Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اسلام میں بارات کی کوئی اصل نہیں ہے،(۳) اس وقت شادی میں مختلف قسم کی رسوم اور اسراف داخل ہوگئے ہیں ان ہی میں سے ایک گھوڑے پر بارات جانا ہے، گھوڑا بھی ایک عام سواری ہے؛ لیکن شادی کے موقعہ پر اس کا استعمال یا تو رسم کے طور پر یا فخر ومباہات کے طور پر ہوتا ہے، اس لیے بارات کے لیے گھوڑے کی سواری مناسب نہیں ہے(۱) ہاں اگر کسی جگہ اس کا رواج نہ ہو اور نہ ہی یہ اسراف اور فخر ومباہات کے طو رپر ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) شادی کے موقعہ پر دعوت میں شریک لوگوں کا پیسہ،کپڑا یا دوسرے تحفے دینا یہ نیوتہ کی ایک رسم ہے جس میں بہت سے مفاسد ہیں،(۲) اس لیے یہ رسم قابل ترک ہے،(۳) (اصلاح الرسوم) ہاں اگر اتفاقی طور پر کسی کی شادی میں جائے اور ہدیہ وغیرہ دے کر آئے جب کہ واپس لینے کی نیت نہ ہو تو یہ نہ صرف درست ہے، بلکہ مستحب اور پسندیدہ عمل ہے؛ اس لیے کہ حدیث میں ہدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے جس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (۴)
(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
(۲) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ الحدیث (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، رقم: ۹۷۱؛ مشکوۃ شریف، ’’کتاب البیوع: باب الغضب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۴) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وغر الصدر۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۴۱، رقم: ۹۲۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص467
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں خوشی منانے کے لیے حدود اور طریقے ہیں، عیدین اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی نعمتوں کے اظہار اور خوشی کے مواقع ہیں؛ لیکن غیروں کے طریقوں سے احتراز ضروری ہے، مشرکین جو طریقہ اختیار کرتے ہیں، جھالر اور چراغاں وغیرہ یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں؛ بلکہ غیروں کا طریقہ(۱) اور اسراف ہے؛ اس لیے اس سے بچنا چاہئے۔(۲)
(۱) (۱) لا بأس بہ إذا فعلہ من مال نفسہ ولا یستحسن من مال الوقف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مسند لہا في الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص513
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی کتابوں میں ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر کھڑے ہونے کو مستحب لکھا ہے، جس کا مطلب علامہ طحطاوی نے یہ لکھا ہے کہ ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر ہر حال میں کھڑا ہو جانا چاہئے، اس سے تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے ہونا درست نہیں ہے۔ امام صاحب کا ’’حي علی الصلوٰہ‘‘ پرکھڑے ہونے پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ صفوں کو درست کرنا واجب ہے اور واجب پر عمل کرنا مستحب پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ حضرات صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں تشریف لاتے دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، اور اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ تکبیر شروع فرماتے تھے۔(۱) معلوم ہوا کہ ابتداء تکبیر میں کھڑا ہونا بھی درست ہے؛ بلکہ صفوں کی درستگی کے لئے یہی صورت بہتر ہے تاکہ اقامت کے ختم ہونے سے پہلے مکمل صف درست ہوجائے۔
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یقول أقیمت الصلوۃ قمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ‘‘(۲) اس حدیث کے ذیل میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہی ان کے نزدیک سنت ہے(۳) حضرت حافظ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری شرح بخاری میں ابن شہاب کی روایت نقل فرماتے ہیں، جس میں بالکل صریح ہے کہ وہ لوگ تکبیر کہتے ہی کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
’’روي عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب أن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللّٰہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ فلا یأتي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰)
(۲) فأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی إذا قام في مصلاہ قبل أن یکبر ذکر فانصرف وقال لنا مکانکم فلم نزل قیاماً ننظرہ حتی خرج إلینا وقد اغتسل ینطف رأسہ ماء فکبر فصلی بنا۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۱۵۷)
(۳) (قولہ فقمنا فعد لنا الصفوف) إشارۃ إلی أنہ ہذہ سنۃ معہودۃ عندہم۔ (النووي علی مسلم، ’’کتاب الصلاۃ: باب من أدرک رکعۃ من الصلاۃ فقد أدرک تلک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن الصلوٰۃ کانت تقام لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیأخذ الناس مقامہم قبل أن یأخذ النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب في الصلوٰۃ تقام ولم یأت الإمام ینظرونہ فعوداً‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۵۴۱) وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ: متفق علیہ إلا عن المسلم من تمام الصلوٰۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۱،ص: ۹۸، ۱۰۸۷)
(۱) ابن حجر العسقلاني،فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ: باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام عند الإقامۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۶۳۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص103
Usury / Insurance
Ref. No. 2609/45-4055
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In business and trade, sometimes there is profit and sometimes there is loss and both may go up and down too. In the above mentioned case, the profit rate is fixed, so you would get the specified profit in every case, thus it is not a trade, but it is an interest gaining policy where you are giving your money at 6% interest, which is absolutely forbidden in Shariah. So it is not permissible to take the above policy and earn profit from it. You should terminate it immediately and adopt a halal method of trading.
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
(صحیح مسلم ، کتاب المساقات،3/1219، دار احیاء التراث ، بیروت)
(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.
(ردالمحتار علی الدر المختار ، کتاب الحظر والاباحة،فصل فی البیع، ۶/۴۰۳،ط:سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2658/45-4045
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن کے ذریعہ خون نکالنے سےوضو ٹوٹ جاتاہے، اور گوشت میں لگنے والے انجکشن سے اگر خون باہر آجائے تو وضو ٹوٹتاہے ورنہ نہیں۔ اور جس جگہ انجکشن لگایا گیا اس جگہ کا دھونا ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ نجاست پھیلی نہیں تھی۔
لو مص العلق أو القراد الكبير وامتلأ دما فإنه ناقض كما سيأتي متنا فالأحسن ما في النهر عن بعض المتأخرين من أن المراد السيلان ولو بالقوة: أي فإن دم الفصد ونحوه سائل إلى ما يلحقه حكم التطهير حكما، تأمل. )رد المحتار: (134/1، ط: دار الفکر(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر برابر سفید پانی کی شکایت ہو، تو وہ وضو کرے اور نماز پڑھے۔ اور اگر سفید پانی کی شکایت نہیں تھی اور اچانک کسی دن سوکر اٹھی اور سفید پانی دیکھا، تو اس کو منی سمجھے اور غسل کرکے نماز پڑھے، اگرچہ کوئی بدخوابی نہ ہو۔(۲)
(۲) خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقص وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ ج۱، ص:۳۵۰)؛ و في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۵) السلخۃ إذا خرجت من أمھا إلی قولہ: و عندھما یتنجس وھو الاحتیاط۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في معرفۃ النجاسات و أحکامھا‘‘ ج۱،ص۴۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور پہلی رکعت میں ثناء، تعوذ وتسمیہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کر کے قعدہ کرے پھر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت ملا کر نماز پوری کرے۔ یہ عام قاعدہ ہے، مگر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وجہ سے بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دو رکعت کر کے قعدہ کرے گا تب بھی اس پر سجدہ سہو یا نماز کا اعادہ لازم نہ آئے گا کبیری میں ہے۔(۱)
’’حتی لو أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب فإنہ یقرء في الرکعتین الفاتحہ والسورۃ ویعقد في أولہما لأنہا ثنائیۃ ولم لم یعقد جاز استحساناً لا قیاسا ولم یلزمہ سجود السہو‘‘(۲)
(۱) قولہ وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً، ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولٰی من وجہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم حلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سجود السہو،…مطلب في أحکام آخر للمسبوق‘‘: ص: ۲۱۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص34
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام کے پیچھے قرأت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا ضروری نہیں ہے۔
ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…، وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۱)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ (في السریۃ) یعلم منہ نفی (القراء ۃ) في الجھریۃ بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرء کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۲)
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰، حکم الحدیث حسن۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورہ نحل‘‘: ج۲، ص: ۶۱۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۶۶، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص145
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی غلطی جان بوجھ کر نہ کرنی چاہئے اگر بلا قصد ایسی غلطی ہوجائے جیسا کہ عام طور پر دیہات میں اماموں سے ہوتی رہتی ہے تو نماز ان کی صحیح اور درست ہے۔(۲)
(۲) و إن ذکر حرفًا مکان حرف و غیر المعنی، فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مکان الصالحات، تفسد صلاتہ عند الکل، و إن کان …لایمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظاء مع الضاد و الصاد مع السین، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فیہ، قال أکثرہم لاتفسد صلاتہ … و لو قرأ الدالین بالدال تفسد صلاتہ (قاضی خان، فتاوی قاضیخان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ في القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیۃ)
(ومنہا) ذکر حرف مکان حرف۔ إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی، بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبہ ذلک لم تفسد صلاتہ وإن غیر المعنی۔ فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل۔ وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد، والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ وکثیر من المشایخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جری علی لسانہ، أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار؛ ہکذا في الوجیز للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص266
آداب و اخلاق
Ref. No. 1012 Alif
الجواب وباللہ التوفیق:۔ بشرط صحت سوال وضاحت مطلوب ہے کہ مذکورہ جملے استعمال کرنے والے شیخ کون ہیں اور ان کا عقیدہ کیا ہے۔ مذکورہ جملے ان کی جانب سے کس پس منظر میں کہے گئے ۔ شیخ سے تحریری وضاحت طلب فرماکر جواب معلوم کرلیا جائے۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند