Miscellaneous

Ref. No. 1054/41-239

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

giving or taking bribe is Haram in Islamic Shariah. If he is qualified and eligible for the job, then his job is fine and salary is halal. And if he is not eligible and he got the job unjustly just owing to bribe, then it is not halal.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

مذاہب اربعہ اور تقلید

Ref. No. 1154/42-391

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حنفی شخص دوسرے مسلک کی اقتداء کرنے والوں کی امامت کرسکتا ہے، اور امام اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھائے۔ مسجد کے مصلیوں کے غیرمسلک ہونے کی وجہ سے اپنا مسلک تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔   تاہم اگر نماز پڑھادی تو نماز ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1266/42-609

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ مسئلہ نزاعی ہے، اس کے لئے کسی قریبی معتبرشرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)
I miss my father and uncle so much that I uncontrollably make Dua to Alla(swt) to send them back. Please make clear is it permitted or will I commit a sin by making such Dua?? please guide me how to come out of this sadness(tell me some Dua). I am deeply saddened.

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص مرشد کو رسول اور خدا کہتا ہے وہ کافر و مرتد ہے (۲) اور انکار حشر و نشر اور حساب و کتاب بھی کفر ہے اور توبہ سے انکار کرنا بھی مسلمان کا کام نہیں ہے۔(۳) اور کھانے کو سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا بھی خلاف سنت اور بدعت ہے(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا قرآن سے ثابت ہے، اللہ تعالی کے ذاتی نور میں کسی کی شرکت نہیں اور اللہ کے نور کا تجزیہ کرنا بھی شرک اور کفر ہے۔(۲)

(۲) ومن تکلم بہا عالماً عامداً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

(۳) رجل کفر بلسانہ طائعاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا، ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یسفد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)

(۲) {قُلْ إِنَّمَآ  أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی إِلَيَّ  أَنَّمَآ إِلٰھُکُمْ  إِلٰہٌ وَّاحِدٌج}  (سورۃ الکہف: ۱۱۰)

 

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2061/44-2058

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح کے معاملہ میں والدین کا مشورہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اولاد کو ہمیشہ والدین کی ترجیحات کا خیال رکھنا چاہئے۔ تجربہ شاہد ہے کہ والدین کامشورہ ہی عموما اولاد کے حق میں مفید ہوتاہے، اور ان کے مشورہ کے خلاف کرنے میں بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں، اس لئے ان کو اعتماد میں لے کر کوئی قدم اٹھانا چاہئے، البتہ صرف ذات الگ ہونے کی بنیاد پروالدین کا اس رشتہ سے  منع کرنا مناسب نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتوں کی توہین کفر ہے اور سوال میں مذکور جملہ فرشتوں کی اہانت پر مشتمل ہے؛ اس لئے اس جملہ سے مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا، اس پر قبول اسلام اور توبہ لازم ہے۔(۱)

(۱) من ہزل بلفظ کفر إرتد وإن لم یعتقد للاستخفاف فہو ککفر العناد۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)

رجل کفر بلسانہ طائعاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافراً ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً،  کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفرا اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلوۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

دار العلوم وقف دیوبند

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 165)

 

Family Matters

Ref. No. 2387/44-3621

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Good manners and mutual sympathy are very important for the strength of the relationship between husband and wife and in-laws. Husband and wife do have rights on each other, but the husband's parents also have the responsibility to treat her like a daughter and be kind to her, and the woman should tolerate everything her mother-in-law says, and do serve the husband's parents. In this way, this house will remain stable and will guarantee the ultimate happiness of both husband and wife.

Therefore, husband and wife should try as much as possible to stay with the parents and serve them, if something hard happens, be patient and hope for reward from Allah. Therefore, it is better for you to remain with your father-in-law for the sake of Allah and to be patient in order to maintain unity in the house. However, if you demand a separate home for you then there will be no sin provided it is not beyond the capacity of the husband.

الدر المختار: (600/3، ط: دار الفکر)
بيت منفرد من دار له غلق زاد في الاختيار والعيني ومرافق ومراده لزوم كنيف ومطبخ وينبغي الإفتاء به.
رد المحتار: (600/3، ط: دار الفکر)
قوله ( وفي البحر عن الخانية ) عبارة الخانية فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لهاأن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها ا ه
قال المصنف في شرحه فهم شيخنا أن قوله ثمة إشارة للدار لا البيت لكن في البزازية أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر
بدائع الصنائع: (23/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أراد الزوج أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأم الزوج وأخته وبنته من غيرها وأقاربه فأبت ذلك؛ عليه أن يسكنها في منزل مفرد؛ لأنهن ربما يؤذينها ويضررن بها في المساكنة وإباؤها دليل الأذى والضرر ولأنه يحتاج إلى أن يجامعها ويعاشرها في أي وقت يتفق ولا يمكنه ذلك إذا كان معهما ثالث حتى لو كان في الدار بيوت ففرغ لها بيتا وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا: إنها ليس لها أن تطالبه ببيت آخر۔

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband
 

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے ’’إن اللّٰہ خلق آدم علی صورتہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یہاں ’’ہ‘‘ ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو، ان کو اپنی صورت کا بنایا ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ ’’ہ‘‘ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے؛ اس لیے کہ ایک روایت میں صورۃ الرحمن بھی ہے۔(۲)
اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔(۱)

(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ، طولہ ستون ذراعا، فلما خلقہ قال إذہب فسلم علی أولئک النفر من الملائکۃ جلوس، فاستمع ما یحیونک،  فإنہا تحیتک وتحیۃ ذریتک۔ فقال: السلام علیکم۔ فقالوا: السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ۔ فزادوہ ورحمۃ اللّٰہ، فکل من یدخل الجنۃ علی صورۃ آدم، فلم یزل الخلق ینقص بعد حتی الآن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإستیذان: باب بدء السلام‘‘: ج ۲، ص: ۹۱۹، رقم: ۱۳۲۸)
 قولہ: (خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ)، والصواب أن الضمیر راجع إلی اللّٰہ تعالی لما في بعض الطرق: (علی صورۃ الرحمن) وإذن أشکل شرحہ۔ فقال القاضي أبو بکر بن العربي: إن المراد من الصورۃ الصفۃ، والمعنی: أن اللّٰہ تعالی خلق آدم علی صفاتہ۔ وتفصیلہ أنہ وضع في بني آدم أنموذا من الصفات الإلہیۃ، ولیس من الکائنات أحد من یکون مظہرا کاملا لتلک الصفات، إلا ہو۔ ألا تری أن صفۃ العلم التی ہي من أخص الصفات لا توجد إلا في الإنسان؟ فإن سائر الحیوانات لیس فیہا إلا قوۃ مخیلۃ۔
وقیل: الغرض من إسناد الصورۃ إلی نفسہ، مجرد التشریف والتکریم، علی ما ینطق بہ النص: {لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقویم} (سورۃ التین: ۴) ولیس المراد منہ: أن للّٰہ تعالی أیضا صورۃ۔ … (علامہ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الاستیذان، باب بدء السلام‘‘: ج ۶، ص: ۱۸۷، رقم: ۶۲۲۷)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الاستیذان: باب بدء الإسلام ج۲، ص:۲۱۹، رقم: ۱۳۲۸

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص99

متفرقات

Ref. No. 2361/45-4129

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ چیزیں محال نہیں ہیں، دعا کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دعاء قبول کرتے ہیں ہاں قبولیت کے اثرات مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں کبھی تو اللہ تعالیٰ بعینہ وہی چیز عطا کرتے ہیں کبھی اس کے متبادل کے طور پر عطا کرتے ہیں اور کبھی اس کو ذخیرہ آخرت بنا دیتے ہیں، اس لیے دعا کا اہتمام کرنا چاہئے اور پوری امت کی مغفرت، نجات اور دنیاوی واخروی فلاح وکامیابی کی دعاء کرنی چاہئے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مصلحت پر موقوف رکھنا چاہئے ہم بندے ہیں ہمارا کام عبدیت اور اطاعت ہے نتیجہ ہمارا کام نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند