرم  من  الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند