Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 38 / 1044
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مفراح کے معنی "بہت خوش" (القاموس الوحید)، اور مریم کے معنی "پاکدامن" کے ہیں۔ مفراح مریم Mifrah Maryam نام رکھنا درست ہے۔ اللہ تعالی اس کو نیک اور صالح بنائے اور ہر قسم کی خیر اس کے لئے مقدر فرمائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرض عین کا کا مطلب ہے تمام مکلفین پر اس کو انجام دینا لازم ہو ایسا نہ ہو کہ بعض ادا کردیں تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے جیسا کہ فرض کفایہ میں ہوتا ہے۔ مروجہ تبلیغی جماعت میں جانا نہ تو فرض عین ہے اور نہ ہی فرض کفایہ ۔ فرض کہنا ہی غلو ہے؛ تاہم اپنی اصلاح کے لئے اس میں نکلنا اور مسجد میں دن رات رہ کر اپنے کو عبادت کا عادی بنانا محبوب عمل ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1008/41-167
In the name of Allah the most gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The sayyid family members are not eligible to receive obligatory Sadaqat (Zakat). So, if a sayyid is poor and in dire need, it is duty of all Muslims to look after him and help him with voluntary sadaqat (sadaqat-e-nafila), indeed there is a duty on wealthy aside from zakat as it is said in a Hadith recorded in many books.
It is the matter of great concern if a sayyid family is in dire need and Muslims do not help them with voluntary sadaqat. May Allah give us taufeeq to support the sayyid family with gifts and voluntary sadaqat to show our gratitude towards this blessed family!
And Allah knows best
Darul ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1057/41-233
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ صحت قربانی کے لئے مقام قربانی میں ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جزیرۃ العرب میں مقیم شخص کی قربانی ہندوستان میں 12 ذی الحجہ کو درست ہے۔ مثلا اگر یہ شخص 12 ذی الحجہ کو ہندوستان آجائے تو اس کے لئے اپنی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے تو اسی طرح اس کے وکیل کے لئے بھی جائز ہے۔
وان کان الرجل فی مصر واھلہ فی مصر آخر فکتب الیھم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحۃ (بدائع 4/213)۔ والمعتبر مکان الاضحیۃ لا مکان المضحی (بزازیہ 3/156) (الھندیہ 6/289) ولو کان فی مصر وقت الاضحیۃ واھلہ فی مصر آخر فکتب الی الاھل وامرھم بالتضحیۃ فی ظاھر الروایۃ یعتبر مکان الاضحیۃ (خانیۃ 3/243) (الھندیۃ 3/345)۔ واول وقتھا ای اول وقت تضحیۃ الاضحیۃ بعد فجر النحر لکن لا تذبح فی المصر قبل صلوۃ العید وھذا الشرط لمن تجب علیہ صلوۃ العید۔ ثم المعتبر فی ذلک مکان الاضحیۃ حری لوکان فی السواد والمضحی فی المصر یجوز من انشقاق الفجر وعلی عکسہ لایجوز الا بعد الصلوۃ (مجمع الانہر- فقیہ الامت 4/169)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1523/43-1018
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب زاہد نے علی کی وکالت کواس کے سامنے قبول کرنے سے انکار کردیا تو اب توکیل باطل ہوگئی، اب زاہد ، علی کی غیرموجودگی میں اس باطل شدہ توکیل سے وکیل نہیں بن سکتا اور اس کا تصرف علی کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا بلکہ اپنی ذات کے لئے ہی ہوگا۔ اگر اس نے علی کا نکاح کسی سے کرادیا تو یہ فضولی کا نکاح ہے وکیل کا نکاح نہیں ہے اور یہ نکاح علی کی اجازت پر موقوف رہے گا ۔
فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - - وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2051/44-2056
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں نہ تو طلاق کا ذکر ہے نہ طلاق کی طرف کوئی اشارہ ہے۔ اس لئے محض لفظ 'بین' کے تلفظ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس طرح کے شک و شبہہ سے بچیں۔
ویؤیدہ ما فی البحر لو قال امرأۃ طالق او قال طلقت امراء ۃ ثلثاً وقال لم اعن امر اء تی یصدق آہ ویفھم منہ انہ لو لم یقل ذلک تطلق امرأتہ لان العادۃ ان من لہ امرأۃ انما یحلف بطلا قھا لا بطلاق غیرھا الخ ۔ (ردالمحتار باب الصریح ج ۲ ص ۵۹۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال، اس سے ایمان سلب نہیں ہوا؛ البتہ اس طرح کے وساوس سے احتیاط ضروری ہے، وسوسہ کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، ذہنی الجھنوں سے دور رہنے کے اسباب اختیار کریں۔(۱)
(۱) الخاطئ إذا أجری علی لسانہ کلمۃ الکفر خطأ بأن کان یرید أن یتکلّم بما لیس بکفر فجری علی لسانہ کلمۃ الکفر خطأ، لم یکن ذلک کفرا عند الکل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ یقرّ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار والرّجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۸۱)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 168)
دار العلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 2280/44-3435
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھاپ کی مذکورہ صورت سے صرف ناک تک خوشبو جاتی ہے، بھاپ کے بخارات اندر نہیں جاتے ہیں تو اس صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ لیکن اگر بھاپ لے گا تو پانی بخارات میں تبدیل ہوکر اندر چلاجائےگا، تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
''ومفاده أنه لو أدخل حلقه الدخان أفطر أي دخان كان ولو عوداً أو عنبراً لو ذاكراً؛ لامكان التحرز عنه، فليتنبه له كما بسطه الشرنبلالي''. (الدر: ٢/ ٣٩٥، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنات کی زیادہ سے زیادہ عمر تو اللہ ہی کے علم میں ہے، البتہ اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنات کی عمریں بڑی لمبی ہوتی ہیں، جنات پہاڑ اور سمندر میں رہتے ہیں، اگرچہ زمینوں پر جس پر انسان آباد ہیں آجاتے ہیں اس میں بھی ان کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔ اور ان کی خوراک لید اور ہڈی وغیرہ ہیں۔ (۱)
(۱) فسألوني الزاد فزودتہم العظم والبعر فلا یستطیبن أحدکم بعظم ولا بعر۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمدالقرطبي، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ الجن: ۳‘‘: ج۲۰، ص: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص260
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلا اورتیسرا عمل تو وہم ہے، اور دوسرا عمل یقینی طور پر بدعت و ضلالت ہے،(۱) ایسے اعمال سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ ’’کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ في النار‘‘(۲)
(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو کنت اٰمر أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۹، رقم: ۳۲۵۵)
(۲) إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیرہم مثل یا سیدی فلان أغثني ولیس ذلک من التوسل المباح۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷ إلی ۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص377