Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں مذکوربات اگر بالکل صحیح ہے تو مسجد کے متولی اور صدر کا یہ عمل قطعا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ولیمہ کرنا یا نہ کرنا یہ شادی کرنے والے کا اپنا عمل ہے، ولیمہ نہ کرنے پر بطور سزا کے زبردستی پیسہ وصول کرنا ناجائز ہے کسی کو بھی حق نہیں پہونچتا ہے کہ ولیمہ نہ کرنے والے سے پیسے کا مطالبہ کرے وہ بھی مسجد جیسی مقدس جگہ کے لیے جہاں صرف حلال اور پاک پیسہ استعمال ہونا چاہیے؛ اس لیے صدر وسکریٹری کا یہ عمل غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہے۔
’’اسمعوا مني تعیشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ،(۲) إن ہذا المال خضرۃ حلوۃ، فمن أخذہ
بطیب نفس بورک لہ فیہ، ومن أخذہ بإشراف نفس لم یبارک لہ فیہ، وکان کالذي یأکل ولا یشبع، والید العلیا خیر من الید السفلي السنن الکبری للنسائي،الید العلیا خیر من الید السفلي(۱) عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ طیب لا یقبل إلا الطیب، وإن اللّٰہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المرسلین قال: {یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ} (المؤمنون: ۵۱) (۲)
(۲) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۳۴، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵۔
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’مسألۃ الرجل في أمر لا بد لہ منہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۲۶۰۲۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۴، ص: ۳۳۵، رقم: ۶۳۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص466
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت کو امام احمد (حدیث نمبر: ۲۲۳۴۲)، امام طبرانی (حدیث نمبر: ۷۸۷۱) نے نقل کیا ہے۔ علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کے رواۃ صحیح ہیں۔ اور امام حاکم نے علی شرط مسلم اس روایت کو صحیح قرار دیاہے۔(۱)
(۱) وفي روایۃ عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال أبوذر رضي اللّٰہ عنہ: قلت: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کم وفاء عدۃ الأنبیاء قال مأۃ ألف أربعۃ وعشرون ألفاً الرسل من ذلک ثلثمایۃ وخمسۃ عشر جما غفیراً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام، الفصل الثالث‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۱، رقم: ۵۷۳۷)
العدد في ہذا الحدیث وإن کان مجزوما بہ، لکنہ لیس بمقطوع، فیجب الإیمان بالأنبیاء والرسل مجملا من غیر حصر في عدد، لئلا یخرج أحد منہم، ولا یدخل أحد من غیرہم فیہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۱۱، ص: ۴۳ رقم: ۵۷۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص102
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2657/45-4046
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر وارثین میں سوائے اولاد کے کوئی نہیں ہے تو زمین کی تقسیم کرنی ہو یا رقم کی، کل آٹھ حصے بنیں گے۔ جن میں سے ہر بیٹے کو دو دو اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملےگا۔ یعنی کل زمین 568 گز میں سے ہر ایک بیٹے کو 142 گز اور ہر ایک بیٹی کو 71 گز زمین حصہ میں آئے گی۔ اور اگر بیچ کر رقم تقسیم کرنی ہے تو کل رقم 9500000 (95 لاکھ) میں سے ہر ایک بیٹے کو 2375000ملیں گے اور ہر ایک بیٹی کو 1187500 ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں غسل واجب نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا؟ فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتا أو یجد ریحا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الدلیل علی أن من تیقن الطہارۃ ثم شک في الحدث علۃ أن یصلی بطھارتھا‘‘ج۱،ص:۱۵۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) ؛ ولا یمنع الطہارۃ و نیم و حناء و درن ووسخ۔ (ابن عابدین، رد المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۸)؛ و شرط السیلان لانتقاض الوضوء في الخارج من السبیلین۔ و ھذا مذھب علمائنا الثلاثۃ رحمھم اللّٰہ تعالی و إنہ استحسان۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل ما یوجب الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۴۲، مکتبۃ زکریا دیوبند)…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307
عائلی مسائل
Ref. No. 2754/45-4291
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ خواب اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے متعلق آپ نے خواب دیکھاہے اس کو بیماری سے شفا نصیب ہوگی۔ آپ بھی استغفار کی کثرت رکھیں اور روزانہ بعد نماز مغرب 41 مرتبہ سورہ فاتحہ مع درود شریف اول و آخر گیارہ مرتبہ پڑھنا بہت مفید ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام کے ساتھ شریک ہوکر التحیات شروع نہیں کی تو امام کے ساتھ ہی کھڑا ہو جائے اور اگر پڑھنی شروع کردی ہے، تو جلدی سے پوری کر کے کھڑا ہو جائے۔(۱)
’’أو قیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنہ لا یتابعہ بل یتمہ لوجوبہ، ولو لم یتم جاز‘‘(۲)
(۱) ولو خاف أن تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الإمام کما صرح بہ في الظہیریۃ، وشمل بإطلاقہ ما لو اقتدیٰ بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر، فحین قعد قام إمامہ أو سلم، ومقتضاہ أنہ یتم التشہد ثم یقوم ولم أرہ صریحاً، ثم رأیتہ في الذخیرۃ ناقلاً عن أبي اللیث : المختار عندي أن یتم التشہد۔۔۔۔۔ وإن لم یفعل أجزأہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۰، زکریا دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹، ۲۰۰، ط: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص34
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عام حالات میں بلا عذر ناک اور منھ پر کپڑا لپیٹنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ عذر کی بنا پر ناک یا چہرا ڈھانپنا بلاکراہت درست ہے؛ اس لیے موجودہ حالات میں عذر کی بنا پر ماسک پہن کر نما ز پڑھنا درست ہوگا۔ امام صاحب بھی عذر کی بنا پر ماسک لگا سکتے ہیں۔(۱)
’’فإذا علم ہذا علم أن تغطیۃ الفم إذا لم یکن عن عذر مکروہ‘‘(۲)
(۱) (فروع) یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم و التنمم وکل عمل قلیل بلا عذر۔
قولہ والتلثم) وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب الکلام علی اتخاذ المسبحۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳، زکریا دیوبند)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن السدل في الصلاۃ وأن یغطی الرجل فاہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السدل في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۴، رقم: ۶۴۳، نعیمیہ دیوبند)
وفي شرح السنۃ إن عرض لہ التثاؤب جاز أن یغطي فمہ بثوب أو بیدہ لحدیث ورد فیہ ذکرہ الطیبي، والفرق ظاہر لأن المراد من النہي استمرارہ بلا ضرورۃ ومن الجواز عروضہ ساعۃ لعارض۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الستر، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۶، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
(۲) غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلي، ’’مطلب في حکم تغطیۃ المصلي فمہ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص144
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال مذکورہ صورت میں نماز درست ہے تاہم امام صاحب سے کسی ماہر عالم کو سنوا دیا جائے اگر وہ واقعۃ صحیح ادائیگی نہ کر پائیں تو کسی صحیح ادائیگی والے کو امام بنایا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) عن أبي سعید الخدري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانوا ثلاثۃ فلیؤمّہم أحدہم وأحقہم بالإمامۃ أقرأہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۳۶، رقم: ۶۷۲)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ، إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف؛ فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص265
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1174 Alif
In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful
To know the detailed answer of your question go through the book 'Darhi ka Falsafa' available on the following link. Download the book from here: http://markazulmaarif.org/DarhikaFalsafafinal.pdf