Ijmaa & Qiyas

Ref. No. 3060/46-4982

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرات ائمہ کے نزدیک ادلہ شرع چار ہیں ان میں سے ایک اجماع امت بھی ہے اور اجماع کی حجیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، حضور ﷺ نے فرمایا " لن تجتمع امتی علی الضلالۃ (حدیث) اسی طرح حدیث ہے "مارآہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن "، اسی طرح قرآن کریم کی آیت ہے " ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولی ونصلہ جھنم وساءت مصیرا"، ۔ اجماع امت حجت شرعیہ ہے البتہ یہ دلیل قطعی ہے یا نہیں، یعنی اس کے منکر کو کافر کہا جاسکتاہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے، قاضی ابوزید دبوسی وغیرہ اس کے قائل ہیں  کہ اجماع دلیل قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے ، دوسرا قول رازی اور آمدی  کا ہے کہ اجماع دلیل ظنی ہے اور تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جن صورتوں میں اجماع ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے وہ قطعی ہے اور جس کے اجماع ہونے میں اختلاف ہے وہ دلیل ظنی ہے ۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی اجماع کسی دلیل قطعی جیسے قرآن یا خبر متواتر پر مبنی ہے تو اس کے منکر کو کافر کہاجاسکتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اجماعی مسئلہ کے منکر کو کافر نہیں کہا جاسکتاہے۔ (ماخوز قاموس الفقہ 1/530)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3058/46-4893

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا اپنی جائداد کووقف علی الاولاد کرنا  شرعا معتبر ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس طرح وقف کرنا جائز ہے ،اور اِس سلسلے میں کوئی تحدید نہیں ہے کہ ایک شخص کتنی جائداد وقف کر سکتا ہے ۔ اور اس سلسلہ میں آپ کا اپنی اولاد کو اپنے اعتماد میں لینا اور ان کا اس وقف پر راضی ہوجانا بھی شرعا پسندیدہ عمل ہے۔

متی وقف علی اولادہ حال صحتہ وقال علی الفریضۃ الشرعیۃ قسم علی ذکورھم واناثھم بالسویۃ  وفی صحیح مسلم من حدیث النعمان بن بشیر : اتقو اللہ واعدلوا فی اولادکم ۔۔۔۔۔لانھم فسروا العدل فی الاولاد بالتسویۃ فی العطایا حال الحیاۃ ( ج: ۴، ص: ۴۴۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3059/46-4894

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پسندیدہ نکاح یہی ہے کہ والدین کی رضامندی سے کیاجائے تاہم اگر بالغ لڑکا و لڑکی دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں تو نکاح فقہ حنفی کے اعتبار سے درست ہوجاتاہے،  نکاح کے بعد میاں بیوی کا اپنے گھروالوں کو نکاح کے بارے میں  بتانا شرعا لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر نکاح میں ایک متعینہ مدت کی شرط  لگائی گئی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور یہ نکاح  دائمی  ہی ہوگا۔ جب نکاح ہوگیا تو میاں بیوی کا آپس میں ملنا، بوس و کنار ہونا سب کچھ  جائز ہوگیا اب شرعا کوئی ممانعت نہیں رہی۔تاہم سب کے سامنے بوس و کنار ہونا بے حیائی ہے اورناجائز ہے۔ اپنی بیوی سے بھی تنہائی میں ہی ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اگر میاں بیوی تنہائی میں نہیں ہوتے ہیں تو عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی۔ لہذااگر میاں بیوی کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے بھی خلوت (تنہائی) ہوگئی اور پھر طلاق ہوئی  تو بیوی پر عدت واجب ہے اور اگر خلوت بالکل نہیں ہوئی تو عدت واجب نہ ہوگی۔  خفیہ نکاح کرنے کے بعد جب والدین راضی ہوجائیں تو سب کے سامنے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اس کو پہلا نکاح لکھوانے میں کوئی حرج نہیں ، نکاح پر نکاح کرنا پہلے نکاح کو ختم نہیں کرتاہے۔

قال في الدر وسبب وجوبہا عقد النکاح التأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت أو خلوة أي صحیحة قال الشامي إن المذہب وجوب العدة للخلوة صحیحة أو فاسدةً (الدر مع الرد: ۲م۶۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref.  No.  3051/46-4879

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر شرط کے پائے جانے کی وجہ سے  طلاق واقع ہوگئی۔  طلاق مغلظہ کے واقع ہونے کے بعد عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(الھندیۃ، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠)

"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان." (الھندیۃ، كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ٢ / ٨٢)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3054/46-4882

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر  مسجد کا نظام عمومی چندہ سے چلتاہے تو متولی کی ذمہ داری  ہے کہ اہل محلہ کو حساب وکتاب سے مطلع کرے، تاکہ مسجد کا نظام صاف و شفاف طریقہ پر جاری رہ سکے، تاہم اگر اتفاق سے امام نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے نماز پڑھادی تو نماز ہوجائے گی۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref.  No.  3055/46-4883

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دارالعلوم اور دارالعلوم وقف دونوں کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، دارالعلوم کے جس فتوی کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں حکم قضاء مذکورہے، جبکہ دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں جو حکم بیان کیاگیا ہے وہ دیانتا ہے، چنانچہ مذکورہ فتوی میں بھی یہ عبارت مذکور ہے، اما بینہ وبین اللہ تعالی ان کان کاذبا فیما امر لم تثبت الحرمۃ (ردالمحتار) دارالافتاء سے عموما دیانت پر ہی فتوی دیاجاتاہے، اگرچہ بعض حضرات طلاق جیسے مسائل میں قضاء پر بھی فتوی دیتے ہیں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Masajid & Madaris

Ref. No. 3056/46-4877

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سرکاری زمین کو سرکار کی اجازت کے بغیر غصب کرکے اورناجائز قبضہ کرکے اس کو بیچنا جائز نہیں، اس کو جس نے خریدا وہ بھی مالک نہیں ہوا، پھر اس پر  پر  مکتب یا مدرسہ بنانا بھی  جائز نہیں ہے۔ جب تک سرکار اجازت نہ دے اس کی زمین پر کسی کی ملکیت قائم نہیں ہوسکتی اور اس کو بیچا نہیں جاسکتاہے۔ جن لوگوں نے سرکاری زمین کو بیچا ان پر لازم ہے کہ خریدار کو پیسے واپس کریں، اور مدرسہ بنانے والوں کے لئے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے۔

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين". (مشکاۃ المصابیح، باب الغصب والعارية، ج:1، ص:254، ط:قديمي)

"وذکر فی الواقعات: رجل بنی مسجدًا علی سور المدینة لا ینبغي أن یصلي فیه لأنه حق العامة فلم یخلص للہ تعالی کالمبني في أرض مغصوبة ولو فعله بإذن الإمام ینبغي أن یجوز فیما لا ضرر فیه یعني: في مسجد السور لأنه نائبهم." (غنیۃ المستملی، کتاب الوقف ،ص:615،ط: مکتبه اشرفیه)

"جعل شيء أي: جعل الباني شیئًا من الطریق مسجدًا لضیقه ولم یضر بالمارین جاز لأنهما للمسلمین۔۔ قولہ: ”لضیقہ ولم یضر بالمارین“ أفاد أن الجواز مقید بهذین الشرطین." (فتاوی  شامی، كتاب الوقف،مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته،ج:4،ص:377 ،ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3053/46-4878

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بغیر کسی عذر کے ٹیک لگاکر اٹھنا مکروہ ہے،  اس لئے ایسا کرنے سے بچنا چاہئے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ البتہ اگر کسی کو کوئی عذر ہے اور وہ بیڈ یا دیوار کے سہارے سے اٹھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نماز بلا کراہت درست ہوگی۔

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (بلا اعتماد إلخ): أي على الأرض. قال في الكفاية: أشار به إلى خلاف الشافعي في موضعين: أحدهما: يعتمد بيديه على ركبتيه عندنا وعنده على الأرض. والثاني: الجلسة الخفيفة. قال شمس الأئمة الحلواني: الخلاف في الأفضل حتى لو فعل، كما هو مذهبنا لا بأس به عند الشافعي، ولو فعل، كما هو مذهبه لا بأس به عندنا، كذا في المحيط. اهـ. قال في الحلية: والأشبه أنه سنة أو مستحب عند عدم العذر، فيكره فعله تنزيها لمن ليس به عذر. اهـ. وتبعه في البحر، وإليه يشير قولهم: لا بأس، فإنه يغلب فيما تركه أولى.(رد المحتار: 1/506)

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: قوله: (وكبر للنهوض بلا اعتماد وقعود) لحديث أبي داود: "نهى النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن يعتمد الرجل على يديه إذا نهض في الصلاة، وفي حديث وائل بن حجر في صفة صلاة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: "وإذا نهض نهض على ركبتيه واعتمد على فخذيه"، ولحديث الترمذي عن أبي هريرة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم: "كان ينهض في الصلاة على صدور قدميه". (البحر الرائق: 1/340)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 3042/46-4864

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ نے توبہ کرتے ہوئے  پچھلے تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرلی تو ہر ایک کفریہ کلمہ کو دوہرانے اور اس سے توبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تمام کفریہ  کلمات سے توبہ کرنے کے بعد تجدید ایمان و تجدید نکاح کرلینا تو یہ کافی ہوگیا۔ اگر کوئی کفریہ جملہ کہا اور وہ کفریہ جملہ یاد ہے تو اس کے مقابل ایمان والا جملہ کہہ کر توبہ کرلینا  زیادہ بہتر ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3052/46-4920

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ کا حکم نیت کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔ اگر مقصد عیب کو کھولنا اور کسی کو ذلیل کرنا ہے تو یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر مقصد کسی کی اصلاح و تربیت اور گناہ سے بچانا ہے تو یہ عمل جائز ہے۔ مذکورہ صورت میں کوشش کی جائے کہ براہ راست لڑکی کے گھروالوں کو ہی ثبوت فراہم کئے جائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوسوائے مذکورہ صورت کے  توپھر اس کو بھی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں اس کو ڈیلیٹ کردیاجائے، اور حتی الامکان احتیاط سے کام لیاجائے ، حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ غیبت کا مقصد اگر اس کی اصلاح ہے تو اس پر غیبت کا اطلاق نہیں ہوگا۔الامور بمقاصدھا (الاشباہ)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند