Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 3127/46-6005
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہرآپ والد صاحب کی دوکان پر ان کا معاون بن کر بیٹھتے ہیں، وہ دوکان آپ کی نہیں ہے اور نہ ہی والد نے کوئی تنخواہ مقرر کی ہے تو آپ اپنے والدکی اجازت کے بغیر اس کی آمدنی میں سے کچھ نہیں لے سکتے ہیں۔ اگر والد صاحب نے صراحتا یا اشارۃ اجازت نہیں دی ہے تو والد صاحب کو خبر کیجئے میں کبھی کبھی پیسے لیتارہتاہوں، اگر وہ گذشتہ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی دائیگی آپ پر لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3126/46-6004
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شرمگا ہ پر کوئی نجاست لگی ہوئی نہیں تھی، تو محض منی جیسی بدبو کی وجہ سے آپ کی پاکی پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ پسینہ کی بدبو چاہے کتنی ہی خراب ہو اور کہیں پر بھی ہو اس سے آدمی ناپاک نہیں ہوتاہے۔ جب منی نہیں ہے تو منی جیسی بدبو آنے سے آپ ناپاک شمار نہیں ہونگے، تاہم صفائی کا خیال رکھیں اور استنجاکرتے وقت شرمگاہ کو اچھے سے دھولیا کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3125/46-6003
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلا ق کا مسئلہ سمجھانے کے طور پر طلاق کا استعمال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، اگرچہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کی مثال بیان کرے، اور اس دوران اگر خودبخود خیال آجائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لئے صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مذاہب اربعہ اور تقلید
Ref. No. 3124/46-6009
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مس بالشہوۃ کی بنا پر حرمت مصاہرت کا فتوی دینے میں اگر غیرمعمولی حرج اور مشقت پیش آرہی ہو تو اس صورت میں مذہب غیر پر عمل کا مشورہ دینے کے سلسلہ میں علماء دیوبند کی آراء مختلف ہیں۔ بعض علماء نے غیر معمولی حرج کے پیش نظر مذہب غیر پر فتوی کی اجازت دی ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ ایسی صورت میں صورت واقعہ کو علاقہ کے معتبر مفتی صاحب کے پاس پیش کیاجائے اوران کی رائے اور فتوی پر عمل کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3122/46-6001
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر طلاق کی دھمکی دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر طلاق دیدی مگر عورت نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو طلاق واقع ہوگئی اور پھر آزاد ہو کہنے سے دوسری طلاق واقع ہوگئی؛ بہردو صورت عورت سے عدت میں رجعت کی گنجائش ہے۔ پہلی مرتبہ بیوی سے جو طلاق کے الفاظ کہے ہیں اگر بعینہ وہی الفاظ نقل کرکے سوال کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 3120/46-6000
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
When the grandmother’s children are alive, her grandchildren do not have a legal right to inherit. Likewise, any children who passed away during the grandmother's lifetime are not entitled to a share of the inheritance. As such, your father does not qualify for a portion of his mother’s property. Moreover, if the grandmother verbally expressed an intention to give something to her grandchildren but did not actually transfer it, this intention holds no legal weight. However, if the other heirs show their morality to their late brother's children after the distribution of the inheritance and offer them of their shares, it would be a commendable and worth rewarding act.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 3119/46-5099
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی گنہگار اللہ تعالی سے اپنے گناہوں پر توبہ کرتاہے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتاہے، اور اس کو سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرتاہے، تاہم توبہ کے لئے شرط یہ ہے کہ اپنے ماضی کے گناہوں پر شرمندگی کے ساتھ اب اور آئندہ گناہوں سے بچے اور بچنے کا پختہ عزم کرے۔ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوئے توبہ کا کوئی معنی نہیں، البتہ اگرتوبہ کرتے وقت گناہ چھوڑدیا اور گناہ نہ کرنے کا عزم کیا مگر بتقاضائے بشریت توبہ کرنے کے بعد پھر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا تو دوبارہ توبہ کرنا لازم ہوگا۔اس لئے اگر آپ نے گناہ ترک کردیاہے اور یہ دعا کررہے ہیں تو دعا قبول ہوگی اور آئندہ گناہوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔ نیز اگر گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبنداحکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3150/46-6010
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد سب لوگوں کی رضامندی سے علماء کی نگرانی میں تمام زمین و جائداد وغیرہ کا بٹوارہ ہوگیا اور ہر ایک نے اپنے حصہ پر قبضہ کرلیا تو اب بعد میں تقسیم کے غلط ہونے کی بات کرنا درست نہیں ہے۔ زمین، مکان اور دوکان کی جائے وقوع کے اعتبار سے قیمت مختلف ہوتی ہے، اور تقسیم کے وقت سب کے اتفاق اور رضامندی سے ہر ایک کا حصہ اس کو دیدیاگیا ہے۔ اس میں تقسیم شریعت کے خلاف کہاں ہوئی ہے?، اس کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ اگر واقعی تقسیم کے وقت علماء سے کوئی چوک ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کی جائے گی، ورنہ مذکورہ تقسیم کو بے بنیاد غلط کہنا جائز نہیں ہے۔ جو تقسیم ہوچکی ہے اس میں بار بار تقسیم کا مطالبہ تکلیف کا باعث ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندFiqh
Ref. No. 3129/46-6008
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ منت کا کھانا صرف غریبوں کے لئے ہوتاہے، اس میں سے مالدار لوگ اور منت ماننے والا اور اس کے گھروالے نہیں کھاسکتے ؛ جبکہ مسجد کے اندر نماز پڑھنےوالے غریب اور مالدار دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ۔ لہذا صورت مسئولہ میں آپ کا مستحق زکوۃ دس افراد کو کھانا کھلادینا یا دس افراد کے صدقہ الفطر کی مقدار گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کردینا کافی ہوگا۔ اور ایک مستحق کوپورا غلہ یا قیمت دیدیں یا کئی مساکین میں تقسیم کریں ،دونوں کی اجازت ہے۔ خیال رہے کہ مسجد کے نمازیوں میں سے ہی دس مساکین کوکھانا کھلانا یا صدقہ الفطر کی مقدار دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی مستحق زکوٰۃ ہو اس کو یہ صدقہ دینا کافی ہوگا۔
نذر لفقراء مكة جاز الصرف لفقراء غيرها) لما تقرر في كتاب الصوم أن النذر غير المعلق لا يختص بشيء نذر أن يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره جاز إن ساوى العشرة) كتصدقه بثمنه۔ مطلب النذر غير المعلق لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير (قوله لما تقرر في كتاب الصوم) ... فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز وكذا لو عجل قبله فلو عين شهرا للاعتكاف أو للصوم فعجل قبله عنه صح، وكذا لو نذر أن يحج سنة كذا فحج سنة قبلها صح أو صلاة في يوم كذا فصلاها قبله لأنه تعجيل بعد وجود السبب، وهو النذر فيلغو التعيين بخلاف النذر المعلق، فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط اه.... قلت: وكما لا يتعين الفقير لا يتعين عدده ففي الخانية إن زوجت بنتي فألف درهم من مالي صدقة لكل مسكين درهم فزوج ودفع الألف إلى مسكين جملة جاز. (الدر المختار مع رد المحتار: (740/3، ط: الحلبي)
[في النذر بالصدقة]النذر إما أن يكون بالصدقة أو بالصوم أو الصلاة أو الاعتكاف فنبدأ بالنذر بالصدقة فنقول: إما أن يعين الوقت بنذره فيقول: لله علي أن أتصدق بدرهم غدا أو يعين المكان فيقول: في مكان كذا أو يعين المتصدق عليه فيقول: على فلان المسكين أو يعين الدرهم فيقول: لله علي أن أتصدق بهذا الدرهم وفي الوجوه كلها يلزمه التصدق بالمنذور عندنا، ويلغو اعتبار ذلك التقييد حتى لو تصدق به قبل مجيء ذلك الوقت أو في غير ذلك المكان أو على غير ذلك المسكين أو بدرهم غير الذي عينه خرج عن موجب نذره . . . . . [وبعد اسطر بَين دليلهم بقوله:] وعلماؤنا - رحمهم الله - قالوا ما يوجبه المرء على نفسه معتبر بما أوجب الله تعالى عليه ألا ترى أن ما لله تعالى من جنسه واجبا على عباده صح التزامه بالنذر وما ليس لله تعالى من جنسه واجبا على عباده لا يصح التزامه بالنذر ثم ما أوجب الله تعالى من التصدق بالمال مضافا إلى وقت يجوز تعجيله قبل ذلك الوقت كالزكاة بعد كمال النصاب قبل حولان الحول وصدقة الفطر قبل مجيء يوم الفطر فكذلك ما يوجبه العبد على نفسه وهذا؛ لأن صحة النذر باعتبار معنى القربة وذلك في التزام الصدقة لا في تعيين المكان والزمان والمسكين والدرهم. (المبسوط للسرخسي: (129/3، ط: دار المعرفة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3299/46-9060
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کی قراء ت میں ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنا فساد کا موجب ہوسکتاہے۔ اور سوال میں مذکور اغلاط کی بناء پر نماز فاسد ہونی چاہئے کیونکہ اس مثل قرآن میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی معنی ہے۔ مگر متاخرین فقہاء نے اس میں عجمیوں کے لئے وسعت دے رکھی ہے۔ اس لئے مذکورہ صورتوں میں نماز فاسد تو نہیں ہوگی البتہ ایسی غلطی کی صورت میں اعادہ کرلینا بہتر ہے۔
فإن لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیرا فاحشا یفسد أیضا کہذا الغبار مکان ہذا الغراب.وکذا إذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین 1/ 631)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند