Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے اور جس طرح عام دنوں میں زوال کا وقت ہوتا ہے اسی طرح جمعہ میں بھی زوال کا وقت ہوتاہے اور جمعہ کے دن بھی زوال (نصف النہار) کے وقت نماز مکروہ ہے۔ روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن زوال کے بعد نماز پڑھتے تھے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں اس پر اجماع نقل کیاہے کہ جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
’’وأجمع الفقہاء علی أن وقت الجمعۃ بعد زوال الشمس إلا ما روي عن مجاہد أنہ قال: جائز أن تصلي الجمعۃ في وقت صلاۃ العید؛ لأنہا صلاۃ عید‘‘(۲)
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز زوال کے بعد ہی پڑھتے تھے اور جن روایتوں سے زوال کے سے پہلے پڑھنے کا وہم ہوتا ہے اس کا جواب بھی انہوں نے دیا ہے۔
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس فیہ إشعار بمواظبتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی صلاۃ الجمعۃ إذا زالت الشمس، وأما روایۃ حمید التي بعد ہذا عن أنس رضي اللّٰہ عنہ کنا نبکر بالجمعۃ ونقیل بعد الجمعۃ فظاہرہ أنہم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النہار لکن طریق الجمع أولی من دعوی التعارض وقد تقرر فیما تقدم أن التبکیر یطلق علی فعل الشیء في أول وقتہ أو تقدیمہ علی غیرہ وہو المراد ہنا والمعنی أنہم کانوا یبدوؤن بالصلاۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتہم في صلاۃ الظہر في الحر‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما جاء في وقت الجمعۃ، إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن بطال أبو الحسن علي بن خلق بن عبد الملک، شرح صحیح البخاري لابن بطال، ’’باب ما جاء في وقت الجمعۃ إذا زالت‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷۔(شاملہ)
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الجمعۃ:باب وقت الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۵،۴۷۷، مکتبہ، شیخ الہند، دیوبند۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 72
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: دونوں مسائل میں مذکورہ شخص کی اذان مکروہ ہے، اگر دوسرا شخص باشرع موجود ہو تواسی کو اذان واقامت کے لیے متعین کرنا چاہیے۔
’’یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔
وأذان امرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص192
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 333
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو چاہئے کہ کھڑے ہوتے ہی پہلی دو رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ ضم کرے۔(۱)
(۱) ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشہد بینہما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط ولا یقعد قبلہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
ولو أدرک رکعۃ من الرباعیۃ فعلیہ أن یقضي رکعۃ یقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ، ویتشہد ویقضي رکعۃ أخریٰ کذلک، ولا یتشہد، وفي الثالثۃ بالخیار، والقراء ۃ أفضل، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص31
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نجاست نہ لگی ہو اور اس سے نماز میں کوئی خلل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم احترام قبلہ کے خلاف ہے، اس لیے بہتر ہے کہ چپل بائیں جانب رکھ کر نماز پڑھیں۔ (۱)
(۱) ولو خلع نعلیہ وقام علیہما، جاز، سواء کان ما یلي الأرض منہ نجساً أو طاہراً۔ إذا کان ما یلي القدم طاہراً، والآجرّ إذا کان أحد وجہیہما نجساً، فقام علی الوجہ الطاہر وصلی جاز مفروشۃ کانت أو موضوعۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 6ص 140
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں چوں کہ معنی فاسد ہورہا ہے ؛اس لیے نماز فاسد ہوگئی اس کا اعادہ ضروری ہے، قرأت میں خطاء فاحش کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس میں تین آیت کے پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
’’و إن تغیر المعنی نحو أن یقرأ: إن الأبرار لفي جحیم، و إن الفجار لفي نعیم؛ فأکثر المشائخ علی أنہا تفسد وہو الصحیح‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:’’ کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند۔)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرًا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1213 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کالا خضاب لگانا جس سے بالوں کی سیاہی اصلی سیاہی معلوم ہو ، مکروہ تحریمی ہے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں، تاہم نماز ہوجائے گی اور ایسے امام کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ لازم نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No 939
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Dealing with riba/interest (without a severe need or a valid reason that is acceptable in Islam) is a major sin in Islam and the Quran says it is Haram. A person should abstain from it throughout his life.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 39/1150
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غسل دینے کی کوئی صورت نہ ہو تو تیمم وغیرہ کرادیا جائے اور تدفین کردی جائے تو حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/1011
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کیا گیا ہے تاکہ وہ غیرشرعی امور میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ البتہ اگر کوئی عورت اپنے کسی رشتہ دار کی قبر پر فاتحہ وغیرہ پڑھنے باپردہ خاموشی کے ساتھ جائے اور پڑھ کر آجائے ، اپنے اوپر مکمل کنٹرول ہو تو اس کے لئے اجازت ہے۔ تاہم بہتر ہے کہ قبرستان کے باہر سے ہی جو کچھ پڑھنا ہو پڑھ کر ایصال ثواب کردے۔عورتوں کو قبرستان جانے کی عام اجازت اگر دیدی جائے گی تو بڑے خرافات رونما ہوں گے، اس لئے سد ذرائع کے طور پر ان کو منع کیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند