متفرقات

Ref. No. 2835/45-4451

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ہم کسی بھی بچے کو از راہ شفقت بیٹا کہہ کر پکارتے  اور بلاتے ہیں، اسی طرح کسی بڑے کو  از راہ  احترام و عظمت  'ابا جی'  یا' بابا' یا 'باباجی' کہدیتے ہیں، اس  لئے  اپنے کفیل کو 'بابا ' وغیرہ کہنا احتراما ہے،  لہذا اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اس میں شبہہ نہ کیاجائے۔ رہی بات اپنی ولدیت اور نسبت تبدیل کرنا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو کہ قطعی حرام ہے۔

قال الحصکفي: ویکرہ أن یدعو الرجل أباہ، وأن تدعو المرأة زوجہا باسمہ۔ قال ابن عابدین: قولہ: ( ویکرہ أن یدعو الخ ) بل لابد من لفظ یفید التعظیم کیا سیدي و نحوہ لمزید حقہما علی الولد والزوجة۔۔۔ (رد المحتار مع الدر المختار: ۶/۴۱۸، کتاب الحظر والاباحة، ط: دار الفکر، بیروت )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

خوردونوش

Ref. No. 1110 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ گٹکہ نشہ آور ہوتا ہے،  نیز گٹکہ پر صاف  لکھاہوتا ہے کہ یہ  جان لیوا اورخطرناک ہے،اس سے بہت سی لاعلاج بیماریاں پیدا ہوسکتی  ہیں، اور آدمی کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں،جبکہ قرآن کریم نے  واضح  طور پر فرمایا ولاتلقوا بایدیکم الی التھلکة کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ لہذا گٹکہ کھانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس کا استعمال مکرو ہ ہے۔جتنی کثرت ہوگی اسی قدر کراہت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہذا اس سے بچنا لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

                     

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous
Ref. No. 38/ 935 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful Then answer to your question is as follows: Your had a very pleasant dream. Allah Almighty is happy and pleased with him. In addition, you should continue conveying rewards (Isale sawab) to your deceased father. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/968

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ کوئی جماعت اگر پہلے سے کسی مسجد میں ہو اور دوسری جماعت آجائے تو ان کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہئے یہی پہلے سے اصول رہا ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے ، ہر ایک کو مقصد میں لگ جانا چاہئے اور فساد کو دبادینا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 41/897

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

(1) As long as you expect the money given as debt to return to you, you have to include lent money into your total asset and pay zakat. When you lost your hope to get it back, you are not obliged to pay the lent money’s zakat, but you can wait and whenever you get back your money, pay the zakat of the previous years too which passed on that amount. (2) The interest received from bank cannot be given in its service charges. It must be given to poor and needy people without the intention of reward as you have been doing for many years. 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1373/42-784

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح عقیقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالی اس کی برکت سے بچہ کی حفاظت فرمائیں گے اور سنت بھی ادا ہوجائے گی ان شاء اللہ۔

يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم. (شامی کتاب الحظر والاباحۃ 6/336) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "في الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما وأميطوا عنه الأذى" (المعتصر من المختصر من مشکل الآثار، کتاب العقیقۃ 1/276)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1675/43-1290

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اوجھڑی کو صاف کرکے اس کو کھانا جائز ہے،  حلال جانوروں کے مندرجہ ذیل اعضاء کا کھانا ممنوع ہے: مادہ کی شرمگاہ، خصیہ، مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی، نر کا ذکر، غدود، پتہ جس میں کڑوا پانی رہتاہے، اور بہنے والا خون۔

کرہ تحریما علی الاوجہ من الشاة سبعة اشیاء وہو الفرج، والخصیہ، والمثانة، والذکر، والغدة، والمرارة، والدم المسفوح للاثر الوارد فی کراہة ذلک لکن فی عد الدم من المکروہ تسامح اھ ج: ۲/۷۴۳قال ابوحنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ الدم حرام واکرہ الستة اھ زیلعی: ۶/۶۶۶

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ  محمد اسعد جلال قاسمی

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Family Matters

Ref. No. 1774/43-1511

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is good to strive for higher education, but keep in mind that Shariah restrictions are only for the safety of our future. Even with a good education, there is no guarantee that your worries will go away, though there is a likelihood of job. Therefore, while remaining within the realm of Shariah, you can continue your education by using whatever means are available and avoid usury based endeavor, otherwise the situation may become more severe in the future due to the menace of usury. Money lender’s loans in particular should be avoided altogether.

In this regard, keep in mind the suggestions of ‘Fiqh Academy of India’: If a person does not have the financial means and cannot get a non-interest loan and fears that he will be deprived of the required education, then such students should seek the suggestions of a trustworthy Mufti. So, you should put your situation in front of a reliable mufti and follow their advice. (Naye Masail awr Fiq academy ke fasile P 249)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1873/43-1723

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے پہلے سلطان کو ہے پھر اس کے نائب  یعنی امیر شہرکو پھر قاضی کو پھر قاضی کے نائب کو پھر امام مسجد کو بشرطیکہ وہ ولی سے افضل ہو۔ اگر ولی میت خود نماز جنازہ پڑھائے تو اس کو یہ  حق ہے لیکن  اگر امام محلہ صالح دین دار اور ولی سے افضل ہے تو ولی میت کو چاہیے کہ امام سے نماز پڑھانے کی درخواست کرے ۔

رہا نماز جنازہ کے بعد دعا کا مسئلہ تو نمازِ جنازہ خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا قرآن و سنت، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز کے بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مکروہ و ممنوع ہے، ہاں  تدفین کے بعد قبر  کے پاس کھڑے ہوکر دعا کرنا ثابت ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔

ویقدّم في الصلاة علیہ السلطان إن حضر أو نائبہ وہو أمیر المصر ثم القاضي ثم صاحب الشرط ثم خلیفة القاضي ثم إمام الحي فیہ إیہام وذلک أن تقدیم الولاة واجب وتقدیم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن یکون أفضل من الولي وإلا فالولي أولی کما في المجتبی (درمختار)

ان تقدیم الوُلاة واجب، وتقدیم إمام الحی مندوب، فقط بشرط أن یکون أفضل من الولی، وإلاّ فالولی أولی کما فی المجتبی۔( الدر المختار) المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج:2، ص:205، ط:دار الكتب العلمية، ’’ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء.‘‘ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (ج:3، ص:1213، ط:دار الفكر، بيروت) ’’ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد جلال

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2068/44-2067

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائداد تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اور  اس کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کرے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے۔ اور جو بیٹا مرحوم ہوگیا اس کے حصہ کے بقدر اس کی اولاد کو دینا بھی جائز ہے، اور اگر زیادہ ضرورتمند ہوں تو زیادہ بھی دے سکتاہے۔

' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»'۔ (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل". (رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند