نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: اس صورت میں نماز جمعہ مکان میں درست ہے؛ لیکن عام اجازت ہونا شرط ہے، نیز جو اختلاف ہو رہا ہے دیندار دانشوران کو شریک کر کے باہمی مشورے سے جلد از جد اس کو دور کیا جانا لازم ہے۔(۱)(۱) وفي الفتاویٰ الغیاثیۃ: لو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع والقریۃ کبیرۃ لہا قری، وفیہا والٍ وحاکم جازت الجمعۃ بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’فصل: في صلاۃ الجمعۃ، مطلب: في أصح الحدود للمصر‘‘: ج ۳، ص: ۹۷، ۹۸)(و) السادس: (الجماعۃ) وأقلہا ثلاثۃ رجال (ولو غیر الثلاثۃ الذین حضروا) الخطبۃ (سوی الإمام) بالنص؛ لأنہ لا بد من الذاکر وہو الخطیب وثلاثۃ سواہ بنص {فاسعوا إلی ذکر اللّٰہ} (الجمعۃ: ۹) (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب: قال اللہ تعالیٰ أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۴)ومنہا: الإذن العام: وہو أن تفتح أبواب الجامع، فیؤذن للناس کافۃ، حتی أن جماعۃ لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسہم وجمعوا لم یجز، وکذلک السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ، فإن فتح باب الدار وأذن إذنا عاما جازت صلاتہ، شہدہا العامۃ أو لم یشہدوہا، کذا في المحیط ویکرہ، کذا في التتارخانیۃ، وإن لم یفتح باب الدار وأجلس البوابین علیہا لم تجز لہم الجمعۃ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: جس جگہ پر شرعاً نماز جمعہ واجب ہے وہاں پراگر کچھ لوگوں کی نماز جمعہ چھوٹ جائے اور وہ حضرات کسی بھی جگہ پر یا میدان میں یا کسی دوسری مسجد میں نماز جمعہ مع خطبہ وجماعت کے ادا کر لیں، تو ان سب کی نمازجمعہ صحیح اور درست ہوگی۔(۱)(۱) (أو فناؤہ) بکسر الفاء (وہو ما) حولہ (اتصل بہ) أولا کما حررہ ابن الکمال وغیرہ (لأجل مصالحہ) کدفن الموتی ورکض الخیل، والمختار للفتوی تقدیرہ بفرسخ۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷)کما یجوز أداء الجمعۃ في المصر، یجوز أدائہا في فناء المصر، وہو الموضع المعد لمصالح المصر متصلاً بالمصر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 89

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: جمعہ کی نماز کی اہمیت وفضیلت تو ہے، لیکن پہلے جامع مسجد کو پر کرنا چاہئے اس کے بعد اس سے چھوٹی مسجد میں نماز ادا کرنی چاہئے، نفسانیت کی خاطر جامع مسجد کو نظر انداز کر کے چھوٹی مسجد وں میں جمعہ کرنا درست نہیں ہے آپسی اختلافات ہٹا کر اللہ کی رضا کے لیے جامع مسجد میں ہی نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہئے۔(۱)(۱) الفتاویٰ الغیاثیۃ: لو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع والقریۃ کبیرۃ لہا قری وفیہا والٍ وحاکم جازت الجمعۃ بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر۔ (إبراہیم، الحلبي الکبیري، ’’فصل: في صلاۃ الجمعۃ، مطلب: في أصح الحدود للمصر‘‘: ج ۳، ص: ۹۷، ۹۸)(وکرہ) تحریما (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظہر بجماعۃ في مصر) قبل الجمعۃ، وبعدہا لتقلیل الجماعۃ، وصورۃ المعارضۃ، وأفاد أن المساجد تغلق یوم الجمعۃ إلا الجامع۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۲، ۳۳)وأما في زمان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم تقم جمعۃ إلا في مسجدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ یؤید ہذا أن عائشۃ قالت: کان الناس ینتابون الجمعۃ من منازلہم ومن العوالي وأقرب العوالي من المدینۃ علی ثلاثۃ أمیال، وہزم النبیت علی میل، فإذا جاء وا من العوالي فمجیئہم من ہزم النبیت أولی۔ (فإن قلت): إنما لم تقم فی قرب المدینۃ لینالوا فضیلۃ الصلاۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ قلت: کان أمر بہا فی القری النائیۃ عن المدینۃ، لأنہ یشق علیہم الحضور ویتعذر علیہم إدراک الفضیلۃ، فلما لم یأمر بہا دل علی عدم الجواز إذ لو جاز لأمر بہا وفعلت، کما أمر بإقامۃ الجماعۃ في مساجد المدینۃ، وصلی فیہا مع فوات فضیلۃ الصلاۃ معہ ﷺ۔ وإلی ما ذہبنا إلیہ ذہب سحنون من أصحاب مالک رحمہ اللّٰہ۔ (عبدالغنی  الغنیمی، اللباب في الجمع بین السنۃ والکتاب، ’’کتاب الصلاۃ: باب لا یقام الجمعۃ إلا في مصر‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 88

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق:  ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے۔ علامہ شامی نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں۔ جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے اس کے لیے قریب کے علاقے کے مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہوں۔ لیکن اگر کوئی صورت قابل عمل نہ ہو جیسا کہ سوال میں لکھا ہے کہ مسجد کے باہرجمعہ کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہے اور ایک ساتھ تمام میں لوگ نماز میں شامل نہیں ہوسکتے ہیں اور آس پاس میں کوئی دوسری مسجد نہیں ہے تو پھر اسی مسجد میں جماعت ثانیہ کی گنجائش ہے جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ فرشتے خطبہ شروع ہونے کے بعد رجسٹر بند کردیتے ہیں تو یہ صحیح ہے اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ جمعہ میں لوگوں کو جلدی مسجد میں آنا چاہیے اور جو جتنا پہلے مسجد میں آتاہے اس کو اتنا زیادہ ثواب ملتا ہے؛ لیکن مجبوری کی وجہ سے اگر دوسری جماعت ہورہی ہوتو اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ، لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘(۱)’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام، وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح، قولہ: (إلا الجامع) أي الذي تقام فیہ الجمعۃ فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري: والظاہر أنہ یغلق أیضاً بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال: إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجیء إلیہ، وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا؛ لکن لا داعي إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا سواء … کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸۔(۱) أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۔(۲) أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے۔ علامہ شامی نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں۔جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہوں؛ لیکن اگر شہر کی تمام مساجد میں بھی گنجائش نہ رہے تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے؛ لیکن مسجد میں جماعت ثانیہ سے احتراز کیا جائے۔ ہاں اگر مساجد کی کمی ہو اور دوسری جگہ بھی جمعہ قائم کرنا ممکن نہ ہو اور تمام لوگ ایک ساتھ مسجد میں نہ سماتے ہوں تو ایسی صورت میں جمعہ ثانیہ کی گنجائش ہوگی۔’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘(۱)’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام، وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح قولہ: (إلا الجامع) أي الذي تقام فیہ الجمعۃ، فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري، والظاہر أنہ یغلق أیضاً بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال: إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجیء إلیہ، وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا؛ لکن لا داعي إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر، ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۲)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۱)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۔(۱) ’’أیضاً‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۲) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ نے جو دوری ذکر کی ہے وہ بہت زیادہ نہیں ہے اور نہ ہی سڑک پار کرنااور گلی پار کرنا کوئی معقول عذر ہے، اس لیے جمعہ کی اجتماعیت کے پیش نظر بہتر ہے کہ لاک ڈاؤن کے عذر کی بنا پر جو جمعہ دوسری مسجدوں میں قائم کیا گیا تھا وہ بند کر دیا جائے اس لیے کہ ایک مرتبہ جمعہ قائم ہونے کے بعد بند کرنے میں حرج نہیں ہے۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ و  محمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ، و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جامع مسجد میں بھی تمام لوگوں کی گنجائش نہ ہو تو شہر میں متعدد مساجد میں نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہے اس لیے مذکورہ صورت میں نئی تعمیر شدہ مسجد میں ضرورتاً جمعہ کی نماز قائم کی جاسکتی ہے۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ، و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر:  في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت کا مقصد جمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے؛ اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے؛ لیکن اگر جامع مسجد میں بھی تمام لوگوں کی گنجائش نہ ہو، تو شہر میں متعدد مساجد میں نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہے۔ جہاں پر جمعہ کے شرائط پائے جاتے ہوں وہاں پر متعدد مسجدوں میں جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے؛ لیکن اگر ایک جگہ سارے لوگ پڑھ سکتے ہیں، تو دوسری جگہ جمعہ قائم کرنا بہتر نہیں ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کی عذر کی وجہ سے چھوٹی مسجدوں میں جمعہ قائم کیا گیا تھا، تو بہتر یہ ہے کہ عذر کے ختم ہونے کے بعد صرف جامع مسجد میں جمعہ  قائم رکھا جائے اور دوسری مسجدوں میں جمعہ بند کردیا جائے۔ ایک مرتبہ جمعہ قائم ہونے کے بعد بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اجتماعیت جو کہ جمعہ کے اہم مقاصد میں سے ہے اس کے اظہارکے لیے بند کرنا بہتر ہے، تاہم اگر ضرورت کے پیش نظر جمعہ پڑھا گیا تو جمعہ ادا ہو جائے گا۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون: في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)فأما إذا لم یکن إمام بسبب الفتنۃ أو بسبب الموت ولم یحضر والٍ آخر بعد حتی حضرت الجمعۃ، ذکر الکرخي أنہ لابأس أن یجمع الناس علی رجل حتی یصلي بہم الجمعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائط، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قیام جمعہ کی شرائط اس بستی میں پائی جاتی ہیں تو اس نئی مسجد میں جمعہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیںاگرچہ پہلی مسجد کا صحن خالی رہ جائے۔(۱)(۱) (وتودي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذہب، وعلیہ الفتویٰ شرح المجمع للعیني وإمامۃ فتح القدیر دفعاً للحرج۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶)وتصح إقامۃ الجمعۃ في مواضع کثیرۃ بالمصر وفناء ہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۶)  وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، وہو قول أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ، وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر فی صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 78

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ چھوٹی مسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت نہیں ہوتی اور اس کے قریب بڑی مسجد ہے جس میں نماز جمعہ ہوتی ہے چھوٹی مسجد میں اس سے پہلے مسلمانوں نے نماز جمعہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی سب لوگ بڑی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اس لیے اگر اس چھوٹی مسجد میں نماز جمعہ پڑھی جائے تو شرعاً جمعہ کا جو مقصد ہے اور جو اس کی شان ہے اس کا فوت ہونا لازم آئے گا اس لیے اس چھوٹی مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم اس میں جمعہ پڑھا تو ادا ہو جائے گا۔(۱)(۱) (وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذہب، … وعلیہ الفتویٰ شرح المجمع للعیني وإمامۃ فتح القدیر دفعاً للحرج۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶)قولہ: (مطلقاً) … و مقتضاہ أنہ لا یلزم أن یکون التعدد بقدر الحاجۃ کما یدل علیہ کلام السرخسي الآتي قولہ: (علی المذہب) فقد ذکر الإمام السرخسي أن الصحیح من مذہب أبي حنیفۃ جواز إقامتہا في مصر واحد في مسجدین وأکثر، وبہ نأخذ لإطلاق ’’لا جمعۃ إلا في مصر‘‘ شرط المصر فقط۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في جواز استنابۃ الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶)وتصح إقامۃ الجمعۃ في مواضع کثیرۃ بالمصر وفناء ہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 77