Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر میں عذاب وثواب کے سلسلے میں علماء کی مختلف رائےہیں، بعض کے نزدیک عذاب وثواب صرف جسم یا صرف روح کو ہوتا ہے؛ جبکہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں:
’’محلہ الروح والبدن جمیعا باتفاق أہل السنۃ، وکذا القول في النعیم‘‘(۱)
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہؒ سے قبر کی زندگی کے متعلق سوال کیا: تو انھوں نے جواب دیا عذاب اور ثواب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔
’’وقد سئل شیخ الإسلام عن ہذہ المسألۃ، قال: العذاب والنعیم علی النفس والبدن جمیعا باتفاق أہل السنۃ‘‘(۲)
’’واختلف فیہ أنہ بالروح أو بالبدن أو بہما وہو الأصح منہما إلا أنا لا نؤمن بصحتہ ولا نشتغل بکیفیتہ‘‘(۳)
’’فیعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلا بالجسد‘‘(۴)
(۱) جلال الدین، سیوطی، شرح الصدور، ’’فصل في فوائد ما ہو عذاب القبر ومتی یرفع‘‘: ص: ۳۵۰۔
(۲) ابن قیم، الروح، ’’قول السائل ہل عذاب القبر علی النفس والبدن الخ‘‘: ۵۹۔
(۳) أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن عذاب القبر حق وبیان أن الأرواح تعاد للمیت‘‘: ص: ۱۷۴۔
(۴) علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث عذاب القبر‘‘: ص: ۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص249
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر اذان اور تکبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں اگر یہ کام کرنا اچھا ہوتا تو حضرات صحابہؓ ضرور اس کام کو انجام دیتے پس ایسا کرنا بدعت اور گمراہی ہے اوردین کے اندر زیادتی ہے ہر مسلمان کو ایسی بدعات سے پرہیز کرنا واجب ہے۔ (۳) البتہ قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ثابت ہے، لیکن قبر سامنے نہ ہو اور قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اٹھائے تاکہ صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔(۱)
(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبرہ وقال استغفروا لأخیکم واسألو اللّٰہ لہ التثبیت فإنہ ألأٰن یسئل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص368
Business & employment
Ref. No. 2565/45-3950
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is follows:
Mutual fund and share market are the same in view of Shariah. So investing in a mutual fund is allowed under the same conditions as share market, both can be bought and sold.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تبلیغ دین فرض علی الکفایہ ہے(۱) اور جہاں جس قدر ضرورت ہو وہاں پر اس کی اہمیت اسی قدر ہوگی، قرآن کریم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم صراحتاً مذکور ہے(۲) سب سے بڑا معروف ایمان اور سب سے بڑا منکر کفر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام واحکام کی تبلیغ کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری ہر زمانہ کے علماء وصلحاء کی ہے، لیکن تبلیغ کو کسی خاص مروجہ صورت کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں ہے، بعض لوگ تبلیغ کی کوئی صورت متعین کرکے تمام احکام کو اس متعینہ صورت پر منطبق کردیتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔(۳)
(۱) إعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج إلیہ، وفرض کفایۃ، وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)
إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۳) قال تعالیٰ: {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیٰتِہ} یعني القرآن {ویزکیہم} أي یأمرہم بالمعروف وینہا ہم عن المنکر لتزکوا نفوسہم وتطہر من الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {ویعلہم الکتب والحکمۃ} یعني القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر: تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص300
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی کتابوں میں دم کرنا ثابت ہے، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا مرض أحد من أہلہ نفث علیہ بالمعوذات فلما مرض مرضہ الذي مات فیہ جعلت انفث علیہ وأمسحہ بید نفسہ لأنہا کانت أعظم برکۃ من یدي‘‘(۱)
ہر وہ دم جس میں شرک نہ ہو تو اسے دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں! جس دم یا تعویذ میں شرکیہ الفاظ ہوں، غیر اللہ کی پکار ہو ایسا دم یا تعویذ قطعاً نا جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دم یا تعویذ سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ شارح مسلم علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’المراد بہا الرقي التي ہي من کلام الکفار والرقي المجہولۃ والتي بغیر العربیۃ وما لا یعرف معناہا فہدہ مذمومۃ لاحتمال إن معناہا کفر وقریب منہ أو مکروہ‘‘(۲)
وہ دم ممنوع ہے جس میں کلام کفار سے مشابہت ہو مجہول ہو، غیر عربی میں ہو، جن کا معنیٰ نہ سمجھتا ہو ایسے دم مذموم ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کا معنیٰ کفریہ ہو یا قریب کفر کے ہو یا مکروہ ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کروں۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمرني أن أسترقی من العین‘‘(۱)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذات پڑھ کر اس پر دم کیا کرتے تھے۔
’’وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
ان جملہ نصوص کی رو سے کلمات طیبہ اورآثار سے دم کرنا یا چھاڑ پھونک کرنا جائز اور مستحسن ہے۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب السلام: باب استحباب الرقیۃ من العین‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۲۱۹۵۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص393
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:یہ صورت جب ہوسکتی ہے، جب خون بہہ رہا ہو۔ اگر بہنا بند ہوجائے، تو پھر جب تک اثر زائل نہ ہوجائے دھویا جائے، ہاں اگر بہہ رہا ہے مگر کتھا یا دوا کی وجہ سے نظر نہیںآتا، تو جب تک زخم سے خون نکل رہا ہو وہ بہنے کے حکم میں ہوگا۔ درمختار میں ہے: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا۔
اور شامی میں ہے وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا و ثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف۔ (۱)
(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب نواقض الوضو،ج۱،ص:۲۶۲؛ ولو ظھر الدم علی رأس الجرح فمسحہ مراراً، فإن کان بحال لو ترکہ لسال یکون حدثا و إلا فلا۔ لأن الحکم متعلق بالسیلان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، ماینقض الوضوء، ج۱،ص:۱۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصل مذہب یہ ہے کہ کسی طاعت مقصودہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، مگر جن طاعات میں دوام یا پابندی کی ضرورت ہے اور وہ شعار دین میں سے ہیں کہ ان کے بند کرنے یا بند ہونے سے اخلال دین لازم آتا ہو اور کوئی دلجمعی سے اپنے حالات کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا تو ایسے امور کومتأخرین فقہاء نے اس کلیہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
پس امامت بھی اس میں سے ہے۔ اور امامت کی اجرت لینے پر بلاشبہ فتویٰ جواز کا ہے؛ اس لیے امام مذکورہ کا قول قابل گرفت نہیں اس کی امامت درست ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۱)
(۱) قال في الہدایۃ: وبعض مشائخنا استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔۔۔۔۔ وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)
ویفتی الیوم بالجواز أي بجواز أخذ الأجرۃ علی الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ۔ (محمد بن سلیمان آفندي، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص280
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف پستان منہ میں لینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئی، البتہ اگر دودھ پیا ہو، یعنی بچہ کے منہ میں دودھ گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، عالمگیری میں ہے۔(۱)
’’صبي مص ثدي امرأۃٍ مصلیۃ، إن خرج اللبن فسدت، وإلا فلا؛ لأنہ متی خرج اللبن یکون إرضاعاً، وبدونہ لا، کذا في محیط السرخسي‘‘(۱)
(۱) قولہ أو مص ثدیہا ثلاثاً ہذا التفصیل مذکور في الخانیۃ والخلاصۃ، وہو مبنی علی تفسیر الکثیر بما اشتمل علی الثلاث المتوالیات، ولیس الاعتماد علیہ۔ وفي المحیط: إن خرج اللبن فسدت لأنہ یکون إرضاعاً، وإلا فلا، ولم یقیدہ بعدد، وصححہ في المعراج۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۹۰،زکریا)
فروع مہمۃ: أرضعتہ أو أرضعتہا ہو فنزل لبنہا فسدت ولو مص مصہ أو مصتین ولم ینزل لا تفسد ولو ثلاثاً فسدت وإن لم ینزل۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک میں امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازیں خواہ جہری یعنی بلند آواز سے قرأت ہو یاسری یعنی آہستہ آواز سے قرأت ہو، تمام نمازوں میں خاموش رہے گا اور سورۂ فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا؛ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت (فاستمعوا) سے جہری نمازوں کے اندر اور (وأنصتوا) سے سری نمازوں میں قرأت نہ کرنا مفسرین کے نزدیک مسلم ہے، تفسیر کبیر میں حضرت امام رازیؒ اور روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ کی تصریح مذکور ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ} یہ آیت نماز سے متعلق آئی ہے اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’الآیۃ نزلت في ترک الجہر بالقراء ۃ وراء الإمام … وہو قول أبي حنیفۃ‘‘(۱)
روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے:
’’عن مجاہد قال: قرأ رجل من الأنصار خلف رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم في الصلاۃ، فنزلت وإذا قرئ القراٰن الآیۃ‘‘(۱)
اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲)
یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس مقتدی کی قرأت ہے تفسیری عبارات اور مذکورہ حدیث کی روشنی اور آئندہ آنے والی فقہی عبارات بھی اس جانب مشیر ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراء ت نہیں کرے گا؛ بلکہ صرف خاموش رہے گا۔ ’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…… وقال علی ابن طلحۃ: عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلوۃ المفروضۃ ‘‘(۳)
(۱) إمام رازي، مفاتیح الغیب، ’’سورۃ الأعراف، قولہ تعالیٰ : و إذا قریٔ القرآن الخ ‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۰۷(الشاملہ)۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: تحت لعلکم ترحمون: ج ۹، ص: ۱۵۰۔)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳، ط:دارالاشاعت، دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص244
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2634/45-4432
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تسبیح فاطمی ان نمازوں کے بعد مسنون ہے جن کے بعد سنت نماز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی دیگر نمازوں میں پڑھنا چاہے تو سنن کے بعد پڑھے۔
(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. (فتاوی شامی، کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ ص: ۵۳۰ ط: دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند